سید محمد کفیل بخاری
2017ء بہت سی تلخ و خوشگوار یادیں جلو میں لیے رخصت ہوا اور 2018ء نئی توقعات اور ہزاروں خواہشات کے ساتھ طلوع ہوا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: تلک الایام نداولہا بین الناس،’’ہم لوگوں میں دنوں کو الٹتے پلٹتے رہتے ہیں‘‘۔ یہ قانون قدرت اور نظام فطرت ہے جو کائنات میں ازل سے جاری ہے اورتب تک جاری رہے گا جب تک لمحاتِ عالم کی اس ریت گھڑی کا آخری ذرہ باقی رہے گا۔ پھر ایک دن آئے گا کہ خالق الایّام و اللیالی اس روز لمن الملک الیوم کا اظہار پر جلال کرے گا اور بساطِ روز و شب آخر کار لپیٹ دی جائے گی۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
مگر ملحوظ رہے کہ جو شے تبدیل ہوتی ہے وہ مظاہر ہیں، حقائق نہیں۔ حقائق تو ثابت رہنے والے اور زوال نا پذیر ہوتے ہیں۔ جو حق ہے وہ ہمیشہ سے حق ہے اور ہمیشہ رہے گا، باطل اپنی سب توانائیاں صرف بھی کر لے وہ حق کی جگہ نہیں لے سکتا۔ نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے۔سادہ لفظوں میں کہیں تو نہ جنگ بدلے گی نہ معرکے کے فریق، بس بدلتے ہیں تو اس رزم گاہ کے احوال و واقعات۔ حقیقت باقی رہنے کے لیے ہے، باقی سب فانی ہے۔
سالِ گذشتہ بہت سے باطل معبودوں کے زوال و فنا کا برس تھا۔ اب کے برس شخصیات کے انہدام سے معاملہ آگے بڑھا اور ہم نے بہت سے معزز فورموں اور اداروں کے چہروں سے نقاب (بلکہ ستر پوشی کے لباس تک) اترتے ہوئے دیکھے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں کہ جب ظلم اور جبر کا یہ نظامِ استحصال ایک روز کامل سقوط کا منہ دیکھے گا۔ اور اس روز مومنین اﷲ کی نصرت سے خوش ہوں گے۔ (یومئذ یفرح المؤمنون بنصر اﷲ)۔ مگر کہتے ہیں کہ ہاتھی مرتے وقت بھی جب گرتا ہے تو بہت سے معصوم پودوں کو کچل ڈالتا ہے، اﷲ کریم اپنی عافیت کے سائے کو آنے والے برس میں اپنے محبوب پیغمبر کی بے کس امت پر دراز فرمائے اور ہاتھیوں، بندروں، بھیڑیوں اور سگانِ خوک زاد کے اس ہجوم سے ہماری حفاظت فرمائے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو اس سال جمہوری طرزِ حکومت کے جبر کی غیر مرئیت کھل کر سامنے آئی۔ خود حکمران سمجھے جانے والے چیف ایگزیکٹو ہاتھ لگا لگا کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا نکالا،کس نے نکالا اور رو رو کر پوچھ رہے ہیں کہ کیوں نکالا۔ حکمران جماعت مسلم لیگ اپنی تاریخ و روایات کے عین مطابق اور بانیان پاکستان کے وعدوں کے برعکس و متضاد اپنے موجودہ قائدین کے اس مستعار وژن پر عمل پیرا ہے جو درحقیقت رتوندے کے برعکس بیماری ہے۔ کہ رتوندے کے مریض رات کے وقت دیکھ نہیں پاتے۔ ہمارے عظیم وژنری لیڈران روشن دن میں دیکھ نہ سکنے کی نا قابلِ تشخیص بیماری میں مبتلا ہیں۔ معزول (یا نکالے گئے؟) وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی طرف سے لبرل پاکستان کا نعرہ، قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو پاکستان کے ایٹمی راز امریکہ کو فراہم کرنے کے سیاہ کارنامے کے مرتکب ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کے نام منسوب کرنا، حلف ختم نبوت کو حذف کرنا، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کے خاتمے کے لیے نئے قومی بیانیے اور نئے عمرانی معاہدے کی تیاری، اس دورِ حکومت میں دینی مدارس اور دینی جماعتوں کے خلاف سفاکانہ اقدامات، خصوصاً مسلم لیگ ن کے تمام ادوار میں دعوت وتبلیغ دین کی پاک محنتوں میں مشغول کارکنوں پر مظالم، ان کا اغواء، جعلی مقابلوں میں قتل، مذہب بیزار طبقات خصوصاً لبرل فاشسٹوں اور سیکولر انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی…… غرض کیا کیا لکھا جائے۔اور مسلم لیگ کے سوا کے سیاستدانوں کے احوال دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے، شکل نہ دیکھنے کے دعوے کرکے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے والے بے حقیقت سے اقتدار کی خاطر گھٹیا پن کی آخری حدوں کو مزید گھٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔پاکستان کی سیاسی قیادت بالخصوص حکمران جماعت کے دین بیزار اقدامات کی وجہ سے ہمارے دل کی زمینیں ان کے لیے شوریلی ہو گئی ہیں اب ان کے لیے دعائے خیر کا کوئی پودا بلکہ احترام کے کسی جذبے کی گھاس تک نہیں اگتی۔
گزشتہ برس کے آخری دنوں میں دجّالچہ ٔ زمانہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے اعلان نے نہ صرف دنیا بھر میں ایک اضطراب پیدا کیا بلکہ جدید عقلیت کی اندر پنہاں مسلم دشمنی کا خبث بھی ظاہر ہو کر سامنے آگیا۔جنرل اسمبلی میں امریکہ کو ہونے والی بدترین شکست در اصل مظلومیت کی کراہوں کا وہ شہاب ثاقب ہے جس نے جدید بے حسی کے سنگی کُرّے (Stonesphere) پر ایک خراش ڈال ہی دی۔ ٹرمپ کا یہ اعلان دراصل تحریک آزادیٔ فلسطین کی قربانیوں، فلسطینی ریاست کے وجود اور مسلم اُمہ کے خلاف صہیونی منصوبہ بند سازش کا اعلامیہ ہے جو پوری د نیا کو تباہی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اﷲ تعالیٰ ترک صدر طیّب اردوان کی حفاظت اور توفیقات میں اضافہ فرمائے جس نے مسلم دنیا کو اکٹھا کرکے امریکی فرعونیت کو زبانی کلامی سہی، مسترد تو کیا ۔ وگرنہ ہمارے عرب برادرانِ ملت تو اس وقت ایک دوسرے کو ہی مسترد کرنے میں شدید مصروف ہیں۔
پس اے اہل ایمان! اے محبانِ وطن! اے عشّاق ِ حرمین و اقصی اور اے امّت محمد! زمانہ اور اس کے حوادث و واقعات گواہی دیتے ہیں، سو اس کی قسم ہے، انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جنھوں نے ایمان کو اختیار کیا اور اس کے مطابق عمل گزار ہوئے، اور ان کے سوا جنھوں نے ایک دوجے کو حق کی تلقین کی اور ایک دوسرے کا صبر بڑھانے کا سبب بنے
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر