مسلمانوں کو شدت پسندی کی طرف دھکیلنے کی کوشش؟
شکیل اختر۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
سری لنکا کے کینڈی شہر اور امپارا ضلع میں مسلم مخالف فسادات کے بعد رواں ماہ کے اوائل میں حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔اس جزیرہ نما ملک میں تمل علیحدگی پسند تحریک کے دوران سنہ 1971 سے 40 برس تک ایمرجنسی نافذ رہی جسے خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سنہ 2011 میں واپس لیا گیا۔اُس وقت سے یہ پہلا موقع ہے جب دوبارہ ایمرجنسی نافذ کرنی پڑی ہے۔ فسادات کے دوران مسلمانوں کی درجنوں دکانوں، مکان اور املاک کو حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی مسجدیں بھی جلائی گئیں۔فسادات پر قابو پانے کے لیے فوج اتارنی پڑی۔ حالات میں بہتری آنے کے بعد گذشتہ دنوں ایمرجنسی ہٹا لی گئی ہے۔
لیکن یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ برسوں کی خونریزی اور خانہ جنگی کے بعد جب ملک میں امن قائم ہوا تو آخر حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد اور فسادات کی فضا کیوں پیدا ہوئی۔
سری لنکا کے مسلمان تمل نسل کے ہیں اور وہاں کے تملوں کی طرح ان کی زبان بھی تمل ہے۔ ان کی بیشتر آبادی ملک کے شمال اور مشرق میں واقع ہے۔تمل علیحدگی پسند تحریک کے دوران انھوں نے فطری طور پر اپنی سیاسی قسمت تمل تحریک سے وابستہ کی تھی۔ لیکن سنہ 1990 میں ملک کے شمال میں ایک علیحدہ تمل مملکت کے قیام کے لیے سرگرم تمل ہندوؤں کی مسلح تنظیم ایل ٹی ٹی ای نے انھیں اپنے علاقوں سے بے دخل کر دیا۔راتوں رات ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو جافنا، بٹائی کلوا اور ٹرنکومالی جیسے شمالی علاقوں میں اپنا گھر بار، کاروبار اور زمین چھوڑ کر سنہالہ بدھ مت برادری کے اکثریتی علاقوں میں پناہ لینی پڑی۔
سری لنکا کی دو کروڑ کی آبادی میں سنہالہ بدھسٹ 75 فی صد ہیں، تمل ہندوؤں کی آبادی 11 فی صد اور مسلمانوں کی آبادی تقریباً نو فیصد ہے اور وہ تمل ہندوؤں کے بعد ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت ہیں۔مسلمانوں کی اکثریت کاروبار اور تاجروں کی ہے۔ امپارا ضلع میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 50 فی صد ہے۔ بٹائی کلووا میں تمل ہندوؤں کے بعد وہ دوسری سب سے بڑی آبادی ہیں۔ ٹرنکومالی سے پورے مشرقی ساحلی اضلاع تک سنہالی اور ہندوؤں کے ساتھ ساتھ ایک تہائی آبادی ان کی بھی ہے۔
سنہالی اور تمل اپنی شناخت نسلی بنیاد پر کرتے ہیں جبکہ تمل ہوتے ہوئے بھی، مسلمانوں کی شناخت نسلی نہیں مذہبی خطوط پر کی جاتی ہے۔بدلتے ہوئے حالات میں انھوں نے خود کو ملک کی مین سٹریم سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنی ایک سیاسی جماعت سری لنکا مسلم کانگریس تشکیل دی جو کچھ ہی سالوں میں ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے لگی۔ اس وقت بھی وہ حکمراں اتحاد کا حصہ ہے۔
ایل ٹی ٹی ای کے سربراہ وی پربھاکرن کی قیادت میں تمل ہندوؤں کی علیحدگی پسند ی کی تحریک کے دوران سری لنکا میں بدھسٹ مذہبی اور نسلی قوم پرستی کو بھی شدت سے ہوا ملی تھی۔نو برس قبل ایل ٹی ٹی ای کے خاتمے کے بعد سنہالہ انتہاپسندوں کو ایک نئے دشمن کی ضرورت تھی۔ کئی عشروں تک تمل ان کے دشمن تھے۔ مسلم اب ان کے نئے دشمن ہیں۔
سری لنکا کی سماجیات کے ماہر سٹینلی ٹیمبیا نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ سنہالہ ایک ایسی برادری ہے جو زبردست اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی خود کو اقلیت سمجھتی ہے۔ وہ تملوں کو انڈیا کی ریاست تمل ناڈو کا حصہ سمجھتے ہیں اور سری لنکن مسلمان ان کے نزدیک وسیع تر مسلم امت کا حصہ ہیں۔
سنہ 2011 کے بعد مسلمانوں پر سنہالہ تنظیموں کے طرف سے متواتر حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کی نوعیت خود ساختہ نہیں بلکہ منظم تھی۔ اور یہ ان گروپوں کی جانب سے کیے گئے تھے جن کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی تھی۔ ان حملوں کے مرتکبین کو عموماً سزائیں نہیں دی گئیں۔
مسلمانوں کی ایک سول سوسائٹی تنظیم ‘سیکرٹیریٹ فار مسلم’ نے سنہ 2013 سے 2015 کے درمیان مسلمانوں کے خلاف ہونے والے 538 واقعات درج کیے ہیں۔ سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات، تقریریں اور ویڈیوز کے سرکولیشن میں خاصی تیزی آئی ہے۔
‘بودو بالا سینا’ جیسی کئی تنظیموں نے مسلمانون کے خلاف نفرت کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ یہ تنظیم برما کے انتہا پسند بدھسٹ گروپوں سے بھی ترغیب لے رہی ہے۔ یہ مسلمانوں پر الزام لگاتی ہے کہ وہ سنہالیوں سے زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی تعداد بودھ آبادی سے زیادہ کر سکیں۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ وہ بودھ مذہب کے لوگوں کو جبراً مسلمان بنا رہے ہیں۔بی بی ایس جیسی کئی دیگر انتہا پسند تنظیمیں سری لنکا میں مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر بدھسٹ قوم پرستی کو ہوا دے رہی ہیں۔ ‘سنہالا روایا’ اور ‘مہاسن بلایا’ جیسی تنظیمں طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر سنہالیوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہی ہیں اور تشدد کو فروغ دے رہی ہیں۔مارچ کے فسادات سے قبل ایک فرضی ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں ایک ریستوران کے ایک مسلم باورچی کو یہ اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا کہ وہ سنہالیوں کو پیش کیے جانے والے کھانے میں ایسی دوا ملاتا ہے جس سے ان کے اولاد نہ ہوں۔
سری لنکا کی حکومتیں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے میں ناکام رہی ہیں۔ اس سے ان تنظیموں کا حوصلہ اور بڑھ گیا ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلمانوں پر حملے نہ صرف انتہائی منظم طریقے سے ہو رہے ہیں بلکہ یہ انھیں پر تشدد جوابی کارروائی کے لیے مشتعل کرنے کی غرض سے بھی کیے جا رہے ہیں تاکہ سنہالہ قوم پرستی کو مستحکم کیا جا سکے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مسلم نوجوانوں کی طرف سے اس کا شدید ردعمل ہو سکتا ہے۔ سرکردہ سیاسی مبصر دایان جیا تیللیکا نے اخبار ‘دی آئی لینڈ ‘ میں لکھا ہے کہ ان منظم حملوں کے نتیجے میں مسلم نوجوان انتہا پسندی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں اور مسلمانوں کے اعتدال پسند طبقے کمزور پڑ جائیں گے۔
انھوں نے یاد دلاتے ہوئے لکھا ہے کہ کس طرح سنہالہ نسل پرستوں نے تملوں کو سبق سکھانے کے نام پر ان پر متواتر حملے کیے تھے۔ اسی کے نتیجے میں تمل شدت پسندی کا جنم ہوا اور ملک کو 30 برس تک خونریز خانہ جنگی جھیلنی پڑی۔ وہی کہانی ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔
جیا تیللیکا لکھتے ہیں کہ ‘ہم سری لنکا میں اسلامی دہشت گردی کے وجود میں آنے کے ایک قدم اور قریب پہنچ گئے ہیں۔