سیدمحمد کفیل بخاری
رمضان المبارک کی ستائیسویں شب مسجد اقصیٰ میں ربّ کریم کے حضورسجدہ ریز نہتے مسلمان فلسطینیوں پر اسرائیلی یہودی فوجیوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے اپنی روایتی دہشت گردی کا آغاز کیا۔ پھر غزہ پر آتش و آہن کی بارش کرکے فلسطین کے مظلوم ، بچوں، بچیوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں کا قتل عام کرکے تہذیب جدید کی خباثت کا مظاہرہ کیا۔
صد آفرین اور صدہزاراں سلامِ محبت وعقیدت ان فلسطینی بھائیوں کو جنہوں نے57 مسلم ممالک کی مجرمانہ خاموشی اور عدم تعاون کے باوجود اپنے ایمان و استقامت کے ساتھ سفاک یہودی افواج کا مقابلہ کیا اور اسرائیل 11روزہ دہشت گردی کے باوجود فلسطینی مجاہدین کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ فلسطینی مزاحمت نے اب کی بار کئی حقائق کو از سرِ نو ثابت کیا ہے۔ مثلا یہ بات کہ ٹیکنالوجی اپنی پوری ترقی کے باوجود ایمان و عزم کا مقابلہ نہیں کر سکتی، یا یہ بات کے اسرائیلی فوج نا قابلِ شکست نہیں ہے بلکہ اس کا سارا رعب داب مسلم ممالک کے نا اہل فوجیوں کی وجہ سے ہے جو استعمار کے کارندے ہیں اور اپنی ہی قوموں کو فتح کرنے کے سوا کچھ نہیں جانتے۔مزاحمت کرنے والوں کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ جیت کر بھی دکھائیں ان کی طرف سے تو اتنا ہی ثابت کر دینا کافی ہے کہ مزاحمت ممکن ہے اور بزدل جھوٹ بولتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کے کسی نبی و رسول نے کفر وطاغوت سے مفاہمت نہیں مقابلہ کیا، بھر پور مزاحمت کی اور اﷲ کے مقابلے میں کسی نظام کے جبر کو تسلیم نہیں کیا۔ استطاعت کے مطابق مزاحمت ہی سلامتی، عزت اور وقار کا راستہ ہے۔ اُمت کی جو جماعت بھی استقامت اختیار کرے گی، دنیاوآخرت میں وہی کامیاب ہوگی۔ جس نے مداہنت اختیار کی وہ نشان عبرت بن گئی۔
اسرائیل کے ساتھ چار مسلم ممالک کی سر حدات ملتی ہیں۔ اردن، شام، لبنان اور مصر۔ اردن کی آبادی تریسٹھ لاکھ، شام دوکروڑ چوبیس لاکھ، لبنان چوالیس لاکھ اور مصر آٹھ کروڑ پینتالیس لاکھ ہے۔ چاروں پڑوسی مسلم ممالک کی کل آبادی گیارہ کروڑ چھہتر لاکھ ہے۔ جبکہ اسرائیل بیاسی لاکھ آبادی پر مشتمل ہے۔ افسوس ان میں سے کسی ملک نے بھی اپنے فلسطینی پڑوسیوں کی کبھی کوئی مدد نہیں کی۔ غزہ کو زمینی راستہ صرف مصر سے جاتا ہے جو بارہ کلومیٹرکے فاصلے پر ہے۔ مصر نے اس راستے کو بھی بند کرکے غزہ کے فلسطینی بھائیوں کو تنہا کردیا۔ دوسری طرف سعودی عرب کے خادم الحرمین نے محمد مرسی رحمہ اﷲ کی حکومت ختم کرکے برسر اقتدار آنے کے لیے جبر و تشدد کے سبھی غیر انسانی حربے برتنے والے جنرل سیسی کو اربوں ڈالر کی امداد سے نوازا۔
کبھی مٹھی بھر مسلمان دنیا پر غالب تھے لیکن آج 57مسلم ممالک عالمی استعمار اور اس کے ذیلی صہیونی مالیاتی اداروں کے غلام بے دام ہیں۔ اس کا ایک ہی سبب ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام و ہدایات سے عملی بغاوت کی۔ اپنے مظلوم بھائیوں کو تنہا کیا، نتیجتاً خود بھی تنہا ہوگئے۔ دنیا بھر میں عالمی طاغوت مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے اور یہ اپنی عشرت گاہیں آباد کیے میڈیا میڈیا کھیل رہے ہی۔ پاکستانی میڈیا نے تو حضرت امام مہدی کی آمد اور وقوعِ قیامت کی پیش گوئی کرکے سات مہینوں کی مُدت بھی متعین کردی ہے۔ حالانکہ اس کی تعین قرآن میں ہے نہ حدیث میں۔ 2012ء میں بھی آمد مہدی اور قیام قیامت کی تاریخیں دی گئی تھیں لیکن امام آئے نہ قیامت۔
مظلوم فلسطینی گزشتہ پون صدی سے صہیونی و طاغوتی جبرو مظالم کے مقابلے میں استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں ان شاء اﷲ ایک دن وہ ضرور کا میاب ہوں گے۔ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْن، تم ہی غالب ہوگے اگر تم ایمان والے ہو۔ وَکَانَ حَقاًّ عَلَیْنَا نَصْرُالْمُؤْمِنِیْن۔ اور ایمان والوں کی مدد کرنا ہم نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
پاکستان کے سیاسی فیصلہ ساز اپنی تاریخ میں کبھی امت کے بین الاقوامی تقاضوں سے وابستہ نہیں رہے۔ اس بار غزہ کے مظلوموں کی استقامت نے ان کی بھی لب کشائی کرا ہی دی۔فلسطین واقصیٰ کے صابر مرابطین کو اگرچہ کسی کی حمایت و نصرت کی نہ ضرورت ہے اور نہ کوئی خاطر خواہ فائدہ…… لیکن اتنا تو ہے کہ ان کی عزیمت اور ثبات نے سکہ بند سنگ دل اور بے حس افراد و اداروں کو کم از کم بات کرنے پر تو مجبور کر ہی دیا۔پاکستانی حکمرانوں کی نا اہلی میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ لیکن اب کی بار ہمارے مقدر میں تاریخ کی نا اہل ترین اپوزیشن بھی لکھی گئی ہے۔دونوں بڑی پارٹیاں اور ان کے حاشیہ بردار ہر لمحہ اپنی لائن سیدھی کرنے کے چکر میں ہیں۔ ذاتی مفاد کی دوڑ میں اصولوں اور نظریات سے اتنا شدید انحراف ایک انوکھی مثال ہے۔معلوم یوں پڑتا ہے کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست اور مزاحمت کا نام آخرِ کار صرف مولانا فضل الرحمن ہی لیا کریں گے۔
ان دنوں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دینی جد و جہد کو خصوصی ہدف بنائے ہوئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سے ایک منحرف گروپ برآمد کیا گیا، پھر تبلیغی جماعت میں انتشار پھیلا کر شہر شہر لڑائی اور جھگڑوں کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب مدارسِ اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے نئے تعلیمی بورڈ قائم کرنے کا عمل جاری ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس بار ریاست کے اصل فیصلہ سازوں نے چھپنے اور پس پردہ رہنے کا تکلف بھی ترک کر دیا ہے۔ وہ کھلم کھلا دینی اجتماعیت کو پارہ پارہ کرنے میں بلا واسطہ متحرک نظر آ رہے ہیں۔
احوال کی یہ صورت تشویش ناک تو ہے، مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا کا دین اداروں، جماعتوں اور ظاہری ترتیبوں کا محتاج نہیں ہے۔ ہم اپنے کریم و مہربان مالک کی قدرتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ضعف کی حفاظت اپنی قوت سے فرمائے۔ اب جب کہ اسباب و آلات ہمارے خلاف ہوئے جاتے ہیں وہ جو بغیر اسباب بھی اپنی قدرت کا اظہار کرتا ہے ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین