مولانا ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی
ہمارے حضور جناب محمد بن عبداﷲ ہاشمی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تاحیات خدمت کی سعادت حاصل کرنے والوں میں حضرت اُمِّ ایمن رضی اﷲ عنہا کا نامِ نامی بھی شامل ہے۔ مصادرِ سیرت و تذکرہ میں ان کے بارے میں کافی مواد ملتا ہے۔ ابھی تک ان کی عظیم شخصیت، خاندانِ رسالت سے ان کے گہرے تعلق اور خدمتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے باب میں کوئی مستقل مقالہ نظر سے نہیں گزرا۔ اس میں سراسر کوتاہیٔ نظر خاکسار راقم کی ہے، البتہ کتب سیرت میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بچپن کے حوالے سے ان کا جو تذکرہ ضمنی طور سے آ جاتا ہے، وہ ان کی شخصیتِ عالی اور خدماتِ جلیلہ کا ذرا بھی حق ادا نہیں کرتا۔ لہٰذا یہ توفیقِ الٰہی ارزانی ہوئی کہ ان کے تذکرۂ خیر سے اپنی بصیرت اور دوسروں کی سعادت کا سامان کیا جائے۔
سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نگارش کا المیہ یہ رہا ہے ……اور اس کا ذکر بار بار کرنا پڑتا ہے ……کہ ایک دو کتابوں سے مواد لے کر ایک نئی کتابِ سیرت لکھ دی جاتی ہے اور وہ بھی پامال، فرسودہ اور غیر مستند طریقے سے ۔ جدید دور میں مصادر کی دستیابی سے زیادہ تجزیے و تحلیل کے طریق و منہاج کا ہر طرف دور دورہ اور شعور ہے، اگر نہیں ہے تو ہم روایتی پیروانِ اسلام میں، حال آں کہ اب سیرتِ طیبہ کی خدمت کا میدان وسیع تر و عظیم تر ہے، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سوانح حیات اور کارناموں کا تقاضا ہے کہ ان کو تجزیے و تحلیل کے طریقے سے پیش کیا جائے۔ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا سیرتِ طیبہ کی سنہری زنجیر کی ایک خوبصورت، جمال آفرین، عقیدت فزا، محبت آرا اور عظیم کڑی ہیں، ان کے ذکرِ خیر اور تذکرۂ جمیل سے سیرت محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کا ایک نیا باب سامنے آئے گا۔
نام و نسب:
روایات کا تقریباً اتفاق ہے کہ حضرت امّ ایمن کا اصل نام برکۃ تھا، ابن سعد نے ان کے تذکرے کا عنوان ہی یہی قائم کیا ہے:
ام ایمن و اسمھا برکۃ (۱)
بہ قول ابن عبدالبر ان کے نام پر ان کی کنیت غالب آ گئی جو ان کے فرزند اوّل کے نام پر تھی:
غلبت علیہا کنیتھا ، کنیت بابنھا ایمن (۲)
ابن عبدالبر نے ان کا نسب اس طرح بیان کیا ہے: برکۃ بنت ثعلبۃ بن عمرو بن حصن بن مالک بن سلمۃ بن عمر و بن النعمان ، وھی أم أیمن
ابن عبدالبر نے ایک لقب بھی ان کا بیان کیا ہے یعنی کہ وہ اُمّ الظباء کے نام سے معروف تھیں، یہ دوسرے مصادر میں بالعموم بیان نہیں کیا جاتا۔
مذکورہ بالا تمام مصادر نے بالاتفاق ان کو حبشیۃ، حبش کی رہنے والا قرار دیا ہے، لیکن یہ کسی نے نہیں بتایا کہ وہ حبشہ سے کب اور کیسے مکہ مکرمہ لائی گئی تھیں، روایات کے بیانات سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ وہ بہ طور باندی اور غلام مکہ میں رہی تھیں، ان کی غلامی کا سبب نہیں معلوم، البتہ قرینہ یہ کہتا ہے کہ وہ کسی طرح بردہ فروشوں کے قبضے میں پڑیں اور انھوں نے خاتونِ حبشہ کو بازار میں بیچ دیا، یہ بھی واضح نہیں کہ وہ کہاں کہاں بکیں، البتہ مکہ مکرمہ میں وہ خاندانِ نبوت میں اپنی خرید و فروخت کے آخری دور میں پہنچی تھیں۔
روایات میں اس پر اختلافِ شدید پایا جاتا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں کس کی باندی تھیں، بلاذری نے اس روایت کو ترجیح دی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرتِ امّ ایمن کو اپنے والد سے ترکے میں پایا اور آزاد کر دیا۔ بعض راویوں کا کہنا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُمّ ایمن کو اپنی ماں سے وراثت میں پایا تھا اور آپ ہی نے اُن کو آزاد فرمایا۔ دوسروں کا بیان ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے والد ماجد سے ان کی ولا (تولیت، سرپرستی) پائی تھی اور ایک قوم کا قول ہے کہ وہ آپ کی ماں کی باندی تھیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو آزادی عطا کی تھی:
ورث رسول اللّٰہ من ابیہ ام ایمن ، اسمھا برکۃ ، فاعتقھا ، وقال بعض الرواۃ : ورث ام ایمن من امہ ، و قال آخرون: ورث ولاء ھا من ابیہ ، و قال قوم: کانت لامہ فأعتقھا(۳)
نبوی انّا:
حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کو تقریباً تمام مصادرِ سیرت نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی باندی، انّا اور کھلائی کہا ہے: مولاۃ رسول اللّٰہ ﷺ و حاضنۃ
امام بخاری نے صراحت کی ہے کہ وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی انّا تھیں:
و کانت حاضنۃ النبی ﷺ(۴)
بلاذری، ابن کثیر اور متعدد دوسرے قدیم و جدید سیرت نگاروں نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دیکھ بھال اور پرورش و پرداخت کرتی تھیں: فکانت أم أیمن تحضنہ(۵)
امام مسلم کی صحیح کی بنیاد پر مسعود احمد نے بیان کیا ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ کے ہاں سے واپسی پر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرورش حضرت اُمّ ایمن کے سپرد ہوئی جو حبشہ کی رہنے والی تھیں اور آپ کے والد عبداﷲ کی لونڈی تھیں، جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بڑے ہوئے تو آپ نے انھیں آزاد کر دیا۔ (۶)
بعض دوسری کتابوں سے تاثر ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرورش اور دیکھ بھال والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد کی تھی، حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ سے قبل ہی آپ کے والدین ماجدین کی خدمت کرتی تھیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظہورِ قدسی کے بعد وہ آپ کی دیکھ بھال کرنے لگیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کھلائی اور انّا بن گئیں، یہ خدمتِ سعادت انھوں نے حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر رضاعت کے لیے جانے سے قبل بھی انجام دی اور جب حضرت حلیمہ سعدیہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو والدہ ماجدہ، دادا اور دوسرے عزیزوں سے ملانے لاتیں، حضرت اُمّ ایمن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور پانچ سال کی عمر میں رضاعی ماں کے گھر سے آنے کے بعد وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مستقل اَنّا تھیں اور والدہ کے ساتھ ساتھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔ (۷)
ان دونوں ثقہ راویوں اور اہلِ نظر کے واضح بیانات اور قرائن صحیحہ کے بعد اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ حضرت اُمّ ایمن رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دیکھ بھال والدہ ماجدہ کے ساتھ ساتھ کرتی رہی تھیں، رضاعت حلیمہ سے قبل بھی اور اس کے بعد بھی۔
سفرِ مدینہ میں معیت:
یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے شفیق و کریم دادا جناب عبدالمطلب ہاشمی اور والدہ ماجدہ بی بی آمنہ کے ساتھ یثرب (مدینے) کا پہلا سفر چھے سال کی عمر میں کیا تو حضرت اُمّ ایمن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی انّا کی حیثیت سے شریکِ سفر تھیں۔ بلاذری نے وضاحت کی ہے کہ اصلاً وہ عبدالمطلب ہاشمی کا سفر تھا اور وہ اپنی والدہ اور دوسرے ننہالی رشتہ داروں کی زیارت کے لیے پابندی سے یثرب کا سفر کرتے رہتے تھے اور اکثر و بیشتر اپنی بہو بی بی آمنہ کو بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے کہ ان کے مرحوم شوہر عبداﷲ یثرب میں دار نابغہ میں اپنے ننہالی عزیزوں بنو عدی بن النجار، خزرج کے جوار میں مدفون تھے اور ۵۷۶ء کے لگ بھگ جو سفر کیا اس میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے گئے اور آپ کے ساتھ آپ کی اَنّا حضرت اُمّ ایمن بھی ہم رکاب تھیں۔ (۸)
اتفاق سے یہ سفر رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ جناب آمنہ کا آخری سفرِ یثرب ثابت ہوا۔ واپسی کے سفر پر ان کی وفات کا واقعہ ابواء نامی مقام پر پیش آ گیا اور وہیں ان کی آخری آرام گاہ بنی۔ عبدالمطلب ہاشمی اور حضرت اُمّ ایمن رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابوا سے واپس مکہ مکرمہ لائے اور اب وہ تنہا ہاشمی دُرِ یتیم کی انّا، کھلائی اور دایہ بن گئیں اور مرحومہ ماں کی جگہ لے لی۔مشہور روایات میں وضاحت ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو تنِ تنہا ابواء سے مکہ مکرمہ دادا کے پاس لائی تھیں اور جناب عبدالمطلب ہاشمی اس سفر سعادت میں شریک نہ تھے، بلکہ مکہ مکرمہ میں مقیم رہے تھے اور صرف والدہ ماجدہ اور حضرت امّ ایمن کے ساتھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یثرب کا سفر فرمایا تھا لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ (۹)
اس پر بحث تو جناب عبدالمطلب ہاشمی کی سوانح حیات میں تفصیل و دلائل کے ساتھ آئی ہے، یہاں اس کا خلاصہ پیش کر دیا گیا ہے، قدیم و جدید سیرت نگاروں نے بالعموم ابن اسحاق کی روایت کی پیروی کر کے اصل واقعہ بدل ڈالا۔(۱۰)
یثرب (مدینے) میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بچپن کے قیام کا ایک واقعہ حضرت اُمّ ایمن سے مروی ہے، ابنِ سعد اور ابنِ کثیر اور ان کے بعد دوسرے ائمہ سیرت کے علاوہ واقدی کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ یثرب میں کھیلا کرتے تھے تو یہود کے کچھ لوگ آتے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غور سے ملاحظہ کرتے تھے۔ حضرت اُمّ ایمن کا بیان ہے کہ ان یہودیوں میں سے ایک کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا: یہ اس اُمّت کا نبی ہے اور اس کی ہجرت کا گھر ہے اور میں نے اس کی پوری بات اچھی طرح ذہن میں محفوظ کر لی، و کان قوم من الیہود یختلفون ینظرون الیہ فقالت اُمّ ایمن : فسمعت احدھم یقول: ہو نبی ہذہ الامہ و ہذہ دار ہجرتہ ، فوعیت ذلک کلہ من کلامہ۔(۱۱)
حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو زیادہ وضاحت کے ساتھ واقدی سے نقل کیا ہے: حضرت اُمّ ایمن کا بیان ہے کہ مدینے کے قیام کے دوران میرے پاس یہودِ مدینے کے دو شخص آئے اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ ہمارے پاس احمد کو لے آؤ، ہم انھیں دیکھنا چاہتے ہیں، ان دونوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا اور خوب الٹ پلٹ کر دیکھا اور ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا، یہ اس اُمّت کے نبی ہیں اور یہی ان کا دار الہجرت ہے اور اس مقامِ ہجرت میں قتل و قید کا ایک واقعۂ عظیم رونما ہو گا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ نے جب یہ سنا تو واپس ہو گئیں کیونکہ ان کو خوف لاحق ہو گیا تھا:
قالت ام ایمن فجاء نی ذات یوم رجلان من یہود المدینۃ فقالا لی: أخرجی الینا احمد ننظر الیہ و قلباہ فقال احدھما لصاحبہ: ہذا نبی ہذہ الامۃ وہذہ دار ہجرتہ ، و سیکون بہا من القتل والسبی امر عظیم ، فلما سمعت امہ خافت وانصرفت بہ۔(۱۲)
حافظ ابن کثیر نے اس فصل میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کی قبر کی زیارت، ان کے ایمان و اسلام اور والدین و دادا کے ایمان وغیرہ کی روایات بیان کر کے ان پر نقد و تبصرہ کیا ہے، لیکن حضرت اُمّ ایمن کی مذکورہ بالاروایت پر کوئی نقد و استدراک نہیں کیا ہے، اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ روایت ان کے نزدیک صحیح ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ بعثت سے قبل اس نوع کی روایات بہ کثرت پیشین گوئیوں کی شکل میں پائی جاتی ہیں اور یہ ان میں سے ایک ہے، حلبی نے اس روایت کا ذکر نہیں کیا البتہ دوسری روایات پر خوب بحث کی ہے۔ (۱۳)
دادا اور چچاؤں کے گھر میں:
والدہ ماجدہ بی بی آمنہ بنت وہب زہری کی وفات کے بعد رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے کریم و شفیق دادا عبدالمطلب ہاشمی کے ساتھ غالباً ان کے گھر میں رہے اور ان کی راست نگرانی میں پروان چڑھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دایہ اور انّا (حاضنہ) کی حیثیت سے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں۔ پہلے جناب عبدالمطلب ہاشمی کے گھر میں۔ روایات میں آتا ہے کہ عبدالمطلب ہاشمی حضرت اُمّ ایمن کو برابر تاکید کیا کرتے تھے کہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دیکھ بھال اور پرورش و پرداخت اور زیادہ محبت و شفق کے ساتھ کریں اور کبھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور وہ بھی ٹوٹ کر آپ سے پیار کرتی تھیں: وقال عبدالمطلب لام ایمن و کانت تحضن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا برکۃ لا تغفلی عن ابنی فان وجدتہ مع غلمان قریبا من السدرۃ(۱۴)
ابنِ سعد میں صرف یہ بیان ہے کہ عبدالمطلب ہاشمی نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کچھ بچوں کے ساتھ بیری کے پاس پایا تھا تو حضرت اُمّ ایمن کو غفلت نہ کرنے کی ہدایت کی تھی، مگر اس پر حلبی نے کافی اضافہ کیا ہے اور حضرت اُمّ این کی سند سے ہی روایت بیان کی ہے کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حضانت کرتی تھی، یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرورش و حفاظت کی ذمے داری ادا کرتی تھی، ایک دن میں ذرا چوک گئی، ابھی ہوشیار نہ ہوئی تھی کہ عبدالمطلب کو اپنے سر پر کھڑا پایا اور پھر انھوں نے حضرت اُمّ ایمن کو بتایا کہ انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کہاں پایا اور ان کی دیکھ بھال میں ہوشیاری کی ہدایت دی کہ ان کو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے گزند پہنچ جانے کے خدشے سے وحشت ہوتی تھی:
و عن ام ایمن کنت احضن النبی صلی اللّٰہ ﷺ ای اقوم بتربیتہ و حفظہ ، فغفلت عن یوما ، فلم ادر الا بعبد المطلب قائما علی راسی یقول لا تغفلنی عن ابنی۔(۱۵)
چچا زبیر اور ابو طالب کے گھر میں:
آٹھ سال کی عمر شریف ہوئی تو ۵۷۸ء میں دادا کی وفات ہوئی اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے دو سگے چچا، زبیر بن عبدالمطلب ہاشمی اور ابو طالب بن عبدالمطلب ہاشمی کی خصوصی کفالت و پرورش میں آئے، حضرت اُمّ ایمن رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اَنّا اور کھلائی اور باندی کی حیثیت سے آپ کے ساتھ ساتھ رہیں، خواہ وہ زبیر ہاشمی کا گھر رہا ہو یا ابو طالب ہاشمی کا، دوسرے اعمام و عمات (چچاؤں اور پھوپھیوں) کی عمومی کفالت و دیکھ بھال یا زیارت کی صورت میں حضرت اُمّ ایمن ان کے گھروں میں بھی سکونت پذیر رہیں، کیونکہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ذات والا صفات کے ساتھ وابستہ تھیں اور ان کا سب سے بڑا کام آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دیکھ بھال اور پرورش تھا۔ (۱۶)
ابنِ سعد کی ایک روایت ہے کہ بڑی عمر میں بھی وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے انتہائی محبت فرماتیں اور آپ کی دیکھ بھال کرتیں: کانت ام ایمن تلطف النبی ﷺ و تقوم علیہ۔(۱۷)
رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے بچپن سے حضرت اُمّ ایمن سے خاص لگاؤ اور شدید محبت تھی، اسی بنا پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو اپنی ماں کے بعد اپنی ماں ہی سمجھتے تھے اور اپنی سگی ماں کی طرح پیار کرتے تھے۔ ابن سعد ہی کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت اُمّ ایمن کو ماں کہتے اور جب جب ان کو دیکھتے، فرماتے کہ وہ میرے اہلِ بیت کا بقیہ ہیں: کان رسول اللّٰہ ﷺ یقول لام ایمن یا امہ ، و کان اذا نظر الیہا قال : ہذہ بقیۃ اہل بیتی۔(۱۸)
حلبی نے حدیث شریف کے الفاظ یوں نقل کیے ہیں: انت امی بعد امی ، و یقول ام ایمن امی بعد امی (ایمن امی بعد امی) ۔(۱۹)
حافظ ابنِ حجر نے اس حدیث کے علاوہ یہ بھی نقل کیا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے اور ان کی اولاد سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ (۲۰)
ان سے محبت و تعلقِ نبوی کا واقعہ اتنا معروف و مشہور تھا کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور دوسرے اکابر شہر اس کو جانتے اور لحاظ کرتے تھے۔
کاشانۂ نبوّت میں:
جوانی کی عمر کو پہنچ کر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے آبائی گھر میں قیام پذیر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی انّا حضرت اُمّ ایمن آپ کے ساتھ خاندانی مکان میں اٹھ آئیں کہ وہ ماں کی جگہ اس مقام کی حق دار تھیں، دوسرے وہ ابھی تک رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی کے رشتۂ افتخار اور بندگی کے سلسلۂ ناز سے بھی وابستہ تھیں۔ روایات کا واضح بیان تو نہیں ملتا تاہم قرائن بتاتے ہیں اور صحیح اور حتمی بتاتے ہیں کہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کاشانۂ نبوت میں شروع سے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادی تک قیام پذیر رہی تھیں۔
پچیس برس کی عمرِ شریف میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ بنت خویلد اسدی رضی اﷲ عنہ سے شادی کی تو شاید اس کے بعد ہی حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کو آزادی عطا فرما دی، جیسا کہ ابنِ سعد کی روایت میں گزرا، اسی روایت میں اور بعض دوسری روایات میں حضرت اُمّ ایمن کی شادی کا ذکر ملتا ہے۔
پہلی شادی:
ابن سعد کے مطابق آزادی کے بعد بنو الحارث بن خزرج کے ایک یثربی آزاد شخص عبید بن زید خزرجی نے حضرت اُمّ ایمن سے شادی کر لی۔ اس رشتے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے پہلے شوہر یثرب (مدینے) کے باشندے تھے اور خزرج کے قبیلے کے ایک فرد تھے اور اسی قبیلے کی ایک شاخ سے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دادا جناب عبدالمطلب ہاشمی کی والدہ ماجدہ حضرت سلمیٰ بنت عمرو عدی بن نجار(خزرجی) تعلق رکھتی تھیں اور اسی کی زیارت کے لیے جناب عبدالمطلب ہاشمی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ، آپ سمیت اُم ایمن رضی اﷲ عنہا کو ساتھ لے کر گئے تھے، غالباً یہ رشتہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہی لگایا تھا کہ وہ آزادی کے بعد بھی ہاشمی ولا کے رشتے سے بندھی ہوئی تھیں، ابن سعد کی اس روایت میں ان کے اولین شوہر کا نام عبید بن زید ہے: فتزوج عبید بن زید۔(۲۱) جب کہ دوسری روایات میں عبید بن عمرو ہے، اس نکاح کی دوسری تفصیلات تحقیق طلب ہیں، البتہ عام روایات میں یہ آتا ہے کہ اس رشتے سے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے ایک فرزند حضرت ایمن بن عبید خزرجی پیدا ہوئے تھے اور ایمن کی نسبت سے ان کی کنیت اُمّ ایمن ہو گئی تھی اور وہ کنیت ایسی خوش آئند و قسمت خیز بنی کہ وہ اپنے اصل نام برکۃ سے زیادہ اسی سے مشہور ہوئیں، حافظ ابنِ حجر کے مطابق حضرت ایمن کی نسبت ان کی ماں کی طرف اس بنا پر تھی کہ وہ بیت نبوی کے اہل میں سے تھیں اور ان کے والد سے افضل، اس حد تک کہ دوسری شادی اور فرزند کی ولادت سے قبل بھی وہ اُم ایمن ہی کہلاتی رہیں اور بعد میں بھی، حالانکہ وہ اور ایک عظیم تر فرزند اور مشہور تر صحابی کی ماں بنیں، لیکن ان کے نام سے ان کی کنیت نہیں پڑی، حضرت ایمن رضی اﷲ عنہ صحابی رسول بنے اور غزوۂ حنین میں شہادت سے سرفراز ہوئے، یہ ابن سعد اور دوسری تمام کتب سیر و تاریخ میں متفقہ روایت ملتی ہے۔ حضرت ایمن رضی اﷲ عنہ کے غزوۂ خیبر میں شہادت پانے کی روایت بعض مصادر کی روایات جیسے ابنِ حجر کی الاصابہ میں اور جدید سیرتوں میں پائی جاتی ہے ، قطعاً غلط اور غیر معتبر ہے۔ (۲۲)
ابن قتیبہ نے حضرت عباس بن عبد المطّلب کی طرف دو شعروں کی نسبت کی ہے جن میں حضرت ایم بن عبید کی شرکت، نصرت اور شہادت کا حوالہ ہے:
نصرنا رسول اﷲ فی الحرب سبعۃ
وقد فرَّ من قد فرَّ عنہ فأقشعوا
وثامننا لاقی الحمام بسیفہ
بما مسَّہ فی اﷲ لا یتوجَّع(۲۳)
بلاذری نے یہ صراحت کی ہے کہ حضرت ام ایمن نے عبید بن عمرو بن بلال بن ابی الحرباء بن قیس بن مالک بن ثعلبہ بن جشم بن مالک بن سالم جو حلبی کہلاتے تھے، بن غنم بن عوف بن خزرج سے زمانۂ جاہلیت میں مکے میں شادی کی تھی، اور ان سے ایمن بن عبید تولّد ہوئے تھے۔ بلاذری نے یہ بھی بیان کیا کہ حضرت ایمن کے والد خالص عرب تھے۔ جبکہ ابن حجر کی ایک ضعیف و مجروح روایت میں ہے کہ وہ بھی حبشی تھے اور موالی خزرج میں سے تھے(۲۴)حضرت ایمن جنگ حنین میں اس وقت بھی ثابت قدم رہے تھے اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا دفاع کرتے رہے تھے، جب اکثر صحابہ کے پیر اکھڑ گئے تھے اور اسی غزوے میں انھوں نے شہادت پائی تھی، شاید دفاع نبوی میں۔ حضرت ایمن خزرجی کے بارے میں امام بخاری نے صراحت کی ہے کہ وہ انصار کے ایک فرد تھے(۲۶)۔
حضرت ایمن خزرجی کی عمر شہادت، ابن سعد کی روایت شادی اور دوسرے قرائن و آثار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت اُمّ ایمن کی عبید بن عمرو خزرجی سے شادی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ سے شادی کے معاً بعد ہی ہوئی تھی، غالباً ۹۶۔ ۵۹۵ء میں۔ وہ اپنے پہلے شوہر کے گھر مکے میں ہی مقیم رہیں، کیونکہ عبید خزرجی وہاں بس گئے تھے، بلاذری کی ایک روایت میں ہے کہ عبید خزرجی اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کو شادی کے بعد مدینے لے گئے تھے۔ جہاں وہ ان کے گھر میں ان کی زندگی بھر رہیں، وہیں ان کے فرزند ایمن کی ولادت ہوئی اور چند برس کے اندر ہی عبید بن عمرو خزرجی کی وفات ہو گئی اور وہ پھر کاشانۂ نبوت پلٹ آئیں۔ مدینے سے واپس آنے کے بعد وہ پھر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر ہی قیام پذیر رہیں، کیونکہ ان کے شوہر کا گھر مکے میں نہیں تھا اور کیونکہ وہ فارغ رہیں اور شادی نہیں کی تھی۔ و مات عبید عن ام ایمن فکانت فارغۃ لم تتزوج بہا ۔(۲۷) قدم عبید بن عمرو الخزرجی مکۃ فاقام بہا و تزوج ام ایمن برکۃ مولاۃ رسول اللّٰہ ﷺ و نقلھا الی یثرب ، فولدت لہ ایمن بن عبید ، ومات عنہا، فرجعت الی مکۃ(۲۷)
بعثت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم اور اسلامِ اُمّ ایمن:
تاریخی واقعات کی ترتیب زمانی کے لحاظ سے جناب اُمّ ایمن اپنے شوہر عبید بن عمرو خزرجی اور اپنے بچے ایمن بن عبید خزرجی کے ساتھ مکہ مکرمہ ہی میں سکونت پذیر رہیں، امکان ہے کہ اس دوران وہ اپنے شوہر کے ساتھ ان کے وطن مالوف یثرب (مدینے)، زیارت و سکونت کے لیے گئی ہوں یا جاتی رہی ہوں، جیسا کہ بلاذری کی ایک روایت میں ایسا مذکور ہے، دوسری روایات سے تاثر ملتا ہے کہ وہ مکے ہی میں قیام پذیر رہیں، ان کے مدینے جانے کا بہرحال امکان ہے، کیونکہ کہ مدنی؍ یثربی مہاجرین اور تارکین وطن بالعموم اپنے رشتہ داروں سے ملاقات، زیارت اور دوسرے تجارتی وجوہ سے یثرب جاتے رہتے تھے۔
اسی زمانے میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ کی تبلیغ سے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا نے اسلام قبول کر لیا، ابن اثیر کا بیان ہے کہ وہ اسلام کے آغاز میں ہی مسلمان ہو گئی تھیں اور قدیم مسلم تھیں اور صرف یہی نہیں، انھوں نے حبشہ کو ہجرت بھی کی تھی اور بعد میں مدینہ ہجرت کر گئیں۔ (۲۸) ان کی ہجرت پر بحث ذرا بعد میں ہو گی۔
ان کے قبولِ اسلام کی روایات کم ملتی ہیں، لیکن یہ حقیقت بہرحال ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اوّلین مسلمین میں تھیں۔ سید مودودی نے خفیہ تبلیغ کے سہ سالہ زمانے کے جن سابقینِ اسلام کی فہرست دی ہے، ان میں غلاموں اور لونڈیوں کی ذیلی فہرست میں سر نامہ حضرت اُمّ ایمن بنت ثعلبہ رضی اﷲ عنہا کا نام ہے، جنھوں نے بچپن سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو گود میں پالا تھا۔ (۲۹) انھوں نے یہ تو بتایا کہ انھوں نے بڑی تلاش و تفحص سے یہ فہرست تیار کی ہے لیکن مآخذ کا نام نہیں بتایا، تلاش و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روایت پوری کی پوری ابن عبدالبر کی استیعاب سے ماخوذ ہے، جس میں ان کا اصل نام، خاندان، کنیت، ہجرتِ حبشہ و مدینہ وغیرہ کا ذکر پایا جاتا ہے، اس میں ان کی اپنی روایت کے علاوہ واقدی، ابن اسحاق، ابن ہشام اور موسیٰ بن عقبہ کی مغازی کی روایات و حوالے موجود ہیں۔ (۳۰)
حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا نے حبشہ ہجرت نہیں کی تھی، تمام مصادر سیرت نے مہاجرین حبشہ کی فہرست میں ان کا نام نہیں گنایا ہے، غالباً کسی شاذ روایت میں ان کو مہاجرات حبشہ میں شمار کر لیا گیا ہو جو غیر معتبر ہے، حافظ ابن حجر نے ابن عبدالبر کے اس خیال و گمان پر کہ اُمّ ایمن مہاجرہ حبشہ تھیں نقد کیا ہے: و فی کون ام ایمن ہاجرت الی ارض الحبشۃ نظر(۳۱) یہ بھی ممکن ہے کہ مؤلف اسد الغابہ کو برکہ بنت یسار زوجہ قیس بن عبداﷲ اسدی خزیمی کے نام سے غلط فہمی ہوئی ہو، کیونکہ برکہ بنت یسار ابو سفیان اموی کی آزاد کردہ باندی تھی اور مہاجرہ حبشہ بھی۔ (۳۲)
دوسری شادی:
بیوہ ہونے کے بعد حضرت اُمّ ایمن اپنے نو خیز بچے ایمن کے ساتھ کاشانۂ نبوت میں دوبارہ آ گئیں تو رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان کی دوسری شادی کرنے کا خیال ستانے لگا، روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جس کو یہ بات خوش کرے کہ وہ ایک جنتی بی بی سے شادی کر لے اسے چاہیے کہ وہ اُم ایمن سے نکاح کر لے اور اسی ترغیب و محبت کی بنا پر حضرت زید بن حارثہ کلبی نے ان سے شادی کر لی، من سرہ ان یتزوج امرأۃ من اہل الجنۃ فلیتزوج ام ایمن ، فتزوجہا زید بن حارثۃ۔(۳۱) اپنی ایک اور روایت میں ابن سعد نے ایک مزید صراحت یہ کی ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہ نفسِ نفیس حضرت اُمّ ایمن کی شادی حضرت زید بن حارثہ شراحیل کلبی سے کی تھی۔ وہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مولیٰ تھے جو حضرت خدیجہ بنت خویلد کے ہبہ کی بنا پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے ان کی شادی حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا سے کی اور یہ شادی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بعثت و نبوت کے بعد ہی انجام دی تھی: وکان زید بن حارثہ بن شراحیل الکلبی مولیٰ خدیجۃ بنت خویلد فوھبتہ رسول ﷺ فاعتقہ و زوجہ ام ایمن بعد النبوۃ۔(۳۴)
حضرت زید بن حارثہ کلبی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عمر میں دس سال چھوٹے تھے۔ (۳۵) حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا سے شادی کے وقت ان کی عمر پینتیس سال رہی تھی اور حضرت اُمّ ایمن کی عمر یقینا زیادہ تھی، اس شادی سے حضرت زید کے فرزند حضرت اسامہ بن زید کلبی پیدا ہوئے تھے اور وہ ہجرتِ مدینہ کے وقت چھوٹے تھے، روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کے ہم عمر تھے اور اسی بنا پر دونوں کو غزوۂ بدر میں نابالغ سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ (۳۶) ان کے علاوہ بعض دوسرے نوجوان صحابہ کرام کے مسترد کیے جانے کا بھی ذکر ملتا ہے، غزوۂ احد میں بھی ان دونوں کو دوسرے کم سن بچوں کی مانند شرکت کی اجازت نہیں ملی (۳۷) لہٰذا وہ ہجرت مدینہ کے وقت دس گیارہ سال کے تھے اور ان کی تاریخ و سنہ ولادت ۶۱۱ء تا ۶۱۲ء تھا۔ حضرت زید کی شادی حضرت اُمّ ایمن سے اس لحاظ سے نبوت و بعثت کے فوراً بعد ہی ٹھہرتی ہے اور یہی روایات کا بیان بھی ملتا ہے۔
حضرت زید بن حارثہ کلبی کے گھر میں:
دوسری شادی کے بعد حضرت اُمّ ایمن اپنے شوہر حضرت زید بن حارثہ کلبی کے گھر میں منتقل ہو گئیں، کیونکہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنتِ عادلہ تھی کہ آپ شادی شدہ بچوں، بچیوں اور عزیزوں کو علیحدہ مکان میں رکھتے تھے اور یہ سنتِ نبوی جو ان دختروں بالخصوص ناکتخدا دختروں کے ضمن میں بھی نظر آتی ہے اور صرف مدینہ منورہ کی زندگی اور سماجی ماحول کے حوالے سے نہیں بلکہ مکہ مکرمہ کے سماجی مسلم نظام و انتظام میں بھی۔ (۳۹) اگرچہ حضرت اور ان کی زوجۂ مکرمہ حضرت اُمّ ایمن اور ان کے فرزند گرامی حضرت اسامہ سب کے سب نبوی عیال تھے اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ان کے والی، مولیٰ اور مربی تھے، جس طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے دوسروں مربیوں، لے پالکوں، آزاد کردہ موالی اور غلاموں اور ان کی اولاد کے سرپرست اور کفیل تھے، ان سب کی کفالت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ (۴۰)
حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ علیہا نے اپنے دوسرے شوہر حضرت زید بن حارثہ کلبی کے ساتھ لگ بھگ بیس برس کا عرصہ گزارا، اس میں تقریباً بارہ برس کا زمانہ مکہ مکرمہ میں بسر ہوا۔ ۱۲۔ ۶۱۱ء سے ۶۲۲ء تک اور لگ بھگ آٹھ برس کا زمانہ مدینہ منورہ میں ان کے ساتھ گزرا۔ ۶۲۲ء سے ۶۳۰ء تک۔ یہ ان کا حسین ترین عرصۂ موافقت اور زمانۂ رفاقت تھا کہ چاہنے والے شوہر اور عزیز فرزند کی محبت ان کو میسر تھی، یہ دوسری بات ہے کہ حضرت زید بن حارثہ کلبی کی بعض دوسری شادیوں نے ان پر چار سوکنوں کا اضافہ کر دیا تھا، لیکن وہ عرب اسلامی معاشرت کا ایک جزبھی تھی اور ابتدائے اسلام میں معاشرتی نظام کے ارتقا کی ایک کڑی تھی، سوکنوں کو بہ طیبِ خاطر یا بہ جبر و اکراہ برداشت کرنا ہی پڑتا تھا۔ عورت کی فطری لچک اس کی گنجائش نکال لیتی تھی، حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کا صبر و شکر تھا اور مشیتِ الٰہی کہ حضرت زید نے اپنی دوسری بیویوں میں سے بیشتر کو طلاق دے دی تھی اور صرف اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا رہ گئیں۔ بہرکیف حضرت زید کے ساتھ ان کی مسرت و شادمانی کا زمانہ گزرتا رہا تاآنکہ جمادی الاولیٰ ۸ھ؍ ستمبر ۶۲۹ء کے غزوۂ موتہ میں حضرت زید کی شہادت کی بنا پر وہ مسرت بھرا زمانہ ختم ہوا اور وہ پھر ایک بار بیوہ ہو گئیں اور پھر انھوں نے شادی نہیں کی۔ (۴۱)
ہجرت مدینہ:
پہلے مسلمانانِ مکہ نے ہجرت کی اور پھر رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ۶۲۲ء میں مدینے کوچ فرمایا۔ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے شوہر اور دوسرے موالی نبوی مسلمانانِ مکہ کے ساتھ مدینہ ہجرت کر گئے تھے، ابن ہشام کے مطابق حضرت زید نے اپنے مکی مواخات کے بھائی حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کے ساتھ ہجرت کی تھی اور حضرت کلثوم بن ہدم کے گھر اترے تھے اور خواتین بیتِ نبوی اور دوسری مستورات پیچھے مکہ مکرمہ میں رہ گئی تھیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا خاندان بھی ان میں شامل تھا اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دخترانِ نیک اختر اور دوسری مستورات بھی، حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا بھی ان میں سے ایک تھیں، مدینہ منورہ پہنچنے کے کچھ عرصے کے بعد رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دو موالی حضرات زید بن حارثہ کلبی اور ابو رافع کو پانچ سو درہم دے کر مکہ مکرمہ بھیجا، تاکہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو دختروں حضرت فاطمہ اور حضرت اُمّ کلثوم اور زوجۂ مطہرہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اﷲ عنہن کو مدینہ لے آئیں اور اسی کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے خاندان کی خواتین کو بھی بلابھیجا، جن میں اُن کی اہلیہ حضرت اُمّ رومان اور دو دختریں حضرت اسماء اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہن شامل تھیں، مہاجرات کے اس قافلۂ سعادت میں حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا اور ان کے فرزند حضرت اسامہ بھی شامل تھے، راویوں کے بقول یہ کاروانِ ہجرت مدینہ منورہ اس وقت پہنچا جب رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں اپنی مسجدِ مکرم اور اہلِ خاندان کے لیے حجرے تعمیر فرما رہے تھے، یعنی ۶۲۳ء کے آغاز میں ہجرتِ نبوی کے چھے سات ماہ کے بعد مسجدِ نبوی کی تعمیر صفر ۱ ھ یعنی لگ بھگ ہجرت کے گیارہ ماہ بعد مکمل ہوئی۔ (۴۲)
ابن سعد نے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے واقعۂ ہجرت سے متعلق ایک معجزاتی واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت اُمّ ایمن اپنے سفرِ ہجرت کے دوران روحا نامی مقام سے پہلے قیام پذیر ہوئیں اور اس وقت وہ پیاس سے بے تاب تھیں کہ روزے سے تھیں اور دوسرے ان کے پاس پانی بھی نہ تھا، ان کو پیاس نے بہت پریشان کر دیا تو آسمان سے قدرتِ الٰہی نے ایک ڈولن نازل فرمایا، اس میں سفید دودھ جیسا عمدہ میٹھا پانی تھا، شام ہو چکی تھی اور اسی سے انھوں نے بظاہر روزہ کھولا اور پیاس بجھائی، اتنا پیا کہ سیرابی تام ہو گئی، فرمایا کرتی تھیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی پیاس نہیں لگی، حالانکہ میں سفروں کے دوران سخت گرمی کے زمانے میں بھی روزے رکھا کرتی تھیں، لیکن اس قدرتی پانی اور شرابِ الٰہی کے بعد مجھے کبھی پیاس نہیں لگی، دورانِ قیام و حضر سخت گرمی میں روزہ رکھنے کے باوجود پیاس نہیں لگتی۔ (۴۴)
الاصابہ میں امام ابنِ حجر نے مذکورہ بالا روایت ابنِ سعد کے علاوہ ایک اور روایت اسی سے ملتی جلتی ابن السکن کی تخریج سے بیان کی ہے، اس میں یہ اضافہ ملتا ہے کہ وہ مکے سے مدینے کے لیے ہجرت کے سفر پر پاپیادہ نکلیں اور ان کے پاس زادہِ راہ بھی نہ تھا، جب سورج غروب ہو گیا تو قدرتِ الٰہی سے ان کے سر کے اوپر ایک ڈول پانی بھرا اتر آیا اور اس سے ایسی سیراب ہوئی کہ جنم جنم کی پیاس بجھ گئی اور بقول حضرت اُمّ ایمن ’’مجھ کو بعد کی زندگی میں اس کی طراوت رہتی تھی، انتہائی گرم دنوں میں روزہ رکھتی اور دھوپ میں طواف کرتی تاکہ پیاس لگے مگرپیاس نہ لگتی، ایسی ہی پیاس بجھانے والے سیرابی ہوئی تھی۔ (۴۵)
(جاری ہے)
حوالہ جات:
۱۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، بیروت، ۱۹۵۸ء: ج۸،ص:۲۲۳
۲۔ نیز ابن اثیر۔ اسد الغابہ۔ تہران، طبع غیر مؤرخہ:ج۵،ص۵۶۷، ابن حجر۔ الاصابہ۔ مصر ۱۹۳۹ء: ج۴، ص۲۴۳، ترجمہ برکۃ مع استیعاب ابن عبد البر بر حاشیہ۔ نیز الاصابہ باب الکنی أم ایمن، نمبر: ۱۱۴۵، ج۴، ص:۴۱۵،۴۱۶۔ بلاذری۔ انساب الاشراف۔ قاہرہ ۱۹۵۹ء: ج۱،ص۹۶۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مصر ۱۹۳۲ء: ج۲، ص۲۷۲۔ حلبی، السیرۃ الحلبیہ، بیروت، غیر مؤرخہ: ج۱، ص:۱۰۵۔ مودودی سیرت سرورِ عالم، دہلی، ۱۹۸۹ء: ج۲،ص۱۶۱۔
۳۔ بلاذری: ج۱، ص۹۶۔ نیز ابن سعد۔ الطبقات الکبری۔ دار صادر بیروت ۱۹۶۰ء: ص۴۹۷۔ امام مسلم۔ صحیح۔ کتاب الجہاد والسیر، رد المہاجرین الی الانصار منائحہم۔ اردو ترجمہ: رئیس احمد جعفری۔ کراچی غیر مؤرخہ: ج۲، ص۱۱۶۔ ابن قتیبہ۔ کتاب المعارف۔ مرتبہ ثروت عکاشہ۔ باب قاہرہ ۱۹۶۰ء: ص۱۴۴۔ ابن حجر۔ الاصابہ: ج۴،ص ۴۱۵۔ ۴۱۶ وغیرہ
۴۔ بخاری۔ الصحیح۔ کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم باب ذکر اسامہ بن زید
۵۔ ج۱، ص۹۶ اور ج۲، ص۲۷۲ بالترتیب۔ ابن عبد البر، استیعاب، مذکورہ بالا: یقال لہا مولاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خادم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم…… ‘‘ الاصابہ: ج۴، ص۵۱۴: ’’مولاۃ حاضنۃ‘‘ نیز حلبی: ج۱،ص۱۰۵۔ مبارک پوری: ص۸۲: یہی ام ایمن ہیں جنہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گود کھلایا تھا بہ حوالہ مختصر السیرۃ ازشیخ عبد اﷲ: ص۱۲۔ تلقیح الفہوم: ص۱۴۔ صحیح مسلم: ج۲، ص۹۶۔ ابن حجر۔ فتح الباری۔ ریاض ۱۹۹۷ء: ج۷، ص۱۱۱۔ ۱۱۴
۶۔ صحیح تاریخ الاسلام والمسلمین۔ دہلی ۱۹۸۶ء، ص۲،۳۔ بہ حوالہ صحیح مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب رد المہاجرین الی الانصارمنا ئحہم انس
۷۔ ابن سعد: ج۱، ص۱۱۶۔ ابن قتیبہ: ص۱۴۵
۸۔ بلاذری: ج۱، ص۹۴: زارت امہ قبر زوجہا بالمدینہ، کما کانت تزورہ رمعہا عبد المطلب وام ایمن حاضنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، نیز ابن سعد۔ الطبقات الکبریٰ۔ بیروت ۱۹۶۰ء: ج۱، ص۱۱۶۔ ومعہ ام ایمن تحضنہ
۹۔ ابن ہشام۔ السیرۃ النبویۃ۔ قاہرہ ۱۹۳۷ء: ج۱، ص۱۷۹، ۱۸۰۔ سہیلی۔ الروض الانف۔ قاہرہ ۱۹۶۷ء: ج۲، ص۱۸۱ ومابعد
۱۰۔ ابن قتیبہ: ص۱۵۰: وردتہ ام ایمن حاضنتہ الی مکۃ بعد موت امہ …… اور بعض دوسرے قدیم وجدید اہل سیر
۱۱۔ ابن سعد: ج۱، ص۱۱۶ ۱۲۔ البدایہ والنہایہ: ج۲، ص۲۷۹
۱۳۔ حلبی: ج۱، ص۱۰۵، ۱۱۰ ۱۴۔ ابن سعد: ج۱، ص۱۱۸
۱۵۔ حلبی: ج۱، ص۱۱۰
۱۶۔ اعمام وعمات کی کفالت کے لیے ملاحظہ ہو: راقم کی کتاب ’’عبد المطلب ہاشمی، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دادا‘‘ اور تحقیقات اسلامی، علی گڑھ میں راقم کا مضمون ’’کفالت نبوی کی وصیت عبد المطلبی‘‘
۱۷۔ ج۸، ص۳۲۴۔ ابن حجر۔الاصابہ: ج۴، ص۴۱۶ میں ’’وتقوم علیہ‘‘ ہے جو تقم علیہ کی تصحیف ہے جیسا کہ ابن سعد وغیرہ میں ہے۔
۱۸۔ ابن سعد: ج۸، ص۲۲۳ ۱۹۔ حلبی: ج۱، ص۱۰۵۔ نیز ابن اثیر: ج۵، ص۵۶۷
۲۰۔ فتح الباری: ج۷، ص۱۱۳۔ الاصابہ ترجمہ ام ایمن۔ ابن عبد البر۔ استیعاب ترجمہ برکہ مذکورہ بالا، نیز بحث براولاد
۲۱۔ ابن سعد: ج۸، ص۲۲۳
۲۲۔ ابن سعد: ج۸، ص۲۲۳۔ ابن اثیر: ج۵، ج۵۶۷۔ ابن حجر۔ الاصابہ نمبر ۳۹۴۔ بلاذری: ج۱، ص۳۶۵، ۴۷۱۔۴۷۲۔ فتح الباری: ج۷، ص۱۱۳: واستشہد ایمن یوم حنین مع النبی ونسب ایمن الی امہ لشرفہا علی ابیہ وشہرتہا عند اہل البیت النبوی ……
۲۳۔ ابن قتیبہ: ص۱۶۴۔ الاصابہ: ج۴، ص۴۱۵
۲۴۔ فتح الباری: ج۷، ص۱۱۳ ۲۵۔ کتاب وہاب مذکورہ بالا، رقم الحدیث ۳۷۳۶
۲۶۔ بلاذری: ج۱، ص۴۷۱۔۴۷۲
۲۷۔ ابن اثیر: ج۵، ص۵۶۷: واسلمت قدیما اول الاسلام وہاجرت الی الحبشہ والی المدینہ
۲۸۔ ابن اثیر: ج۵، ص۵۶۷ ۲۹۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ سیرت سرور عالم: ج۲، ص۶۱
۳۰۔ ابن عبدالبربرحاشیہ الاصابہ: ج۴، ص: ۲۴۳۔۲۴۵، ترجمہ برکہ، نیز الاصابہ ترجمہ اُمّ ایمن
۳۱۔ الاصابہ: نساء: ۱۶۵
۳۲۔ مودودی: ج۲، ص: ۵۸۳۔ بحوالہ ابن ہشام۔ السیرۃ النبویۃ۔ ج۱، ص: ۳۴۴، ۳۵۳ بالخصوص ۳۴۶۔ بلاذری: ج۱، ص: ۱۹۸، ۲۲۷ بالخصوص ۲۰۰
۳۳۔ ابن سعد: ج۸، ص: ۲۲۴۔ بلاذری: ج۱، ص: ۴۷۲۔ ابن حجر۔ الاصابہ: ج۴، ص: ۴۱۶
۳۴۔ ابن سعد: ج۸، ص: ۲۲۳۔ ابن اثیر۔ اسد الغابہ: ج۲، ص: ۲۲۶۔ فتح الباری: ج۷، ص: ۱۱۳۔ بلاذری: ج۱، ص: ۴۶۷۔ ۴۷۱۔ ابن عبدالبر۔ استیعاب مذکورہ بلا اور ابن حجر۔ الاصابہ نمبر ۱۱۴۵
۳۵۔ ابن سعد: ج۳، ص: ۴۴ ۳۶۔ بلاذری: ج۱، ص: ۲۸۸
۳۷۔ بلاذری: ج، ص: ۳۱۶ ۳۸۔ بلاذری: ج۱، ص: ۴۷۵
۳۹۔ ابن سعد: ج۱، ص: ۲۴۰۔ ابن ہشام: ج۲، ص: ۱۱۴۔۱۱۵۔ بالخصوص ابن سعد: ج۸، ص: ۱۶۴، ۱۶۸۔ ذکر منازل ازواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم
۴۰۔ بخاری۔ صحیح: کتاب بدء الخلق۔ باب صفۃ ابلیس و جنودہ، حدیث: ۳۲۸۱
۴۱۔ ابن سعد: ج۳، ص: ۴۳،۴۷۔ شہادت بعمر ۵۵ سال۔ دیگر ازواج حضرت زید: اُمّ کلثوم بنت عقبہ اُموی، درہ بنت ابی لہب ہاشمی، ہند بنت عوام اسدی قریشی: ج۸، ص: ۱۰۱۔ ۱۰۲۔ و ما بعد۔ بلاذری: ج۱، ص: ۴۶۷۔ ۷۳ ۴
۴۲۔ ابن ہشام: ج۲، ص: ۱۱۸
۴۳۔ بلاذری: ج۱، ص: ۲۶۹۔ ۲۷۰۔ ابن سعد: ج۱، ص: ۲۳۷، ۲۳۸۔ نیز ج ۳، ص: ۴۴ و ما بعد برائے مواخات و ہجرت۔ نیز بلاذری: ج۱، ص: ۴۱۴ و مابعد۔ ابن حجر۔ الاصابہ نمبر ۱۱۴۵
۴۴۔ ابن سعد: ج۸، ص: ۲۲۴۔ الاصابہ: ۱۴۵
۴۵۔ ابنِ حجر: الاصابہ۔ ج۴، ص: ۴۱۵۔۴۱۶: نمبر ۱۱۴۵