تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عشق کے قیدی

(قسط:۴)

ظفر جی

پہلی ملاقات
13اگست․․․ 1952ء․․․ گورنمنٹ ہاؤس کراچی
ہم اس تاریخ ساز بلڈنگ کے سامنے کھڑے تھے جو سوسالہ برٹش راج کی یادگار ہے ۔ یہ وہی بلڈنگ ہے جہاں کبھی حضرت قائداعظم ، گورنر جنرل کی حیثیّت سے بیٹھا کرتے تھے ۔میں بڑے کالر والی شرٹ اور کھلے پائنچوں والی تنگ پتلون میں “مارک ٹیلی ” لگ رہا تھا اور چاند پوری تنگ پاجامہ ، شیروانی اور قراقلی ٹوپی پہنے آغا حشر کاشمیری۔ ہمارے علاوہ یہاں اور بھی اخبار نویس آئے ہوئے تھے ۔آنکھوں پر موٹے فریم کے چشمے ٹکائے ، ہاتھوں میں پنسل اور ڈائریاں تھامے اور گلے میں ڈبہ کیمرہ لٹکائے مختلف جرائد کے صحافی بھی کھڑے تھے۔کچھ ہی دیر بعد ایک ٹرام سڑک پر آکر رُکی اور اُس سے مجلسِ عمل تحفظ ختم نبوت کے صدر مولانا ابوالحسنات ، ماسٹر تاج الدین انصاری ، شیخ حسام الدین،مولانا مرتضیٰ احمد میکش اور مولانا عبدالحامد بدایونی نیچے اترے ۔یہ وفد گورنمنٹ ہاؤس کے صدر دروازے کی جانب چلا تو اخبار نویس بھی پیچھے پیچھے لپکے ۔ایک سنتری نے مولانا ابوالحسنات کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پرچی دیکھی اور ایک دستار پوش اُردلی کو ہمارے ہمراہ کرتے ہوئے ہاؤس کا آہنی گیٹ کھول دیا۔اَردلی ہمیں مختلف برآمدوں اور راہداریوں سے گزارتا ہواایک پرانی طرز کے آفس میں لے آیا۔ جہاں لکڑی کی کرسی پر ایک شریف قسم کا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اٹھ کر نہایت گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیااور سامنے پڑی کرسیوں کی طرف اشارہ کر دیا۔عاشقانِ پاک طینت کرسیوں پر تشریف فرما ہوئے اور اخباری نمائندگان پیچھے پڑے لکڑی کے سٹولوں پر بیٹھ گئے ۔پرسش احوال ہوئے تو میں نے چاند پوری کے کان میں سرگوشی کی:
” وزیرِ اعظم صاحب کب تشریف لائیں گے ؟؟ ”
انہوں نے مجھے حیرت و استعجاب سے گھورا پھر مسکراتے ہوئے کہا :
” سامنے ہی تو بیٹھے ہیں ․․․․ خواجہ ناظم الدین صاحب ”
اب حیران ہونے کی باری میری تھی۔ میں نے پہلی بار آنکھیں کھول کر قائدِ اعظم کے دستِ راست ، تحریک پاکستان کے اہم کارکن ، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل جناب خواجہ ناظم الدین کو دیکھا جو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر جلوۂ افروز ہوئے تھے۔ پھر اس سادہ و پُروقار آفس کے درودیوار پر نظر ڈالی۔ فرنیچر پرانی طرز کا ، لیکن دیدہ زیب تھا۔ پس منظرمیں قائداعظم کا خوبصورت پورٹریٹ اور ایک کونے میں اُس نو آزاد ریاست کا رنگین نقشہ آویزاں تھا ، جو ایک روز پہلے اپنی پانچویں سالگرہ منا چکی تھی۔
” ملونا ساب ․․․․ پائلے یہ بتائیے ․․․․ سائے منگواؤں یا سربت ” وزیرِ اعظم نے ٹھیٹ بنگالی لہجے میں کہا۔
“ٹھہریے ․․․․ وزیرِ اعظم صاحب ․․․․․ ہم یہاں چائے شربت پینے نہیں آئے۔ ” مولاناابوالحسنات بول پڑے ۔
” سیک ہے سیک ہے ․․․․․ کیا بولتا ہے ․․․․ ؟؟ ”
” ملک خطرے میں ہے ، اسے بچانے میں ہماری مدد کیجئے ” مولاناابوالحسنات نے ارشاد کیا۔
” مُولک کھترے میں؟ وہ کائسے ؟ ․․․․ سب ٹھیک ٹھاک ہے ناں ؟؟ ” وزیراعظم ایک دم پریشان ہو گئے ۔
” سب ٹھیک ٹھاک ہوتا تو ہم آپ کے پاس آتے ہی کیوں ․․․․․․ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا ․․․․․ لا الہ الا اﷲ کے نعرے پر حاصل کیا گیا تھا ․․․․․ اس کی بنیادیں لاکھوں شہداء کے خون سے تر ہوئی تھیں ․․․․ ہزاروں عصمتیں لُٹی تھیں ․․․․ یہ سب کچھ اس لئے نہیں کیا گیا تھا کہ ایک آزاد ریاست حاصل کر کے اس پر مرزائیت مسلّط کر دی جائے ۔”
“لیکن ․․․موُلک میں امن و امان تو ایک دم بَڑھیا ہے ناں ؟؟ ” وزیرِ اعظم نے ٹیبل پر رکھی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا۔
” امن و امان ضرور اچھا ہے، لیکن یہ خاموشی ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے ۔”
” کیا ہوا ؟ کائسا طوفان ؟؟ ”
” آپ نے مولانااختر علی خان سے ایک وعدہ کیا تھا ․․․․ سر ظفراﷲ کو اُن کے عہدے سے برطرف کرنے کا۔ ”
” ہاں یاد ہے ․․․․ بروبر ،یاد ہے ․․․․ ” وزیراعظم نے کہا۔
“ہم اسی وعدے کی یاد دہانی کرانے آئے ہیں ․․․․۔ ”
” ہم نے بات جرور کیا تھا ․․․․ لیکن اختر علی خان نے یہ خبر پیپر میں ساپ کے ․․․․ معاملہ جو ہے ناں ․․․․ ایک دم چَوپٹ کر دیا ہے ․․․․ حالات اب پائلے زیسے نہیں رہے۔ ”
” یعنی آپ سر ظفراﷲ خان کو وزیرِ خارجہ کے عہدے سے برطرف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ”
” جفراﷲ کو میں نے نہیں،بانی پاکستان نے وَجیرِ خارجہ بنایا تھا۔” وزیرِ اعظم نے کہا۔
“اور قائدِ کا پاکستان آج ظفراﷲ خان کے ہاتھوں ہی خطرے کا شکار ہے ۔ قائد اعظم حیات ہوتے ، تو وہ بھی یہی فیصلہ فرماتے ․․․․۔”
” لیکن ․․․․․․ مسئلہ کیا ہے سرجفراﷲ سے ؟؟ ” وزیرِ اعظم نے معصومیت سے دریافت کیا۔
“کوئی ایک مسئلہ ؟؟․․․․جنابِ وزیرِاعظم !! ظفراﷲ خان بحیثیّت وزیرِ خارجہ قادیانیوں کے مذہبی اجتماعات میں شریک ہوتا ہے،ایک ایک مشورے کے لیے مرزا بشیرالدین محمود کے پاس ربوہ بھاگا چلا جاتا ہے ،غیر ملکی سفارت خانوں میں دھڑا دھڑ مرزائی تعیّنات کر رہا ہے ، سرکاری دفاتر میں ہر اُونچی پوسٹ پر مرزائی بٹھا رہا ہے ،دفتروں میں کھلم کھلا قادیانیّت کی تبلیغ ہو رہی ہے ․․․․ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان ؟؟․․․․․ جس کے لیے راوی و چناب کا پانی لہوسے سُرخ کیا گیا تھا ؟؟ ”
وزیرِ اعظم نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور کہا:
” ریاؤست کی مزبُوری ہے ․․․․ مرزائی حجرات پڑا لکھا اے ․․․․ تالیم یافتہ ہے ․․․․ کیا بولے گا ؟ ․․․․ انہیں ایک دم ․․․ دفتروں سے کائسے کھلاس کرے گا ․․․․ ؟؟ ”
“سب سے زیادہ پڑھا لکھاتوانگریز تھا جناب ․․․․․ اسے سرپربٹھائے رکھتے ․․․․ ایک اسلامی ریاست کے نام پر ہماری نسلیں کٹوانے کی کیا ضرورت تھی ․․․․؟؟”
” وہ تو سب بروبر ہے ․․․․ ابھی نیا نیا آجادی ملا ہم کو ․․․․ آہستہ آہستہ سب سیک ہو جائے گا ؟ ”
” لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں کسی قادیانی فرشتے ’’ٹیچی ٹیچی‘‘ کی بجائے ․․․․آسمانی فرشتے جبرئیلِ امین کا لایا ہوا قرآن پڑھیں ․․․․ مرزا قادیانی کی بجائے محمد رسول اﷲ ﷺ کا کلمہ پڑھیں ․․․․ جو اِن حالات میں ناممکن ہوتا جا رہا ہے ․․․․ جب ایک شخص قادیانیت کا کلمہ پڑھتا ہے تو اُس کے پیچھے پورا خاندان گمراہی کا شکار ہو جاتا ہے ․․․ ؟؟ ”
وزیرِ اعظم خاموش ہو گئے ۔
“یہ رہے ہمارے مطالبات،” مولاناابولحسنات نے ایک کاغذ وَزیر اعظم کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
” قادیانیوں کو فی الفور غیر مسلم قرار دیا جائے ، ظفراﷲ خان سے وزرات خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے اور ربوہ کا نوگو اَیریا ختم کرکے وہاں بے گھر مہاجرین کی آبادکاری کی جائے ۔”
” دیکھیں ․․․․ جہاں تک قا دیانیوں کو غیرمسلم بنانے کا موسئلہ ہے ․․․․․ تو ہم اس فیصلے کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ فیصلہ کوبینہ ہی کر سکتی اے ․․․ کیا بولے گا ؟ ”
” اور ربوہ کی زمین․․․․؟” ابوالحسنات نے دریافت کیا۔
“وہ صوبوئی گورنمنٹ کا موسئلہ ہے۔ ”
” ظفراﷲ کو برخواست کرنے کا اختیار تو ہے ناں آپ کے پاس؟”
” ایک دم بروبر ․․․․ لیکن کیا ہے کہ ․․․․ فی الحال ہم یہ اختیار اِستعمال نئیں کر سکتا۔ ” وزیرِ اعظم نے بے بسی سے جواب دیا۔
“آخر کیوں․․․․؟؟ “مولانا ابوالحسنات اور ماسٹرتاج الدین صاحب یک زبان ہو کر بولے ۔
” امریکی امداد بند ہو جائے گا ․․․․ !!!” وزیراعظم نے سادگی سے کہا۔
“لاحول ولا قوۃ الا بااﷲ ․․․․ ہم تو سمجھے تھے کہ پاکستان کا رازق اﷲ ہے ․․․․آج معلوم ہوا کہ امریکہ ہے ۔” مولاناابوالحسنات نے جواب دیا۔
وزیرِ اعظم نے ایک سرد آہ بھری پھر ایک فائل کھول کر اُس کی ورق گردانی کرتے ہوئے بولے :
” آپ سائے پئے گا یا سربت ․․․․․؟؟؟ ”
صبر و رضائے عشق
16 جنوری ․․․․ 1953 ․․․․ نسبت روڈ لاہور
تاحدِ نظر انسانوں کا سمندر تھا۔ہر طرف سر ہی سر نظر آ رہے تھے ۔ علماء کرام کے خطاب کے لئے ایک اونچا پلیٹ فارم بنایا گیا تھا۔ سٹیج کی داہنی جانب کچھ آبادی تھی۔ ہم جلسہ گاہ پہنچے تو لوگ جلسہ چھوڑ کر گیس بتیاں اٹھائے آبادی کی طرف دوڑتے دکھائی دیے ۔ کچھ دُور ایک مکان کے قریب بتیاں ہی بتیاں نظر آئیں۔ لوگ ادھر ہی جمع ہو رہے تھے ۔
” اُدھر کیا ہوا ہے بھائی ؟ ” چاند پوری نے ایک لڑکے سے پوچھا
“پھڈّا ہو گیا اے ․․․․ پھڈّا ” یہ کہتے ہوئے اس لڑکے نے بھی آبادی کی طرف دوڑ لگا دی۔
“یا الہٰی خیر” میرے منہ سے نکلا۔
اس طرف واقعی کچھ گڑبڑ تھی۔ ہم بھی ادھر لپکے ، تاکہ بلوے کی وجہ معلوم کر سکیں۔
” بابا جی کیا ہوا ہے ادھر ؟؟ رش کیوں ہے ؟؟” میں نے ایک بزرگ کو متوجّہ کیا۔
” پُت ․․․․ کاکی دا سر پاڑ دِتّا کسے نے ․․”
(بیٹا! کسی نے بچی کا سر زخمی کردیاہے۔)بابا نے مُختصرا جواب دیا۔
” سر پاڑ دِتّا ؟؟ کِس نے ؟؟”
(سر زخمی کردیا! کس نے)
“کسّے مَرجئی ملُون نے وٹّا ماریا ․․․․․ ”
(کسی مرزائی نے پتھر ماراہے)
ہم مجمع سے ٹکراتے ، دھکّے کھاتے آخر میں جائے وقوعہ تک پہنچ ہی گئے۔یہاں ایک بزرگ پھول سی بچّی اٹھائے کھڑے تھے۔ جس کے سر سے مُسلسل خُون بہہ رہا تھا۔ بچّی کی دلدوز چیخیں لرزا دینے والی تھیں۔
” استغفراﷲ العظیم ․․․․ توبہ توبہ !!!” میں زیرِ لب بڑبڑایا۔
“بھائی صاحب ․․․ کیا ہوا بچّی کو ؟؟” چاند پوری نے ایک شخص سے صورتِ حال جاننا چاہی۔
” سامنے مرزائیوں کا گھر ہے ․․․․ وہاں سے جلسے پر پتھراؤ ہوا ہے ․․․․ ایک پتھر بچّی کو لگ گیا ہے۔ ” آدمی نے مختصر روئیداد سنائی۔
تحریکِ ختم نبوت 1953ء میں بہنے والا یہ پہلا خون تھا۔میں حیران تھا کہ اتنا بڑا مجمع ابھی تک شانت کیوں کھڑا ہے ؟صبح سے شام تک تحریک کے فلک شگاف نعرے لگانے والے کارکن اس درندگی پر خاموش کیوں ہیں ؟ مرزائیت کے خلاف لاکھوں کا جلسہ ہو،جلسہ گاہ کے قریب ایک مرزائی کا مکان ہو،اُس کے مکان سے شرکائے جلسہ پر پتھراؤ کیا جائے اور مسلمان منہ میں گُھگھنیاں ڈالے خاموش کھڑے رہیں ؟صرف پانچ منٹ میں اس مکان کو مکینوں سمیت ملیا میٹ کیا جا سکتا تھا۔ میں حیرت سے سوچنے لگا کہ ان لوگوں کا اسلام کتنا “کمزور” ہے اور ہمارا کتنا طاقتور !!!!
جن کے سروں پرسیّد عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ جیسا شعلہ بیاں مقرر، کالے بادل کی طرح گرجتا ہو ،سیّد ابوالحسناتؒ جیسا ولی جنہیں نمازِ عشق پڑھاتا ہو ،مولانا احمد علی لاہوری جیسا جری سالار جن کے شانے تھپتھپاتا ہو ،تاج الدین انصاری ،مولانا محمد علی جالندھری ، مولاناغلام محمد ترنّم اورمظفّر علی شمسی، جیسے خطیب جن کا لہو گرماتے ہوں ، مودودی جیسا صاحبِ قلم جن کے لئے الفاظ تراشتا ہو ،عبدالستار نیازی جیسا مجاہدملت غلامیٔ رسول ﷺکا درس دیتا ہو ،مولانا اختر علی خان جیسا صحافی جن کی روئیداد چھاپتا ہو ، وہ ہماری طرح کے سرپھرے مسلمان کیوں نہ بن سکے ؟؟؟
زخمی ہونے والی بچّی اپنے بوڑھے باپ کے کندھے پر سر دھرے خاموش ہو چکی تھی۔ شاید بے ہوش تھی یا شہادت کا جام پی چکی تھی۔ اس کے سر سے بہتا ہوا خون باپ کی سفید قمیص کو رَنگین کر چُکا تھااور وہ بزرگ راہِ عشقِ مصطفی ﷺمیں اپنی کُل متاع لُٹا کر بڑے اطمینان سے مجمع سے باہر جا رہا تھا۔اتنے میں مولاناابوالحسنات اور حافظ کفایت حسین بِھیڑ کو چیرتے ہوئے پلیٹ فارم تک آن پہنچے۔مجھے خیال ہوا کہ مجمع شاید قائدین کا ہی انتظار کر رہا تھا۔ مجھے قوی امید تھی کہ سالارانِ ختمِ نبوت آج اپنی تقریر میں اس خونِ ناحق کے انتقام کا ضرور اعلان کریں گے اور آج کی یہ رات ذریّتِ مرزا پر بہت بھاری ہوگی۔
سپیکر پرمولانا ابولحسنات کی آواز گونجی:
“تمام لوگ مکان کا گھیراؤ چھوڑ کر یہاں آ جائیں ․․․․․․․ میں سیّد احمد قادری ختمِ نبوت کے صدقے ․․․․․ آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ ِادھر تشریف لے آئیں ․․․․ طائف میں پتھّر کھا کر دعا دینے والے نبی ّﷺ کی امّت ․․․․ یہاں آ جائیے ․․․․ ختمِ نبوت کے پروانو ․․․ غُصّے اور ذاتی اشتعال پر چلنے والی تحریکیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں ․․․․ یہ بہت جلد حکمرانوں کا کھلونا بن جاتی ہیں ․․․․ یہ کوئی جائیداد یا اقتدار کا جھگڑا نہیں ہے ․․․․ اصول کی جنگ ہے ․․․․ اصول سے ہی لڑی جائے گی ․․․․ عاشقانِ رسول ﷺ پتھر مارتے نہیں ، پتھر کھاتے ہیں ․․․․ خُدا کی قسم اس تحریک کے سب علماء کا مشترکہ فیصلہ ہے ․․․․ کہ کسی مرزائی کی نکسیر بھی پھُوٹی ․․․․ تو ہم اُسی وقت یہ تحریک ختم کر دیں گے ․․․․ شانت ہو جائیے ․․․․ یہاں آ جائیے ․․․․ سٹیج کے پاس تشریف لے آئیے !!!! ”
لوگ آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے سٹیج کی طرف آنے لگے ۔ میں اس قافلۂ عشق و مستی کے صبر و رضاکو دیکھ کر حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔ کیا یہی ہمارے اکابر تھے ؟؟ یا ہم جرمن نازیوں کی بھٹکی ہوئی وہ بدرُوحیں ہیں جو مسلمان کا شناختی کارڈ بنوا کر اُن بزرگوں سے چمٹی ہوئی ہیں ؟؟ انہیں کس بات کا ڈر تھا ؟ پوری قوم ان کی پُشت پر کھڑی تھی۔ عجب صابر لوگ تھے ۔ چاہتے تو ایک پھونک مار کر مرزائیت کا بُت پاش پاش کر سکتے تھے ۔ جن کی ہڑتال پر لاہور کے پرندے بھی گھونسلوں میں دُبک کر بیٹھ گئے تھے،اب وہ کس بِرتے پر فاختہ کی طرح پر سمیٹے بیٹھے تھے ․․․ ؟؟ شاید اس لئے کہ یہ سچّے عاشق تھے ۔دنیا کا چلن اور ہے اور عِشق کی سج دھج کچھ اور۔ دنیا کے ضابطے اور ہیں اور عشق کے قواعدو ضوابط کچھ اور۔ دنیا کچوکے لگا کر خوش رہتی ہے اور عاشقانِ صادق زخم کھا کر پھولے نہیں سماتے !!!عشق سینہ زوری کا نہیں ، صبرو رضاء کا نام ہے ۔ یہاں ہر گھڑی نگاہیں درِ یارکی طرف ہی اٹھتی ہیں ، یار ،راضی تو سَتّے خیراں ، محبوب روٹھ گیا تو کچھ بھی باقی نہ بچا۔ ایک نعت خوان رب کے سچّے محبوب ﷺ کے سامنے احوالِ دردِ دِل پیش کر رہے تھے ۔ لاہور کی اس سرد رات میں عشق کی حرارت سے مجمع پگھل رہا تھا اور آنکھیں اشکبار ہو رہی تھیں:
یا شفیعِ اُمم ، لِلّہ کر دو کرم ، شالا وسدا رہوے تیرا سوہنا حرم
ہم غلاموں کا رکھنا خدارا بھرم ، شالا وسدا رہوے تیرا سوہنا حرم
کس کو جا کر کہیں تاجدارِ حرم ، گھیرا ڈالے ہوئے ہیں زمانے کے غم
دور ہو جائیں غم یا شہِ محترم ، شالا وسدا رہوے تیرا سوہنا حرم
جاری ہے
ء ء ء

2 thoughts on “عشق کے قیدی”

  1. مرزا محمد ثناءالحق says:

    عشق کے قیدی کی چوتھی قسط پڑہ کر روح تازہ ہوگئی ۔ سلام ہوختم نبوت صل اللہ علیہ وسلم کے پروانوں کو۔ تمام اقساط پڑہنے کےلیۓ چاہے ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمایئں-
    ظالب علم علوم اسلامیہ ایم فل

    1. admin says:

      جزاک اللہ خیر، عشق کے قیدی کی اقساط ہمارے ماہنامے نقیب ختم نبوت میں ہر ماہ شائع ہورہی ہے، آپ وہاں بھی پڑھ سکتے ہیں، اور اسے کتاب کی صورت میں شائع بھی کیا جا چکاہے، اگر آپ کو کتاب کی صورت میں چاہئیے تو آپ لاہور یا ملتان میں مجلس احرار کے دفتر سے حاصل کر سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.