(قسط: ۱)
نوراﷲ فارانی
سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی شہرت دوام کی سب سے بڑی وجہ ان کی شعلہ باراور وجد آفریں خطابت ہے۔ آپ کی خطابت کی اس شہرت نے آپ کے دیگر خصائص وکمالات پر پردہ ڈال دیا ہے۔ اس تحریر میں خطابت سے ہٹ کر ان کی ایک اور خصوصیت ’’شاعری‘‘ کی ایک پہلو پرخامہ فرسائی کی کوشش کی گئی ہے۔آپ خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شعرفہمی، شعر شناسی اور شعر گوئی کی دولت سے بھی نوازے گئے تھے۔ برصغیر پاک وہند کے بڑے باکمال اساتذہ سخن نے آپ کی شعر فہمی اورسخن شناسی کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ بڑے وقیع الفاظ میں اس حوالے سے داد وتحسین سے بھی نوازا ہے۔آپ نے اگر چہ باقاعدہ کوچۂ شعر گوئی میں نہ قدم رنجہ فرمایا ہے اور نہ اس دشت کی صحرا نوردی کی ہے۔ مگر باوجود اس کے آپ کی موزوں طبیعت کبھی کبھار شعر گوئی کی طرف ضرور مائل ہوئی۔ اور نہ چاہتے ہوئے کبھی فی البدیہہ اور کبھی کبھار کسی شاعر کے اشعار سے متاثر ہو کر شعر کہہ جاتے۔ آپ نے شعرگوئی میں سب سے پہلے باقاعدہ مولوی محمد دین غریب امرتسری (۱) شاگردی کی۔ وہ خود فرماتے ہیں:’’زمانۂ تعلیم میں سب سے پہلے میں نے مولوی محمد دین صاحب غریب امرتسری مرحوم کی شاگردی کی۔ وہ کوچہ خراسیاں (امرتسر) میں رہتے تھے۔ میں ان کے پاس وہیں ان کے مکان پر جایا کرتا تھا۔ انہوں نے مجھے مصرع طرح دیا۔
ادھر ڈھونڈتی ہے اُدھر ڈھونڈتی ہے
اور کہا کہ شعر بنا کر لاؤ۔ اس پر میں نے مصرع لگایا۔
وہ آنکھوں میں موجود اور چشم حیراں
دوسرے دن میں نے جاکر کہا کہ ایک ہی مصرع لگا کر لایا ہوں۔ سن کر پھڑک اٹھے اور بہت داد دی۔‘‘ (۲)
مولانا غریب امرتسری کے بعد میانوالی جیل میں سالک مرحوم سے بھی اصلاح ومشورۂ شعر وسخن فرماتے رہے۔ علامہ طالوت کو بھی استاد کہتے اور ان سے گاہے بگاہے اصلاح لیتے۔ اپنی طوفان آسا زندگی کے نشیب وفراز میں جب طبیعت موزوں پاتے تو اردو یا فارسی میں اشعار کہتے۔ شورش کاشمیری کے بقول ’’کوئی باقاعدہ شاعر نہ تھے اور نہ شاعری باقاعدہ تھی۔ بس جذبات کا ایک اُبال تھا‘‘ (۳)
علامہ طالوت شاہ جی کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’نہ یہ اشعار اس بنا پر انہوں نے لکھے ہیں کہ واقعی وہ شعر لکھ رہے ہیں اور نہ فن کو انہوں نے کبھی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ان کی حیثیت محض تبرکات اور تاریخ کے گم ہوجانے والے اوراق کے لیے صرف یاداشت کی ہے اور بس‘‘ (۴)
شاہ جی کی شاعری کا مختصر مجموعہ ان کے فرزند ارجمند حضرت مولانا ابوذر بخاری ؒنے مرتب فرماکر مارچ ۱۹۵۵ء میں شائع کردیا تھا۔اس مجموعہ میں چند نعتیں، بعض بزرگوں کی منقبت، اس دور کے سیاسی اور ملکی حالات کی منظر کشی اور طنزومزاح پر مشتمل اشعار شامل ہیں۔ابتداء میں ’’تعارف‘‘کے عنوان سے مرتبِ کتاب سید ابوذر بخاری کا۳۸ صفحات پر بسیط مضمون شامل ہے۔اس کے بعد علامہ طالوت کا تقدمہ شاملِ کتاب ہے جو اٹھارہ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں باقی کتاب میں شاہ جی کی شاعری اور ان کا شان ورود ذکر کیا گیا ہے۔پوری کتاب۱۵۲صفحات کی حامل ہے۔ چونکہ آپ ایک عالم دین تھے اور قرآن و حدیث کا علم رکھتے تھے۔قرآن سے آپ کی بے پناہ شغف ومحبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔(۵) یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں جا بجا قرآنی تلمیحات کے حوالے ملتے ہیں اور کیونکہ ہمارا موضوع فقط وہ تلمیحات ہیں جن کا تعلق قرآن حکیم سے ہے۔(اور ایک دو تلمیحات احادیث کے بھی) سو ہم فقط اسی پر اکتفا کریں گے۔
ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی نے تلمیح کی مختلف تعریفات کا جائزہ لینے کے بعد ہر ایک تعریف میں کمی وزیادتی کا ذکر کیا ہے اور آخرمیں تلمیح کی ایک جامع تعریف لکھنے کی سعی کی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’تلمیح وہ صنعت معنوی ہے جس میں شاعر اپنے کلام میں کسی مسئلۂ مشہور یاقصہ یا قول یا مثل یا اصطلاح نجوم یا موسیقی وغیرہ کی طرف اشارہ کرے جس کے بغیر معلوم ہوئے اور بے سمجھے کلام کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آوے۔ آیت قرآن پاک کا لانا،کسی معجزہ کا ذکر کرنا، کسی حدیث کو نظم کرنا، کسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرنا تلمیح کی تعریف سے خارج از بحث نہ سمجھنا چاہیے بلکہ ان کو بھی تلمیح کی تعریف کا ایک ضروری جزء تصور کرنا چاہیے۔‘‘ (۶) آیات مبارکہ کے ترجمہ کے لیے شاہ عبدالقادرؒ کے قرآنی ترجمہ ’’موضح قرآن‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے۔(۷) ایک دومقامات پر اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری آیت کے بجائے مطلوبہ حصے پر اکتفاکیا گیا۔سواطع الالہام کا صفحہ نمبر حوالوں کی کثرت سے بچنے کے لیے ہر شعر کے سامنے مضمون کے متن میں لکھا گیا ہے۔
(1) اِلَّا فِرَارَا
اسے وعظ سننے کا ہے شوق بیحد
نتیجہ نہیں کچھ بھی اِلَّا فِرَارَا (ص۸۶)
اس شعر میں مصرع ثانی کا قرآنی جزو (سورۂ نوح آیت: ۲۸)سے لیا گیا ہے۔ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَائِی إِلَّا فِرَارًا۔ ترجمہ: پھر میرے بلانے سے اور زیادہ بھاگتے رہے۔
ایک مرتبہ شاہ جیؒ نے قوم کی اس بے وفائی اور بے اعتنائی کے بارے میں صاحبزادہ فیض الحسن کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:میں اس قوم کو اچھی طرح جانتا ہوں یہ تقریر میری سنتی ہے۔ بچہ نہ ہو تو تعویذ آپ سے لیتی ہے۔ تفسیر ابوالکلام کی پڑھتی ہے۔ حدیث حسین احمد مدنی سے سنتی ہے۔فقہ اور فتویٰ کے لئے مفتی کفایت اﷲ کے پاس جاتی ہے۔علم احمد علی سے سیکھتی ہے مگر ووٹ کسی اور کو دیتی ہے۔ (۸)
(2) اِلَّا تَبَارَا
ستاروں کی آپس میں یہ گفتگو تھی
مقدر نہیں اس کے اِلَّا تَبَارَا (ص۸۶)
اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں مذکور قرآنی الفاظ (سورۂ نوح آیت: ۲۸) سے لیے گئے ہیں۔وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا۔
ترجمہ: اور گنہگاروں پر یہی بڑھتا رکھ۔
(3) جنۃ النعیم
باغ وبہار ما ندیم یعنی کہ جنت النعیم
روئے خوش است وخوئے خوش بوئے خوش وگلوئے خوش (ص۹۴)
پہلے مصرعہ کے آخر میں وارد قرآنی ترکیب قرآن مجید میں پہلے جزو کے واحد اور جمع دونوں صورتوں میں دس مرتبہ آیا ہے ہم نے یہاں (سورۃ الشعراء ایت ۸۰)کو ترجیح دی ہے۔وَاجْعَلْنِی مِنْ وَرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیمِ۔ترجمہ: اور کر مجھ کو وارثوں میں نعمت کے باغ کے۔
مولانا ظفر علی خان کا شعر ہے۔
نصرت دیں کا صلہ دنیا میں ہے فتح مبیں
اور انعام اس کا عقبی میں ہے جنت النعیم (۹)
(4) والتین والزیتون
دنیا کی بے ثباتی،بے وفائی اور مکر وفن پر مشتمل ایک نظم کے یہ اشعار جس میں قرآنی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
نہ یہ والتین کی دنیا نہ والزیتون کی دنیا
نہ یہ مفروض کی دنیا نہ یہ مسنون کی دنیا (ص۹۹)
سورۃ التین کی پہلی آیت ہے جو بالترتیب پہلے مصرع میں کچھ فصل کے ساتھ مذکور ہے۔
وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ۔ترجمہ: قسم انجیر کی اور زیتون کی۔
(5) طلسم سامری
طلسم سامری ہے یہ نہ ہے ہارون کی دنیا
یہ ہے فرعون کی دنیا یہ ہے قارون کی دنیا (ص۹۹)
اس شعر میں طلسم سامری تلمیح ہے جس سے سامری اور موسی علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔جو (سورۃ طہ آیت: ۸۰)میں مذکور ہے۔قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْ بَعْدِکَ وَاَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ۔
ترجمہ: فرمایا ہم نے تو بچلا دیا تیری قوم کو تیرے پیچھے، اور بہکایا ان کو سامری نے۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری (۱۰)
(6) فسق ورجس اور عذاب الھون
تم اس دنیا کو کیا جانو یہ دنیا کیسی دنیا ہے
یہ فسق ورجس کی دنیا عذاب الھون کی دنیا (ص۹۹)
اس شعر میں ’’فسق ورجس‘‘قرآنی الفاظ ہیں جو (سورۃ الانعام آیت: ۱۴۵) سے لیے گئے ہیں۔ شعر میں تقدیم وتاخیر سے استعمال کیے گئے ہیں، اسی طرح ’’عذاب الھون‘‘بھی قرآنی اقتباس ہے۔ جو (سورۂ الاحقاف :۲۰) سے شعر کی زینت ہے۔ آیات ملاحظہ ہوں۔
قُلْ لَا اَجِدُ فِی مَا اُوحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلَی طَاعِمٍ یَطْعَمُہُ إِلَّا اَنْ یَکُونَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَسْفُوحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیرٍ فَإِنَّہُ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللَّہِ بِہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّکَ غَفُورٌ رَحِیمٌ۔ترجمہ: تو کہہ میں نہیں پاتا جس حکم میں کہ مجھ کو پہنچا،کوئی چیز حرام، کھانے والے کو جو اس کو کھاوے مگر یہ کہ مردہ ہو، یا لہو پھینک دینے کا،یاگوشت سور کا کہ وہ ناپاک ہے یا گناہ کی چیز جس پر پکارا اﷲ کے سوا کسی کا نام پھر جو کوئی عاجز ہو نہ زور کرتااور نہ زیادتی تو تیرا رب معاف کرتا ہے مہربان۔
فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ۔ترجمہ: اب آج سزا پاؤ گے ذلت کی مار،بدلہ اس کا جو تم غرور کرتے تھے ملک میں ناحق، اور اس کا جو تم بے حکمی کرتے تھے۔
(7) لاالٰہ
قِدم بہ جلوہ بہ بین وحدوث را بہ جبیں
چہ جلوہ وچہ جبیں، لاالہ می چکدش (ص۷۸)
اس نعت کا ترجمہ نظم معری کی ہیئت میں ابن امیرشریعت سید عطاء المحسن بخاری نے عمدہ انداز میں کیا ہے متذکرہ بالا شعر کا ترجمہ ان کی زبان قلم سے ملاحظہ ہو۔
قِدم علوم نبوت،حدوث عرق جبیں
کہ لاالہ علوم وجبیں سے ٹپکے ہے
اس شعر میں بھی ’’لاالہ‘‘ قرآنی الفاظ ہیں جو متعدد مقامات پر قرآن مجید میں وارد ہیں۔ ہم نے سورۃ البقرۃ: آیت ۱۶۳، اس تحریر میں شامل کی ہے۔
وَإِلٰہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ
ترجمہ:اور تمہارا رب اکیلا رب ہے۔ کسی کو پوجنا نہیں اس کے سوا۔بڑا مہربان رحم والا۔
(8) حبلِ ورید
خواجہ در ذات آنچناں پیوست
ہمچو آں ذات نزد حبلِ ورید ( ص۱۰۲)
اس شعر میں یہ قرآنی تلمیح تھوڑی سی تبدیلی(بغیر الف لام) کے ساتھ وارد ہے مگر اشارہ (سورۂ ق آیت:۱۶) کی طرف ہے۔وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ ترجمہ: اور ہم اس سے نزدیک ہیں دھڑکتی رگ سے زیادہ۔
یہ شعر حضرت شاہ جی کی فارسی نظم کی ہے جو انہوں نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی منقبت میں کہی ہے اور انتہائی وقیع الفاظ میں ان کے مقام ومرتبے کا ذکر کیا ہے اوراس نظم میں خواجہ صاحبؒ سے اپنی عقیدت ومحبت کا خوب اظہار کیا ہے۔اس شعر میں وہ خواجہ صاحب کے تقرب الی اﷲ کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:خواجہ غلام فریدؒ کو اپنے رب سے کمال تقرب حاصل تھا۔ایساتعلق اور تقرب جیسے رب کو انسان سے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔علامہ اقبالؒ یہ تلمیح اپنے ایک شعر میں یوں استعمال کرتے ہیں۔
قلب مومن را کتابش قوت است
حکتمش حبل الورید ملت است (۱۱)
اور مولانا ظفر علی خانؒ کا شعر ہے
مظلوم کی فریاد سنی اس کے خدا نے
کٹنے کو ستم گر کی ہے حبل ورید آج (۱۲)
(9) لات مناۃ
تم ذات صفات کو کیا جانو؟
لات مناۃ کے جاننے والو
تم کیا جانواے نادانو
تم کیا سمجھو تم کیا جانو ( ص۱۲۸)
اس شعر میں مذکور قرآنی اسماء (سورۃ النجم آیت: ۱۹۔۲۰)سے مستعار لیے گئے ہیں۔اَفَرَاَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰی وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی۔
ترجمہ: بھلا تم دیکھو تو! لات اور عزیٰ۔اور منات وہ تیسری پچھلی۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں۔
وہی حرم ہے وہی اعتبارِ لات ومنات
خدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری (۱۳)
(10) نستعین اور ایاک
بیا کمال شرافت بہ نستعین بنگر
نگاہ کن چہ وفاۂا بہ حرفِ ایاک است ( ص۱۴۲)
آئیے دیکھئیے شرافت کی اعلی مثال جو لفظ نستعین میں مضمر ہے۔اور لفظ ایاک سے مترشح محبت امیز وفاؤں پر بھی غور فرمائیں۔
اس شعر کے دونوں مصرعوں میں (سورۃ الفاتحۃ آیت:۴) سے استفادہ کیا گیا ہے۔اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ترجمہ: تجھی کو ہم بندگی کریں،اور تجھی سے مدد چاہیں۔
مولانا ظفر علی خان لفظ ’’ایاک نستعین‘‘سے اپنے ایک شعر کو مزین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
غیر از خدا کسی سے مدد مانگتے نہیں
مل کر پکارتے ہیں ایاک نستعین (۱۴)
(11) یفعل مایشاء اور یحکم مایرید
یفعل مایشاء ہے شان اس کی
یحکم ما یرید ہے آن اس کی (۱۵)
اس شعر کے دونوں مصرعوں کے ابتداء میں قرآنی الفاظ(سورۃ الحج آیت:۱۳اور آیت:۱۸) سے ماخوذ ہیں۔ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۔ ترجمہ: اﷲ کرتا ہے جو چاہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ۔ ترجمہ: اﷲ کرتا ہے جو چاہے۔
(12) مازاغ، وماطغٰی اور ماعرفناک
گرہ بطرۂ مازاغ وما طغیٰ بستند
ولے سخن ز سر تاج ماعرفناک است ( ص ۱۴۲)
اس شعر کے مصرع اولی میں قرآنی الفاظ(سورۃ النجم آیت ۱۷) سے لیے گئے ہیں۔مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی۔ ترجمہ: بہکی نہیں نگاہ اور حد سے نہیں بڑھی۔
شاہ جیؒ خود فرماتے ہیں: یعنی ایک طرف معراج میں تو یہ عالم ہے کہ جلوۂ ذات کے مشاہدہ میں آنکھ نہیں جھپکی اور دوسری طرف دنیا میں عبادت کا یہ حال ہے کہ عجز وحیرت اور فناء کلی کے مقام کو پہنچے ہوئے ہیں۔ اور اعلان ہورہا ہے کہ ہم نے آپ کو ابھی بھی نہیں پہچانا۔اورشاہ جیؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
’’شعر بھی ایسا لاجواب ہے کہ آج تک اس مضمون کے ساتھ خود میری نظر سے کسی استاد کا کلام نہیں گزرا۔ میں نے معراج لکھ دی ہے۔‘‘(۱۶)
اقبال کے ہاں ’’مازاغ‘‘ کی تلمیح ملاحظہ ہو۔
فروغِ مغربیاں خیرہ کررہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہبان ہو صاحبِ مازاغ (۱۷)
علاوہ ازیں اقبال نے دو تین اور مقامات پر بھی ’’مازاغ البصر‘‘ کی تلمیح استعمال کی ہے تطویل سے پہلو تہی کرتے ہوئے اسی ایک شعر پر اکتفاء کیاجاتا ہے۔
مولانا ظفر علی خان کا شعر ہے۔
آنکھ ما زاغ البصر کے سرمہ سے بیگانہ ہو
حیف ہے پھر بھی ہو اس کو ماطغی کی آرزو (۱۸)
زیر تبصرہ شعر کے دوسرے مصرعہ میں لفظ ’’ماعرفناک‘‘کو شاعر بطور حدیث کے لائے ہیں جبکہ یہ حدیث نہیں بلکہ ثقہ مشائخ کا ورد اور مقولہ ہے۔ہاں مولانا محمد یاسین خان قاسمی نے اس قول کو معناًدرست قرار دیا ہے (۱۹)
علامہ اقبال بھی اپنے فارسی اور اردو کے دو شعروں میں لفظ ’’ما عرفناک‘‘بطور حدیث کے لائے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔ فرماتے ہیں:
خدا اندر قیاس ما نہ گنجد
شناس آں را کہ گوید ماعرفناک (۲۰)
ایک اور اردو شعر میں اس قول کی طرف بطور حدیث کے اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
پھڑک اٹھا کوئی تری ادائے ماعرفنا پر
ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں (۲۱)
(جاری ہے)