عطاء الرحمن قاسمی
نکاح اور شادی دین کا ایک ایسا حصار ہے جو انسان کو اﷲ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر جنسی خواہشات کو پورا کرنے کا پابند بناتا ہے۔ اسلام نے پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی کذارنے کے لیے ہمیں نکاح کے ذریعہ جنسی بے راہ روی سے روکا ہے اور پاک دامنی کی نیت سے نکاح کرنے کو برکت کا باعث قرار دیا ہے۔ نکاح ایسا شرعی معاملہ ہے جس کے ذریعہ زنا اور اس کے لوازمات کا سد باب ہوجاتا ہے۔ نکاح اﷲ کی بڑی نعمت ہے دین اور دنیا دونوں کے کام اس سے درست ہوتے ہیں۔ اس میں بہت فائدے اور بے انتہا مصلحتیں ہیں۔ جس کام کا شریعت میں تاکیدی حکم کیا گیا ہو یا اس پر ثواب کا وعدہ کیا گیا ہو وہ دین کا کام ہے۔ اس اعتبار سے نکاح بھی دین کا کام ہے کہ شریعت کے اندر بعض حالات میں اس کا تاکیدی اور بعض حالات میں ترغیبی حکم ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ بھی ہے۔ ہمارے فقہاء احنافؒ نے اس کو نفلی عبادت وغیرہ سے افضل کہا ہے۔
یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ اسلام ایک مکمل دستور حیات اور پاکیزہ نظام زندگی ہے۔ اس کی تعلیمات زندگی کے ہر گوشے پر محیط ہیں، چنانچہ شادی اور نکاح کے بارے میں بھی اسلام کی تعلیمات نہایت واضح انداز میں بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہیں اور ایک ایک چیز اور ہر ہر جزء کے لیے رہنما ہدایات منقول ہیں، نکاح کو بہت سادہ انداز میں کیے جانے کی ترغیب دارد ہوئی ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ زیادہ برکت والا نکاح وہ ہوتا ہے جو خرچ وغیرہ کے اعتبار سے نہایت سادہ اور آسان ہو (اور اس میں دیگر تکلفات اور بے جار سم ورواج کی پابندی نہ کی جائے)۔ اسلام نے شادی کوسادی کرنے کا حکم دیا ہے۔ مگر آج ہم نے شادی کے نام پرخرافات کا وہ طوفان بر پا کیا کہ ہم اپنے دین ومذہب کی مخالفت بھی کر رہے ہیں اور اپنی نسل اور اپنا مال بھی برباد کر رہے ہیں۔
ملت کا دود رکھنے والے تمام مخلص حضرات کا ملی فریضہ ہے کہ قوم کو ان کی خود ساختہ رسموں اور فضول خرچیوں سے اور ملت کو جگ ہنسائی سے بچانے کے لیے کوئی مؤثر عملی قدم اٹھائیں۔
سر کار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا رشتہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے منظور کر لیاتو عقد نکاح کے لیے حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے فرمایا کہ جاؤ حضرات ابوبکر رضی اﷲ عنہ، عمر ضی اﷲ عنہ، عثمان رضی اﷲ عنہ، طلحہ رضی اﷲ عنہ، اور انصار کے کچھ لوگوں کو بلا لاؤ۔ پھر سر کار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے عقد کر دیا اور کھجوریں تقسیم فرما دیں۔
آج ہم اپنی شادیوں کی حالت اور ان میں ہونے والے بیہو دہ کاموں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کے دور کی شادیوں اور آج کل ہونے والی شادیوں میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔ وہاں سکون اور وقار تھا تو یہاں ہڑبونگ اورا نتشار ہے ، وہاں انسانیت تھی تو یہاں شیطانیت ہے، وہاں رضائے خدا وندی مطلوب تھی یہاں رضائے نفسانی مطلوب ہے، وہاں خلوص تھا یہاں فلوس ہیں، وہاں کفایت شعاری تھی یہاں اسراف اور فصول خرچی ہے، وہاں اخفا تھا تو یہاں بڑائی کا اظہارہے…… عرض کسی طرح دونوں میں کوئی مناسبت اور مطابقت نہیں ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دولت اس لیے نہیں دی کہ وہ اسے اسراف، فضول خرچ اور زمانۂ جاہلیت کی سی بے جار سوم اور خرافات میں اڑا دیں۔ مسلمان تو اس لیے نواز اجاتا ہے کہ وہ غریبوں، محتاجوں اور بے کسوں کی مدد کرے ، بے سہارا خواتین اور یتیم بچوں کی ضرورت میں اپنی دولت خرچ کرے۔
صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہ جو نکاح اور شادی کیا کرتے تھے وہ محض مسرت، شادمانی اور جوانی کی خوشی کا اظہار سمجھ کر نہیں کرتے تھے۔ بلکہ زندگی کا ایک مقدس فریضہ، اتباع سنت، تحصیل ثواب، پاک دامانی، حصول اولاد کا ذریعہ سمجھتے ہوئے نہایت سادگی کے ساتھ اﷲ اور اس کی فرمانبر داری اور اطاعت کا ایک انمول نمونہ پیش کیا کرتے تھے۔ دھوم دھام، آن بان اور لوگوں کی کثرت اور بھیڑ بھاڑ سے محفل نکاح کو پاک صاف رکھتے تھے۔ صرف طرفین کے خانوادوں سے چند افراد کو اکٹھا کرکے فریضۂ نکاح ادا کرلیتے تھے۔ نکاح کی ان کے نزدیک وہ حیثیت نہ تھی جو آج ہمارے معاشرے میں ہوگئی ہے۔ ہماری شادیوں میں برپا ہونے والی اکثر چیزیں شرعی نقطہ نظر سے بالکل غلط اور کافرانہ طور طریقوں سے مشابہ ہیں۔گانوں باجوں وغیرہ کے متعلق تو حدیث شریف میں صاف صراحت ہے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے ان چیزوں کو کومٹانے کے لیے دنیا میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔
مکہ معظمہ کے رئیس حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے نکاح میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آئیں۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا اور کیا موقع ہوسکتا تھا کہ صاحبزادیٔ رسول آپ کے نکاح میں آرہی ہیں۔ حضرت عثمان خود اتنے بڑے رئیس تھے کہ بے انتہا دولت کے علاوہ ہزاروں اونٹ اور گھوڑے آپ کی ملکیت میں تھے۔ نیز دوسرے ممالک سے بھی آپ کے تجارتی تعلقات خوشگوار اور مربوط تھے۔ آپ چاہتے تو بے شمار دولت اور زینت وآرائش کے سامانوں کی ریل پیل کردیتے اور دھوم دھام کی ایسی نظیر قائم کردیتے کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال دی جاتی۔ مگر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے ایسا نہیں کیا اس لیے کہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ یہ طریقہ منشاء اسلام کے منافی اور طریقۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے قطعا خلاف ہے۔ حضرات صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہ کی شادیوں پو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نہ تو جہیز کا ذکر ہوتا اور نہ فرمائشات ومطالبات اور بارات وغیرہ کا کوئی وجود،اور نہ کسی اور طرح کے رسم ورواج کا اہتمام…… صرف محلہ کے چند لوگ جمع ہوجاتے اور نکاح منعقد ہوجاتا۔ اس موقع پر صرف کھجور یا چھوارے تقسیم کرنے پر اکتفا کیا جاتا۔ لڑکی والے کے ذمہ نکاح کے موقع پر اتنا ہی مسنون ہے، اس کی طرف سے دعوت طعام کا ذکر نہیں ملتا۔ البتہ لڑکے والے کی طرف دعوت ولیمہ مسنون ہے، پر وہ بھی حسب حیثیت ہی کی جاتی تھی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ جلیل القدر صحابی جن کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جتنی ہونے کی خوشخبری مل چکی تھی۔ جب ان کی شادی ہوئی تو محسن اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی نکاح کی اطلاع نہ دی۔ حالانکہ عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ عنہ مدینہ منورہ ہی میں تھے۔ شادی کے چند روز بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے کپڑوں پر عطر کا اثر محسوس کیا جوز ردرنگ کا تھا تو دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے شادی کی ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ان کی شادی سے کس قدر سادگی ٹپک رہی ہے ۔جس میں نہ کوئی رسم ورواج کی پابندی ہے اور نہ کسی قسم کی دھوم دھام معلوم ہوتی ہے اور کئی روز کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی۔ حالانکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس قدر احسانات تھے، نواز شات تھیں، ہمدرد یاں اور لازوال شفقتیں تھیں، جنہیں ایک معمولی اور ادنیٰ سا انسان بھی فراموش کر دینا گو ارو نہیں کرسکتا، چہ جائے کہ اتنے بڑے صحابی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نظر انداز کریں۔ مگر ان کو معلوم تھا کہ منشاء شریعت یہی ہے مزاج نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم یہی ہے، تعلیم اسلام یہی ہے، فرمان رسول صلی اﷲ علیہ یہی ہے۔ اس لیے انہوں نے نکاح کو سادہ طریقہ پر بغیر کسی شان، بان اور دھوم دھام کے انجام دیا اور رہتی دنیا تک تمام مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ مسلمانو! اگر عزت وتو قیر چاہتے ہو؟ اور خدا کی نظر میں محبوب بننا چاہتے ہو؟ اگر حکومت واقتدار اور دار ین کی سر بلندی وسر فرازی چاہتے ہو تو اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہمیں ہر کام( خواہ وہ خوشی کا ہو یا غمی کا) ہر فعل ہر عمل شریعت کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔ اسی میں ہمارے لیے حقیقی عزت ہے۔ اگر ہم نے غیروں کے طور طریقوں کو اپنا کر اپنی تہذیب، اپنی شناخت مٹا ڈالی تو سمجھ لیجئے کہ پھر ہم خود ہی مٹ جائیں گے اور جب تک باقی رہیں گے دنیا جہاں کی ذلت ہمارے گلے کا ہار ہوگی، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اور بھگت رہے ہیں۔
برادری کی یہ رسمیں، بندشیں، توبہ
کہ دل پہ چوٹ تو لگتی ہے کہہ نہیں سکتے
خدا ہمیں فہم سلیم عمل مستقیم عطا فرمائیں، تاکہ دین اسلام کی اور اس کے احکامات کی قدر وعظمت ہمارے دلوں میں پیدا ہو، غیروں کے طریقوں سے ہمیں نفرت ہو، ہر کام شریعت کی روشنی میں سنت کے مطابق کرنے کی توفیق نصیب ہو۔ آمین واﷲ اعلم بالصواب