حضرت علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
بدر کا میدان ہے، آج مسلمانوں کی مختصر سی تعداد، مشرکین کے لشکر جرار کے سامنے صف آرا ہے۔ ایسے موقعہ پر ایک سپاہی کی طبعی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے دائیں بائیں مرد میدان ہوں، لیکن اس کے برعکس، حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ بن عوف دیکھتے ہیں کہ ان کے یمین ویسار میں دو انصاری نوجوان معوذ اور معاذ کھڑے ہیں طبیعت گھبرائی، مگر اچانک وہی نو جوان پوچھتے ہیں، عم محترم! وہ ابوجہل بد بخت کون سا ہے، جو ہمارے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے عداوت رکھتا ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ نے اشارہ کیا کہ وہ جو صفیں درست کرتا پھر رہا ہے، یہی ابوجہل ہے۔ بس اشارہ ہونا تھا کہ دونوں باز کی طرح اس لعنتی پر جھپٹے اور آن کی آن میں وہ بد بخت پیوند خاک تھا۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے بڑھ کر پیچھے سے معاذ پر وار کیا۔ ان کا بازو کٹ کر لٹک گیا، پھر بھی لڑتے رہے۔ لٹکتا ہوا بازو، لڑنے میں رکاوٹ بن رہا تھا انہوں نے اسے پاؤں کے نیچے دباکرالگ کردیا۔ یوں اس نو جوان نے بہادری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا۔ تغمدہ اﷲ برضوانہ وأسکنہ بحبوحۃ جنانہ۔
حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ قریش کے خاندان بنو زھرہ میں سے تھے۔ دعوت اسلام کے آغاز میں لبیک کہنے والوں میں سے تھے۔ ہجر تین کاثواب حاصل کیا۔ مدینہ منورہ میں مواخات کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں حضرت سعدبن ربیع انصاری رضی اﷲ عنہ کا بھائی بنایا گیا۔ وہ فراخ دست ہونے کے ساتھ فیاض طبع بھی تھے۔ انہوں نے گھر پہنچ کر اپنے تمام مال واسباب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ سے کہا ایک حصہ چن لیں۔ یہ بھی کہا کہ میری دو بیویاں ہیں، قرعہ اندازی کرلیتے ہیں، جو آپ کے حصے میں آئے، میں اسے طلاق دیتا ہوں، عدت کے بعد اس سے نکاح کر لیں۔ حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ نے کہا: آ پ اپنا مال بھی رکھیں اور بیویاں بھی۔ بس مجھے کوئی مناسب جگہ بتا دیں، جہاں میں بیٹھ کر کاروبار شروع کر سکوں۔ چنانچہ کھجور، گھی اور پنیر وغیرہ سے کام شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ذی حیثیت بن گئے۔
حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ میں بھی قریشی خون تھا، اس لیے کسی لڑائی میں دوسرے نامور مجاہدین سے پیچھے نہیں رہتے تھے۔ غزوہ احد میں ان کے بدن پر اکیس زخم آئے تھے۔ ایک زخم پاؤں میں تھا جس سے لنگڑانے لگے تھے۔
۲ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں ایک دستہ دے کر دومتہ الجندل کی مہم پر روانہ فرمایا۔ اسی موقعہ پرحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے سر پر اپنے مبارک ہاتھوں سے دستار باندھی (۱) تھی۔ (ابوداؤد)
حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ نے وہاں پہنچ کر شرعی اصول (الا سلام والا فالجزیۃ والا فالحرب) کے مطابق اسلام کی تبلیغ فرمائی تو بہت سے لوگ مشرف باسلام ہوگئے۔ باقیوں نے جزیہ دینا منظور کیا۔
حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ تجارت کے معاملے میں بڑے خوش نصیب تھے، گویا وہ پتھر بھی ہٹاتے، تو نیچے سے سونا نکل آتا۔ ایک مرتبہ ان کا تجارتی قافلہ، مدینہ آیا تو سات سو اونٹوں پر صرف خوردنی سامان تھا۔ تجارت کے علاوہ زراعت بھی ان کا ذریعہ (۲) آمدنی تھا۔ امام بن عبدالبرؒ لکھتے ہیں کہ جرف کے مقام پر انہوں نے بیس اونٹ کھیتوں کی آبیاری کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ پھر جس قدر آمدنی ہوتی تھی، اسی قدر اﷲ کے راستے میں خرچ کرتے تھے۔ ہزاروں اشرفیاں نقد اور سینکڑوں اونٹ گھوڑے، جہاد کے سلسلے میں چندے کے طورپر دے دیتے تھے۔ امہات المومنین کی کفالت بڑی فراخ دلی سے کرتے تھے، ہزار ہا روپے نقد ان کی خدمت میں پیش کرتے۔ ایک باغ ان پر وقف کیا جو چار لاکھ میں فروخت ہوا انہوں نے خود بھی کئی شادیاں کی تھیں، اولاد بھی بہت سی تھی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ کی ایک منقبت یہ بھی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوران سفر ایک نماز ان کی اقتداء میں ادا فرمائی تھی۔
اسی طرح جب ابو لولو مجوسی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خنجر سے زخمی کردیا تھا، اس وقت حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بھی انہی کو نماز پوری کرانے کے لیے آگے کردیا تھا۔
حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ کا علمی پایہ بہت اونچا تھا، بسا اوقات حضرات خلفاء راشدین بھی ان سے علمی استفادہ کرتے نہایت صائب الرائے تھے خلافت جیسے اہم مسائل میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔
حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ کے یہی علمی اور عملی کمالات تھے، جن کی وجہ سے وہ جنت کی بشارت کے مستحق بنے۔ حدیث عشرہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عبدالرحمن بن عوف فی الجنۃ
Eعبدالرحمن بن عوف جنت میں جائیں گے
‰واشی
(۱) حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے علاوہ بعض اور صحابہ کو بھی دستار باندھنا ثابت ہے۔ یہ روایات دستار فضیلت بند ھوانے میں اصل ہیں واﷲ تعالیٰ اعلم
(۲) حلال اورجائز ذرائع سے روزی کمانا، شرعاً جائز ہی نہیں، بلکہ دینی فرائض کے بعد، ایک شرعی فرض ہے، بالخصوص تجارت، جس میں شرعی احکام کی پوری پوری پابندی کی جائے، شریعت مقدسہ نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھداء
وہ تاجر جو سچ بولنے والا اور دیانت دار ہو، وہ پیغمبروں صدیقین اور شھداء کے ساتھ ہوگا۔
‡عبداﷲ بن ہشامؓ بچے تھے کہ ان کی والدہ انہیں، بار گاہ میں لے گئیں۔ آپؐ نے ان کے سرپر ہاتھ پھیرا اور ان کے حق میں برکت کی دعا فرمائی جس کا اثریہ ہوا کہ بڑے ہو کر انہوں نے تجارت، شروع کی تو اس میں بڑی برکت ہوئی۔ بعض اوقات راہ چلتے، صحابہ انہیں مل جاتے تو ان سے درخواست کرتے کہ وہ کاروبار میں انہیں شریک کرلیں۔ (صحیح بخاری)