نوید مسعود ہاشمی
وہ اپنے سربلند بابا امیر شریعت حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے صرف علمی وارث ہی نہ تھے بلکہ انھوں نے اپنے بابا سے ملنے والی درویش مزاجی، جرأت و بہادری اور تقویٰ و طہارت کی دولت کو بھی سنبھال سنبھال رکھا تھا۔
میرا اُن کے ساتھ پہلا سفر کشمیر سے واپسی پر ہوا کہ جہاں عباس پور کی مرکزی جامع مسجد میں مولانا اشفاق ربانی نے سالانہ کانفرنس میں ہمیں مدعو کیا تھا……بڑی شفقت سے فرمانے لگے کہ میری گاڑی جو کہ ٹیکسی تھی حاضر ہے، پنڈی تک ساتھ چلتے ہیں، ہاں البتہ راستے میں حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا یوسف کے گھر پر ضرور رکنا ہے کیونکہ انھوں نے خاص طور پر تاکید فرمائی کہ……مجھے یعنی (نوید ہاشمی) کو ضرور لے کر آنا۔
ابن امیر شریعت سید عطاء المؤمن بخاریؒ کی رفاقت بھرے اس سفر کی یادیں آج بھی دل و دماغ میں تروتازہ ہیں۔ میں بذریعہ ٹرین ساہیوال سے کراچی جا رہا تھا، ملتان سٹیشن پر ٹرین رکی مگر میں اوپر والی برتھ پر ہی لیٹا رہا، کچھ مسافر اترے اور کچھ ٹرین پر سوار ہوے…… مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میری برتھ کے نیچے ہلچل سی مچی ہو۔
آنکھیں کھولیں اور نیچے جھک کر دیکھا تو…… ان کا شیروں کی شباہت والا نورانی سراپا آنکھوں کے سامنے تھا…… ہڑبڑا کر برتھ پر اٹھ بیٹھا…… آنکھیں ملیں اور ڈرتے ڈرتے ایک دفعہ پھر نیچے جھانک کر دیکھا…… میری آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا تھا وہ واقعی امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے فرزند اور میرے دوست نما بزرگ سید عطاء المؤمن حسنی بخاریؒ تھے…… احقر اوپر والی برتھ پر اور حضرت بخاری نیچے والی برتھ پر…… یہ کیسے ہو سکتا تھا؟
میں نے چھلانگ لگائی اور نیچے اتر کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا…… انھوں نے اپنا چہرہ اٹھایا، میری طرف دیکھا اور کھڑے ہو کر مسکراتے ہوئے گلے لگا لیا…… میں نے حیرت سے پوچھا کہ تن تنہا اتنا لمبا سفر، نہ باڈی گارڈ، نہ کر و فر…… ٹرین کی بھی عام سی برتھ، حضرت دشمن ہمیشہ علماء کی تاک میں رہتا ہے کہیں نقصان نہ پہنچا ڈالے؟ ہنسے اور کہنے لگے کہ خالص حسینی ہوں، میدان چھوڑ کر بھاگوں گا نہیں بلکہ انگریز کے خود کاشتہ پودے مرزا قادیانی کے فسای گروہ کا آخری سانسوں تک تعاقب جاری رکھوں گا…… اس سفر میں بھی آپ نے بندہ ناچیز کے ساتھ جو شفقت بھرا معاملہ کیا وہ مرتے دم تک یاد رہے گا۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ یہ خاکسار ملتان پہنچا……روزنامہ اوصاف کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر برادرم مہر عزیز کے ہمراہ ہم دارِ بنی ہاشم پہنچے…… محترم سید محمد کفیل بخاری سے ملاقات کے بعد ابن امیر شریعت سید عطاء المؤمن بخاری کی عیادت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوئے تو شاہ جی ویل چیئر پر بڑے ہی محبت آمیز انداز میں ملے…… فرمانے لگے مجھے پتہ ہے کہ تمھارا قلم خوب چلتا ہے…… اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں اور بیوروکریسی کو قادیانی جکڑنے کی کوششیں کر رہے ہیں…… بے حیائی اور فحاشی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ان حالات میں اپنے ’’قلم‘‘ کو ختمِ نبوّت کے دفاع اور فحاشی و عریانی کے خلاف وقف رکھنا اﷲ ہی کی توفیق سے ممکن ہوتا ہے۔
ابن امیر شریعت سید عطاء المؤمن بخاریؒ کی محبتیں اور شفقتیں میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ وہ ساری زندگی دین کے سچے داعی اور منکرین ختمِ نبوّت کے خلاف شمشیر برہنہ بن کر رہے…… وہ ’’پاکستان‘‘ سے صرف ۷ برس بڑے تھے…… مگر انھوں نے پاکستان کو بے حیائی، فحاشی اور قادیانی گستاخوں سے پاک کرنے کے لیے اپنی ساری زندگی کھپا ڈالی۔ سید عطاء المؤمن بخاریؒ ایک ایسے مرد قلندر تھے کہ لگ بھگ ۶۰ برس تک خطابت کے جوہر دکھاتے رہے…… طالبان حق کو عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے جام بھر بھر کے پلاتے رہے…… ملک کے طول و عرض میں ختمِ نبوّت کا پرچم لہراتے رہے، مگر نہ اپنے لیے کوٹھی بنائی، نہ بنگلہ خریدا اور نہ ہی کار کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوئے۔
بدھ کی صبح مجھے ملتان سے ایک دوست صحافی کا فون آیا…… اس کے لہجے کی دل شکستگی محسوس کی تو میں نے وجہ پوچھی…… کہنے لگا بس ہاشمی صاحب! میڈیا سے دل ٹوٹ چکا ہے، اب میں میڈیا کی لائن چھوڑ دوں گا…… کیوں؟ خیریت تو ہے؟ کتنا بڑا انسان ۷۷ سال کی عمر میں ملتان سے رخصت ہوا، جو علم کا سمندر، تقویٰ کا پہاڑ، حب الوطنی کا شہسوار اور ختمِ نبوّت کے محاذ کا ایک سپہ سالار تھا…… جس نے ۶۰ سال تک صرف ملتان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دور دراز گاؤں گوٹھوں تک ختمِ نبوّت کے پیغام کو پہنچایا…… ان کی نماز جنازہ میں علماء، صلحاء اور عوام نے جوق در جوق ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔
مگر ہمارا میڈیا رخصت ہو جانے والے اس مرد قلندر کی وفات پر اندھا اور گونگا بنا رہا…… یہ سن کر میں نے کہا دوست! عاصمہ جہانگیر یا کسی سیکولر گستاخ کا جنازہ ہوتا تو الیکٹرانک میڈیا اسے لائیو دکھاتا…… اس کی موت کے سوگ کو پاکستان کے گھر گھر تک پہنچانے کی کوشش کرتا، منگل کی شام ملتان کے سپورٹس گراؤنڈ میں ہونے والے جنازے میں شامل ہونے والے انسانوں کے سمندر نے نمناک آنکھوں کے ساتھ علم و تقویٰ کے اس حسین امتزاج کو رخصت کیا…… وہ ایک متقی، عالم دین اور سچے عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا جنازہ تھا…… عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں مختصر لباس اور ننگے سر والی عورتیں بھی شامل تھیں، میڈیا پر اس کا دکھایا جانا اس لیے بھی ضروری تھا، جب کہ سید عطاء المؤمن بخاریؒ کے جنازے میں نہ عورتیں شریک تھیں…… اور نہ ہی اقوام متحدہ کے کسی سیکرٹری نے ان کے لیے تعزیتی بیان جاری کیا تھا…… نہ کسی بھارتی ہندوں نے انھیں انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیا تھا…… جس شخص کے پیچھے نہ دہلی کا مائنڈ سیٹ ہو، نہ امریکہ اور اسرائیل کا سیٹ اپ ہو، پاکستانی میڈیا بھلا اس کا جنازہ کیسے دکھا سکتا ہے؟ اس کی دینی اور قومی خدمات پر اسے خراجِ تحسین کیسے پیش کر سکتا ہے؟
ویسے بھی سید عطاء المؤمن بخاریؒ ساری عمر کسی میڈیا کے محتاج نہیں رہے…… عشق رسالت جن کی پہچان ہو…… نہ ان کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے نام کو مٹایا جا سکتا ہے۔ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، ویسے ہی ابن امیر شریعت سید عطاء المؤمن بخاریؒ بھی ہمارے دلوں میں دھڑکن کی طرح زندہ رہیں گے۔ ان شاء اﷲ (مطبوعہ: روزنامہ ’’اوصاف‘‘ ۲۶؍ اپریل، ۲۰۱۸ء )