ترجمہ: مولوی محمد نعمان سنجرانی
ولید بن داؤد بن محمد بن عبادہ بن الصامت اپنے چچا زاد بھائی عبادہ بن ولید سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے پاس تھے کہ ایک روز حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اِن کو اپنی مجلس میں بٹھایا۔ ایک خطیب نے اُٹھ کر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی مدح و ثنا کی، حضرت عبادہ رضی اﷲ عنہ ہاتھ میں مٹی لے کر کھڑے ہوئے اور اُسے خطیب کے منہ میں ڈال دیا۔ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو ناگواری ہوئی تو عبادہ رضی اﷲ عنہ اُن سے کہنے لگے: آپ اُس وقت ہمارے ساتھ نہیں تھے جب رسول اﷲ ﷺ نے ہم سے عقبہ میں بیعت لی تھی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ چاہتے ہوں یا نا چاہتے ہوں ، بشاشت ہو یا سستی ہو، چاہے ہم پر کسی کو ترجیح ہی کیوں نہ دی جائے اور یہ کہ ہم مستحق آدمی کے حکمران بن جانے پر حکومت طلب نہیں کریں گے۔ اور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق پر قائم رہیں گے اور اﷲ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ (۱) اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو اُن کے مونہوں میں مٹی جھونک دو۔ (۲)
یونس بن ابو اسحٰق اپنے والد سے وہ عبداﷲ بن معقل سے روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں ایک یہودی عورت تھی جو ویسے تو حضرت عبداﷲ بن اُمِّ مکتوم رضی اﷲ عنہ کا بہت خیال رکھتی تھی، لیکن نبی کریم ﷺ کی بے ادبی کر کے اُنھیں تکلیف بھی پہنچاتی تھی۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ اُس کے پاس گئے، اُسے پکڑ کر مارا اور قتل کر دیا۔ یہ قضیہ نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کہنے لگے: واﷲ! وہ میرا خیال رکھتی تھی لیکن اُس نے اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کے بارے میں مجھے تکلیف پہنچائی۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ اُسے دور کرے، میں نے اُس کا خون باطل کر دیا (یعنی اُس کا بدلہ نہیں لیا جائے گا)۔ (۳)
امام اوزاعی سے روایت ہے کہتے ہیں مجھے ابو بصیر نے اپنے والد سے روایت کی، وہ کہتے تھے: حضرت ابو ذر غِفاری رضی اﷲ عنہ درمیانی جمرہ کے پاس تشریف فرما تھے کہ میں اُن کے پاس حاضر ہوا، لوگ اُن کے ارد گرد اکٹھے ہو کر اُن سے مسائل پوچھ رہے تھے۔ ایک آدمی اُن کے پاس آ کر کھڑا ہوا، کہنے لگا: کیا آپ کو امیر المؤمنین نے فتویٰ دینے سے منع نہیں کیا؟(۴) انھوں نے اپنا سر اٹھایا، فرمانے لگے: کیا تم مجھ پر نگہبان ہو؟ پھر اپنی گردن کے پچھلے حصے کی طرف اشارہ کیا اور فرمانے لگے اگر تم یہاں پر تیز دھار تلوار رکھ دو اور میں سمجھوں کہ اس کے چلنے سے پہلے پہلے میں رسول اﷲ ﷺ سے سنی ہوئی کوئی ایک بات بھی بتا سکتا ہوں تو میں ضرور بتاؤں گا۔(۵)
امام ذہبی نے برقہ شہر کے قاضی محمد بن حُبلی کے حالاتِ زندگی میں لکھا ہے کہ اُن کے پاس برقہ کا (عبیدی خلیفہ کی طرف سے تعینات) گورنر آیا اور کہنے لگا: کل عید ہے۔ قاضی محمد نے فرمایا: جب تک ہم چاند نہ دیکھ لیں، میں لوگوں کا روزہ چھڑوا اُن کا گناہ اپنے ذمے نہیں لے سکتا۔ وہ کہنے لگا: خلیفہ منصور کا خط آیا ہے کہ کل عید کی جائے (منصور ایک عبیدی خلیفہ تھا۔عبیدیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ رؤیتِ ہلال کا اعتبار نہیں کرتے بلکہ اپنے حساب و کتاب کے مطابق روزہ رکھنے اور چھوڑنے کا حکم دے دیا کرتے)۔ جب صبح ہوئی تو گورنر نے ڈھول باجوں اور عید کی تیاریاں کرنے کا حکم دیا۔ قاضی کہنے لگے: میں عید گاہ میں نکل کر لوگوں کو عید کی نماز نہیں پڑھاؤں گا۔ چنانچہ گورنر نے ایک اور آدمی کو حکم دیااور اس نے خطبہ و نماز پڑھا دی اور گورنر نے سارا ماجرامنصور کو لکھ بھیجا۔ منصور نے قاضی کو اپنے پاس بلایا، انھیں وہاں پیش کیاگیا۔ منصور نے کہا: تم اس حکم سے ہٹ جاؤ، میں تمھیں معاف کرتا ہوں۔ قاضی نے انکار کر دیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اِن کو دھوپ میں لٹکا دیا جائے اور اس وقت تک لٹکتے رہنے دیا جائے جب تک یہ فوت نہ ہو جائے۔ چنانچہ وہ اسی طرح شہید ہوئے، وہ شدتِ پیاس کی وجہ سے پانی مانگتے تھے اور اُنھیں پانی نہ دیا جاتا تھا۔ پھر اُنھیں ایک لکڑی پر سولی دے دی گئی۔ لعنت اﷲ علی الظالمین۔(۶)
حسن سے روایت ہے کہ زیاد نے حکم بن عمر و کو خُراسان کے محاذ پر جہاد کے لیے امیر بنا کر بھیجا۔ اﷲ نے لشکر کو فتح نصیب فرمائی تو انھیں بہت زیاد ہ مالِ غنیمت حاصل ہوا۔ زیاد نے حکم کو خط لکھا: اما بعد! امیر المؤمنین نے مجھے خط لکھا ہے کہ میں سونا چاندی کو صفیّ بنا لوں (صفی:مالِ غنیمت کے اُس حصے کو کہتے ہیں جس کو تقسیم سے پہلے حاکم کے حصے کے طور پر نکالا جائے)۔ لہٰذا میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ تم سونا چاندی لوگوں کے درمیان تقسیم مت کرنا۔ حکم نے جواب دیا: سلام علیک، امّا بعد! تم نے اپنے خط میں امیر المؤمنین کے حکم کا ذکر کیا ہے، لیکن مجھے اﷲ کا حکم امیر المؤمنین کے حکم سے پہلے مل گیاتھا اور واقعہ یہ ہے کہ بخدا اگر آسمان و زمین آپس میں گُتھ کر کسی بندے کے راستے میں جڑ کر بند ہو جائیں اور وہ بندہ اﷲ سے ڈرتا رہے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ ضرور اُس کے لیے وسعت اور راستہ نکال کر رہیں گے۔ والسلام علیک (۷)
ابو المنذر اسماعیل بن عمر سے روایت ہے، کہتے ہیں میں نے حضرت ابو عبدالرحمٰن عمری کو سنا، وہ فرماتے تھے: بے شک اﷲ سے اعراض کرنا تمھاری غفلت کا شاخسانہ ہے۔ وہ اس طرح کہ تم اُس کی نافرمانی کو دیکھتے ہو اور چُپ چاپ وہاں سے گزر جاتے ہو،ایسے لوگوں سے ڈرتے ہوئے امر و نہی نہیں کرتے جن کے قبضے میں نہ ضرر ہے نہ نفع۔ اسماعیل کہتے ہیں، میں نے اُنھیں سنا،وہ فرما رہے تھے: جو شخص مخلوقات کے ڈر کی وجہ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑتا ہے اُس سے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی (عطا فرمودہ) ہیبت اور رعب چھین لیا جاتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ اپنی اولاد اور اپنے ماتحتوں کو بھی حکماً کچھ کہے تو وہ پروا نہیں کرتے۔(۸)
امام اوزاعی کہتے ہیں عبداﷲ بن علی نے (بنو اُمیّہ کے خلاف پہلے مرحلے میں خروج کامیاب ہونے کے بعد) مجھے اپنے دربار میں طلب کیا۔ میرے لیے اُس کا یہ بلانا خاصا پریشانی کا باعث بنا، مگر میں گیا۔ میں داخل ہوا تو لوگ دو قطاروں میں تھے۔ عبداﷲ بن علی مجھ سے کہنے لگا: ہمارے خروج،ہمارے حالات کے بارے میں تمھارا قول کیا ہے؟ میں نے کہا: اﷲ امیر کو مزید سنوارے۔ میرے اور داؤد بن علی کے درمیان محبت اور دوستی تھی۔ وہ کہنے لگا: میں نے جو بات پوچھی ہے وہ بتاؤ۔ میں نے سوچا اور دل میں کہا کہ اس کے سامنے سچ ہی بولنا چاہیے اور میں موت کے لیے تیار ہو گیا۔ پھر میں نے اُسے حضرت یحیٰ بن سعید کی روایت سے حدیثِ اعمال (۹)سنائی۔ اُس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس کے ساتھ وہ اشارہ کر رہا تھا۔ پھر وہ کہنے لگا: اِس گھر کے لوگوں کے قتل کے بارے میں تمھارا کیا فتویٰ ہے؟ میں نے کہا: مجھے محمد بن مروان نے مُطَرِّف بن شِخّیر سے حدیث بیان کی، انھو ں نے اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے، انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ انھوں نے فرمایا: مسلمان کو قتل کرنا حلال نہیں ہے الّا یہ کہ اُس میں تین میں سے ایک بات پائی جاتی ہو۔ وہ شادی شدہ زنا کار ہو یا کسی اور کو قتل کرنے کی وجہ سے قصاص میں قتل کیا جائے یا اپنے دین کو چھوڑنے والا اور جماعت سے جدا ہونے والا ہو۔(۱۰) پھر وہ مجھ سے کہنے لگا: مجھے خلافت کے بارے میں بتاؤ۔ کیا وہ ہمارے لیے رسول اﷲ ﷺ علیہ وسلم کی وصیت نہیں؟ (یعنی ہم اہلِ بیت کی اولاد ہونے کی وجہ سے خلافت کے دوسروں سے زیادہ مستحق ہیں) میں نے کہا: اگر یہ رسول اﷲ ﷺ کی وصیت ہوتی تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کسی کو آگے نہ بڑھنے دیتے۔ کہنے لگا: بنی اُمیّہ کے اموال کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اگر یہ اُن کے لیے حلال تھے تو تمھارے لیے حرام (کیونکہ اُن کی ملکیت ہیں)اور اگر اُن کے لیے حرام تھے تو تمھارے لیے سخت حرام۔ اُس نے حکم دیا کہ مجھے دربار سے نکال دیا جائے۔ ذہبی کہتے ہیں کہ عبداﷲ بن علی ایک جبّار بادشاہ تھا جو بہت خون بہانے والا اور سخت مزاج انسان تھا۔ اس کے باوجود تم نے دیکھا کہ حضرت امام اوزاعی حق کی کڑوی باتیں اُس کے منہ پر برملا کہتے جاتے تھے۔ علماءِ سوء کی اُس بھِیڑ کی طرح نہیں کہ اُمراء جوکچھ ظلم و زیادتی کریں یہ اُسے اچھا کر کے بتاتے ہیں اور اُن کے لیے باطل کو حق بنا کر دکھاتے ہیں، اﷲ اِنھیں ہلاک کرے، یہ حق بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے خاموش رہتے ہیں۔ (۱۱)
ابنِ جوزی کہتے ہیں عبدالملک بن عمر بن عبدالعزیز حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس آئے تو کہنے لگے: امیر المؤمنین مجھے آپ سے ایک کام ہے، مجھے تخلیہ میں وقت دیجیے۔ حضرت کے پاس اُس وقت مَسْلَمہ بن عبدالملک بیٹھے تھے۔ حضرت نے فرمایا: کیا ایسا راز ہے جو اپنے چچا کے سامنے بھی ظاہر نہیں کر سکتے؟ عبدالملک کہنے لگے: جی ہاں۔ مَسْلَمہ اُٹھ کر باہر چلے گئے اور عبدالملک اپنے والد کے سامنے بیٹھ گئے اور کہنے لگے: امیر المؤمنین! کل آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے، جب وہ آپ سے پوچھیں گے کہ تم بدعت دیکھتے تھے اور اُسے مٹاتے نہیں تھے اور سنت دیکھتے تھے اور اُسے زندہ نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر فرمانے لگے: یہ بات تم کس وجہ سے کر رہے ہو؟ کیا مجھ سے ملنے کا شوق تھا اس لیے آئے ہو یا درحقیقت یہ خیال تمھارے دل میں تھا؟ عبدالملک نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ واﷲ! یہ میرے دل کا خیال ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ سے سوال کیا جائے گا،آپ جواب میں کیا کہیں گے؟ حضرت عمر فرمانے لگے: اﷲ تم جیسے بیٹوں کو جزائے خیر عطا فرمائے اور رحمت نازل کرے۔ مجھے اُمید ہے کہ تم واﷲ! بھلائی کے کاموں میں میرے مدد گار ہو گے۔ بیٹا! بات یوں ہے کہ تمھاری قوم نے اس معاملے(یعنی معاملۂ خلافت) کو گرہ در گرہ اور دستہ در دستہ مضبوط کر رکھا ہے، جو کچھ اُن کے ناجائز قبضے میں ہے جب میں وہ چھیننے کے لیے کوئی داؤ پیچ لگاؤں گا تو مجھے ڈر ہے وہ میرے بارے میں ایسی سازش کریں گے جس سے مسلمانوں کا بہت خون بہے گا۔ جبکہ اﷲ کی قسم! دنیا کا زائل ہو جانا مجھے اِس بات سے ہلکا لگتا ہے کہ میری وجہ سے ایک چُلّو بھی خون بہایا جائے۔ کیا تم اِس بات پہ راضی ہو جاؤ گے کہ تمھارا باپ اپنی زندگی کے بچے کھچے ایام ایک دن ایک بدعت مٹاتا رہے، یہاں تک اﷲ تبارک و تعالیٰ حق کے ساتھ ہمارا معاملہ فرما دیں۔ (۱۲)
سعید بن سلیمان سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں مکہ کی الشطویٰ گلی میں تھا، میرے پہلو میں حضرت عبداﷲ بن عبدالعزیز عمری تشریف فرما تھے اور اُس سال خلیفہ ہارون رشید حج پر آیا ہوا تھا۔ ایک آدمی نے حضرت عبداﷲ بن عبدالعزیز سے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! وہ دیکھیں امیر المؤمنین سعی کر رہے ہیں اور اُن کے لیے مَسْعٰی کو خالی کرا دیا گیا ہے۔ حضرت عبداﷲ اُس آدمی کو کہنے لگے: اﷲ تمھیں میری طرف سے جزائے خیر نہ دے، تم نے میرے ذمے ایسا کام لگا دیا ہے جو مجھ پر فرض نہ تھا۔ پھر انھوں نے اپنے جوتے اُٹھائے اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔ میں اُن کے پیچھے پیچھے چل پڑا، ہارون مروہ سے صفا کے رُخ پر نمودار ہوا تو انھوں نے اُسے پکارا۔ یا ہارون! جب اُس نے اِن کی طرف دیکھا، کہنے لگا: لبیک چچا۔ فرمانے لگے: صفا پر چڑھو۔ جب وہ چڑھ گیا تو فرمایا: بیت اﷲ کی طرف نظر ڈالنا، اس نے کہا: میں نے دیکھ لیا۔ فرمانے لگے: کتنے لوگ ہیں؟ کہنے لگا: اِنھیں کون شمار کر سکتا ہے؟ فرمایا: تمھاری رعایا میں اِن جیسے اور کتنے ہوں گے؟ کہنے لگا: ایک بڑی مخلوق ہے جس کا صحیح شمار اﷲ ہی جانتا ہے۔ اس پر فرمایا: اے شخص! بالیقین جان لے کہ اِن میں سے ہر ایک سے صرف اُسی کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور تجھ اکیلے سے اِن سب کے بارے میں پوچھا جائے گا، کچھ غور کر کہ کیا بنے گا؟ سعید کہتے ہیں: ہارون بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ اُس کے خدام اُسے ایک ایک کر کے آنسو پونچھنے کے لیے رومال دینے لگے۔ حضرت عبداﷲ فرمانے لگے: میں ایک اور بات بھی کہوں گا۔ ہارون نے کہا: چچا کہہ دیجیے۔ فرمانے لگے: اگر ایک آدمی اپنے مال میں اسراف کرنے لگے تو شریعت اُس پر پابندی لگاتی ہے۔ واﷲ! اُس شخص کے بارے میں کیا ہو گا جو سب مسلمانوں کے مال میں اسراف کرے؟ پھر وہ چلے گئے اور ہارون روتا رہا۔(۱۳)
امام ذہبی اپنی کتاب میں امام علی بن ابو الطیب نیشاپوری کے حالاتِ زندگی میں لکھتے ہیں کہ اُنھیں سلطان محمود بن سُبکتَگین غزنوی کے دربار میں لے جایا گیا، کیونکہ سلطان اُن کا وعظ سننا چاہتا تھا۔ جب وہ داخل ہوئے تو بلا اجازت بیٹھ گئے اور بادشاہ کے حکم کے بغیر حدیث بیان کرنا شروع کر دی۔ بادشاہ اِس پر بھڑک اُٹھا۔ اُس نے ایک غلام کو حکم دیاجس نے اُنھیں اتنا زور دار مُکّا مارا جس سے اُنھیں سنائی دینا بند ہو گیا۔ کسی درباری نے سلطان کو امام علی کی دینی وجاہت اور علمی رتبے کے بارے میں بتایا تو اُس نے اُن سے معذرت کی اور اُن کو مال پیش کرنے کا حکم دیا۔ جسے لینے سے اُنھوں نے انکار کر دیا۔ سلطان کہنے لگا: یا شیخ! حکومت کے لیے رعب و دبدبے کی ضرورت ہوتی ہے اِس کے بغیر کام نہیں چلتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے واجب سے تجاوز کیا، لہٰذا مجھے معاف کر دیجیے۔ فرمانے لگے: اﷲ ہمارے درمیان گھات میں ہے، تم نے مجھے وعظ و نصیحت، رسول اﷲ ﷺ کی احادیث سننے اور خشوع کے لیے بلایا تھا، اپنے سرکاری قوانین نافذ کرنے کے لیے نہیں۔ بادشاہ شرمندہ ہوا اور اُنھیں گلے لگا لیا۔ یاقوت نے اِس واقعے کو تاریخ الاُدباء میں نقل کیا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں امام علی کا انتقال سن ۸۵۴ کے شوّال میں سانزوار کے مقام پر ہوا۔ (ذہبی کہتے ہیں: جہاد اور فتحِ ہند اور اچھے کارناموں کی وجہ سے محمود ایک اونچے رُتبے والا بادشاہ تھا۔ اُس کی چھوٹی موٹی غلطیاں تھیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ اُس نے شرمساری محسوس کی اور معذرت کی، پس ہم ہر متکبر و جبّار حکمران سے اﷲ کی پناہ مانگتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ہم ایسے سرکش، جابر حکمرانوں کو دیکھتے ہیں جنھوں نے جہاد کو ختم کر دیا اور دار الاسلام کے شہروں میں ظلم و سرکشی کرنے لگے۔فوا حسرتاً علی العباد!!)۔ (۱۴)
عبدالرحمٰن بن رُستہ کہتے ہیں، میں نے حضرت ابنِ مہدی سے مسئلہ پوچھاکہ آدمی کی نئی نئی شادی ہوئی ہو تو وہ کیا چند دن کے لیے باجماعت نماز چھوڑ سکتا ہے؟ فرمایا: ہر گز نہیں! ایک نماز بھی نہیں۔ کہتے ہیں میں اُن کی بیٹی کی رُخصتی سے اگلی صبح اُن کے ہاں تھا، وہ نکلے اور انھوں نے فجر کی اذان دی، پھر اپنے داماد کے دروازے پر تشریف لے گئے، خادمہ سے کہا: اِن دونوں سے کہو نکل کر نماز پڑھو۔اِس پر عورتیں اور لڑکیاں باہر آ گئیں اور کہنے لگیں: سبحان اﷲ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ فرمانے لگے: جب تک وہ نماز کے لیے نہ نکلیں گے میں نہ ہٹوں گا۔ وہ اُن کے نماز پڑھ لینے کے بعد (تیار ہو کر) نماز کے لیے آئے تو آپ نے اُنھیں شہر پناہ سے باہر کی مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے بھیج دیا۔ (۱۵)
مُقاتل بن صالح خراسانی سے راویت ہے، کہتے ہیں میں حمّاد بن سَلَمہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اُن کے گھر میں ایک تو چٹائی تھی جس پر تشریف فرما تھے، ایک مصحف تھا جس کی تلاوت کر رہے تھے، ایک تھیلا تھا جس میں اپنی علمی یادداشتیں اکٹھی کر رکھی تھیں اور بس ایک پانی کا برتن تھا جس سے وضو کرتے تھے۔ میں اُن کی خدمت میں بیٹھا ہی ہوا تھا کہ کسی نے دروازہ بجایا۔ فرمانے لگے: بچی باہر نکل کر دیکھو کون ہے؟ خادمہ کہنے لگی: محمد بن سلیمان (حاکمِ وقت) کا قاصد آیا ہے۔ فرمانے لگے: اُسے کہو اکیلا اندر آئے۔ قاصد نے آ کر اُنھیں خط پیش کیا جس میں لکھا تھا: بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم! محمد بن سلیمان کی طرف سے حماد بن سلَمہ کے نام۔ امّا بعد! اﷲ آپ کو ویسی صبح عطا فرمائے جیسی وہ اپنے اولیاء اور اہلِ اطاعت کو عطا فرماتے ہیں۔ ہمیں ایک مسئلہ پیش آیا ہے، ہمارے پاس آئیے ہم اُس کے بارے میں آپ سے سوال کرنا چاہتے ہیں۔ والسلام۔ فرمانے لگے: بچی دوات لے کر آؤ۔ اور مجھے حکم دیا کہ اس خط کو اُلٹ کر اس کے پیچھے لکھو۔ امّا بعد! اﷲ تمھاری صبح میں بھی ویسی برکتیں عطا فرمائے جیسی وہ اپنی اولیاء اور اہلِ اطاعت کو عطا فرماتے ہیں۔ ہم نے علماء کو پایا ہے کہ وہ کسی کے پاس نہیں جاتے تھے اگر کوئی مسئلہ پیش آیا ہے تو ہمارے پاس آئیے اور جو واقعہ ہے اُس کے بارے میں ہم سے پوچھیے۔ اگر تم میرے پاس آؤ تو اکیلے آنا، اپنے سواروں اور پیادوں کے ساتھ مت آنا۔ مزید یہ ہے کہ میں نہ تمھیں نصیحت کرتا ہوں نہ خود کو۔ والسلام۔ کہتے ہیں کہ ابھی میں اُن کے پاس ہی تھا کہ کسی نے دروازہ بجایا۔ فرمانے لگے: بچی! باہر نکل کر دیکھو کون ہے؟ خادمہ نے کہا: محمد بن سلیمان آیا ہے۔ فرمایا: اُسے کہواکیلا اندر آئے۔ اُس نے آ کر سلام کیا اور حضرت حماد کے سامنے بیٹھ گیا۔ پھر کہنے لگا: ایسا کیوں ہے کہ میں جب کبھی آپ کو دیکھتا ہوں مجھ پر رعب طاری ہو جاتا ہے۔ حضرت حمّاد نے فرمایا: میں نے ثابت البُنانی سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے سنا اور وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ علیہ وسلم سے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے: عالم جب اپنے علم سے اﷲ عزو جل کی ذات عالی کو مقصود بناتا ہے تو ہر شے اُس سے ہیبت زدہ رہتی ہے اور جب وہ اس کے ذریعے سے خزانے اکٹھے کرنا چاہتا ہے تو ہر ایک چیز کی ہیبت کھاتا ہے۔ (۱۶) محمد بن سلیمان کہنے لگا: چالیس ہزار درہم کا نذرانہ پیش خدمت ہے اِسے قبول فرما کر اپنے حالات کو بہتر بنائیے۔ فرمانے لگے: یہ اُن لوگوں کو واپس کر دے جن سے چھینے ہیں۔ کہنے لگا: اﷲ کی قسم! میں آپ کی خدمت میں وہی مال پیش کر رہا ہوں جو مجھے وراثت میں ملا ہے۔ فرمانے لگے: مجھے اِن کی ضرورت نہیں ہے، تم اِنھیں مجھ سے دور کرو۔ اﷲ تم سے تمھارے گناہوں کا بوجھ دور کرے گا۔ کہنے لگا: بانٹ دیجے گا۔ فرمایا: ہو سکتا ہے کہ میں تقسیم کرنے میں عدل سے کام بھی لوں لیکن کسی کو نہ ملے ہوں اور وہ کہنے لگے: اِس نے نا انصافی کی۔ تم اِنھیں مجھ سے دور کرو۔ اﷲ تم سے تمھارے گناہوں کا بوجھ دور کرے گا۔(۱۷)
﴿حواشی﴾
(۱) حدیث بیعت کو بخاری شریف میں روایت کیا گیا ہے، کتاب الاحکام، باب: کیف یبایع امام الناس، حدیث نمبر۱۷۹۹۔۷۲۰۰
(۲) سیر اعلام النبلاء، ج: ۲، ص:۷ نیز حدیث: جب تم تعریف کرنے والوں الیٰ آخرہٖ، کو امام مسلم نے باب النہی عن المدح میں حضرت مقداد رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے، حدیث نمبر: ۳۰۰۲
(۳) سیراعلام النبلاء، ج: ۱، ص:۳۶۳، اس واقعہ کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی روایت سے امام ابو داؤد نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: حدیث نمبر ۴۳۶۲، اسی طرح حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کی روایت سے بھی نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو: ۴۳۶۱
(۴) حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ علیہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ مزاج مبارک میں زہد بہت زیادہ تھا، ہر قسم کا ضرورت سے زائد مال اکٹھا کرنا ناپسند فرماتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے زمانۂ خلافت میں کچھ اصحاب سے کسی قدر شکر رنجی کی کیفیت پیش آئی تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے ان سے درخواست کی کہ آٖ پ اس مسئلے میں اپنے اعلی ذوق اورایمانی کیفیت کا اظہار کرنے میں کسی قدر سختی فرماتے ہیں، آپ فتویٰ دینے سے گریز فرمایا کریں۔
(۵) سیر اعلام النبلاء، ج:۲، ص:۶۴ (۶) سیر اعلام النبلاء، ج:۱۵، ص: ۳۷۴ (۷) صفۃ الصفوۃ، ج:۱، ص:۶۷۲
(۸) صفۃ الصفوۃ، ج:۲، ص:۱۸۱ (۹) مرادہے: انما الاعمال بالنیات، یعنی اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ یہ حدیث بخاری شریف کی پہلی حدیث ہے اور مسلم شریف میں کتاب الامارۃ میں روایت کی گئی ہے، حدیث نمبر: ۱۹۰۷
(۱۰) بخاری شریف، باب قولہ تعالیٰ ان النفس بالنفس، حدیث نمبر: ۶۸۷۸، مسلم شریف، باب القسامۃ، حدیث نمبر: ۱۶۷۶
(۱۱) سیر اعلام النبلاء، ج:۷، ص:۱۲۴،۱۲۵ (۱۲) صفۃ الصفوۃ، ج:۲، ص۱۲۸ (۱۳) صفۃ الصفوۃ، ج:۲، ص:۱۸۲
(۱۴) سیر اعلام النبلاء، ج:۱۸، ص:۱۷۳۔۱۷۴ (۱۵) سیر اعلام النبلاء، ج:۹، ص:۲۰۴ (۱۶) کنزالعمال، حدیث نمبر: ۴۶۱۳۱، مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: امام زبیدی کی کتاب: تخریج احادیث احیاء العلوم الدین، ج:۲، ص:۱۰۸۷
(۱۷) صفۃ الصفوۃ، ج:۳، ص: ۳۶۱