تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

شہیدِ غیرت، حضرت حسین بن علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما

مولانا عبد العلی فاروقی (لکھنؤ)
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی مظلومیت اتنی آشکار، اتنی واضح اور اتنی تسلیم شدہ ہے کہ ان کے سلسلہ میں اس وضاحت کی چنداں حاجت نہیں ہے کہ تاریخ کی مظلوم شخصیتوں میں ان کا بھی ایک اہم مقام ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی مظلوم شخصیت کے بارے میں استفسار کیا جائے تو مسلمانوں کی واضح اکثریت کی زبانوں پر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ ہی کا نام آجائے گا۔ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ قرنِ اوّل سے آج تک کے شہداءِ اسلام میں جتنا کچھ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ اور ان کی شہادت کے بارے میں لکھا اور کہا گیا، کسی دوسرے اسلامی شہید کے بارے میں نہیں لکھا اور کہا گیا۔ مگر یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے بارے میں اتنا لکھا اور کہا جانا، ان کی بے دردانہ شہادت سے بھی زیادہ اُن کی مظلومیت کا باعث بن گیا اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے شہید کربلا بننے سے کہیں بڑی مظلومیت یہ ہے کہ بعد کی نسلوں کے سامنے ان کی شہادت کی تفصیلات کو جس متضاد انداز میں پیش کیا گیا، اس نے ان کی شخصیت اور مقصدِ شہادت دونوں پر دبیز پردے ڈال دیے اور نتیجہ کے طور پر یہ صورت حال پیدا ہو گئی کہ خود شہادت حسینؓ ہی نزاعی بن کر رہ گئی۔ ہماری تاریخ کا یہ المیہ مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ کس قدر فکر انگیز اور عبرتناک ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو شہید مظلوم بلکہ سید الشہداء و شہید اعظم قرار دینے والوں کو جن تاریخی مجموعوں سے روایات مل جاتی ہیں، ان ہی مجموعوں سے ان کو مجتہد مخطی بلکہ باغی اور ہلکے الفاظ میں خروج کرنے والا قرار دینے کے لیے بھی روایات مل جاتی ہیں۔ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نواسے اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بیٹے تھے، اس ایک فضیلت کے سوا ان کی کتابِ فضائل کا کون سا عنوان ہے جسے نزاعی نہ بنا دیا گیا ہو؟ وہ صحابیٔ رسول تھے یا نہیں؟ ان کو زبانِ رسالت سے جوانانِ جنت کا سردار قرار دیا گیا یا نہیں؟ کوفیوں کی دعوت پر ان کا سفر کرنا، درست تھا یا نہیں؟ وہ محافظ اسلام تھے یا حریصِ خلافت؟ انھیں شہیدمظلوم قرار دیا جائے یا باغی مقتول؟ یہ متضاد سوالات ہی نہیں بلکہ ایسی دو متوازی فکریں ہیں جن پر اُمتِ مسلمہ کی بہترین صلاحیتیں صدیوں سے صرف ہو رہی ہیں اور ہم پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سبائیوں کی یہ وہ سب سے بڑی کامیابی ہے، جس کو عام کرنے کا سہرا ابو مخنف لوط بن یحییٰ، ہشام کلبی، محمد بن ہشام، واقدی، مسعودی اور محمد بن جریر طبری کے سر بندھتا ہے۔ کیسی عجیب ہے یہ بات کہ ہمارے مؤرخین و محققین آج تک حتمی طور پر یہی فیصلہ نہ کر سکے کہ نواسۂ رسول سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کا قتل کن ہاتھوں سے ہوا، اور ان کے اصل قاتل کون لوگ تھے؟ اور اسلامی قانون کے لحاظ سے ان کا مقام کیا ہے؟ کسی کور رافضی یا خارجی قرار دے کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ لینا اور بات ہے، لیکن سچائی یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی اصل مظلومیت یہی ہے کہ ان کو شہید جور و ستم قرار دینے والے بھی مسلمان قرار دیے جاتے ہیں اور انھیں باغی و جارح کی حیثیت سے یاد کرنے والے بھی علانیہ طور پر مسلمان ہی گردانے جاتے ہیں، جبکہ شہید و باغی دونوں کے علیحدہ علیحدہ دنیاوی احکام اور اُخروی انجام سب ہی کو معلوم ہیں۔
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی صحابیت:
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ولادت ہونے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان کا نام رکھنے، ان کی تحنیک کرنے، ان کا عقیقہ کرنے اور ان کے حق میں دعاءِ خیر کرنے کے سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اختلاف ہوا تو صرف اس بات میں کہ اصطلاحی طور پر ان کو صحابیت کا شرف حاصل ہوا یا نہیں؟ اور اس اختلاف کی بنیاد وہی ہے جس کا ذکر ہم حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی صحابیت کے سلسلہ میں مفصل طور پر کر آئے ہیں کہ چونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت حسن رضی اﷲ عنہ (۱) ہی بہت کمسن تھے، چہ جائیکہ ان کے چھوٹے بھائی حضرت حسین رضی اﷲ عنہ جو کم از کم 11ماہ تو ان سے چھوٹے تھے ہی، اس لیے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کی طرح حضرت حسین رضی اﷲ عنہ بھی صحابی نہ تھے۔ ہم حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کی صحابیت کی بحث میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ عام طور پر محدثین و اہل علم، صحابی اس خوش نصیب شخص کو قرار دیتے ہیں، جس نے ایمان کی حالت میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور پھر ایمان ہی کی حالت میں اس کی موت بھی واقع ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ صحابیت کے لیے اور کوئی شرط نہیں لگاتے اور اس تعریف کے اعتبار سے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ ہی کی طرح حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے صحابی ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن کچھ لوگوں نے صحابی ہونے کے لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ صحبت طویلہ(۲) کی بھی قید لگائی ہے، یا اسی طرح بعض لوگوں نے روایت کی قید لگائی ہے، ان قیود کی رعایت کر کے بھی حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی صحابیت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے، البتہ جن لوگوں نے صحابی ہونے کے لیے بالغ ہونے کی قید لگائی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے جس وقت ملاقات ہو، اس وقت بالغ ہو تب ہی صحابی ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ تو اوّلاً اس قول کو حافظ ابن حجر اور دوسرے محدثین نے رد کر دیا ہے۔ (۳)اور اگر اس قول کا اعتبار بھی کیا جائے تو یہ بات روایت کے لیے ہے کہ ایسا شخص جس نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کم عمری و نابالغی میں ملاقات کی ہو، بلوغ کی حالت میں نہیں۔ بعض لوگ اس کو صحابی تو مانتے ہیں، لیکن اس کی روایت کو تابعی کی روایت کی حیثیت دیتے ہیں۔ یعنی اگر اس نے براہِ راست رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل بیان کیا تو اسے مرسل کا حکم دیا جائے گا، مرفوع کا نہیں۔ (۴)
یعنی نابالغی کی بنیاد پر جن لوگوں نے صحابیت کا انکار کیا بھی ہے، وہ انکار صرف روایتِ حدیث کی حد تک ہے، عام نہیں اور عام طور پر وہ لوگ بھی ایسے شخص کو صحابی ہی قرار دیتے ہیں۔
ان تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو لوگ تحقیق کا پورا زور صرف کر کے عہدِ نبوی میں حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو بالکل دودھ پیتا بچہ ثابت کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد پورے زور و شور کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ حسین رضی اﷲ عنہ اتنے کم عمر بچہ تھے کہ وہ صحابی ہو ہی نہیں سکتے، وہ کیا تاثر دینا چاہتے ہیں؟ ہر مسلمان کا سب سے زیادہ لائق اعتماد انسانی گروہ صحابۂ کرام ہی کا ہے، کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس کے بارے میں اُمت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ ’’الصحابۃ کلم عدول ‘‘ (تمام صحابہ راست باز ہیں)، پھر جب حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے سلسلہ میں مطلقاً یہ کہا جائے کہ وہ صحابی نہیں ہیں، تو اسے ان کی حیثیت عرفی کو مجروح کر کے ان کے مقامِ عظمت کو گھٹانے کے سوا اور کس نام سے یاد کیا جا سکتا ہے؟ اور بس یہی وہ ناپسندیدہ کام ہے جس کو انجام دینے سے پہلے ایک مسلمان کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پسند کے ساتھ کیا معاملہ کر رہے ہیں؟
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت:
اسلامی تاریخ کے تاریک دنوں میں سے ایک دن ۱۰؍ محرم الحرام ۶۱ھ کا بھی ہے، جس دن نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی بے دردانہ شہادت ان ہی لوگوں کے ہاتھوں ہوئی، جو اپنے آپ کو شہید مظلوم کا ہم مذہب ظاہر کرتے تھے اور جو اپنے کو اسی رسول کی غلامی سے وابستہ بتاتے تھے، جس کے نواسے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ، اس سے قطع نظر کہ قاتلانِ حسین رضی اﷲ عنہ کون لوگ تھے اور اس حادثۂ الم کے پس پشت کس قسم کی سازش کام کر رہی تھی؟ کوئی بھی کلمہ گو نہ قتلِ حسین رضی اﷲ عنہ پر راضی ہو سکتا ہے، نہ اس المیہ کے ذمہ داروں سے اپنی وابستگی پر فخر کر سکتا ہے۔ ہم اسے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے خونِ ناحق اور ان کی مظلومیت کی ایک شہادت ہی قرار دیں گے کہ ان کے قاتل آج اس طرح بے ننگ و نام ہو گئے کہ ان سے اپنی جسمانی یا روحانی وابستگی قائم کرنے والا دنیا کے پردہ میں کوئی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود خود حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے لیے شہید ہونا، ان کے تاجِ سعادت کا وہ انمول نگینہ ہے، جس کی قدر و قیمت سے وہ خود آگاہ ہوں گے، یا پھر وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیان پر یقین کرتے ہوئے شہید کے مقام و مرتبہ سے واقف ہیں۔ تاریخ کی بے سرو پا روایات کے ذریعہ حسینی شہادت کو رونے رلانے کا سامان کرنے والے یا اسے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی ایک عاجلانہ و عاقبت نااندیشانہ اقدام قرار دے کر استہزا کرنے والے تو صدیوں سے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی مظلومیت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
جہاں تک حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی تفصیلات کا معاملہ ہے تو ان کے مکہ سے کوفہ کے لیے روانگی تک یا زیادہ سے زیادہ کربلا پہنچنے تک کے واقعات ہم تک ان ذرائع سے پہنچے ہیں جن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حادثۂ کربلاکی تمام تر تفصیلات سب سے پہلے طبری نے اپنی تاریخ میں ابو مخنف لوط بن یحییٰ کی روایت سے بیان کی ہیں، اس کے بعد پھر تاریخ طبری ہی سے دوسری کتابوں میں نقل در نقل ہوتی رہیں۔ ہم ان واقعات کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے سے پہلے چند ایسے امور کی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں، جن سے قارئین خود آسانی کے ساتھ اندازہ کر لیں گے کہ حادثۂ کربلا کی تفصیلات اور حرب و جنگ کے مناظر کا بیان کس درجہ قابلِ اعتماد ہو سکتا ہے؟
۱۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کا حادثۂ عظمیٰ ۱۰؍ محرم الحرام ۶۱ھ کو پیش آیا۔
۲۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے افرادِ خاندان میں سے ان کے صاحبزادہ گرامی حضرت علی زین العابدین اور ان کے بھتیجے حضرت زید بن حسنؓ اور حضرت حسن مثنیٰ بن حسنؓ میدانِ کربلا سے زندہ واپس آئے تھے اور یہ تینوں ہی بزرگوار کربلا میں پیش آنے والے المناک حادثہ اور اپنے افرادِ خاندان کی شہادتوں کے چشم دید گواہ تھے، لیکن اس حادثہ کی تفصیلات بیان کرنے والی کسی بھی روایت کا راوی ان تینوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔
۳۔ حادثۂ کربلا کی تمام جزئی تفصیلات، مثلاً جنگ کس طرح شروع ہوئی؟ مبارز طلبی پر حسینی قافلہ سے پہلے کون لوگ آگے بڑھے؟ پیاسوں پر کیا بیتی؟ علی اصغر و سُکَینہ کیوں کر شہید ہوئے؟ عباس علمدار نے کیا کارنامے انجام دیے؟ وغیرہ وغیرہ۔ سب سے پہلے ابو مخنف لوط بن یحییٰ نے اپنی کتاب مقتل حسین میں بیان کیں اور پھر اسی راوی سے روایت کرتے ہوئے ان تفصیلات کو محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں جگہ دی۔
۴۔ ابو مخنف کا تعارف کراتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی تحریر کرتے ہیں:
لوط بن یحیٰ ابو مخنف اخباری تالف لا یوثق بہ ترکہ ابو حاتم وغیرہ۔
وقال الدار قطنی ضعیف و قال یحیٰ بن معین لیس بثقہ و قال مرہ لیس بشئی
وقال ابن عدی شیعی محترق صاحب اخبارہم قلت روی عن الصعق بن زھیر و جابر الجعفی و مجالد روی عنہ المداینی و عبدالرحمٰن بن مغراء و مات قبل السبعین وماۂ انتھی و قال ابو عبید الآجری سألت ابا حاتم عن فنفض یدہ و قال احد یسأل عن ہذا و ذکرہ العقیلی فی الضعفاء۔ (لسان المیزان ، ج: ۴ ، ص: ۹۲،۴۹۳)
ترجمہ: لوط بن یحییٰ ابو مخنف ایک مؤرخ ہے، جس نے اس موضوع پر کتابیں لکھیں، قابلِ بھروسہ نہیں ہے، ابو حاتم وغیرہ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔
اور دارِ قطنی نے کہا ہے کہ یہ ضعیف راوی ہے۔ اور یحییٰ بن معین نے کہا کہ یہ معتبر نہیں ہے ، اور ایک مرتبہ یہ کہا کہ یہ تو کچھ ہے ہی نہیں۔
اور ابن عدی نے کہا کہ یہ جلا بھنا (یا آگ لگانے والا) شیعہ ہے اور انھی کی خبریں بیان کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ صعق بن زہیر اور جابر جعفی (۵) اور مجالد (۶) سے روایت کرتا ہے اور اس سے مداینی و عبدالرحمن بن مغراء نے روایت کیا ہے، ۱۷۰ سے پہلے فوت ہوا، انتہی۔ اور ابو عبید آجری نے کہا کہ میں نے ابوحاتم سے اس کے (ابو مخنف کے) سلسلہ میں پوچھا تو انھوں نے اپنا ہاتھ جھٹک کر کہا، ایسے شخص کے بارے میں بھی کچھ پوچھا جاتا ہے اور عقیلی نے اس کا ذکر الضعفاء میں کیا ہے۔
۵۔ محمد بن جریر طبری کی ولادت ۲۲۴ھ کے آخر یا ۲۲۵ھ کے شروع میں ہوئی اور وفات ۳۱۰ھ میں ہوئی۔ (۷)
مندرجہ بالا امور کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ بات خود بخود نکھر کر سامنے آ جاتی ہے کہ شہادتِ حسین رضی اﷲ عنہ کی تمام تفصیلات اور کربلائی داستان کی حیثیت ابو مخنف کے دجل و فریب اور اطمینان سے بیٹھ کر تیار کیے گئے جھوٹ کے پوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور اسے پروان چڑھانے اور نشر کرنے میں طبری نے اس کا پورا پورا ساتھ دیا۔ ابو مخنف کربلا کے واقعات کی تفصیلات اتنی ڈھٹائی کے ساتھ بیان کرتا ہے، جیسے یہ خود ان واقعات کا چشم دید گواہ ہو، جبکہ حادثۂ کربلا کے وقت یہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا، اسی طرح طبری، ابو مخنف سے روایت کرتے ہوئے ان واقعات کو پوری تفصیل کے ساتھ اپنی تاریخ میں بیان کرتے ہیں، جبکہ نہ ابو مخنف کے بیانات لائق اعتناء تھے، نہ ہی طبری نے ابو مخنف کو دیکھا تھا، کیونکہ طبری کی ولادت سے کم از کم ۵۵ برس پہلے ابو مخنف فوت ہو چکا تھا، اس کے باوجود طبری اس کے منقولات کو اس طرح روایت کرتے ہیں، جیسے وہ ان کا استاذ ہو اور طبری نے براہِ راست اس سے سماعت کی ہو۔
ابو مخنف کے کذب و افترا کا شاہکار مقتل حسین نامی کتاب کا تو اب کہیں وجود نہیں ہے، لیکن اس کے عقائد کو طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کر کے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی ذات گرامی اور ان کی شہادت کو قیامت تک کے لیے موضوعِ بحث بنا دیا، کیونکہ بعد کی تاریخوں میں طبری کی روایات ہی کو نقل کیا گیا اور پھر نقل در نقل، اور ان روایات پر نقد و جرح کا جو سلسلہ چلا تو شہادت حسین رضی اﷲ عنہ کو ایک ایسا افسانہ بنا دیا گیا جیسے تاریخِ اسلام کی یہ پہلی شہادت تھی اور اس کی وجہ سے پورے عالمِ اسلام میں بھونچال آ گیا تھا۔
جبکہ واقعات ثابتہ کی ترتیب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت بھی اسی سبائی فتنہ کی ایک کڑی تھی، جس کی وجہ سے خلیفۂ مظلوم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہوئی۔ پھر اسی شہادت کے نتیجہ میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے دورِ خلافت میں جنگ جمل اور جنگِ صفین برپا ہوئیں۔ (۸) پھر اسی فتنہ کے زیرِ اثر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہوئی، ان کے فرزند ِ اکبر حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کو طرح طرح سے تنگ کیا گیا اور ان کو رُسوا و ذلیل کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا گیا۔ پھر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوتے ہی اس زیر زمین فتنہ کو ایک مرتبہ نئی قوت اور نئے حوصلوں کے ساتھ سر اٹھانے کا موقع ملا، جس کے نتیجہ میں حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کا حادثۂ جانکاہ پیش آیا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
یزید کا کردار کیا تھا؟ یزید کی امارت حق بجانب تھی یا نہیں؟ اور یزید کی امارت سے اس وقت کے اہل الرائے متفق تھے یا نہیں؟ ان متنازعہ بحثوں میں پڑے بغیر ہم ایک متفق علیہ بات جانتے ہیں کہ یزید کی امارت سے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو اتفاق نہ تھا اور انھوں نے یزید کی خلافت کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا، کوفہ کے سبائیوں نے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے نام خطوط لکھ کر اور ان کی خدمت میں اپنے وفود بھیج کر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو یہ کھلا ہوا فریب دیا کہ عراق کے تمام باشندے آپ کے مؤقف سے پوری طرح متفق ہیں، وہ یزید کی بیعت کا قلادہ اپنی گردنوں سے اتار کر، بس آپ کے منتظر ہیں کہ آپ تشریف لائیں اور یہ تمام لوگ آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کریں۔ یہ وہی سبائی تھے، جنھوں نے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے والد بزرگوار حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو اسی طرح فریب دے کر اپنی وفاداری کا اس درجہ یقین دلایا تھا کہ انھوں نے اپنا دار الخلافہ مدینہ طیبہ سے کوفہ منتقل کر لیا تھا۔ لیکن پھر ان کوفیوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ کس طرح دغا کی اور کس طرح ان کو خون کے آنسو رلائے اور کس طرح ان کو بے یار و مدد گا کیا اور بالآخر حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی شہادت کا واقعۂ ہائلہ پیش آیا؟ اس کی تفصیلات بیان کرنے کا نہ یہ موقع ہے، نہ ہی ان تسلیم شدہ حقائق کی تفصیلات بیان کرنے کی چنداں ضرورت ہے، حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے فرزندِ اکبر حضرت حسن رضی اﷲ عنہ، کچھ تو اپنی طبعی صلح پسندی کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے والد گرامی کے ان وفاداروں کی وفاداریاں اپنی آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی تھیں، ان سبائیوں کے نرغے میں نہیں آئے اور ان کوفی سبائیوں کے مشوروں کے علی الرغم انھوں نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ سے مصالحت کا تاریخ ساز فیصلہ کر کے خلافت سے دست برداری حاصل کر لی۔ اگرچہ اس مصالحت کے نتیجہ میں حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کو ان سبائیوں کے ہاتھوں بڑے روح فرسا مظالم برداشت کرنا پڑے، لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ سبائیوں کے دامِ تزویر سے صاف بچ کر نکل گئے۔ اب خانوادۂ رسالت کے تیسرے فرد حضرت حسین رضی اﷲ عنہ تھے، جن کو سبائیوں نے اپنا نشانہ بنایا اور یہ ایک کربناک سچائی ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ ان کوفی سبائیوں کی منظم سازش کے شکار ہو گئے اور اپنے قریب ترین و لائق اعتماد اعزہ مثلاً حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما اور حضرت محمد بن علی وغیرہما کی فہمائشوں اور دور رس مشوروں کو رد کر کے کوفہ کے لیے عازمِ سفر ہو گئے۔ مکہ میں حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو بتایا گیا تھا کہ صوبہ عراق کے تمام مسلمانوں نے آپ کے ہاتھوں پر خلافت کی بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور آپ کے نمائندہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں پر اٹھارہ ہزار افراد نے بیعت کر لی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد افراد آپ کے لیے چشمِ براہ ہیں اور انھوں نے ہر طرح آپ کا ساتھ دینے کے لیے طلاق و عتاق کی قسمیں کھا رکھی ہیں۔ اور یہ ساری یقین دہانیاں ان ساٹھ سبائیوں نے کرائی تھیں جو کہ کوفہ سے خاص اسی مقصد کو لے کر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے پاس آئے تھے کہ کسی بھی طرح ان کو کوفہ کے سفر کے لیے رضا مند کریں۔ سبائیوں کی اس مکر و فریب سے بھری شاطرانہ ساز ش کو مزید قوت اس خط سے بھی ملی جو حضرت مسلم بن عقیل کے نام سے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے پاس آیا تھا اور جس میں یہ درج تھا کہ آپ کی خلافت کے لیے میرے ہاتھوں پر بارہ ہزار افراد اب تک بیعت کر چکے ہیں (۹)۔ ان تمام واقعات سے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یزید کے خلاف ایک عوامی انقلاب کی ضرورت ہے اور اس انقلاب کی قیادت کے لیے متفقہ طور پر لوگوں کی نگاہیں میری طرف اٹھ رہی ہیں، چنانچہ وہ ایک عوامی مطالبہ کی تکمیل کی نیت سے مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو جستہ جستہ اصل حقیقت کا علم ہوتا گیا، پھر ان کو یہ بھی اطلاع مل گئی کہ ان کے نمائندہ حضرت مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ جب وہ مقامِ حاجر پہنچے تو یہ اعلان کر دیا کہ ہمارے گروہ کے لوگوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ مزید جو لوگ جانا چاہیں واپس جا سکتے ہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔
اس اعلان کے بعد کافی لوگ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو چھوڑ کر واپس چلے گئے، پھر جب کوفہ کے گورنر عبیداﷲ بن زیاد کے نمائندہ عمر بن سعد نے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ تو حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ ’’اے عمر! تین میں سے میری ایک بات مان لو، یا تو مجھے چھوڑ دو کہ میں جیسے آیا ہوں، ویسے ہی چلا جاؤں۔ اگر یہ نہیں تو پھر مجھے یزید کے پاس لے چلو تاکہ میں اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دوں، پھر وہ جو چاہے فیصلہ کرے اور اگر یہ بھی نہیں چاہتے تو مجھے ترکوں کی طرف جانے دو تاکہ ان سے جہاد میں میں اپنی جان دے دوں(۱۰) ۔
پھر کیا ہوا؟ پھر یقینا یہی ہوا کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی جنگ ٹالنے کی یہ مخلصانہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور دشمنانِ حسین رضی اﷲ عنہ نے ہاتھ آئے ہوئے شکار کو نکلتا دیکھ کر جنگ چھیڑ دی اور اس طرح تاریخِ اسلام کا یہ بدنما واقعہ پیش آ کر رہا کہ نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، شہید مظلوم حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہما نے اپنے خاندان کے کچھ قریبی اعزہ اور بہی خواہوں کے ساتھ کربلا کے میدان میں جامِ شہادت نوش کر لیا۔
سبائی سازش کامیاب ہو گئی، حسین رضی اﷲ عنہ شہید ہو گئے، مگر نہیں، سبائی نامراد ہوئے کیونکہ قاتلانِ حسین رضی اﷲ عنہ سے اپنا رشتہ جوڑنے والا کوئی نہیں ہے اور حسین رضی اﷲ عنہ سرخرو ہوئے کیونکہ
شہادت ہے مقصود و مطلوبِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
چند ضروری وضاحتیں:
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت یقینا تاریخِ اسلام کا ایک سیاہ صفحہ ہے، لیکن ابو مخنف سے پہلے اس حادثہ سے دل چسپی لینے والا اور اس کی تفصیلات کو چٹخارے لے لے کر بیان کرنے والا ہم کو کوئی نہیں ملتا، نہ آہ و فغاں ہے، نہ ماتم و شیون ہے اور نہ ہی یزید پر طعن اور اس کا دفاع ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے جواں عمر فرزند اور ان کے حقیقی وارث حضرت علی زین العابدین حادثۂ کربلا کے چشم دید گواہ تھے، پھر کیا وجہ ہے کہ ان کی طرف سے قصاص کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا، حادثۂ کربلا کے دو سال بعد جب حادثۂ حرہ پیش آیا تو حضرت زین العابدین اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے دوسرے افرادِ خاندان کے لیے بہت اچھا موقع تھا کہ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کا ساتھ دے کر یزید سے اپنے والد حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے خونِ ناحق کا انتقام لے لیتے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس موقع پر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے افرادِ خاندان میں سے کسی نے حضرت ابن زبیر رضی اﷲ عنہ کا ساتھ نہیں دیا۔ آخر ان حضرات کا یہ مؤقف کیوں تھا؟ پھر اس کے بعد جب سبائیوں نے ’’التَّوابُون‘‘ بن کر اور اپنی پچھلی حرکتوں پر ندامت کا اظہار کر کے خونِ حسین کا بدلہ لینے کے لیے اپنی جارحانہ تحریک شروع کی، تو حضرت زین العابدین یا دیگر بنی ہاشم نے ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا اور ان تحریکوں سے اپنے کو الگ کیوں رکھا؟ کیا کوئی جرأت مند ہے جو یہ کہہ سکے کہ حضرت زین العابدین اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے دیگر افرادِ خاندان کو حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی بے دردانہ، مظلومانہ شہادت سے رنج نہیں ہوا تھا؟ یا یہ کہنے کی کسی میں ہمت ہے کہ ان لوگوں کو رنج تو ہوا تھا، مگر یہ نعوذ باﷲ اتنے پست ہمت اور بے حمیت تھے کہ نہ انھوں نے قصاص کا مطالبہ کیا نہ ہی انتقام لینے کی بات کبھی سوچی؟ ہمارا خیال یہ ہے کہ بات ایسی نہیں ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ چونکہ یہ حضرات، ابو مخنف کی روایات کے ذریعہ نہیں بلکہ پوری صورتِ حال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کی وجہ سے اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اس افسوسناک اور قابلِ نفریں حادثہ کے لیے حکومتِ وقت، یا اس کا سربراہ یزید نہیں بلکہ کوفہ کے وہ سبائی ذمہ دار ہیں، جنھوں نے واقعات کی غلط تصویر پیش کر کے اور عوامی انقلاب کی ضرورت کا چکمہ دے کر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو کوفہ بلوایا تھا اور پھر کربلا کے میدان میں ان کو بے یار و مددگار کر کے اپنی گردن کٹوانے پر مجبور کر دیا تھا، اسی لیے نہ ان حضرات نے ’’التَّوابُون‘ ‘ کی توبہ تسلیم کی، نہ ان کو اپنا کسی قسم کا تعاون دیا، نہ ہی واقعۂ حرہ میں کسی طرف سے شرکت کی۔
اسی جگہ تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آجانا مناسب ہے کہ بعض لوگ حمایت ِ یزید کے جوش میں یزید اور اس کی حکومت کے خلاف حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے اس اقدام کو خروج یا بغاوت سے تعبیر کرتے ہوئے یزید کو برسر صواب اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو برسرِ خطا بتاتے ہیں۔ ایسا کہنے والے اُمّت کے اجماعی موقف کو کورانہ تقلید اور اپنی بے جا جسارت و گستاخی کو تحقیق کا نام دیتے ہیں۔ ہم ایسی تحقیق سے سو بار اﷲ کی پناہ مانگتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نے جن حالات اور جن خبروں کی بنیاد پر جو اقدام کیا، وہ برسرِ حق تھا اور ایک مجتہد مطلق ہونے کے ناتے ان کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا اقدام کرنا جائز بھی نہ تھا۔
جہاں تک اصحابِ تحقیق کا معاملہ ہے تو ان کی دلیل یہی ہے کہ چونکہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ یزید کی متفق علیہ اور قائم شدہ خلافت کے خلاف خروج کیا، اس لیے وہ بہرحال باغی قرار پائیں گے، قطعِ نظر اس کے کہ فضیلت و مرتبہ میں یزید کے مقابلہ میں حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کہیں بڑھے ہوئے تھے، لیکن شریعت مقدسہ کی واضح تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے اتفاق کے بعد کسی خلیفہ کے خلاف خروج کی اجازت نہیں ہے اور ایسے کسی اقدام کو خروج یا بغاوت ہی سے تعبیر کیا گیا ہے، جو بہرحال ایک جرم ہے۔
اس مغالطہ کی بنیاد اس بات پر ہے کہ پہلے یزید کی خلافت کو ایسی متفق علیہ قرار دے لیا گیا کہ گویا اہل الرائے افراد میں سے کسی کو اس سے اختلاف ہی نہ تھا اور پھر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے اختلاف کو ایک عامی کے اختلاف یا زیادہ واضح الفاظ میں حکومت کی ہوس سے تعبیر کر کے ان کے اقدام کو بغاوت قرار دے لیا گیا۔
حالانکہ واقعہ یہ نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یزید کی خلافت سے متعدد اہل الرائے اور مجتہد اصحاب رضی اﷲ عنہم مثلاً حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ، حضرت عبداﷲ بن عمرؓ، حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ اور حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے ولی عہدی کے وقت ہی اختلاف ظاہر کیا تھا، ان میں سے دیگر حضرات نے تو بعد میں اپنا اختلاف واپس لے لیا تھا، لیکن حضرت عبداﷲ بن زبیر اور اور حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہم کے متعلق واضح طور پر ہم کو یہ معلوم ہے کہ انھوں نے اپنا اختلاف واپس نہیں لیا تھا اور ان دونوں نے نہ ولی عہدی کی بیعت کی، نہ ہی بعد میں امارت قائم ہونے کے وقت۔ اگر ہم اس بات کو تسلیم بھی کر لیں کہ ان دونوں کا ہم نوا اور کوئی نہ تھا اور بقیہ تمام اہل الرائے حضرات نے یزید کی بیعت قبول کر لی تھی، تو بھی ان دونوں حضرات کے اختلاف کو بدنیتی اور حکومت کی ہوس سے تعبیر کرنا، ایک بے ہودہ جسارت کے سوا کچھ نہیں ہے، کیونکہ ان دونوں بزرگواروں کے مجتہد ہونے کی حیثیت سے انکار کرنے کی تو شاید کوئی بھی جرأت نہ کر سکے، پھر اگر دوسری تمام غیر معتبر اور تشنۂ تحقیق باتوں سے قطع نظر، انھوں نے صرف اپنے اجتہاد کی بنیاد پر پوری نیک نیتی کے ساتھ یزید کی خلافت قبول کرنے سے انکار کر کے ذاتی طور پر بیعت نہیں کی تو اسے کیونکر جرم گردانا جا سکتا ہے؟ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر دیگر تمام اہل الرائے حضرات نے بیعت کر لی تھی اور عوام نے یزید کو خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے تسلیم کر لیا تھا، تو حکومت قائمہ کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی نہ ان دونوں حضرات کو اجازت ہو سکتی تھی، نہ ہی کسی اور کو۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما اور حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہما دونوں میں سے کسی کے لیے کسی ضعیف سے ضعیف بلکہ موضوع روایت سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے بیعت سے انکار کے بعد خلافت سازی کی کوشش شروع کر دی ہو، جہاں تک حضرت حسین رصی اﷲ عنہ کا معاملہ ہے تو ان کو مکہ مکرمہ میں کوفیوں کے پیہم خطوط ملے کہ عراق کے لوگ یزید سے بیعت نہ کر کے آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرنا چاہتے ہیں، آپ فوراً کوفہ آ جائیے تاکہ اُمت مسلمہ اختلال و انتشار سے محفوظ ہو جائے۔ یہ خطوط کوفہ کے ایسے مقتدر و باعزت افراد کی طرف سے لکھے ہوئے تھے جن کے اصرار کو حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے ، پھر بھی انھوں نے احتیاط کے طور پر حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اﷲ کو صحیح صورتِ حال کا پتہ لگانے کے لیے کوفہ بھیجا۔ حضرت مسلم رحمہ اﷲ کی کوفہ روانگی سے پہلے اور بعد میں کوفہ کے سبائیوں کے متعدد وفود بھی حضرت حسین رضی اﷲ عنہ سے مکہ میں آ کر ملاقاتیں کر کے اور اسی مضمون کو بیان کر کے جو خطوط میں لکھا گیا تھا، حضرت حسین رضی اﷲ عنہ سے کوفہ کی طرف کوچ کرنے کی درخواستیں کرتے رہے تھے۔ پھر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے نمائندہ، حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اﷲ کی طرف سے وہ خط حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو ملا۔ جس میں لکھا گیا تھا کہ کوفہ کے بارہ ہزار، یا ایک روایت کے مطابق اٹھارہ ہزار اور ایک دوسری روایت کے مطابق ساٹھ ہزار افراد تک نے آپ کی خلافت کے لیے میرے ہاتھوں پر بیعت کر لی ہے اور یہاں عام طور پر لوگ انقلابِ حکومت چاہتے ہیں اور آپ کے سوا کسی دوسرے کو خلیفہ کی حیثیت سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پھر آخر کوفہ کے ساٹھ سبائیوں پر مشتمل وہ وفد حضرت حسین رضی اﷲ عنہ سے آ کر ملا، جس نے ہر طرح اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ تمام اہلِ عراق آپ اور صرف آپ کی خلافت پر متفق ہو چکے ہیں، بڑی تعداد میں لوگوں نے یزید کی حکومت قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور وہ یزید کے عمال کے مظالم کے شکار ہو رہے ہیں، بقیہ لوگ آپ کے کوفہ پہنچنے کے منتظر ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ کوفہ کے واقعی حالات وہ نہیں تھے، جو حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے سامنے بیان کیے گئے تھے اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ تک خطوط اور وفود کے ذریعہ پہنچائی جانے والی یہ تمام خبریں کوفہ کے ان تھوڑے سے سبائیوں کی سازش کا ایک حصہ تھیں، جنھوں نے اس سے پہلے اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو بھی فریب دیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے لیے اس بات پر یقین کر لینے کے لیے کافی اسباب نہ تھے کہ عراق کے لوگ عوامی انقلاب کے ذریعہ حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور میرے سوا کسی دوسرے کی قیادت پر وہ لوگ متفق نہیں ہو سکتے ہیں؟ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ، حضرت عبداﷲ بن عباسؓ، حضرت عبداﷲ بن جعفرؓ اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہم کے دوسرے، جن ہمدردوں و بہی خواہوں نے ان کوکوفہ جانے سے روکا تھا، وہ ان کے سابقہ تجربات کی بنیاد پر تھا، جو اہلِ کوفہ کی طرف سے اب تک ہوئے تھے۔ اور جن سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یہ لوگ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاندان اور ان کے ذریعہ برپا ہونے والے دین کے دشمن ہیں اور ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ ان پر اعتماد کیا جا سکے۔ اس کے برخلاف حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے اطمینان کے لیے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان کے نمائندہ مسلم بن عقیل رحمہ اﷲ نے بھی کوفہ پہنچ کر اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر وہی بات لکھی، جو کوفہ سے آنے والے لوگ زبانی بتا رہے تھے، ان حالات میں اگر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نے عوامی انقلاب کی قیادت کے خیال سے مکہ مکرمہ سے کوفہ کا سفر شروع کیا، تو اسے خروج یا بغاوت سے تعبیر کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ بغاوت نام ہے کسی متفق علیہ اور قائم شدہ حکومت کے خلاف کسی فرد یا چند افراد پر مشتمل ایک چھوٹے سے گروہ کے اقدام کا، جبکہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا معاملہ اس سے بالکل مختلف تھا، وہ تو اپنے علم و یقین کے مطابق عراقی عوام کو ان کی خواہش و اصرار پر مظالم سے بچانے، ان کو متحد کرنے اور خلافتِ اسلامیہ عطا کرنے کا جذبہ لے کر روانہ ہوئے تھے۔ اس پس منظر میں حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی مکہ سے روانگی کو خروج اور بغاوت سے تعبیر کرنا بہت ہی سنگین جسارت اور بہت بڑا ظلم ہے، پھر ایسی صورت میں جبکہ بعد کے واقعات نے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے موقف اور ان کے ارادوں کو پوری طرح واضح کر دیا، کہ کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی جب ان کو حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اﷲ کی شہادت اور دوسرے واقعات سے یہ یقین ہو گیا کہ پرانے شکاریوں نے نئے جال کے ذریعہ فریب دیا ہے۔ اور پھر کوفہ پہنچ کر اور اہلِ کوفہ سے ملک کر جب انھیں یہ معلوم ہو گیا کہ یہاں کوئی عوامی شورش نہیں ہے، کوفہ کے مقتدر و اہل الرائے افراد یزید کی بیعت پر عام طور پر قائم ہیں، ان کے نام سے میری طرف بھیجے گئے خطوط جعلی تھے اور یزید اور اس کے عمال مکہ سے میرے کوفہ آنے کو حکومتِ وقت کے خلاف خروج سمجھ رہے ہیں، نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ کی جگہ عبید اﷲ بن زیادہ کو کوفہ کا گورنر اسی لیے مقرر کیا جا چکا ہے کہ وہ پوری مستعدی اور فوجی قوت کے ساتھ میرا مقابلہ کرے، وہ لوگ جنھوں نے ساتھ دینے اور بیعت کرنے کے وعدے کیے تھے، سب غائب ہو چکے ہیں، غرضیکہ جب حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو پوری طرح اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ مکہ میں بتائے گئے حالات سے کوفہ کے حالات بالکل مختلف ہیں اور یہاں کسی عوامی انقلاب کی نہ طلب ہے اور نہ موقع تو انھوں نے عبیداﷲ بن زیادؓ کے نمائندہ عمر بن سعد سے صاف صاف کہہ دیا کہ:
’’میری تین باتوں میں سے ایک مان لو، یا مجھے واپس جانے دو، یا یزید کے پاس پہنچا دو یا ترکوں کی طرف جانے دو تاکہ میں ان سے جہاد کر سکوں‘‘۔
مگر ان سبائیوں کو جو ہزار جتن کر کے اور شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر نہ جانے کن کن مکاریوں سے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو یہاں لائے تھے، یہ کیونکر گوارہ ہو سکتا تھا کہ اب حضرت حسین رضی اﷲ عنہ بچ کر نکل جائیں؟ کیونکہ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ یہاں سے زندہ واپس چلے گئے تو ہماری ساری سازش کھل کر رہے گی اور یزید پر حسین رضی اﷲ عنہ کی بے گناہی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر ہو کر رہے گا کہ حسین رضی اﷲ عنہ کو کس طرح کوفہ کا سفر کرایا گیا اور کن کن لوگوں کا اس میں ہاتھ تھا؟ اور یہ سب ظاہر ہونے کے بعد ان سبائیوں کو اپنا انجام معلوم تھا، اس لیے انھوں نے ڈھکا پردہ، ڈھکا رکھنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی اور نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اﷲ عنہ پر وہ جنگ مسلط کر دی جو بالآخر ان کی مظلومانہ شہادت پر ختم ہوئی۔
یہ ہیں وہ حقائق، جن سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نے مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوتے وقت جو مؤقف اختیار کیا تھا، وہ اس وقت کے معلوم حالات و اخبار کی بنا پر بالکل مناسب اور درست تھا، پھر جب ان کے سامنے حالات و واقعات کی صحیح صورت آئی اور انھوں نے اپنے مؤقف میں تبدیلی کی وہ اس وقت کے لحاظ سے بالکل درست و مناسب تھا۔
سچائی یہ ہے کہ نہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو خلافت و امارت کی ہوس تھی، نہ وہ اُمّت کے خون میں اپنے ہاتھ رنگنا پسند کرتے تھے اور نہ ہی اپنی اور اپنے افرادِ خاندان کی بربادی و ہلاکت کو پسند کرتے تھے، جو کچھ ہوا، وہ سبائیوں کی نہایت منظم اور منصوبہ بند سازش سے ہوا۔ جس کے لیے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو کسی طرح ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا، اس لیے جو لوگ یزید کی حمایت کے جوش میں مقامِ حسین رضی اﷲ عنہ کو فراموش کر کے ان پر خروج و بغاوت کی پھبتی کستے ہیں، وہ نہ صرف کردارِ حسین رضی اﷲ عنہ کو مجروح کر کے ان کی مظلومیت میں اضافہ کرتے ہیں، بلکہ تاریخ کو مسخ کر کے ناقابلِ معافی مجرمین کی فہرست میں اپنا نام درج کراتے ہیں۔
اسی سلسلہ کی ایک اور بات بھی ہے کہ جس کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے قتل کا یزید کی طرف انتساب بھی سبائیوں کی اسی مکروہ سازش کا ایک حصہ ہے، جس کے ذریعہ وہ اسلام کے خوبصورت پیکر کو داغدار بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی الم ناک شہادت کا حادثہ یزید کے دورِ امارت میں پیش آیا۔ لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہی نہیں ہے کہ یہ شہادت یزید کے حکم یا اس کے ایما سے ہوئی تھی، کیونکہ یزید کے سلسلہ میں کسی کمزور سے کمزور تاریخی روایت میں بھی یہ بات نہیں بیان کی گئی ہے کہ اس نے کسی بھی شخص کو حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے قتل کا حکم دیا ہو، یا قتلِ حسین رضی اﷲ عنہ پر اپنی رضامندی ظاہر کی ہو، بلکہ حافظ ابن کثیر تو تحریر کرتے ہیں کہ:
’’حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما کے ایک آزاد کردہ غلام کا بیان ہے کہ جب یزید کے سامنے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا سر مبارک لا کر رکھا گیا تو میں نے اسے روتے دیکھا، اس نے کہا کہ اگر ابن زیاد اور حسین رضی اﷲ عنہ میں باہم کوئی رشتہ ہوتا تو وہ (حسین ؓ کے ساتھ) ایسا معاملہ نہ کرتا۔ (البدایہ والنہایہ، ج: ۸، ص: ۱۷۱)
اسی طرح ایک دوسری روایت کے مطابق:
’’جب حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا سر مبارک یزید کے سامنے آیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے اپنے لشکر کے لوگوں سے کہا کہ اگر تم حسینؓ کو قتل نہ کرتے تو میں تم سے کچھ نہ کہتا۔ اﷲ ابنِ سمیہ (ابن زیاد) پر لعنت کرے، خدا کی قسم! اگر میں ہوتا تو حسین رضی اﷲ عنہ کو معاف کر دیتا (قتل نہ کرتا)۔ (الاصابہ، ج: ۱، ص: ۱۹۰)
اس قسم کے اور بھی بیانات تاریخ کی مختلف کتابوں میں یزید سے منسوب ہیں، جن سے یہی واضح ہوتا ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت پر اپنے رنج اور افسوس کا اظہار کیا، اس لیے یزید کو قاتلِ حسین رضی اﷲ عنہ کے نام سے یاد کرنا اور یزید کے نام سے اس طرح نفرت کرنا کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اﷲ عنہم کے غیر نزاعی قاتلوں کے نام بے تکلف لیے جائیں اور اپنے بچوں کے نام حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے مجوسی قاتل کے نام پر فیروز رکھ دیے جائیں تو کچھ حرج نہیں، لیکن یزید کا نام اس لیے نہ آنے پائے کہ وہ قاتلِ حسین رضی اﷲ عنہ ہے، انتہائی احمقانہ اور گمراہ کن خیال ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ کہ یزید کا قاتلِ حسین رضی اﷲ ہونا، یا قتلِ حسین رضی اﷲ عنہ پر راضی ہونا کہیں سے ثابت نہیں ہے، یزید کے نام کے بہت سے دوسرے اصحاب کرام رضی اﷲ عنہم و تابعین عظام گزرے ہیں، لہٰذا اس نام سے نفرت انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
کچھ لوگ یزید کے قتلِ حسین رضی اﷲ سے راضی ہونے پر اس بات سے استدلال کرتے ہیں کہ اگرچہ یزید کا حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو شہید کرنے کا حکم تو نہیں ملتا، لیکن اگر اسے واقعی یہ امر ناگوار گزرا ہوتا تو اس نے قاتلانِ حسینؓ سے قصاص لیا ہوتا اور مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچایا ہوتا، جس کا ثبوت نہیں ملتا، تو یہ استدلال انتہائی بے ہودہ ہے۔ کیونکہ اوّلاً تو جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے ورثاء کی طرف سے قصاص کا مطالبہ نہیں کیا گیا، جبکہ یہ ان ہی کا حق تھا، پھر اس کی بھی وضاحت ہو گئی کہ قتلِ حسین رضی اﷲ عنہ میں سبائیوں کی گہری اور منصوبہ بند سازش کا دخل تھا اور کسی ایک فرد کو اس سلسلہ میں نامزد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایسے حالات میں حکومتِ وقت کی کچھ انتظامی مجبوریاں ہوتی ہیں اور ان تمام افراد کو جو کسی بھی درجہ میں سازش کے شریک ہوں، قابلِ مواخذہ قرار دینے میں بدامنی اور خلفشار پھیلنے کا شدید خطرہ ہوتا ہے، جس کی رعایت سے حکمران کو ایسے معاملات کو معرض التوا میں ڈال کر مناسب وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے قاتلوں کے سلسلہ میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کیا تھا۔ اور باوجود شدید مطالبہ کے وہ قاتلانِ عثمان رضی اﷲ عنہ سے قصاص نہیں لے سکے تھے، لیکن اس کے باوجود کوئی صاحبِ ایمان ہرگز نہ یہ کہہ سکتا ہے، نہ ہی خارجیوں کی اس بے بنیاد پر کوئی یقین کر سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قتل میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ شریک تھے۔ سبحانک ہٰذا بہتان عظیم ۔
پھر کیا وجہ ہے کہ صرف قاتلانِ حسین رضی اﷲ عنہ سے انتقام نہ لے سکنے کی بنیاد پر یزید کو قتلِ حسین رضی اﷲ عنہ میں شریک ہونے یا اس پر راضی ہونے کا مجرم گردانا جائے؟
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی اصل مظلومیت:
مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ یقینا تاریخ کے ایک ناقابلِ فراموش مظلوم ہیں، لیکن ان کی اصل مظلومیت یہ نہیں ہے کہ وہ شہید ہو گئے، بلاشبہ کربلا کے میدان میں ان کی شہادت بھی ان کی مظلومیت کا ایک عنوان ہے، مگر یہ وہ شرف نہیں ہے جس کو پہلی مرتبہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ ہی نے حاصل کیا ہو، ان سے پہلے ان سے کہیں زیادہ مظلومیت کے ساتھ ان کے خالو اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہو چکی تھی، پھر ان سے بھی پہلے اسلام کی راہ میں شہادت پیش کرنے والی پہلی خاتون حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا بھی ناقابلِ فراموش ہیں، جن کو مشہور دشمنِ اسلام اور محرومِ ازلی ابو جہل بن ہشام نے ٹانگیں چروا کر شہید کیا تھا۔
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی اصل مظلومیت یہ ہے کہ ان کے قاتل ہی ان کے سب سے بڑے دوست اور ان کے غم میں آنسو بہانے والے بن بیٹھے اور اس طرح انھوں نے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے اصلی اسباب و محرکات کو اوجھل کر دیا۔
اگر حادثۂ کربلا کی سبائی تفصیلات کو صحیح تسلیم کر لیا جائے اور یہ خلافِ واقعہ بات مان لی جائے کہ مکہ مکرمہ سے روانگی کے وقت سے تادمِ شہادت، حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، تو پھر ناصبیوں و خارجیوں کے اس الزام کے دفاع کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ (معاذ اﷲ) باغی تھے، کیونکہ اس واقعہ سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ یزید کے ہاتھ پر بیعت ہو چکی تھی اور تمام صوبوں میں اسی کے عامل کام کر رہے تھے۔ عراق کے بارے میں خطوط اور وفود کے ذریعہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو جو اطلاعات دی گئی تھیں، وہ بالکل غلط تھیں۔ حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں پر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے لیے جن بارہ ہزار، اٹھارہ ہزار یا ساٹھ ہزار لوگوں نے بیعت کی تھی، وہ بھی ایک دھوکا ہی تھا، کیونکہ وقت پڑنے پر کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو صرف بہتر نفر پر مشتمل ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ جس میں نابالغ بچے اور ضعیف العمر افراد بھی شامل تھے، چار ہزار کی فوج سے مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ ایسی صورت میں کیا یہ کہنے کی کوئی گنجائش ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ عوامی مطالبہ پر ایک عوامی انقلاب کی قیادت کر رہے تھے؟ اگر نہیں تو حالات سے واقف ہونے اور عوامی تائید نہ حاصل ہو سکنے کے بعد جنگ میں حصہ لینے کے لیے کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں تو ایک مرتبہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو شہید کر کے ان پر ظلم کیا گیا، لیکن سبائیوں اور پھر ان کے جواب میں ناصبیوں و خارجیوں نے میٹھے اور کڑوے انداز میں حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی کردار کشی کر کے نہ جانے کتنی کربلاؤں سے ان کو گزار دیا، بس یہی ہے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی اصل مظلومیت۔
اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو ابو مخنف کی دروغ گوئیوں پر یقین نہ کر کے اسے رد کرنے اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے حقیقی پس منظر اور پاک مقصد کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)
﴿ حواشی ﴾
(۱) حضرت حسن رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ دونوں کی تاریخِ ولادت کے سلسلہ میں بھی متعدد اقوال ہیں اور اس سلسلہ میں بھی کہ ان دونوں بھائیوں کے درمیان عمروں کا کتنا تفاوت تھا؟ حافظ ابن کثیر، علامہ ابن عبدالبر اور علامہ ابن الاثیر جزری اور اکثر دوسرے مؤرخین کے بیان کے مطابق حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کی ولادت رمضان ۳ھ میں اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی ولادت شعبان ۴ھ میں ہوئی، اور اس طرح ان دونوں کے درمیان ۱۱ ماہ کا فرق تھا، اس کے علاوہ دوسرے اقوال بھی ہیں، حتیٰ کہ بعض لوگوں نے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کی ولادت ۷ھ اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی ولادت ۹ھ بتائی ہے اور ان دونوں کے درمیان عمروں کا تفاوٹ ڈیڑھ سال بتایا ہے، مگر مشہور قول وہی ہے جس کا ذکر پہلے کیا گیا۔
(۲) صبحت طویلہ: حضرت سعید بن مسیب کے قول کے مطابق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سال کے قیام سے پوری ہو جاتی ہے۔ (فتح الباری، ج: ۷، ص: ۲)
(۳) فتح الباری، ج: ۷، ص: ۲
(۴) یہ محدثین کی خالص علمی و اصطلاحی بحث ہے، جو انھوں نے روایت حدیث کے سلسلہ میں اٹھائی ہے اور عام مسلمان من حیثت الرویۃ صحابی ہونے اور من حیث الروایت صحابی نہ ہونے کے فرق کو جانتا بھی نہیں ہے، اس لیے مطلقاً اس کے سامنے کسی شخص کے بارے میں یہ فیصلہ آنا کہ وہ صحابی ہے یا صحابی نہیں ہے، اس کے مذہبی جذبات کے رخ کی تعیین کا ذریعہ بنتا ہے اور یہ بالکل ظاہر بات ہے، جس کا تعلق عقیدہ سے ہے کہ ایک صحابی اور ایک غیر صحابی کے مقام میں نمایاں فرق ہے۔
(۵) جابر بن یزید بن الحارث جعفی۔ علماءِ شیعہ میں سے ہے۔ امام شعبی، امام ابو حنیفہ، لیث بن سلیم نے اسے کذاب قرار دیا ہے، نسائی وغیرہ نے اسے متروک قرار دیا ہے، ابو داؤد اسے قوی نہیں کہتے، جریر بن عبدالحمید نے اس سے روایت کو حلال نہیں جانا، یحییٰ نے کہا کہ نہ اس کی کوئی حدیث لکھی جائے نہ کرامت۔ (میزان الاعتدال، ج:۱، ص: ۱۷۶)
(۶) مجالد بن ابی راشد: امام احمد نے اسے لا شئے قرار دیا ہے، کیونکہ یہ موقوف روایات کو مرفوع بنا یا کرتا تھا۔ (لسان المیزان، ج: ۵، ص: ۱۶)
(۷) لسان المیزان، ج: ۵، ص: ۱۰۲
(۸) حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے دورِ خلافت کی تیسری جنگ نہروان بھی سبائی سازش ہی کے نتیجہ میں برپا ہوئی تھی، جو اگرچہ کھلی ہوئی حق و باطل کی جنگ نہ تھی، کیونکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مخالفین اور ان کے مقابلہ پر آنے والے خارجی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو نعوذ باﷲ مرتد قرار دے رہے تھے، لیکن اسلام اور اَعیانِ اسلام کو مٹانے کی سبائی سازش ہی کی اس میں بھی کار فرمائی تھی۔
(۹) اس خط کی روانگی کے بعد حضرت مسلم رحمہ اﷲ کی شہادت اور کوفہ پہنچنے پر کوفہ کے لوگوں کا حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے نام کوئی خط بھیجنے سے انکار کرنا اور ان ساٹھ سبائیوں تک کا حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی مدد سے منہ پھیرنا جو مکہ سے ان کے ساتھ آئے تھے، یہ قرائن ہیں جن سے یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اﷲ کی طرف سے لکھا جانے والا یہ خط بھی حضرت مسلم رحمہ اﷲ کا نہ تھا، بلکہ یہ بھی ان سبائیوں کا ہی لکھا ہوا تھا۔
(۱۰) کوفہ کے لوگوں کے خطوط بھیجنے سے لے کر یہاں تک کے واقعات کی تفصیلات البدایہ والنہایہ ج: ۸، ص: ۱۵۲ تا ۱۶۲، اور الاصابہ، ج: ۱، ص: ۱۶۸ تا ۱۷۰ سے ماخوذ ہیں۔
٭……٭……٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.