عطا محمد جنجوعہ
اہل سنت کا موقف ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ نے رضا مندی سے سیدنا ابوبکر صدیق کی بیعت کی اور امور حکومت میں مشیر اور وزیر رہے اُن کے باہمی تعلقات رحمآءُ بینھم کی تعبیر تھے جبکہ مخالفین اہل سنت کااصرار ہے کہ واقعہ اس کے برخلاف ہے۔ ذیل میں ان مخالفین کے چند شبہات ذکر کیے جاتے ہیں۔ ان شبہات و وساوس کے ساتھ ان کے ازالے کے لیے مختصر مختصر تبصرہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔ اﷲ تعالی قبول فرمائے اور ہدایت کا ذریعہ بنائے۔
شبہ: سیدنا علی المرتضیٰ نے بعض مجبوریوں کے تحت سیدنا ابوبکرؓ سے مصالحت کی ہے نہ کہ بیعت( اثبات الامامت ص 283)
ازالہ: بیعت اطاعت وفرما برداری کا نام ہے جبکہ مصالحت دوفریقوں کے مابین چند شرائط پر معاہدہ ہوتا ہے جس طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر چند شرائط پر اتفاق ہوا۔ اگر ان کے بقول سیدنا ابوبکرؓ وسیدنا علیؓ کے مابین مصالحت ہوئی تو معاہدہ میں کونسی شرائط طے ہوئیں۔ تاریخی حوالہ سے ثابت کریں۔
شبہ: حضرت علی المرتضیٰؓ نے مجبور ہو کر بیعت کی جس طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جان بچانے کے لیے مجبوری سے ہجرت کی (اثبات الامامت ص 288)
ازالہ: مکہ مکرمہ میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شبانہ جدوجہد سے مختصر جماعت کی تشکیل عمل میں آئی۔ جبکہ مخاطبین کی اکثریت جہالت وگمراہی کا شکار رہے۔ وہ نہایت ہٹ دھرمی سے پیغام حق کو ٹھکراتے ہے بلکہ مشرکین مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں پر انتہائی مظالم ڈھائے۔ اس کے باوجود اس مختصر اور مستقل مزاج استقامت شعار جماعت کے عزم و استقلال میں ذرہ فرق نہ آیا۔ وہ دہکتے کوئلوں، تپتی ریت پر اَحد، اَحد پکارتے رہے۔
چونکہ حج کے مواقع پر مدینہ کے وفد نے اسلام قبول کرلیا۔ سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی۔ مبلغ مدینہ مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ کو خاطر خواہ کا میابی ہوئی۔ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ چونکہ اسلام کی دعوت عالم گیر تھی اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم صرف اہل مکہ کے لیے نہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے جبکہ اہل مکہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور اہل مدینہ نے اسلام قبول کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا تو سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم تو اسلام کی نشرواشاعت کے لیے مدینہ کو موزوں سمجھا۔ جب مشرکین مکہ نے آپؐ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ کے حکم سے سیدنا ابوبکرؓ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کی راہ اختیار کی۔ غار ثور میں تین دن روپوش تورہے، لیکن غائب نہ ہوئے۔ مدینہ پہنچ کر کسی کے گھر میں گوشہ نشین نہ ہوئے بلکہ واشگاف انداز میں حق کی تبلیغ جاری رکھی۔ آپ کے بقول حضرت علیؓ گوشہ نشین ہوگئے مجبوراً بیعت یا مصالحت کرلی۔ یہ عجیب بات ہے۔
قریش مکہ نے تبلیغ سے باز رکھنے کے لیے سید الکونین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مکہ کی ریاست کا سربراہ، کسی بڑے گھرانہ میں شادی اور مال وزر پیشکش کی سرور کائنات محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پیشکش کو ٹھکرا کر دعوت اسلام جاری رکھی۔ قریش مکہ نے دھمکی دی تو آپؐ نے شان حمیت ربانی سے لبریز ہوکر فرمایا اﷲ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اوردوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو بھی دعوت کے فریضہ سے باز نہ آؤں گا۔ جبکہ حضرت علیؓ نے مجبور ہوکر امامت منصوص من اﷲ کا اظہار نہیں کیا؟ یہ سیدنا علیؓ المرتضیٰ کی شان اور مرتبہ کے منافی ہے۔
شبہ: سیدنا علی المرتضیٰ بیعتِ ابوبکر سے اعراض کر کے خانہ بدوش ہوگئے۔ (معاذ اﷲ) اُن کے گلے میں کپڑا ڈال کر باہر نکالا گیا اور ابوبکر کے پاس لائے گئے اگر بیعت کی بھی گئی تو اجباری تھی۔ (ص 282)
ازالہ: عرب قوم کی تاریخی روایت ہے کہ اگر کسی فرد کے ساتھ بدسلوکی یا ظلم وزیادتی ہوتی تو اس کا خاندان ضرور بدلہ لیتا۔ ابوجہل نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اذیت پہنچائی، آپؐ کے چچا سیدنا امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کو معلوم ہوا، وہ اس وقت حالت کفر میں ہونے کے با وجود غصہ میں آ گئے فوراً جاکر ابوجہل سے انتقام لیا اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر اسلام قبول کرلیا۔ امت محمدیہ میں سیدنا ابوبکرؓ پہلے خطیب ہیں جنہوں نے حرم کعبہ میں حاضرین کو اسلام کی دعوت دی تو عقبہ بن ربیعہ نے ساتھیوں سمیت آپؓ کر مارمار کر بے ہوش کر دیا۔آپ کے خاندان بنو تمیم کے لوگ دوڑے ہوئے آئے۔ مشرکین بھاگ گئے، انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ اگر ابوبکرؓ کی وفات ہوگئی تو ہم عقبہ بن ربیعہ کو ضرور قتل کریں گے۔
مشرکین مکہ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کوقتل کرنے کے لیے میٹنگ منعقد کی۔ ابوجہل کی رائے پر سب نے ہامی بھرلی کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک نمائندہ چن لیا جائے۔ اس طرح قتل کرنے کی ذمہ داری سارے قبائل پر عائد ہوگئی اور بنو ہاشم اکیلے سارے قبائل کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ اس رائے پر عمل کرتے ہوئے کاشانہ نبوت کامحاصرہ کیا گیا قابل غور پہلو ہے۔
آپ کے بقول اگر حضرت عمر فاروقؓ نے مکان جلانے کی دھمکی دی اور سیدنا علیؓ کو ناز یبا انداز میں مسجد لاکر زبردستی بیعت لی گئی، خاندان بنو ہاشم نے اس ذلت آمیز سلوک کا بدلہ کیوں نہ لیا؟ اور نہ ہی احتجاج کیا؟ جبکہ حضرت علیؓ کے بھائی، چچا زاد برادران اور چچا عباسؓ بن عبدالمطلب بھی حیات تھے۔ بزدلی کی چادر اوڑھنے والی خیالی شخصیت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اہل سنت کا علیؓ تو اسد اﷲ حیدر کرار ہے۔ جنہوں نے غزوات میں شجاعت کے جو ہر دکھائے اورقلعہ خیبر فتح کیا۔
شبہ: حضرت علیؓ نے نبی کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے صبرو تحمل کیا اور انتقامی اقدام نہ کیا۔ (ص 293)
ازالہ: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سمیت صحابہ کرامؓ کو مصیبت و پریشانی کے وقت صبر وتحمل کی تلقین کی ہے لیکن منکرات کو ہاتھ سے روکنے والوں کو کامل مومن قرار دیا ہے۔ اگر صبر کی وصیت تھی تو سیدنا علی المرتضیٰ نے جمل وصفین اور نہروان میں تلوار کیوں اٹھائی یہاں صبر سے کام کیوں نہ لیا؟
شبہ: یہ صبر کی وصیت اس امر کے ساتھ مشروط تھی کہ جب تک لوگ آپ کی خودبخود بیعت نہ کرلیں اور مخلص ساتھی نہ مل جائیں۔ جب اعوان و انصار مل جائیں تو اُن سے جہاد کرنا۔
شہادت عثمان کے بعد اہل مدینہ نے مسجد نبوی میں بخوشی رضا ورغبت سے سیدنا علیؓ کی بیعت کرلی۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سیدنا علیؓ نے مدینہ میں خون ریزی سے بچنے کے لیے کوفہ کو دارالخلافہ بنا لیا جہاں اُن کو جواعوان و انصار میسر آئے اُن کے بارے حضرت علیؓ نے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
٭…… شیخ سید شریف رضی (م ۴۰۴ھ) نے نقل کیا ہے کہ:
’’وَمِنْ خُطْبَۃٍ لہ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیِْ اِسْتِنْفَارِ النَّاسِ اِلٰی اَھْلِ الشَّامِ اُفٍ لَکُمْ لَقَدْ سَئِمْتُ عِتَابَکُمْ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیَاۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَۃِ عِوَضًا وَبِالذُّلِّ مِنَ الْعِزِّخَلَفًا اِذَا دَعَوْتُکُمْ اِلٰی جِھَادِ عَدَوِّکُمْ دَارَتْ اَعْیُنُکُمْ کَاَنَّکُمْ مِنَ الْمَوتِ فِی غَمْرَۃٍ وَمِنَ الذُّھُوْلِ فِی سَکْرَۃٍ یَرْتَجُّ عَلَیْکُمْ حِوَارِیْ فَتَعْمَہُوْنَ فَکَانَّ قُلُوْبَکُمْ مَأْلُوْسَۃً فَاَنْتُمْ لَا تَعْقِلُوْنَ ۔مَااَنْتُمْ لیِ بِثِقَۃِ سَجِیْسِ اللَّیَالِیْ‘‘
(نہج البلاغہ عربی: جزاول؍۵۳خطبہ نمبر ۳۴)
’’ حضرت علیؓ نے لوگوں کو اہل شام سے آمادہ جنگ کرنے کے لیے فرمایا!
حیف ہے تم پر، میں تمہیں ملامت کرتے کرتے بھی اکتاگیاہوں،کیا تمہیں آخرت کے بدلے دنیوی زندگی اور عزت کے بدلے ذلت ہی گوارا ہے؟ جب تمہیں دشمنوں سے لڑنے کیلئے بلاتا ہوں تو تمہاری آنکھیں اس طرح گھومنے لگ جاتی ہیں کہ گویا تم موت کے گرد اب میں ہو اور جان کنی کی غفلت اور مدہوشی تم پرطاری ہے میری باتیں جیسے تمہاری سمجھ ہی میں نہیں آتیں توتم ششدر رہ جاتے ہو، معلوم ہوتا ہے جیسے تمہارے دل ودماغ پر دیوانگی کااثر ہے کہ تم کچھ عقل سے کام نہیں لے سکتے۔ تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے اپنا اعتماد کھوچکے ہو‘‘
(نہج البلاغہ مترجم اردو :۱۷۲،۱۷۳، خطبہ نمبر ۳۴،ازمفتی جعفر حسین ، مطبوعہ لاہور)
اہل مدینہ نے سیدنا علیؓ کی بیعت کرکے وفاکاحق ادا کیا جبکہ اہل کوفہ ساتھ دینے کی بجائے بہانے تراشتے رہے۔ قابل غور پہلو ہے اگر مخبرِ صادق محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیدنا علیؓ کووصیت ہوتی تویقینا آپ کے انصار واعوان جاں نثار ہوتے اور وہ کھوٹے سکے بن کر اپنا اعتماد نہ کھوتے۔
شبہ: مدینہ منافقوں سے بھرا ہواتھا وہ رسول کا سایہ اُٹھ جانے کے منتظر تھے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے اس خطرہ کے پیش نظر کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ (اثبات الا مامت ص 288)
ازالہ: اہل مدینہ کے بارے میں یہ بدگمانی قطعاً بے بنیاد اور تاریخی حقائق کے منافی ہے۔ ہجرت کے بعد نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے توعرب قبائل اوس وخزرج اور یہود نے میثاق مدینہ میں باہمی تنازعات کے فیصلے کے لیے آپ کو ثالث تسلیم کرلیا۔ عبداﷲ بن ابی کو اس پر دھچکا لگا۔ اس کے دل میں مدینہ کا سردار بننے کا خواب تھا۔ چنانچہ اُس نے خفیہ سرگرمیوں سے نو مسلموں کو ورغلایا اور مسلمانوں کے بارے شکوک وشبہات پیدا کیے اور مسلمانوں میں نفرت کی خلیج پیدا کرنے کی سازش کی۔ بلاشبہ وہ غزوہ احد میں بہانہ تراش کرساتھ چھوڑ گئے اور مدینہ واپس آگئے لیکن قریش مکہ کا ساتھ نہ دیا۔ کسی موقع پر ان منافقین کی مسلمانوں کے ساتھ جھڑپ نہیں ہوئی۔ عبداﷲ بن ابی کی موت اور غزوہ احزاب کے بعد مدینہ سے یہودیوں کی بے دخلی کے بعد منافقوں کی کمر ٹوٹ گئی۔
اہل مدینہ رسول کا سایہ اُٹھ جانے کے منتظر نہ تھے بلکہ افسردہ اور غم سے نڈھال تھے۔ تاریخی حقیقت ہے کہ مدینہ کے کسی فرد نے بغاوت کی اور نہ ہی بیرونی باغی قوتوں کا ساتھ دیا۔ اہل مدینہ نے خلیفۃ الرسول کے حکم پر لشکرِ اُسامہ میں شرکت کی اور مدینہ کے دفاع میں بھر پور کردار ادا کیا۔ انھوں نے اطرافِ مدینہ میں مرتدین، منکرین زکوٰۃ اور مدعیان نبوت کے خلاف جنگوں میں شرکت کی اور دلیری سے مقابلہ کیا۔ صرف مسلمہ کذاب کے خلاف لڑئی میں 360مہاجر، 300انصار اور 600سابقون الأولون شہید ہوئے ۔ آپ کے بقول مدینہ منافقوں سے بھرا ہوا تھا تو لشکر اسامہ اور مسیلمہ کذاب کے خلاف لشکر بھیجنے کے بعد منافقین کے لیے شورش فتنہ فساد برپا کرنے کا سنہری موقع تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس دوران اہل مدینہ کی طرف سے کسی قسم کی داخلی شورش کا فتنہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔ اس بنا پر فریق ثانی کا یہ کہنا ہے کہ مدینہ میں فتنہ فساد کے خطرہ کے پیش نظر سیدنا علیؓ نے حق کا اظہار نہیں کیا سرا سر بے بنیاد اور غلط ہے ۔
امام حافظ عماد الدین ابو الفداء ابن کثیر فتنہ ارتدادپر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جیش اسامہ کو بھیجاتو حضرت ابو بکر صدیق کے پاس (مرکز مدینہ میں) فوج کم ہوگئی۔ (اس کی اطلاع پا کر) بہت سے مرتد اعراب نے مدینہ کا لالچ کیا اور اس پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے مدینہ کے راستوں پرمحافظ مقرر کردئیے جو مدینہ کے اردگرد فوجوں پر شب خون مارتے اورحفاظت کرتے۔ ان محافظوں کے امراء میں علی بن ابی طالب، حضرت زبیر بن العوام، حضرت طلحہ بن عبید اﷲ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنھم بھی شامل تھے‘‘ تاریخ ابن کثیر جلد 6ص 414
سید شریف (م 404) نے بھی عہد صدیقی میں مرتدین کے خلاف جہاد میں سیدنا علیؓ کی شمولیت کاذکر کیا ہے۔
وَمِنْ کِتَابٍ لَہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ……
رَأَیْتُ رَاجِعَۃَ النَّاسِ قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الْاِ سْلَامِ یَدْعُوْنَ اِلٰی مُحِقِّ دَیْن مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ فَخَشِیْتُ اِنْ لَّمْ أَنْصُرِالّاِسْلَامَ وَاَہْلَہُ أَنْ أَرَیٰ فِیْہِ ثَلَمًاأَوْھَدْمًا تَکُوْنُ الْمُصِیْبَۃُ بِہٖ عَلَیَّ اَعْظَم مِنْ مَوْتِ ولَا یَتِکُمُ الَّتِیْ اِنَّمَا ہِیَ مَتَاعُ أَیَّامٍ قَلَا ئِلَ یَزُوْلُ مِنْہَا مَاکَانَ کَمَا یَزُوْلُ السَّرَابُ أَوْکَمَا یَتَقَشَّعُ السَّحَابُ فَنَھَضَتُ فِیْ تِلْکَ الْاَ حْدَاثِ حَتّٰی زَاحَ الْبَا طِلُ وَزَھَقَ۔ وَاطْمَأَنَّ الدِّیْنُ وَتَنْھَنَہَ۔
(نہج البلاغہ عربی: الجزء الثالث ۳۲۷ باب المختار من کتب امیر المومنین ورسائلہ)
حضرت علی المرتضیٰ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کرمحمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کو مٹاڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوئے میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لیے اس سے بڑھ کر مصیبت ہوگی جتنی یہ مصیبت کہ تمہاری یہ حکومت میرے ہاتھ سے چلی جائے جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے۔ اس میں دنیا کی ہرچیز زائل ہوجائے گی۔ اس طرح جیسے سراب بے حقیقت ثابت ہوتا ہے یا جس طرح بدلی چھٹ جاتی ہے۔ چنانچہ میں ان بد عتوں کے ہجوم میں (جو خلافت صدیقی میں بصورت ارتداد اٹھے) اُٹھ کھڑا ہوا۔ یہاں تک کہ باطل دب کر فنا ہوگیا۔ اور دین محفوظ ہوکر تباہی سے بچ گیا۔ (نہج البلاغہ مترجم اردو: ۷۸۰۔۷۸۱ مکتوب نمبر ۶۲ ازمفتی جعفر حسین )
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے جیش اسامہ روانہ کیا۔ اس دوران مرتد قبائل بنی عبس اور بنی قیس (منکرین زکوٰۃ) کے حملہ کے خطرہ سے بچاؤ کے لیے مدینہ منورہ کے راستوں پر محافظ مقرر کئے جن میں ایک دستہ کے سالار سیدنا علی المرتضیٰؓ بھی تھے۔ نہج البلاغہ میں سید شریف رضی کے بقول آپ فتنوں کے دور میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور باطل کو دفنا کر دم لیا۔ چونکہ فریق ثانی کے نزدیک زکوٰۃ کی طرح ریاست و امامت بھی اصول دین ہے، قابل غور پہلو ہے کہ سیدنا علیؓ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف جہاد میں حصہ لیا لیکن امامت کااصول مٹنے پر نہیں کیوں؟
چنانچہ ان حقائق کی روشنی سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ چھ ماہ تک گھر میں گوشہ نشین نہ رہے بلکہ انہوں نے سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی فوراً بیعت کرلی اور فتنوں کے سدِ باب کے لیے جہاد میں حصہ لیا دیگر امور حکومت میں وہ مشیر و وزیررہے۔ بلا شبہ حضرت امیر المؤمنین علی المرتضی رضی اﷲ عنہ رحمآء بینھم کی بہترین تفسیر تھے۔