مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
خطیبِ اعظم، بلبلِ بستانِ رسول، حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ۱۹۳۹ء میں لدھا رام کیس سے بری ہو کر گھر تشریف لائے تو حضرت مولانا سید ابوذر بخاری مدظلہٗ نے یہ نعت اپنے قابلِ فخر اور یگانۂ روزگار والد کو سنائی اور بے حد داد پائی۔ حضرت مولانا ابوذر بخاری کی شاعری کی ابتدا اسی پاکیزہ نعت سے ہوئی، اﷲ تعالیٰ، عشقِ رسول میں ڈوبی ہوئی اس نعت کو شرفِ قبولیت بخشے اور شاہ صاحب خدام الدین کے صفحات کو اپنے رشحات قلم سے نوازتے رہیں۔
(مطبوعہ: ہفت روزہ ’’خدام الدین‘‘ لاہور، ۳۰؍ جولائی ۱۹۶۵ء)
چہ وصفِ محمدؐ کند مغزِ خامے کہ بالائے فکر است او را مقامے
رُخِ مہر تابش چو صبح بہاراں دہد جلوۂ خوش بہر خاص و عامے
رخش والضـحیٰ گشت و واللیل گیسو ایں صبح چہ صبح ایں شامے چہ شامے
لبِ شہد بارش ز موجِ لطافت بہ تسنیم و کوثر دہد النظامے
لبش شکّرین و عذارش مہ و خور دُرر پیش دنداں شدہ ہیچ فامے
ہم از مشکِ بنیریٔ زلف سیاہش غزالے ختن را معطر مشامے
اسیرِ دو زلفش ہزاراں دل و جاں شہید دو چشمش چہ شاہ و غلامے
خط و خال و نقش و نگارِ نگارم میسر بگیتی نظیرش کدامے
بحبلِ متینش پناہِ دو عالم بزیرِ نگینش تمامی نظامے
زِ تحت الثریٰ تا باَوجِ ثریا زند مرکبِ او بیک لحظہ گامے
بہ ہم بستگی ہائے طبعِ سلیمش بہ بخشد امم را وفاق و دوامے
ہم از اضطرابِ جبینِ مبینش ہمہ نظم و احکام نذرِ فصامے
صداقت مجسم ، امانت سراپا لسانِ قدس ہم رسل را امامے
مراحم موصل مطاعِ خلائق ملاذِ برایا شفیع انامے
جنودِ ملائک ہمہ ذات والا رسانند ہر دم بروحش سلامے
دل حافظ اے ساقیٔ حوضِ کوثر بماند ز بزمت چرا تشنہ کامے
-ترجمہ: (صبیح ہمدانی)
۱: ناپختہ دماغ والا کوئی انسان وصفِ محمد (علیہ الصلاۃ والسلام) کیا کر سکتا ہے؟ جبکہ ان کا مقامِ عالی فکرو ادراک سے بالا تر ہے۔
۲: ان کا سورج کی مانند روشن چہرہ بہار کی صبح کی مثال ہے۔ جو ہر خاص و عام کو اپنا خوب منظر نظارہ عطا کرتا ہے۔
۳: ان کا چہرہ والضحیٰ بن گیا ہے، اور ان کی زلفیں واللیل کا مفہوم ہیں۔ یہ (چہرے کی) صبح کیا روشن صبح ہے، اور یہ شام کیا حسین شام ہے۔
۴: ان کے شہد برسانے والے ہونٹ، اپنی لطافت کی موجوں سے، تسنیم اور کوثر کے پانیوں میں طغیانیاں پیدا کرتے ہیں۔
۵: ان کے لب مبارک دنیا میں مٹھاس پھیلانے کا ذریعہ ہیں، اور ان کے رخسار سورج کی طرح روشن ہیں۔ ان کے دندانِ مقدس کے سامنے موتی بالکل ہیچ فام اور کالعدم ہو جاتے ہیں۔
۶: ان کی سیاہ زلفوں نے وہ مشک بکھیری ہے کہ خُتن کے غزالوں کے مشام بھی خوشبو سے معطّر ہیں۔
۷: ان کی زلفوں کے دو حصوں میں ہزار ہا دل و جاں قید ہیں۔ اور ان کی دو آنکھوں نے ……کیا باد شاہ اور کیا غلام…… سب کو اپنا قتیلِ عشق بنا رکھا ہے۔
۸: میرے محبوب کے خط و خال اور نقش و نگار (کی کیا ہی بات ہے!) دنیا میں ان کی نظیر و مثال کہاں پائی جاتی ہے؟
۹: انھی کی مضبوط رسی کو تھام کر ہی دونوں جہانوں میں پناہ مل سکتی ہے۔ گویا سارا نظام ان کے نگینِ خاتم کے ما تحت ہی چل رہا ہے۔
۱۰: زمین کی گہرائیوں سے سے لے کر آسمان کے ستارے ثریّا کی بلندی تک، ان کی سواری کا جانور ایک لمحے میں ایک قدم کا سفر کرتا ہے۔
۱۱: ان کی طبعِ سلیم کی جمعیت اور اطمینان کی صفت نے امتوں اور قوموں کو ہمیشہ موافقت کے ساتھ رہنا سکھایا ہے۔
۱۲: اسی طرح ان کی روشن پیشانی پر بل آنے سے ہی سب نظم و انتظامِ کائنات درہم برہم ہو جاتا ہے۔
۱۳: وہ مجسّم سچائی ہیں، ان کا سارا وجود ہی امانت داری کا نمونہ ہے۔ وہ جبرائیل علیہ السلام سمیت سب انبیاء کے امام ہیں۔
۱۴: وہ رشتہ داریوں کو ملانے والے اور صلہ رحمی سکھانے والے ہیں، مخلوق ان کی بات مانتی ہے۔ وہ سب اہلِ زمین کے مأویٰ و ملجأ ہیں، اور ایک جہان کے شفیع ہیں۔
۱۵: ذاتِ باری تعالیٰ کے فرشتوں کے لشکر کے لشکر ہر دم آپ کی روحِ پاک پر سلام بھیجتے ہیں۔
۱۶: اے ساقی ٔ کوثر! (علیک الصلاۃ والسلام) حافظؔ کادل، آپ کی بزم و مجلس سے پیاسا کیوں رہ سکتا ہے۔