علامہ محمد عبداﷲ رحمہ اﷲ (احمدپوری )
قبیلہ قریش سے تعلق ہے، مکہ کے بڑے متموّل لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، بلکہ ان کا نام سر فہرست ہے۔ عمر چالیس سال ہے، گویا جوانی کی حدود سے نکل چکی ہیں، خاندانی عزت کے علاوہ اپنے بلند اور پاکیزہ کردار کی وجہ سے ’’طاہرہ‘‘ کے پیارے لقب سے پکاری جاتی ہیں۔
دوسری طرف ، عبدالمطلب کے یتیم پوتے، ابوطالب کے بھتیجے، محمد بن عبداﷲ اپنی نیک نفسی، راست بازی اور امانت داری کی وجہ سے مثالی شخصیت بن چکے ہیں۔ پچیس سال عمر ہے۔ اٹھتی ہوئی جوانی اور پھر اس پر رعنائی ودلفریبی کا یہ عالم کہ بولیں تو پھول جھڑیں، چلیں تو سراپا و قار وتمکنت ، شرم وحیا کے پیکر اور اخلاق حسنہ کے مجسمہ ہیں۔ بقول حسان بن ثابت کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَاتَشَاءُ یعنی صورت اور سیرت کے لحاظ سے اپنی مرضی کے مطابق سانچے میں ڈھلے ہوئے۔ اگر خواہش کریں تو مکہ کی حسین ترین دوشیزائیں ان کی رفاقت میں آنے پر فخر کریں، لیکن واہ رے نصیب اس چہل سالہ طاہرہ طیبہ کے! اپنا سامان تجارت، ابو طالب کے بھتیجے کو دے کر روانہ کرتی ہیں وہ واپس آتے ہیں تو ان کی امانت و دیانت سے اتنی متاثر ہوتی ہیں کہ خود ہی عقد کے لیے درخواست کرتی ہیں۔ سن وسال میں تناسب نہیں ہے، مزید یہ کہ دو خاوندوں سے بیوہ ہوچکی ہیں جب کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ناکتخدا (کنوارے) ہیں بظاہر کوئی جوڑ نہیں، مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کی درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ مکہ کے دستور کے مطابق عقد کی تکمیل ہوتی ہے، ابوطالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور یوں سیدہ خدیجہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفیقۂ حیات بن گئیں۔ رفاقت خوب نبھی، سیدہ خدیجہ نے وفاداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان کے بطن سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوصاحب زادے، حضرت قاسم اور حضرت عبداﷲ (جن کے لقب طاہر اور طیب بھی ہیں) اور چار صاحب زادیاں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمۃالزہرا رضی اﷲ عنہن ہوئیں۔
شادی کے بعد پندرہ سال کا عرصہ بیت گیا۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر چالیس سال ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت اور رسالت کے منصب عالی پر سرفراز فرمایا گیا(تفصیل سیرت کی کتابوں میں دیکھیے) دعوت کا سلسلہ شروع ہوا تو علی الاطلاق سب سے پہلے لبیک کہنے والی یہی رفیقۂ حیات سیدہ خدیجہ طاہرہ ہیں(علیھا وعلی سائر امہات المومنین سلام اللّٰہ ورضوانہ) یوں سیدہ طاہرہ کو خاتون اول اور امت مسلمہ کی پہلی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا۔ زہے نصیب!
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا دس سال تک بقید حیات رہیں، ان دس سالوں میں مسلمانوں اور خود ذات اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ قریش کی جفاکاریاں اور ستم رانیاں بالعموم معلوم ہیں۔ اس عرصہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب حتی المقدور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے سپر بنے رہے وفا شعار رفیقۂ حیات نے خدمت گزاری اور غم گساری میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ اﷲ کی مرضی کہ بعثت کے دسویں سال پہلے چچا ابوطالب فوت ہو گئے اور پھر چند ہی روز بعد رفیقۂ حیات داغ مفارقت دے گئیں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعْوْنَ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایام زندگی جس تلخی ترشی سے گزر رہے تھے، اس پر مستزادیہ صدمے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سال کانام عام الحزن رکھا۔
ماہ وسال گزرتے رہے، گردش لیل ونہار، گوناگوں انقلابات سے دوچار کرتی رہی، مگر سیدہ خدیجہ کی یاد کبھی قلب اقدس سے نہ گئی۔
آتی رہیں گی یاد ہمیشہ وہ صحبتیں
ڈھونڈا کریں گے ہم تمہیں فصل بہار میں
جب تک سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا زندہ رہیں، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسرا عقد نہیں فرمایا۔ ان کی وفات کے بعد، بعض احباب کے مشورے پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدہ سودہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح فرمایا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے ازدواجی تعلق، ہجرت کے بعد ہوا۔سیدہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں مجھے کسی پر اتنا رشک نہیں آتا تھا جتنا کہ بی بی خدیجہ پر آتا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کثرت سے ان کاذکر فرماتے اور جب گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی سہیلیوں کو بھجوایا کرتے تھے ۔ایک دن تو سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا یہاں تک حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہہ گزریں ’’آپ بار بار اس بڑھیا کو کیوں یاد کرتے ہیں ؟جبکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتربیویاں دی ہیں‘‘ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ناراض ہوکر جواب میں ارشاد فرمایا۔ تم نہیں جانتی وہ اس وقت مجھ پر ایمان لے آئیں، جبکہ ایک بھی میرا ماننے والا نہیں تھا۔ اس نے اس وقت میری تصدیق کی، جب کہ لوگ میری تکذیب کررہے تھے ۔ اس نے اس وقت اپنا مال میرے سپرد کر دیا جب کہ لوگ مجھ سے دور بھاگتے تھے۔ پھر اﷲ نے اس سے مجھے صاحب اولاد کیا۔سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں میں نے دل میں طے کرلیا کہ آئندہ کبھی ان کاذکر برائی سے نہ کروں گی۔ ایک مرتبہ جبرئیل امین علیہ السلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا بی بی خدیجہ آپ کے پاس آرہی ہیں ان کے ہاتھ میں کوئی برتن ہے، جس میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہے۔ وہ پہنچ جائیں تو انہیں اﷲ رب العزت کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہیے۔ وبشرھا ببیت فی الجنۃ من قصب لاصخب فیہ ولانصب (بخاری شیریف ص ۵۳۹ ج۱ مسلم شریف ص ۲۸۴ج۲)
اور انہیں خوش خبری سنادیجئے کہ ان کے لیے بہشت میں ایک گھر جوف دار (اندر سے خالی) موتیوں سے بنا ہوا ہے جس میں نہ کوئی شوروغل ہوگا نہ کوئی تکان۔
بشارتیں اور حضرات وخواتین کو بھی ملی ہیں، لیکن جس شان سے خوشخبری کا یہ پروانہ سیدہ خدیجۃا لکبری رضی اﷲ عنہا کے نام آیا ہے یہ انہی کا حصہ ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ قرون گذشتہ کی بہترین خاتون سیدہ مریم علیہاالسلام تھیں۔ اور اس امت کی بہترین خاتون سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔ ھَنِیْئًا لَکِ یٰا اُم ا لمُؤْمِنِیْنَ سَلامُ اللّٰہِ وَرِضْوَانہ عَلَیْکِ