حبیب الرحمن بٹالوی
شکر عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی کا احسان تسلیم کر کے اعلان کرنا۔ تھوڑے پر زیادہ عطا کرنا۔ وہ فعل جو محسن کی تعظیم کا اظہار کر سکے۔
رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :’’سب سے پہلے نعمت کے جواب میں شکر کرنے والے (الحامدون) کو جنت میں بلایا جائے گا جو وسعت و تنگی ہر حال میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔‘‘
شیطان نے جو سراپا سرکشی ہے، کہا تھا ’’تو میں ضرور آپ کی سیدھی راہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں پھر آپ ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والا نہ پائیں گے‘‘ اس سے معلوم ہوا ناشکری کرنا شیطان کو خوش کرنا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ بندے اﷲ کا شکرادا نہ کریں۔
علامہ ابن قیم رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں شکر کا مطلب ہے بندے کی زبان پر اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا اثر اعتراف بنا کی شکل میں ۔ دل پر حضور شہود اور محبت کی شکل میں اور جسم کے اعضا پر اطاعت و فرمانبرداری کی صورت میں ظاہر ہو۔
بعض بزرگ کہتے ہیں کہ شکر اس بات کا نام ہے کہ محسن کی نعمت کااعتراف، عاجزی کی صورت میں کیا جائے۔ شکر اکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ فرض کی ادائیگی کے بعد نفلی نیکیاں بھی کرے۔ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ عمل کہ رات کو عبادت میں کھڑے کھڑے قدم مبارک میں ورم آجاتا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ’’کیا میں اﷲ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘
کَسے را کہ باشد دل حق شناس نشاید کہ بندد زبانِ سپاسی
(جس کا دل حق شناس ہوتا ہے، وہ شکر سے زبان کو روکنا مناسب نہیں سمجھتا)
اﷲ پاک کہتے ہیں ’’ او رمیرا احسان مانو، ناشکری نہ کرو‘‘ (البقرہ)
ایک دوسری جگہ فرمایا: ’’ہم نے انسان کو تاکید کی میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کر۔ یعنی میرا اور اپنے والدین کا حق مان، آخر تجھے میرے پاس آنا ہے۔ ‘‘(لقمان)
ایک حدیث پاک میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور جب یہ پڑھا پھر اس دن تم سے ساری نعمتوں کے بارے یں باز پرس ہوگی۔‘‘ (التکاثر)
تو ارشاد فرمایا کہ تمہارے رب کے سامنے ٹھنڈے پانی کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ مکان کے سائے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پیٹ بھر کر کھانے کی بابت سوال ہوگا۔ جسمانی اعضاء کے صحیح سالم ہونے کے بارے میں پوچھائے گا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جن نعمتوں کا سوال ہوگا وہ بدن کی صحت اور ٹھنڈا پانی ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے داؤد کے گھر والوں! شکر ادا کرو۔ (السباء)
ایک بزرگ فرماتے ہیں جب یہ حکم ہوا تو اس کے بعد ہر وقت حضرت داؤد علیہ السلام کے گھرو الوں میں سے کوئی نہ کوئی فرد عبادت میں مصروف رہتا۔
ایک دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور اﷲ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ بارش کی خوشخبری دیتی ہیں اور اس لیے کہ تمہیں اپنی رحمت سے (پھلوں اور غلوں کے) مزے چکھائے۔ نیز اس لیے کہ اس کے حکم سے بحری جہاز چلیں اور اس لیے کہ تم اس کا فضل (سمندری راستے سے تجارت کے منافع) حاصل کرو اور اس لیے بھی کہ تم شکر ادا کرو۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی ایسا نہی کہ جس پر روزانہ کا صدقہ (شکر ادا کرنا) واجب ہو۔ [الروم۔۴۶]
عرض کیا، یارسول اﷲ! ہمارے پاس مال کہاں کہ ہم اس کا صدقہ کریں؟ ارشاد فرمایا: نیکی کی کئی صورتیں ہیں سبحان اﷲ، الحمدﷲ، اﷲ اکبر کہنا، لا الہ الاﷲ کہنا، نیکی کا حکم کرنا، برائی سے منع کرنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا، کمزور سماعت والے کو بات سنوا دینا، نابینا کو راہ دکھا دینا، ضرورت کی تکمیل کی صورت ڈھونڈنے والے کی رہنمائی کر دینا، ہاتھوں سے کمزور کا بوجھ اٹھوا دینا۔ یہ سب تمہاری طرف سے اپنی جان کا صدقہ (شکر ادا کرنا)ہے۔
حضرت ابودردا رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: ’’صحت ، آدمی کی دولت مندی ہے‘‘
یونس بن عبید سے کسی آدمی نے اپنی تنگدستی کی شکایت کی تو فرمایا: ’’کیا خیال ہے جن آنکھوں سے تم دیکھ رہے ہو ان کا ایک لاکھ دے دوں؟ اس نے کہا نہیں نہیں آپ نے اسی طرح اور نعمتوں کا ذکر کے فرمایا: میاں! تم لاکھوں کے مالک ہو پھر بھی شکایت کرتے ہو؟
وہب بن عتبہ رحمتہ اﷲ فرماتے ہیں ’’حضرت داؤد علیہ السلام کے خاندان کے ہاں یہ بات لکھی ہوئی تھی ‘‘ عافیت مخفی بادشاہت ہے۔
ایک بزرگ کہتے ہیں: خاموشی سے کام کرتی ہوئی تمہاری ہر رگ میں نہ معلوم کتنی نعمتیں مخفی ہیں۔
حضرت بکرغزنی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: اے ابن آدم ! اﷲ پاک کی نعمتوں کی قدر جاننا چاہتے ہو تو آنکھوں کے نہ ہونے کا تصور کر کے دیکھو اور ذراآنکھیں بند کر کے کوئی کام کر دکھاؤ!
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں لوگ خسارہ اٹھا رہے ہیں۔ صحت اور فرصت حضرت داؤدعلیہ السلام فرمایا کرتے اے اﷲ! اگر میرے جسم کے ایک ایک بال کی جگہ دو دو زبانیں ہوں اور وہ رات دن آپ کی تسبیح میں مشغول رہیں تو بھی آپ کی نعمت کا شکر ادا نہیں ہوسکتا۔
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ فرماتی ہیں: جو آدمی صاف پانی پیئے اور وہ بغیر تکلیف کے اس کے اندر چلاجائے اور بغیر تکلیف کے خارج ہوجائے تو اس پر شکر واجب ہے۔
سفیان ثوری رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: بندہ اپنی حاجت مندی کے دوران، اﷲ پاک کی بارگاہ میں جتنا گڑگڑاتا ہے اﷲ پاک کی عطا اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
سلام بن مطیع رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں میں ایک مریض کے ہاں گیا تو وہ تکلیف کا اظہار کرنے لگا میں نے کہا ان لوگوں کو یاد کر جو راستے میں پڑے ہوئے ہیں۔ نہ ان کا کوئی ٹھکانہ ہے نہ کوئی پوچھنے والا۔ اس کے بعد میں پھر گیا تو وہ مطمئن تھا اور کہنے لگا میں راستوں میں پڑے ہوئے لوگوں کو یاد رکھتا ہوں۔ جن کا کوئی ٹھکانہ ہے اور نہ کوئی خدمت گار۔
رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جہنم دکھائی گئی تو وہاں اکثریت عورتوں کی تھی جو کہ ناشکری کرتی ہیں۔ عرض کیا گیا اﷲ پاک کی ناشکری کرتی ہیں؟ فرمایا خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اگر تم عمر بھر عورت سے حسن سلوک کرو۔ پھر اگر کبھی اس نے تم سے کوئی ناگواری محسوس کی تو کہے گی میں نے تم سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔
ایک بزرگ کہتے ہیں: بندے کو چاہیے کہ حمد و استغفار میں مشغول رہے۔ کیونکہ بندہ، نعمت و گناہ کے درمیان ہے۔ نعمت کا معاملہ شکر سے درست ہوتا ہے اور گناہ سے چھٹکارا، استغفار و تو بہ سے ملتا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: حضرت داؤد علیہ السلام کے دل میں خیال آیا کہ اﷲ تعالیٰ کی جیسی میں تعریف کرتا ہوں اور کون کرتا ہوگا۔ ایک دفعہ اپنی عبادت گاہ میں بیٹھے تھے تو فرشتہ آیا او رکہا: اے داؤد! مینڈک کی آواز آرہی ہے؟ اسے غور سے سنو۔ آپ علیہ السلام مینڈک کی آواز کی طرف متوجہ ہوئے فرشتے نے کہا آپ سمجھے یہ کیا کہہ رہاہے؟ یہ کہہ رہا ہے: ’’اے میرے پروردگار! آپ پاکیزہ ہیں آپ کی تعریف ہے وہاں تک جہاں تک آپ کے علم کی انتہا ہے‘‘۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبی بنایا میں نے اس ذات کی ایسی تعریف کبھی نہیں کی‘‘
(تلخیص کتاب ’’اَلشکر‘‘ علامہ ابن ابی الدنیاؒ)