خادم ختم نبوت محمد سہیل باوا
علامہ اقبال، اکابر علماء حق اور قادیانیت
قادیانی ہردورمیں مرزاقایانی کی جھوٹی نبوت کی گاڑی کو چلانے کے لئے سا زشیں کرتے آئے ہیں، بس کوشش یہی کی کہ کسی طرح مرزاقادیانی کی متعفن لاش سے خوشبوآنے لگے۔جب قادیانی اپنی سرگرمیوں کورکتا ہوا دیکھتے ہیں تواس وقت قادیانیوں کے پاس ایک ہی حربہ رہ جاتاہے کہ اُن کے بول کوئی اور بولیں۔ بس موقعے کی تلاش اور تاڑ میں ہوتے ہیں کہ کوئی مسلم یاغیر مسلم، یاسادہ لوح مسلمان، یادین سے بیزارسرکردہ رہنما، یاپھر معروف و مشہور تاجر ،زرخریدصحافی ودانشورکسی طرح ان کے ہتھے چڑھ جائے تاکہ یہ لوگ قادیانیوں کی ہراعلیٰ سطح کے اجلاس اور فورم پر بھر پورنمائندگی کریں۔اکثریہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ اگر کوئی ایک دفعہ ان لوگوں کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر ان کی واپسی کافی مشکل ہوتی ہے۔یہ ساری پلاننگ اس لیے کی جاتی ہے تاکہ دین اور علماء سے د ورطبقے پر رعب ڈالا جاسکے، دوسرے بااثررہنماؤں کوجال میں پھنسایاجاسکے اور قادیانی بنانے کی مہم کاراستہ ہموار کیاجاسکے۔
اسی طرح کی ایک نمایاں شخصیت شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم ہیں جن کے بار ے میں قادیانیوں کی ہمیشہ بڑی کوشش رہی ہے کہ علامہ کا خصوصی تعلق قادیانیت سے ثابت کر سکیں،لیکن انھیں اس کوشش میں ناکامی کاسامنا کرناپڑا۔ یہ بات قادیانی لٹریچر میں بڑی شدت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اقبال توہمارے ساتھ اچھے بھلے چل رہے تھے،’’احراریوں‘‘ نے انھیں ورغلاکر ہمارے خلاف کردیا۔ان کے بقول چودھری افضل حق،سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃا ﷲ علیہم آئے دن اقبال کے ہا ں چلے آ تے اورانہیں اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے رہتے۔ بالآخروہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے اور اقبال ’’احراریوں‘‘ کے ہتھے چڑھ کے ان کے ہمنواہوگئے۔
اقبال مرحوم کوورغلانایاگمراہ کرناتواقبال مرحوم کی توہین ہے جس کے قادیانی خواہشمند تھے۔قادیانیوں کو اصل تکلیف اس بات سے ہوئی کہ ان لوگوں کے ہاتھ سے بہت بڑاشکارچھوٹ گیا، جو وہ کرنا چاہتے تھے۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبال مرحوم اپنے بلند پایہ ملِّی افکارکی وجہ سے ہمارے جدیدحلقوں میں مرجع عقیدت سمجھے جاتے ہیں۔ہاں البتہ یہ بات درست ہے کہ علامہ مرحوم اور ان بزگوں کے درمیان اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، ان ملاقاتوں میں ظاہر ہے کہ ختمِ نبوت کے موضوع پر بھی ان کے درمیان بات چیت ہوجاتی تھی۔کیونکہ علامہ مرحوم کی زندگی میں یہ ایک نمایاں بات تھی کہ جب کبھی دین کے کسی مسئلے کے بارے میں کہیں ابہام یاتشکیک کا کوئی پہلوہوتا تو وہ علماءِ کرام سے رابطہ قائم کرکے ان سے مشاورت کرلیتے تھے۔اس ضمن میں خصوصی طور پردار العلوم دیوبند کے ایک مرد قلندر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ کا نام مختلف کتابوں میں اکثرآیاہے کہ علامہ اقبال مرحوم اُن سے عقیدت و ارادت کے خصوصی تعلقات تھے۔ اس سلسلے میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃا ﷲ فرماتے ہیں مجھے ڈاکٹر اقبال نے کہاکہ اثبات باری تعالیٰ پر نیوٹن نے بڑی عمدہ کتاب لکھی ہے،میں نے کہا کہ نیوٹن کی پندرہ تصانیف دیکھی ہیں، میں نے جو رسالہ لکھاہے اور جواس میں دلائل قائم کیے ہیں ’’ضرب الخاتم علی حدوث العالم‘‘ اور’’مرقاۃ طارم‘‘ اس کونیوٹن نہیں پہنچ سکا،پھر اقبال نے ضرب الخاتم مجھ سے لے لی اور اس نے بہت سے خطوط لکھ کر ضرب الخاتم کو مجھ سے سمجھا، میرے نزدیک ضرب الخاتم کواقبال سمجھے اسے کوئی مولوی نہیں سمجھ سکا۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲعلیہ کے فیضان صحبت نے فطرت اقبال کے اس پہلوکی مشاطگی کی تھی اور ان کے سوز جگر نے اقبال مرحوم کوقادیانیت کے مقابل شعلۂ جوّالہ بنادیاتھا۔چنانچہ علامہ اقبال مرحوم جدید تعلیم یافتہ طبقے میں پہلے شخص تھے جن کو فتنۂ قادیانیت کی سنگینی نے بے چین کررکھاتھا۔
علامہ اقبال مرحوم کا ایک طالب علمانہ انداز :
پنجاب کے اورخصوصاً ہندوستان کے عموماً انگریزی تعلیم یافتہ طبقے میں قادیانی فتنے کی شرانگیزی کا جو احساس پایاجاتا تھا اس میں سب سے بڑاکردار،علامہ اقبال مرحوم کے اس لیکچر کاہے جوختم نبوت پر ہے اورساتھ ہی اس مقالہ کاہے جوانگریزی میں قادیانی گروہ کے بار ے میں شائع ہواتھا،لیکن یہ شاید کم لوگوں کومعلوم ہے کہ دونوں تحریروں کااصل باعث حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃا ﷲ علیہ ہی تھے۔ایک مرتبہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ انجمن خدام الدین کے کسی سالانہ اجتماع میں شرکت کی غرض سے لاہور تشریف لائے تو علامہ اقبال مرحوم سے خودملاقات کے لیے اُن کی قیام گاہ پر تشریف لائے پھرایک دن ا پنے ہا ں رات کے کھانے پر مدعوکیا۔دعوت نامہ کی عبارت تاریخی دستاویز کے طور پر پیش خدمت ہے۔
عریضۂ اقبال بخدمت مولانا انور شاہ کشمیری
مخدوم و مکر م حضرت قبلہ مولانا ! السلامْ علیکم ورحمتہ ا ﷲ و برکاتہ
مجھے ماسٹر عبد ا ﷲصاحب سے ابھی معلوم ہوا کے آپ انجمن خدام الدین کے جلسے میں تشریف لائے ہیں اور ایک دو روز قیام فرمائیں گے۔ میں اسے اپنی بڑی سعادت تصور کروں گااگر آپ کل شا م اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں، جناب کی وساطت سے حضرت مولوی حبیب الرحمٰن صاحب، قبلہ عثمانی حضرت مولوی شبیر احمد صاحب اور جناب مفتی عزیز الرحمٰن صاحب کی خدمت میں یہی التماس ہے۔مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضے کو شرفِ قبولیت بخشیں گے۔آپ کو قیام گاہ سے لانے کے لیے سواری یہاں سے بھیج دی جائے گی۔ (اقبال نامہ، حصہ دوم، ص:257)
دعوت تو صرف ایک بہانہ تھا،ورنہ اصل مقصد علمی استفادہ تھاچنانچہ کھانے سے فراغت کے بعدعلامہ اقبال مرحوم نے ختم نبوت کا مسئلہ چھیڑ دیاجس میں کامل ڈھائی گھنٹہ تک گفتگوہوتی رہی، علامہ اقبال مرحوم کی عادت یہ تھی کہ جب وہ کسی اسلامی مسئلہ پر کسی بڑے عالم سے گفتگو کرتے تو بالکل طالب علمانہ انداز اختیار کرتے۔ مسئلہ کا ایک ایک پہلو سامنے لاتے اور اپنے اشکالات کھل کر بیان کرتے۔ چنانچہ انھوں نے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃاﷲعلیہ کے سامنے یہی طرز اختیار کیا۔حضرت شاہ صاحب نے علامہ اقبال مرحوم کے سوالات کو بڑے اطمینان اور تحمل سے سنا، اس کے بعد ایک جامع اور مدلل تقریر کی کہ علامہ اقبال مرحوم کوتمام مسائل پر کلی اطمینان ہوگیاجوکچھ خلش ان کے دل میں تھی وہ جاتی رہی۔اس کے بعد انھوں ختم نبوت پر وہ لیکچر تیارکیاجواُن مجموعہ میں شامل ہے،اور قادیانی گروہ پرہنگامہ آفریں مقالہ سپرد قلم فرمایا،جس نے انگریزی اخبارات میں شائع ہوکر پنجاب کی فضاؤں میں تلاطم برپاکردیا۔ علامہ اقبال مرحوم کاجب یہ مراسلہ شائع ہوا تو ہندوستان کے نام وَر سابق وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرونے سوال کیا کہ مسلمان قادیانیوں کو اسلام سے جدا کرنے پر آخرکیوں اصرار کرتے ہیں؟ جب کہ قادیانی بھی مسلمانوں کے بہت سے فرقوں کی طرح انھی کا ایک فرقہ ہیں۔تو علامہ اقبال مرحوم نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پراس لئے مصر ہیں کہ قادیانی گروہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے نئی ہندی امت کو تراشنے کی کوشش کررہے ہیں اور کہا کہ ہندوستان میں اسلام کی حیات اجتماعیہ کے لئے یہ گروہ نہایت خطرناک ہے۔اس کے علاوہ ہندوستان کے بعض اور لیڈر بھی قادیانی گروہ کو آگے لاناچاہتے تھے، کیونکہ قادیانیت کے پھیلاؤ سے ہندوستان کی عظمت اور تقدس میں اضافہ ہوگا۔اور مسلمان اپنا رخ حرمین شریفین سے پھیرکر ہندوستان کو اپنا قبلہ اور روحانی مرکزقراردے لیں گے اورجیساکہ ان لیڈروں کا خیال تھا اس سے مسلمانوں کے دلوں میں وطن پرستی کی جڑیں مضبوط ہوجائیں گی۔ایک اوربات جوکہ قابل توجہ ہے کہ جن دنوں پاکستان میں قادیانیت کے سدباب کی تحریک چل رہی تھی ہندواخبارات کی قادیانیوں کے ساتھ غیرمعمولی ہمدردی دیکھنے میں آئی۔ان اخبارات نے قادیانیوں کی تائید میں مضامین شائع کئے۔اپنے قارئین کو مجبور مسلمانوں کے مقابلے میں قادیانیوں کامؤیداور ہمنوابنانے کی کوشش کی، اوریہاں تک کہا (اور درست کہا) کہ پاکستان میں قادیانیوں اور مسلمانوں کی یہ کشمکش در اصل عربی نبوت اور ہندی نبوت کی کشمکش ہے ا وردومختلف نبوتوں کے پیروکاروں کی کشمکش ہے۔
کشمیر کے بتیس لاکھ مسلمان اور مفکر پاکستان علامہ اقبال مرحوم:
کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار کو سنوارنے کے لیے مسلمانانِ ہند نے ایک کشمیر کمیٹی قائم کی، جس کا سربراہ مرزاقادیانی کا بیٹااورقادیانیوں کا نام دوسرا نہاد خلیفہ مرزابشیر الدین محمود قادیانی کو بنایاگیا،جبکہ مفکرِ پاکستان علامہ اقبال مرحوم کو اس کاجنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔چونکہ کشمیر میں مسلم اکثریت تھی اور انھی کے مطالبہ پر اس کمیٹی کا قیام عمل میں لایاگیا تھا اس لئے مسلم اہلِ بصیرت حلقوں میں قادیانی خلیفہ کے تقرر سے ہیجان پیدا ہونے لگا۔اوّل تواس وجہ سے کہ مسلمانوں کے تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے ایک قادیانی کا تقرر اس بات کا اعلان کرناتھاکہ قادیانی مسلمان ہیں۔حالانکہ قادیانی روزِ اوّل سے ہی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں،اس لئے بشیرالدین محمود قادیانی یاتو کشمیر کے مسلم اکثریت کے ایمان کو تباہ وبرباد کرنے کے درپے تھا یاپھر اپنی قادیانی سرگرمیوں میں ناکامی کے باعث مسلمانوں کے مسائل کو کمیٹی کی سطح پر خوفناک نقصان پہچانا چاہتاتھا، عام مسلمانوں نے کشمیر کمیٹی کے اس امکانی بحران کی طرف توجہ ہی نہ کی، کشمیر کے اس پس منظر کو اس وقت کوئی نہیں سمجھتاتھا،اورقادیانیوں کے مدّمقابل کوئی منظم عوامی تحریک بھی نہ تھی۔ صرف رسائل کی حدتک دلائل سے جواب دیئے جارہے تھے۔ جس سے مسلمان عوام کا قادیانیوں کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر تھا۔خصوصاً ماڈریٹ طبقہ کو اس طرف خیال ہی نہیں گیایہی وجہ تھی کہ علامہ اقبال مرحوم جیسی شخصیت بھی کشمیر کمیٹی میں شامل ہوگئے، اور قادیانیوں کو مسلمانوں کو علامہ اقبال مرحوم کا نام لے کر گمراہ کرنا آسان نظر آنے لگا ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ ﷲ علیہ اس صورتِ حال سے کافی مضطرب ہوگئے، ان خطرات واندیشوں کی وجہ سے آپ نے اس تقرر کے خلاف اوّل تو کشمیر کے بعض ذمہ داروں کو احتجاجی خطوط ارسال فرمائے، ساتھ ہی مجلس احرارکو ہمہ گیر احتجاج پر آمادہ وتیار کیا۔ علامہ اقبال مرحوم نے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ سے ہمیشہ اپنی تشنگی کو مٹانے کی کوشش میں اپنے علمی سفر کو جاری رکھا ہوا تھا،لیکن اب تک قایانیت کے مضر پہلوؤں سے تقریباً ناواقف تھے۔اسی زمانہ میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃاﷲ علیہ نے علامہ اقبال مرحوم کو طویل خط لکھ کر فتنۂ قادیانیت کی زہرآلودگی سے مطلع کیا،انھی حالات کو دیکھ کر مجلس احرار اسلام کے رہنماؤں نے بھی محسوس کیا کہ کئی لوگ غلط فہمی کی وجہ سے قادیانیوں کے جال میں آجائیں گے،خصوصاً مفکر پاکستان کا قادیانیوں کی صدارت میں کشمیر کمیٹی کا ممبر بن جانا مسلمانوں کے لئے غلط فہمی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ علامہ اقبال مرحوم ہماری قوم کا اثاثہ ہیں انہیں کسی طریقہ سے اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے۔ ادھرمرزابشیر الدین محمود مذہبی لبادہ میں شاطرانہ چال کھیلنے کی کوشش میں تھااور خواب دیکھ رہاتھا کہ کسی طرح کشمیر ہمارے قبضہ میں آجائے۔ کشمیر میں قادیانیوں کی اتنی دلچسپی کیوں تھی جہاں اور وجوہات ہوسکتی ہیں ان میں ایک وجہ یہ تھی کہ مرزا غلام قادیانی اپنی کتاب کشتی نوح ،صفحہ:235 جلد: 18 میں لکھا:
’’عیسیٰ ابن مریم فوت ہوگئے اور کشمیر سری نگر محلہ خانیار میں ان کی قبر ہے‘‘۔
ان عقائد کے پیش نظر قادیانیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اس تحریک کی قیادت ان کے قبضے میں آجائے اور مسلمانوں کے حقوق کے جنگ کے بہانے وہ اپنے آپ کو مسلمان باور کرالیں۔اس طریقہ سے مسلمانوں کے اندر ہمارا شمار بھی ہوجائے گااور کشمیر بھی ہمارے ہاتھ آجائے گا۔احراررہنماؤں نے فوراً ایک وفد تیار کیاجس میں چودھری افضل حق، مولانا داؤد غزنوی اور امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ ا ﷲ علیہم شامل تھے وفد نے علامہ اقبال مرحوم سے کہا: کیا آپ نے بھی قادیانی قیادت کو تسلیم کرلیا ہے؟اگرآپ کی دیکھا دیکھی کشمیر کے بتیس لاکھ مسلمان قادیانی ہوگئے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور آپ مجرم ہوں گے۔نیز قادیانی دوسر ے مسلمانوں پر بھی گمراہ کن اثر ڈالیں گے ،لہٰذا آپ ان سے علیحدگی کا اعلان کریں‘‘۔ چنانچہ اس سے دوسرے روز لاہور برکت علی ہال میں کشمیر کمیٹی کا اجلاس بلایاگیا۔علامہ اقبال مرحوم قادیانیوں کے علاوہ باقی شرکاء اجلاس پر اپنا اثر استعمال کر کے بشیرالدین محمودقادیانی کوکشمیر کمیٹی سے نکال دیا۔اور صدارت خود سنبھال لی۔جس سے۳؍اگست ۱۹۳۱ء کوالگ ہوکرکشمیر کمیٹی کی تمام تر ذمہ داری احرار کے سپرد کردی۔اس استعفے کا تفصیلی ذکر علامہ اقبال مرحوم نے ۶؍جون۱۹۳۳ء کو اپنے پریس بیان کرتے ہوئے کہا کہ:
’’بدقسمتی سے کشمیرکمیٹی میں بعض ایسے ممبر ہیں جواپنے مذہبی پیشوابشیرالدین قادیانی کے علاوہ کسی اور کی اطاعت تسلیم نہیں کرتے۔اور یہ امر اس بیان سے ظاہر ہے جوکام میر پور کے مقدمات میں ان کے سپرد کیاگیا تھااس پر انھوں نے کہاکہ ہم نے جوکچھ کیا وہ صرف اپنے مذہبی پیشوابشیرالدین قادیانی کے حکم کی تعمیل میں کیا تھا‘‘۔
مفکر پاکستان علامہ اقبال مرحوم کو قادیانیت کا اصل چہرا اب نظر آیا اور یہ حقیقت ہے کہ علامہ اقبال مرحوم کی قادیانیت کے مدمقابل اور ان کی تردیدو جدو جہد کا آغاز کشمیر کمیٹی کے قیام کے بعدقادیانیوں کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد ہو۔