ادارہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
(۱) ’’السلام علیکم‘‘ کی بجائے ’’سلام‘‘ اور وعلیکم السلام‘‘ کی بجائے ’’والسلام‘‘ کہنا کیسا ہے؟
(۲) ملاقات اور گفتگو کے آخر میں ’’خدا حافظ‘‘ کہنا از روئے شرع ثابت ہے؟ اگر نہیں تو گفتگو اور ملاقات کے اختتام پر کیا کہنا مسنون ہے؟ (مستفتی: عبداﷲ)
الجواب باسمہٖ تعالیٰ
(۱) واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں سلام کے مخصوص الفاظ ہیں، جن میں سب سے مختصر مسنون سلام ’’السلام علیکم‘‘ یا’’سلام علیکم‘‘ ہے۔
اور اس میں سب سے زیادہ کامل واکمل سلام ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ‘‘ ہے۔
اور صرف ’’سلام‘‘ یا ’’تسلیم‘‘ سے سلام شمار تو ہوگا، لیکن وہ مسنون سلام نہیں ہوگا۔
اسی طرح سلام کے جواب میں مماثلت یا سلام کے الفاظ سے زیادہ میں جواب دینا چاہیے، ’’والسلام‘‘ سلام کے مختصر الفاظ سے بھی کم الفاظ پر مشتمل ہے، الہٰذا بہتر یہی ہے کہ کم ازکم جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا جائے، اگرچہ جواب صرف ’’والسلام‘‘ کہنے سے مکمل ہو جائے گا، لیکن سنتِ جواب سے محروم رہے گا۔
(۲) ملاقات اور گفتگو کے آخر میں ’’خدا حافظ‘‘ کہنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کو سلام وداع یعنی رخصتی کے سلام کے قائم مقام نہ سمجھا جائے، کیونکہ اس کے معنی میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
البتہ رخصتی کے وقت سلام وداع سے پہلے مسنون ہے کہ ’’اَستودع اﷲ دینک، واما نتک، واٰخر عملک، یا ’’استودع اﷲ دینک، وامانتک، وخواتیم عملک‘‘ کہا جائے۔ فتاویٰ شامی میں ہے۔
’’ثم رایت فی الظھیریۃ ولفظ السلام فی المواضع کلھا: السلام علیکم او سلام علیکم بالتنوین، وبدون ھذین کما یقول الجھال لایکون سلاما‘‘
(فتاویٰ شامی، فصل فی البیع، ص۴۱۶، ج۶،ط:سعید)
عمدۃ القاری میں ہے:
’’واقل السلام: السلام علیکم، فان کان واحدا خاطب والا فضل الجمع لتناولہٖ ملائکتہ، واکمل منہ زیادۃ، ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ اقتداء بقولہٖ عزوجل: رحمۃ اﷲ وبرکاتہ علیکم اھل البیت۔ (ھود: ۱۱)‘‘۔(عمدۃ القاری باب بدء السلام، کتاب الا ستیذان، ص: ۳۵۸، ج:۲۲، ط:دارالکتب العلمیہ)
وفیہ ایضا:
’’والأ فضل الأکمل فی الرداُن یقول؛ وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔‘‘ (عمدۃ القاری باب بدء السلام، کتاب الا ستیذان، ص ۳۵۹،۳۵۸، ج: ۲۲،ط: دارالکتب العلمیہ)
وفیہ ایضا:
’’معنی الایۃ اذاسلم علیکم المسلم فردوا علیہ افضل مما سلم أور دوا علیہ بمثل ما سلم بہ، فالز یادۃ مندوبۃ والماثلۃ مفروضۃ۔‘‘ (عمدۃ القاری، باب اسلام من سماء اﷲ تعالیٰ، کتاب الاستیذان، ص: ۳۶۴،ج: ۲۲،ط دارالکتب العلمیہ)
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
’’(دوم) (الفاظِ سلام) (مسنون) ’’سلام‘‘ یا ’’السلام‘‘ کا لفظ ’’علیک‘‘ یا ’’علیکم‘‘ کے ساتھ کہے۔ (جائز) صرف سلام یا تسلیم، اس لیے کہ یہ الفاظ قرآن میں مذکور مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ماثور، پس صرف سلام یا تسلیم پراکتفاء کرنے والا ثواب سنت سے محروم رہے گا۔‘‘ (فتاویٰ رحیمیہ، مسائل شتیٰ ، ص: ۴۸۲، ج: ۱۰،ط: دارالاشاعت)
جامع الترمذی میں ہے:
’’عن ابن عمرؓ قال: کان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ازا ودع رجلا اخذہ بیدہ، فلا یدعھا، حتی یکون الرجل ہو یدع ید النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ویقول: ’’استودع اﷲ دینک، وامانتک واخر عملک‘‘
(جامع الترمذی، باب ماجاء مایقول اذاودع انسانا، ابواب الدعوات، ص: ۱۸۲، ج: ۲، ط: قدیمی)
فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ
ابوبکر سعید الرحمن محمد انعام الحق عبداﷲ خدا بخش
الجواب صحیح تخصصِ فقہِ اسلامی
محمد شفیق عارف جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
(ماہنامہ بینات، ذوالقدہ 1442، جولائی 2021)