آخری قسط
نوراﷲ فارانی
13: لولاک
حضیضِ خاک بہ بخت بلند می نازد کہ در مدیحۂ ضیفش حدیث لولاک است
نگفت خالق مطلق کہ ما خلقت الارض مقام فکر وتامل حدیث لولاک است(۱۴۱)
زمین کی پستی اپنی بلند بختی پر ناز کرتی ہے۔کہ اس کے مہمان عالی شان صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدح وتوصیف میں حدیث لولاک (۲۲) وارد ہوئی ہے۔ اﷲ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ ماخلقت الارض،(بلکہ ما خلقت الافلاک فرمایا)اسی نکتہ کی بنا پر زمین کی قدر ومنزلت جانے کے لیے حدیث لولاک میں فکر وتامل کی ضرورت ہے۔
لولاک کی تلمیح اکثر شعراء نے استعمال کی ہے۔اقبال کے ہاں متعدد صورتوں میں یہ تلمیح مذکور ہے۔شہ لولاک، صاحب لولاک، نکتۂ لولاک،رمز لولاک، لولاکی وغیرہ۔ملاحظہ فرمائیں۔
صورت خاک حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے(۲۳)
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے(۲۴)
ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے تری پرواز لولاکی نہیں ہے(۲۵)
جہاں تمام ہے میراث مردِ مومن کی میرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک(۲۶)
مسلماں را ہمیں عرفان و ادراک کہ در خود فاش بیند رمزِ لولاک(۲۷)
ظفر علی خان کا ایک شعر ہے۔
گر ارض وسما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں(۲۸)
شاہ جیؒ ایک اور شعر میں’’لولاک‘‘ کی تلمیح لائے ہیں ملاحظہ ہو۔
لولاک ذرۂ ز جہان محمد است سبحان من یراہ چہ شان محمد است(۲۹)
لولاک حضور اقدس صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے جہان (فضائل محمدی اور مقام ومرتبہ) کا صرف ایک ذرہ ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو ان کی شان سے پوری طرح آگاہ ہے۔یہ تقریبا وہی مفہوم ہے جو غالب نے اپنے شعر میں ادا کیا ہے۔
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
واضح رہے شاہ جیؒ کی یہ نعت غالب کی مشہور زمانہ نعت کی تضمین ہے۔جس کی اکثر وبیشتر شعراء نے تضمین کی ہے۔
مصادر ومراجع:
۱۔آپ کا اصل نام محمد دین تھا غریب تخلص کرتے تھے، آپ ضلع امرتسر کے ایک گاؤں فتح آباد میں ۱۸۸۴ ء کو پیدا ہوئے۔ مڈل تک حصول تعلیم اور پٹوار کا امتحان پاس کرنے کے باوجود بحیثیت پٹواری ملازمت نہیں کی بلکہ ٹیچر ٹریننگ کرکے۱۹۰۶ ء میں سند حاصل کرلی۔ ۱۹۱۱ء میں امرتسر آئے اور معمولی تنخواہ پر سکول ٹیچر مقرر ہوئے۔رہائش کا اہتمام حکیم معراج دین مدیر ’’الفقیہ‘‘ نے کیا۔اس دوران امرتسر کے مولانا محمد عالم آسی سے مزید علمی استفادہ کیا۔اور باطنی علوم کی تحصیل کے لیے سلسلہ چشتیہ صابریہ بھیکیہ کے معروف بزرگ شاہ محمد فاروق حنفی رام پوری کے دامن فیض سے وابستہ ہوئے۔اور خوب فیض پایا۔ ۱۹۲۴ء میں آپ نے امرتسر سے ’’کشاف‘‘کے نام سے ایک اخبار جاری کیا۔جس میں جوتش، رمل، نجوم، شاعری، علم وادب کے ساتھ ساتھ روحانیت پربھی مضامین شائع ہوتے تھے۔ ان علوم میں آپ بڑے ماہر تھے علم ریاضی میں بھی کمال حاصل تھا، اس وقت کے بڑے بڑے ریاضی دان آپ سے علم الحساب کے مسائل میں رہنمائی حاصل کرتے۔پنجابی زبان میں آپ کی متعدد تصنیفات ہیں، جن میں ’’بھاں بھاں بلیاں‘‘، ’’بھنڈا بھنڈاریاں‘‘’’ٹٹیاں دوستیاں‘‘،’’جنت دا میلہ‘‘،’’سنگھنی لسی‘‘معروف ہیں۔نعت رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم میں بھی طبع آزمائی کی ہے آپ کا نعتیہ مجموعہ ’’نظارۂ عالم‘‘ کے نام سے معروف ہے۔فنِ شاعری میں مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور علامہ حسین میر کاشمیری رحمھا اﷲ آپ کے تلامذہ تھے۔آپ نے۳ جولائی ۱۹۳۱ء کو وفات پائی اور امرتسر ہی میں تدفین ہوئی۔ (قدرے تفصیل کے لیے دیکھئیے محمد سلیم چودھری کی ’’ شعرائے امرتسر کی نعتیہ شاعری‘‘ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور، اشاعت اول ۱۹۹۶ء ص: ۲۸۶تا ۲۸۸)
۲۔سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، ’’سواطع الالہام‘‘، ص: ۶۳
۳۔ شورش کاشمیری،سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ سوانح وافکار،طباعت ۲۰۱۲ء ص:۵۸
۴۔سید عطاء اﷲ شاہ بخاری،’’سواطع الالہام‘‘ ص: ۵۹
۵۔شاہ جیؒ فرماتے ہیں: ’’اگر آج دنیا قرآن کو چھوڑ کر دوسری کتابوں کی طرف نگاہ کرسکتی ہے تو میں کیوں نہ دوسری کتابوں سے روگردانی اور اپنی تمام تر توجہ قرآن پر مرتکز کروں۔ میں تو قرآن کا مبلغ ہوں۔میری باتوں میں اگر کوئی تاثیر ہے تو وہ صرف قرآن کی وجہ سے ہے جو چیز مجھے قرآن سے الگ کر دے اسے آگ لگادوں۔‘‘(حکیم مختار احمد الحسینی، فرمودات امیر شریعتؒ مکتبہ تعمیر حیات چوک رنگ محل لاہور، ص ۲۸)وہ ہمیشہ فرماتے کہ: ’’مجھے ایک چیز سے محبت ہے اور وہ ہے قرآن، اور ایک چیزسے نفرت ہے اور وہ ہے انگریز‘‘(سیدہ ام کفیل بخاری،سیدی وابی، بخاری اکیڈمی، دار بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان، طباعت جنوری ۲۰۱۳ء، ص:۲۰)
۶۔ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی،’’اردو ادب میں تلمیحات‘‘اشاعت۱۹۹۰ء لکھنؤ، ص:۶۰
۷۔حضرت شاہ عبدالقادر رحمہ اﷲ کا ترجمۂ قرآن قرآنی تراجم میں شاہ جی کا محبوب ترین ترجمہ تھا۔آپ نے یہ ترجمہ خوب غور فکر سے پڑھا تھا سفروحضر میں ساتھ رکھا حتی کہ جیل میں بھی اس کا مطالعہ فرماتے رہے۔بیانات میں قرآنی آیات کے مختلف تراجم مثلاً مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ابوالکلام آزادؒ وغیرہ سامعین کو سناتے لیکن شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ سنا کران کی جامعیت اور مطابق اصل جیسی خصوصیات بیان کرنا شروع کر دیتے۔ایک دفعہ خطاب میں کسی آیت کا ترجمہ کیا اور فرمایا یہ شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ ہے پھر شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔اور اُن (حضرت شاہ ولی اﷲؒ) کے خَلَفُ الرشید شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے قرآن کریم کا ترجمہ اردو میں کیا۔ مگر ایسی ویسی اردو میں نہیں۔فصیح وبلیغ اردو میں۔ جس سے اگر عربی بنائی جائے توعین قرآن ہوگا۔ ترجمہ میں ایک لفظ بھی زیادہ نہیں۔ یہ ترجمہ انہوں نے چالیس سال میں مکمل کیا ہے۔ یہ ترجمہ تمام موجودہ تراجم کی جان ہے۔تو شاہ ولی اﷲ ؒ پہلے مترجم ہیں فارسی زبان میں اور اس کا بیٹا چراغ سے چراغ جلا۔ پہلا مترجم ہے قرآن مجید کا اردو زبان میں۔۴۰سال باوضو بیٹھ کر اس نے یہ ترجمہ مکمل کیا ہے۔ایک پتھر پر تکیہ لگایا کرتے تھے میں بہت دفعہ دہلی گیا ہوں۔ مگر برطانیہ کے ظلم واستبداد سے اس مسجد کا نشان مٹ گیا ہے۔اگر وہ مسجد اب موجود ہوتی تو میں اس میں جاکر دو رکعت نفل پڑھتا۔اور اس پتھر کو بوسہ دیتا اور دعا کرتا کہ اے خداوند! حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اﷲ علیہ کی روح پُر فتوح پر رحمتوں کی بارشیں برسا۔اللھم برد قبرہ بامطار الرحمۃ والغفران۔اس کا ترجمہ لفظ بہ لفظ ہے۔مفرد کا مفرد اور مرکب کا مرکب ترجمہ میرا خیال ہے اگر اﷲ تعالی اردو میں قرآن مجید نازل فرماتے تو وہ (بلامبالغہ) شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ میں ہوتا۔
(تکمیلِ دین، ص: ۲۸۔ ۲۹ خطاب امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ بمقام جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہر ۱۱ مئی۱۹۵۲ء طباعت: جنوری ۱۹۸۴ء مکتبہ معاویہ۔دارِ معاویہ ۲۳۲کوٹ تُغْلق شاہ ملتان شہر)
۸۔ماہنامہ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر، ج۲ ص ۱۸۴
۹۔’’بہارستان‘‘ مشمولہ’’کلیات ظفر علی خان‘‘ ص: ۴۳
۰۱۔ علامہ اقبال، بانگ درا، ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۱۹۹۳ء،ص: ۲۶۱
۱۱۔ علامہ اقبال، اسرارو رموز، کتب خانہ نذیریہ اردو بازار دھلی، ۱۹۶۲ء، ص: ۹۳
۱۲۔’’نگارستان‘‘مشمولہ’’کلیا ت ظفر علی خان‘‘ ص: 126
۱۳۔علامہ اقبال،’’ضرب کلیم‘‘ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،۱۹۷۵ص ۱۷۷
۱۴۔’’چمنستان‘‘ مشمولہ ’’کلیات ظفر علی خان‘‘ ص: 128
۱۵۔ام کفیل بخاری،بخاری اکیڈمی، دار بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان، طباعت جنوری ۲۰۱۳ء’’سیدی وابی‘‘، ص: ۲۶۹
۱۶۔سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، ’’سواطع الالہام‘‘ ص: ۴۴۱
۱۷۔ علامہ اقبال،’’ضرب کلیم‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۱۹۷۵،ص۵۸
۱۸۔ ’’بہارستان‘‘ مشمولہ’’کلیات ظفر علی خان‘‘ ص:۴۵۴
۱۹۔مولانا محمد یاسین خان قاسمی اس قول کے متعلق لکھتے ہیں:۔اس کا ذکر نہ صحیح وحسن روایات میں ملتا ہے، نہ ضعیف آثار میں، حتی کہ موضوعات میں بھی نہیں۔یہ حدیث کسی کتاب میں نہیں ملی۔البتہ علامہ مناوی نے(فیض القدیر جلد ۲ صفحہ ۴۱۰)میں لکھا ہے کہ وفی الخبر اور علامہ آلوسیؒ نے صراحتاً لکھا ہے کہ یہ ارشاد نبویﷺ ہے چنانچہ (روح المعانی جلد ۴ صفحہ ۷۹)میں لکھتے ہیں: ’’وفی الخبر عن سید العارفین صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم: سبحانک ماعرفناک حق معرفتک۔‘‘ مگر نہ اس کی کوئی اصل وسند بیان کی ہے، نہ کسی محدث وکتاب کا کوئی حوالہ دیا ہے اور راقم کو تلاش بسیار کے بعد بھی حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ روایت نہیں ملی اور جہاں تک علامہ آلوسی وعلامہ مناوی کی نقل کی بات ہے، تو راقم کی نزدیک یہ اس بات پر محمول ہے کہ ان دو بزرگوں نے شاید’’ماعبدناک حق عبادتک‘‘ ہی کے معنی ومفہوم کو ’’ماعرفناک حق معرفتک‘‘کے اسلوب وصیغے میں بیان کردیا ہے اور اس کا ایک قرینہ یہ ہے کہ ان دونوں نے ’’سبحانک‘‘کے اضافے کے ساتھ یہ کلام ذکر کیا ہے یعنی ’’سبحانک ماعرفناک حق معرفتک‘‘ اور اس اضافے کے ساتھ حضرت سلمانؓ کی روایت صحیحہ میں صیغۂ’’عبادت‘‘والی عبارت ہے،صیغہ ’’معرفت‘‘ والی نہیں۔ واﷲ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔تاہم اس کے مفہوم ومعنی پر ایک روایتِ حسنہ سے واضح دلالت ہوتی ہے،مسلم: ۱۱۱۸، الترمذی: ۳۵۶۶، النسائی: ۱۱۳۰،۱۷۴۷،ابوداؤد:۸۷۹، ۱۴۲۹، ابن ماجہ: ۱۱۷۹، مسند احمد: ۷۵۱، ۲۴۳۱۲،المستدرک للحاکم:۱۱۵۰، مصنف ابن ابی شیبہ: ۷۰۱۶، ۲۹۷۵۰ وغیرہ متعدد کتب حدیث میں حضرت عائشہ وحضرت علی رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ ﷺ دعا میں فرمایا کرتے تھے: ’’لا احصی ثنا علیک انت کما اثنیت علی نفسک۔‘‘ (اے اﷲ میں آپ کی مدح وثنا نہیں کرسکتا، آپ کی شان وصف ایسی ہی ہے جیسی کہ آپ نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے۔)اس سے ظاہر وباہر ہے کہ جس طرح خدا کی مدح وستائش کماحقہ بندے سے نہیں ہوسکتی، اسی طرح بلکہ بہ درجۂ اولی اس کی عبادت ومعرفت بھی کما حقہ نہیں ہوسکتی۔حاصل یہ کہ زیر بحث حدیث بعینہ دونوں جملوں کے ساتھ کہیں ثابت ومذکور نہیں ہے، تاہم صرف جملہ اولی دیگر روایات میں لفظاً ثابت ہے، مگر دوسرا جملہ لفظاً کہیں ثابت نہیں، مگر معنی دوسری روایت سے ثابت ہے۔واﷲ اعلم بالصواب۔ (مولانا محمد یاسین خان قاسمی، مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ، مکتبہ مسیح الامت دیوبند وبنگلور، اکتوبر ۲۰۱۸،ء، ص:۳۱۲ تا۳۱۴)
اس قول کے بارے میں تحقیق کے دوران مجھے محمد بن قطب الدین الازنیقی ؒ(المتوفی۸۸۵) کے ایک رسالے کا۲۵صفحات کا مخطوطہ ہاتھ لگا جس میں مصنف نے اصطلاح اہلِ تصوف، علم و معرفت کے معنی اور ادراک حقیقتِ ذات باری تعالی پر بڑی جامعیت اور عمدگی سے لکھا ہے۔اس قول کے متعلق وہ لکھتے ہیں:انہ وقع فی اوراد المشائخ الکبار الثقات، وارباب القبول والتفات ’’ سبحانک ما عرفناک حق معرفتک‘‘ فبعض من الناس نسب قایلہ الی الخطاء والخطل وبعض الی الکفر والزلل نعوذ باﷲ من لفظتہم الشغباء ومن مقالتہم النکراء عفا اﷲ عنہم۔ بڑے ثقہ مشائخ اور مرجع الخلائق اصحاب کے اوارد میں یہ قول وارد ہے کہ’’سبحانک ماعرفناک حق معرفتک‘‘(پس بعض لوگوں نے اس قول کے قائل پر غلطی کرنے اور لغو اور مہمل کلام کرنے کا حکم لگایا ہے اور بعض نے تو کفر اور گمراہی کا فتوی لگایا ہے۔ اﷲ تعالی کی پناہ ان لوگوں کے ناہموار کلام سے اور ان کی سخت کلامی سے۔اﷲ پاک ان سے در گزر فرمائے۔)
اس رسالے کے ایک فصل میں امام ابو حنیفہؒ کے اس قول ’’ماعبدناک حق عبادتک ولکن عرفناک حق معرفتک‘‘ (جو زیر تحقیق قول کے بالکل برعکس ہے)کو بھی تحقیق کا محور بنایا ہے اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ان دونوں اقوال میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں دونوں اپنی جگہ درست ہے، لفظا اگر چہ دونوں اقوال متضاد ہیں۔لیکن مفہوم اور معنی کے اعتبار سے ثقہ مشائخ کا مقولہ ’’ماعرفناک حق معرفتک‘‘ اور امام ابوحنیفہؒ کا مقولہ ’’عرفناک حق معرفتک‘‘ میں کوئی تضاد نہیں اس رسالہ میں انہوں نے دونوں اقوال کی معنا اور مفہوما عمدہ تطبیق کی ہے۔ حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون‘‘ میں بھی دو مقامات پر اس رسالے کا تذکرہ کیا ہے، ایک مقام پر ’’رسالۃ فی شرح سبحانک ما عرفناک حق معرفتک وتحقیقہ‘‘ (کشف الظنون،ج۱۸۷۱) کے نام سے اس رسالے کاتذکرہ کیا ہے جبکہ دوسرے مقام پر ’’الرسالۃ فی المعرفۃ‘‘ (کشف الظنون،ج ۱۸۹۲) کے نام سے ذکر کیا ہے۔
میں نے اس قول کی تحقیق کے لیے روح المعانی کے تحقیق وتخریج شدہ ایڈیشنوں کی ورق گردانی کی مگر وہاں بھی اس قول کے متعلق ان تحقیق نگاروں کو عاجز پایا۔مؤسسۃ الرسالۃ بیروت کے محقق نسخہ کے تحقیق نگار فاضل محقق ماھر حبوش نے (سورۃ آل عمران آیت ۱۴۵)کے ضمن میں بطور حدیث مذکور اس قول کے حاشیہ میں لکھا ہے’’لم نقف علیہ‘‘ ہمیں یہ قول (بطور حدیث کے) نہیں ملا۔ (علامہ الٓوسی، روح المعانی،تحقیق ماھر حبوش، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ج۵ ص۶۳ طبع ۲۰۱۰ء)
اسی طرح سورہ الحج آیت ۴۷ کے ضمن میں بھی علامہ الوسیؒ نے اس قول کو بطور حدیث کے ذکر کیا ہے۔فرماتے ہیں:وھذا ھو المراد فی قولہ علیہ الصلوۃ والسلام سبحانک ماعرفناک۔الخ اس کی تحقیق وتخریج فاضل محقق محمد معتز کریم الدین نے کی ہے انہوں نے بھی اس قول کے حاشیہ میں ’’لم نقف علیہ‘‘ہمیں اس قول کا سراغ نہ مل سکا۔لکھا ہے۔ (علامہ الوسی، روح المعانی،تحقیق محمد معتز کریم الدین،موسسۃالرسالۃ، بیروت، ج ۱۷ص ۴۱۴ طبع ۲۰۱۰ء)
الاستاذ سید عمران کی تحقیق سے مزین نسخہ جو’’المکتبۃ الوحیدیۃ پشاور‘‘ نے شائع کیا ہے اس میں انہوں نے مناویؒ کے فیض القدیر کا حوالہ دیا ہے جیسا کہ قبل ازیں ذکر ہوا اور لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند معلوم نہیں۔
میرامن نے ’’باغ وبہار‘‘ میں اس کو حدیث قرار دیا ہے معروف ادیب ومحقق رشید حسن خان اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:پہلے مصرع میں ’’میں نے پہچانا نہیں‘‘سے واضح طور پر مراد ہے اس مشہور قول سے ’’ماعرفناک حق معرفتک‘‘ میرامن نے اس قول کو قول پیغمبر یعنی حدیث بتایا ہے۔ (مرزا رجب علی بیگ سرور نے بھی دیباچہ فسانہ عجائب میں بہ ذیل حمد اس قول کو حدیث لکھا ہے۔’’جس کی شان میں مخبر صادق صلی اﷲ علیہ وسلم یہ فرمائے، دوسرا اس عہدے سے کب بر آئے: ماعرفناک حق معرفتک‘‘)شیخ سعدی نے گلستان کے دیباچے میں لکھا ہے:’’عاکفان کعبہ جلالش بہ تقصیر عبادت معترف کہ ما عبدناک حق عبادتک۔ واصفان حلیہ جمالش بہ تحیر منسوب کہ ماعرفناک حق معرفتک۔‘‘(گلستان، بہ تصحیحِ عبدالعظیم گرگائی، طبع ایران) سعدی نے جس طرح ان اقوال کو لکھا ہے، اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ قول پیغمبر یعنی حدیث نہیں اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔میں کوشش کے باوجود یہ معلوم نہیں کرسکا کہ یہ کس کا قول ہے۔بہ ظاہر یہ کسی صوفی کی کہی ہوئی بات معلوم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی (استاد شعبہ اردو، بنارس یونی ورسٹی) نے میرے خط کے جواب میں لکھا تھا: ’’ماعرفناک حق معرفتک کے سلسلے میں آپ کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے، لیکن یہ کہ یہ کس کا قول ہے؟اس کی تحقیق کی میں نے کوشش ضرور کی، لیکن مجھے اس میں کام یابی نہیں ہوئی۔ میں کسی قدر اس کی تفصیل عرض کیے دیتا ہوں۔جلال الدین سیوطیؒ نے الجامع الصغیر میں حروف تہجی کی ترتیب سے مشہور احادیث وآثار کے ابتدائی ٹکڑے نقل کرتے ہوے ان کے ماخذ کی نشان دہی کی ہے، اس کتاب میں یہ قول مذکور نہیں۔شمس الدین سخاوی نے ’’المقاصد الحسنہ‘‘میں مشہور اقوال وآثار جمع کیے ہیں پھر ان کے حدیث، اثر یا قول ہونیکی تحقیق کی ہے۔اس میں ماعرفناک الخ کا ذکر نہیں۔ملا علی قاری نے’’تذکرۃ الموضوعات‘‘میں ان تمام اقوال کو بڑی حد تک جمع کر دیا ہے جن کے بارے میں ’’حدیث‘‘ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے حالانکہ وہ حدیث نہیں ہیں۔ لیکن زیر بحث قول ان کے یہاں بھی موجود نہیں۔البتہ ایک دوسرا مشہور قول ’’من عرف نفسہ فقد عرفہ ربہ‘‘ موجود ہے اور اس کے بارے میں یہ تصریح کی ہے کہ یہ حدیث نہیں بلکہ یحیی بن معاذ الرازی کا قول ہے۔قرآنِ پاک کی ایک آیت ہے’’وما قدروا اﷲ حق قدرہ‘‘ (سورۂ زمر) یہ خیال آیا کہ ممکن ہے اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں کسی مفسر نے متذکرہ بالا قول نقل کیا ہو، چنانچہ متقدمین میں حافظ ابن کثیر کی تفسیر ابن کثیر اور متاخرین میں علامہ آلوسی کی روح المعانی دیکھ ڈالیں، لیکن ان میں بھی اس کا پتا نہ چلا۔(اگر چہ روح المعانی میں دومقامات پر بطور حدیث کے یہ قول علامہ آلوسیؒ نے نقل کیا ہے۔جیسا کہ قبل ازیں آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں۔فارانی )جرمن مستشرقین کی ایک جماعت نے احادیث کے دس مشہور مجموعوں کا اشاریہ تیار کیا ہے، احتیاطاً اسے بھی دیکھ لیا۔آیندہ اگر کہیں اس کا سراغ مل گیا تو ان شاء اﷲ لکھ بھیجوں گا۔‘‘ (باغ وبہار از میرامن، تحقیق رشید حسن خان ص۳۹۲۔ ۳۹۳)
علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں اس قول کو بطور حدیث کے ذکر کیا ہے جیسا کہ اوپر آپ پڑھ چکے ہیں ان کے تلمیح نگارڈاکٹر اکبر حسین قریشی لکھتے ہیں: یہ جملہ حدیث کی حیثیت سے مشہور ہے لیکن احادیث کے کسی مجموعہ میں نہیں ملا۔(مطالعہ تلمیحات واشارات اقبالؒ از ڈاکٹر اکبر حسین قریشی،انجمن ترقی اردو (ہند) علی گڑھ، ص:۱۱۰)فضل الہی عارف نے بھی’’تلمیحاتِ اقبال‘‘ میں اس کو کسی بزرگ کا مقولہ قرار دیا ہے۔(ص:۷۶)
۲۰۔ علامہ اقبال، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور، ۱۹۵۹ء، ص ۲۰۶
۲۱۔ علامہ اقبال، بانگ درا، کتب خانہ حمیدیہ دہلی، ۱۹۹۰ء ص: ۷۷
۲۲۔ حدیث ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ کو علامہ صغانیؒ نے موضوعات ص:۲۵میں، حافظ ابن الجوزیؒ نے کتاب الموضوعات۱۲۸۸میں، حافظ ابن تیمیہؒ نے مجموع الفتاوی۲۱۸۱۔ ۱۸۵میں، علامہ شوکانیؒ نے الفوائد الجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ۱۰۸میں حافظ ذہبیؒ نے تلخیص المستدرک ۲۶۱۵میں، حافظ ابن عراق ؒ نے تنزیہ الشریعہ۱۳۲۴ میں اور علامہ عبدالحئی لکھنویؒ نے الآثار المرفوعہ۴۴، میں من گھڑت قرار دیا ہے۔ مگر یہ کہ ملاعلی قاریؒ اور بعض دیگر علماء نے اس حدیث کے معنی کی صحت کا دعوی کیا ہے، شیخ الحدیث جامعہ مظاہر علوم سہارنپور حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ نے اپنی کتاب ’’الیواقیت الغالیۃ فی تحقیق وتخریج الاحادیث العالیۃ‘‘میں متعدد مقامات پر حدیث لولاک کے بارے میں تحقیقی انداز سے لکھا ہے۔یہاں پر اسی کتاب سے ایک جامع بحث ’’حدیث لولاک‘‘ کے متعلق پیش ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ لکھتے ہیں:
’’حدیث لولاک‘‘ بلفظہ کہیں نہیں ملتی، اسی لئے حسن بن محمد صغانی لاہوریؒ نے اس کو موضوع کہا ہے، لیکن ملا علی قاریؒ اور اسماعیل بن محمد عجلونیؒ کہتے ہیں کہ اس کے معنی صحیح ہیں، عجلونیؒ کہتے ہیں: ’’اقول: معناہ صحیح وان لم یکن حدیثا‘‘۔ میں کہتا ہوں اگرچہ یہ حدیث نہیں لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔اور ملا علی قاریؒ نے اس کے معنی کی صحت کا اس لئے دعوی کیا ہے کہ متعدد روایتوں میں یہ مضمون وارد ہوا ہے، بندہ کی معلومات میں یہ مضمون حضرت ابن عباس و عمر و حضرت سلمان رضی اﷲ عنہم کی روایتوں میں وارد ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کی حدیث جس کو حاکم نے ’’المستدرک‘‘میں ’’فلو لا محمد ماخلقت آدم ولولا محمد ماخلقت الجنۃ ولا النار‘‘کے الفاظ سے وارد ہے، روایت کی ہے، حاکم کہتے ہیں:’’ھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘۔اس حدیث کی سند صحیح ہے۔لیکن حافظ ذہبیؒ نے ان پر نقد کیا ہے اور فرماتے ہیں: ’’اظنہ موضوع‘‘۔میرا گمان ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔اور’’میزان الاعتدال‘‘میں اس روایت کے راوی عمرو بن اوس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: ’’یجھل حالہ والخبر منکر، واظنہ موضوع‘‘عمرو بن اوس مجہول الحال ہے، اور خبر منکر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ من گھڑت ہے۔اور حافظ ابن حجرؒ نے’’لسان المیزان‘‘ میں اس پر (حافظ ذہبیؒ کے قول پر) کوئی نقد نہیں کیا ہے۔اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی حدیث طبرانیؒ نے ’’معجم صغیر‘‘میں اور حاکمؒ نے ’’مستدرک‘‘میں اور بیہقیؒ نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں روایت کی ہے، اور اس میں’’لولا محمد ماخلقتک‘‘کے الفاظ وارد ہیں۔ حاکمؒ کہتے ہیں: ’’صحیح الاسناد‘‘۔ اس کی سند صحیح ہے۔لیکن ذہبیؒ ان پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’بل موضوع‘‘۔ بلکہ یہ من گھڑت ہے۔اور اس کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق لکھتے ہیں: ’’واہٍ‘‘یعنی بہت ضعیف ہیں، اور عبداﷲ بن اسلم فہری کے متعلق فرماتے ہیں:’’لاادری من ذا؟‘‘معلوم نہیں یہ کون ہے۔اور میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں:’’خبر باطل، و رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ‘‘۔ یہ خبر باطل ہے اور بیہقی نے اسے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ’’لسان المیزان‘‘میں ذہبیؒ کا کلام نقل فرمایا ہے، لیکن اس پر بھی کوئی نقد نہیں کیا۔
اور سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کی حدیث ابن الجوزیؒ نے ’’کتاب الموضوعات‘‘ میں روایت کی ہے اور ان کے الفاظ ’’لولاک یامحمد ما خلقت الدنیا‘‘۔ ہیں فرماتے ہیں:’’ھذا حدیث موضوع لاشک فیہ، وفی اسنادہ مجھولان وضعفاء، قال الدار قطنی: ابو السکین ضعیف، وابراہیم بن الیسع ویحیی البصری متروکان‘‘۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ حدیث من گھڑت ہے اور اس کی سند میں مجہول وضعیف راوی ہیں، دار قطنی فرماتے ہیں کہ (اس حدیث کی سند میں) ابو سکین ضعیف ہے اور ابراہیم بن یسع و یحیی بصری متروک ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ یہ روایت محدثانہ حیثیت سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی، مگر ملا علی قاریؒ کے سامنے چونکہ ان راویات کی اسانید نہیں ہیں، اسی لیے انہوں نے ’’حسن ظن بالمخرِجین‘‘ حدیث راویت کرنے والوں کے بارے میں حسن ظن کرتے ہوئے حدیث مشہور کی صحت کا دعوی کردیا، اور جن حضرات نے بھی صحت کا دعوی کیا ہے ان کو بھی یہی صورت پیش آئی، یا پھر ملا علی قاری پر اعتماد کیا۔
(جونپوری، مولانا محمد یونس،’’الیواقیت الغالیۃ فی تحقیق وتخریج الاحادیث العالیۃ‘‘، انگلینڈ، مجلس دعوۃ الحق،ج۲ص: ۲۰۴۔ ۲۰۵)
۲۳۔علامہ اقبال ’’بانگِ درا‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۱۹۹۳، ص ۱۴۶
۲۴۔علامہ اقبال، بال جبریل، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ص:۴۳
۲۵۔علامہ اقبال، بالِ جبریل، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ص:۲۷
۲۶۔علامہ اقبال، بالِ جبریل، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ص:۶۷
۲۷۔علامہ اقبال، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور،۱۹۵۹ء، ص۲۰۶
۲۸۔مولانا ظفر علی خان،بہارستان، اردو اکیڈمی پنجاب لوہاری دروازہ لاہور،۱۹۳۷ء،ص ۳۲