عطا محمد جنجوعہ
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل بیان فرمائے ہیں:
مَنْ سَبَّ عَلِیًّا فَقَدْ سَبَّنِیْ
ترجمہ: جس نے علیؓ کو گالی دی، اس نے مجھے گالی دی۔ (الصحیح المسند فی فضائل الصحابہ، ص: ۱۱۷)
اَلَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے فرمایا: ’’کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے، لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا‘‘۔ (صحیح البخاری، ح:۴۴۱۶)
لَأُعْطِیَنَّ ہٰذِہِ الرَّأْیَۃَ غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَی یَدَیْہِ یُحِبُّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ وَ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کل یہ جھنڈا میں اسے دوں گا جس کے ہاتھ پر اﷲ فتح دے گا، وہ اﷲ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اﷲ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم، ح:۲۴۰۶)
بلاشبہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے مناقب میں اور بھی احادیث ہیں لیکن کسی حدیث سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی خلافت بلافصل کا ثبوت نہیں۔
امامیہ کے شیخ محمد حسین النجفی نے اثبات الامامت میں حدیث اتحاد نور نبی و وصی کے تحت فضائل الصحابہ لاحمد کے حوالہ سے لکھا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہ میں اور علی ابن ابی طالب ایک نور تھے، خداوند کی بارگاہ میں حضرت آدم کی خلقت سے چار ہزار سال پہلے جب خدا نے اُن کو پیدا کیا تو اس نور کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، ایک جزمیں مَیں ہوں اور دوسرے جز علی ہیں۔ ابن المغاز کی روایت میں ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی اس نورانی خلقت سے متعلق فرماتے ہیں: میں اور علی ہمیشہ ایک ہی طرف میں رہے ہیں یہاں تک کہ جب حضرت عبد المطلب کے صلب میں پہنچے تو جدا جدا ہو گئے، مجھ میں نبوت ودیعت کی گئی اور علی میں خلافت۔
یہ حدیث شریف دو طریقوں سے حضرت امیر علیہ السلام کی خلافت مطلقہ پر دلالت کرتی ہے، ان دو بشر نورانی بزرگوں کے درمیان کسی اجنبی بشر کا حائل ہونا بالکل غیر معقول ہے۔
(اثبات الامامت، ص: 182 ، از محمد حسین النجفی، مکتبہ سبطین، سرگودھا)
جامعہ امام بخاری سرگودھا کے شیخ الحدیث غلام مصطفی اظہر امن پوری نے مذکورہ روایت کا حوالہ درج کرنے کے بعد تبصرہ کیا ہے:
تخریج: فضائل الصحابہ لاحمد:1130،مناقب علی لابن المعازلی ،ص 87
تبصرہ: باطل روایت ہے، اسے گھڑنے والا حسن بن علی بن زکریا بن صالح ابو سعید عاصمی بصری ہے، حافظ ذہبی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: کان یَضَعُ الْحَدِیْثَ۔ ترجمہ: ’’یہ احادیث گھڑتا تھا‘‘۔ (المغنی فی الضعفاء 253/1)
امام دار قطنی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ذَاکَ مَتْرُوْکٌ۔ ترجمہ: ’’یہ متروک الحدیث ہے‘‘۔ (سوالات السہمی، 253) نیز فرماتے ہیں: مَتْرُوْکٌ۔ ترجمہ: ’’متروک ہے‘‘۔ (تاریخ بغداد للخطیب، 384/7، سندہ حسن)
امام ابن عدی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: یَضَعُ الْحَدِیْثَ ، وَ یَسْرِقُ الْحَدِیْثَ وَ یَلْزِقُہُ عَلٰی قَومٍ آخَرِیْنَ وَ یُحَدِّثُ عَنْ قَوْمِ لَّا یَعْرِفُوْنَ ، وَ ہُوَ مُتَّہَمٌ فِیْہِمْ اِنَ اللّٰہَ لَمْ یَخْلُقْہُمْ۔
ترجمہ: ’’احادیث گھڑتا اور روایات سرقہ کر کے انھیں دوسرے راویوں سے منسوب کر دیتا ہے۔ وہ ان لوگوں سے روایات بیان کرتا ہے، جو پیدا ہی نہیں ہوئے۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال، 338/2)
حوالہ:(خلیفہ بلافصل ابوبکر صدیق ؓ، ص: 554تا 555)
مذکورہ روایت کے مطابق سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نور ہیں تو غور طلب پہلو یہ ہے کہ نوری سلسلہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ پر منقطع ہو گیا یا اولاد میں بھی جاری رہا؟
اگر سید نا علی رضی اﷲ عنہ پر نوری سلسلہ ختم ہو گیا تو دیگر ائمہ کرام کی عصمت و امامت کس بنیا د پر ہے؟ بصورت دیگر آپ کا مؤقف ہے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی اولاد میں بھی نوری سلسلہ جاری رہا تو سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اﷲ عنہما کے علاوہ دیگر اولادِ علی رضی اﷲ عنہ عصمت کی صفت سے محروم کیوں؟
اگر آپ کا نظریہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی نسبت کی وجہ سے سیدنا حسن و سیدنا حسین رضی اﷲ عنہما دونوں نوری ہیں تو قابلِ غور معاملہ کہ سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کی اولاد میں عصمت و امامت کا سلسلہ جاری رہا لیکن سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ کی اولاد عصمت و امامت سے محروم کیوں؟
دورِحاضر میں حسنی وحسینی نسب سے تعلق ظاہر کرنے والے بے شمار سید خاندان ہیں، جو بشری لبادہ میں موجود ہیں، وہ ہرگز معصوم نہیں۔ ہم اُس خاندانی قرب کی وجہ سے اُن کا ادب و احترام کرتے ہیں بشرطیکہ وہ صاحب ایمان اور کسی کبیرہ گناہ میں مرتکب نہ ہوں۔
جواب طلب پہلو یہ ہے کہ کس نص شرعی کے تحت وہ نوری بشری جنس سے خاکی بشری جنس میں کب اور کس طرح منتقل ہوئے؟
مذکورہ روایت سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو ایک ہی نور سے پیدا کیا، قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے وعدہ کے مطابق نور کے پہلے جزو کو نبوت کے مرتبہ سے سرفراز کر دیا جب کہ دوسرے جزو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو خلافت بلافصل سے کیوں محروم کر دیا؟ حالانکہ اﷲ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی،اﷲ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو پیدا کرنا چاہا جب کہ فرعون، بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کرتا رہا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کی باری آئی تو اﷲ تعالیٰ نے اُسے فرعون کے گھر پال کر وعدہ پورا کیا۔ اﷲ تعالیٰ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت دینے پر تو قادر رہا مگر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو خلافت تفویض کرنے میں مجبور و لاچار کیوں ہو گیا؟ نعوذ باﷲ!
ہم یقین رکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ وہ آگ کو حکم دے کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر گلزار کر سکتا ہے۔ دریا کے پانی سے موسیٰ علیہ السلام کے لیے جھولے کا کام لے سکتا ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ کا وعدہ یا ارادہ ہوتا تو وہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ بلافصل کے عہدہ سے ضرور سرفراز کردیتے۔ اﷲ نے یہ وعدۂ خلافت کسی کا نام لے کر نہیں کیا بلکہ مومنوں سے کیا۔ (سورۃ النور:55) اور پورا کیا۔
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے عہدِ طفولیت میں خانۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں پرورش پائی، جنھوں نے بچپن میں اسلام قبول کرلیا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کی تربیت پر خصوصی توجہ کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت نے اُن کی روح کوتازگی بخشی، چنانچہ وہ ہمیشہ اس بات پر عمل پیرا رہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جو کچھ لے کر آئے، اسکی اقتدا ء کرتے رہیں، سیدنا علی رضی اﷲ عنہ زہد و تقویٰ اور سخاوت و شجاعت میں بے مثال تھے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمہ زہراء رضی اﷲ عنہا کے سرتاج اور حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما کے شفیق باپ ہیں۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔
براء بن عازب رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے علی رضی اﷲ عنہ سے فرمایا: اَنْتَ مِنِّیْ ، وَ اَنَا مِنْکَ۔ترجمہ: آپ مجھ سے ہیں، میں آپ سے ہوں۔ (صحیح بخاری، ح:4251)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا کسی کو اپنی طرف اورخود کی طرف منسوب کرنا بڑی فضیلت ہے لیکن اس روایت سے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت بلافصل کا استدلال جائز نہیں،کیونکہ یہ فضیلت سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو بھی حاصل ہے۔ چنداحادیث درج ذیل ہیں:
قبیلہ اشعر: سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ الْأَشْعَرِیِّینَ اِذَا أَرْمَلُوْا فِی الْغَزْوِ أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِیَالِہِمْ بِالْمَدِیْنَۃِ جَمَعُوْا مَا کَانَ عِنْدَہُمْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ اقْتَسَمُوْہُ بَیْنَہُمْ فِیْ اِنَاءٍ وَّاحِدٍ بِالسَّوِیَّۃِ فَہُمْ مِنِّی وَ أَنَا مِنْہُمْ ۔
ترجمہ: جب قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جہاد کے موقع پر توشہ کم ہوجاتا یا مدینہ میں سامان خور و نوش کم پڑ جاتا ہے، تو اپنا جمع کردہ توشہ ایک کپڑے میں اکٹھا کر لیتے ہیں، پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ وہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ (صحیح البخاری،2486۔صحیح مسلم: 2500)
سیدنا جُلَیْبیب رضی اﷲ عنہ: سیدنا جُلَیْبِیب رضی اﷲ عنہ ایک غزوہ میں سات کفار کو واصل جہنم کرنے کے بعدشہید ہو گئے تھے، ان کے متعلق نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہٰذا مِنِّی ، وَأَنَا مِنْہُ ، ہٰذا مِنِّی ، وَأَنَا مِنْہُ، ترجمہ: یہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ یہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ (صحیح مسلم، ح: 2472)
سیدنا حسین بن علی رضی اﷲ عنہما: سیدنا یعلی بن مرہ ثقفی رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: حُسَیْنٌ مِّنِّیْ وَ أَنَا مِنْہُ ترجمہ: حسین مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ (مسند الامام احمد، 172/4، الادب المفرد للبخاری، 364۔ سنن الترمذی: 3775،وقال حسن۔سنن ابن ماجہ: 144۔ المعجم الکبیر للطبرانی: 274/22)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سمیت دیگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو خود سے منسوب کرنا یا خودکواُن سے منسوب کرنا والہانہ محبت و پیار اور اُنس و شفقت کا اظہار تو ہے لیکن اس روایت سے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت بلا فصل کا استدلال درست نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے الفت و محبت کا اظہار فرمایا:
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ ، فَعَلِیُّ مَوْلَاہُ (مسند البزاز،۶۳۲۔ وسند حسن، خصائص علی للنسائی:۸۵)
محدثین کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے، اس فضیلت میں سیدنا علی رضی اﷲ عنہ منفرد ہیں، اس میں ان کا کوئی شریک نہیں۔
مولا کا لفظ قرآن و حدیث میں بار بار آیا ہے، اس کا اطلاق رب، مالک، سردار، مدد گار، دوست، محب وغیرہ کیا جاتا ہے۔ حدیث میں لفظ ’’مولیٰ‘‘ کا وہی معنی کیا جائے گا جس کا متن حدیث متقاضی ہو گا۔ حدیث میں جو آیا ہے، اس سے مراد جس نے مجھ سے محبت کی اور میری دوستی اختیار کی، وہ علیؓ کو بھی دوست بنائے۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی فضیلت کا کوئی مومن انکاری نہیں لیکن ’’مولیٰ‘‘ کے تمام معانی میں کوئی معنی ایسا نہیں جس سے یہ ثابت ہوکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا ہو۔
محدثین نے وضاحت کی ہے کہ ولی اور مولیٰ کے الفاظ میں فرق ہے۔ ولایت جو عداوت کی ضد ہے کا معنی اور ہے، اور ولایت جو امارت کے معنی رکھتی ہے اس کا مطلب اور ہے۔ حدیث میں سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے لیے ولایت کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ پہلے معنی میں ہے یعنی عداوت کی ضد نہ کہ امارت کے معنی میں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا جس کا میں ’’والی‘‘ ہوں، اس کا علی بھی ’’والی‘‘ ہے بلکہ حدیث کے لفظ ہیں’’ جسکا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں، چنانچہ مولیٰ کے معنی والی کرنا غیر موزوں ہے۔
اس کے باوجود آپ کا اصرار یہ کہ من کنت مولاہ سے مرادحضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت بلافصل ہے تو قابلِ غور پہلو ہے:کہ آپ کا اعتقاد ہے امامت اصولِ دین سے ہے، پھر اس اہم اصول کا اعلان نہ مکہ میں، نہ مدینہ میں، نہ بیت اﷲ میں، نہ مسجد نبوی میں بلکہ ایسا اہم اعلان جنگل کے تالاب پر اور وہ غیر واضح الفاظ میں کیوں؟
رحمتِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے اَوس و خزرج کے قبائلی تعصب کو مٹا کر شیر و شکر کیا، مکہ کے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کو اُخُوَّت کے رشتہ میں پیوست کیا، ایسی امن والی …… مبارک ہستی کے نزدیک مولیٰ سے مراد خلیفہ بلافصل ہوتا تو ذو معنی لفظ کبھی ارشاد نہ فرماتے بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فصیح لفظ استعمال کرتے ہوئے فرماتے عَلِیْ خلیفتی من بعدی۔ لیکن کسی حدیث میں مذکورہ انداز میں ارشاد موجود نہیں۔آپ کے بقول خلافت کا فیصلہ خطبہ غدیر خم (۱۸ ذوالحجہ) کے موقع پر ہو چکا تھا تو قابل غر پہلو ہے، جب مسجد نبوی میں سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی بیعت عام ہوئی تو اس وقت حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے انھیں خبردار کیوں نہ کیا کہ تم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کی نافرمانی اختیار کر رہے ہو،کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ غدیر میں میری خلافت کا اعلان فرمایا تھا۔ مگرایسی کوئی بات ان کے معتمد ین سے منقول نہیں بلکہ انھوں نے رضا مندی سے سیدناابوبکر رضی اﷲ عنہ کی بیعت کر لی۔ خلفاءِ ثلاثہ کے دور میں اُن کے معاون و مشیر رہے اور خطبہ غدیر میں اپنی فضیلت سے متعلق خلفاءِ ثلاثہ کے دوران خلافت کا کہیں ذکر نہیں کیا، البتہ اپنے دور خلافتمیں دار الخلافہ میں ذکر ضرور کیا، جس کا باعث یہ تھا کہ ایک طرف خوارج نے انھیں پریشان کر رکھا تھا، دوسری طرف خود ان کے حلقہ میں بعض افراد ان کی پالیسی سے متفق نہ تھے۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے اختلاف کے دور میں اُن کو خط لکھا، شیخ سید رضی (م۴۰۴ھ) نے نقل کیا ہے:
(وَمِنْ کِتَابٍ لَہُ عَلَیْہ السَّلامُ اِلٰی مُعَاوِیَۃَ) اِنَّہُ بَایَعَنِیْ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا أَبابَکْرٍ وَ عُمَرَ و عُثْمَانَ عَلٰی مَا بَایَعْوْہُمْ عَلَیْہِ فَلَمْ یَکُنْ للشَّاہِدِ أَنْ یَخْتَارَ وَلَا لِلْغَائِبً أَنْ یَرُدَّ وَ اِنَّمَا الشُوْرٰی لِلْمُہَاجِرِیْنَ وَ الأنْصَارِ فَاِن اجْتَمَعُوْا عَلٰی رَجُلٍ و سَمُّوْہ اِمَامًا کَانَ ذَلِکَ لِلّٰہِ رِضًی
(نہج البلاغہ، الجزء الثالث، ۲۶۶، باب المختار من کتب امیر المؤمنین و رسائلہ)
ترجمہ: حضرت علیؓ معاویہؓ بن ابی سفیانؓ کے نام مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے ابوبکرؓ، عمرؓ ، عثمانؓ کی بیعت کی تھی، انھوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول کے مطابق بیعت کی، جس اصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے اور اس کی بنا پر جو حاضر ہے اسے پھر نظر ثانی کا حق نہیں اور جو بروقت موجود نہ ہو، اسے رد کرنے کا اختیار نہیں اور شوریٰ کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے، وہ اگر کسی پر ایکا کر لیں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اﷲ کی رضا و خوشنودی سمجھی جائیگی۔ (نہج البلاعہ، مترجم اردو، ۲۴۳، مکتوب نمبر۶، از مفتی جعفرحسین، مطبوعہ لاہور)
قابل غور پہلو ہے اگر غدیر خم کے موقع پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی خلافت کا اعلان کر دیا تھا تو پھر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے خط میں یہ کیوں فرمایا کہ امام کے تقرر میں مہاجرین و انصار کی شوریٰ کا فیصلہ ہی تسلیم کیا جائے۔
یہ خط اس امر کا بین ثبوت ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ بخوبی واقف تھے کہ ان کی خلافت بلافصل کے بارے میں کوئی نص شرعی نہ تھی بلکہ ان کا اعتماد اس بات پر تھا کہ امارت و خلافت کا انعقاد مجلس شوریٰ کے فیصلہ پر ہے۔