حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ
انسان جتنے کام یا کلام کرتا ہے بظاہر اس کی تین قسمیں ہیں:
1۔ مفید: جس میں کوئی دین یا دنیا کا فائدہ ہو۔
2۔ مضر: جس میں دین یا دنیا کوئی نقصان ہو۔
3۔ نہ مفید نہ مضر: جس میں نہ کوئی فائدہ ہو نہ نقصان۔
اس تیسری قسم کو حدیث میں لا یعنی کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے لیکن جب ذرا غور سے کام لیا جاوے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تیسری قسم بھی درحقیقت دوسری قسم یعنی مضر میں داخل ہے۔
گالی گلوچ کرنا: گالی اور فحش کلامی سے مراد یہ ہے کہ ایسے کام جن کے اظہار سے آدمی شرماتا ہو، ان کو صریح اور کھلے الفاظ سے ظاہر کرنا۔ پھر اگر وہ واقع کے مطابق اور صحیح ہو تو ایک گناہ گالی دینے کا ہے اور اگر واقعہ کے خلاف ہو تو دوسرا گناہ بہتان و افترا کا بھی ہے۔ جیسے کسی شخص یا اس کی ماں بہن کی طرف کسی فعلِ حرام کی نسبت کرنا۔
حدیث شریف میں ہے کہ:
’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
لعنت کرنا: لعنت کے معنی ہیں کسی کو اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دور یا غضب و قہر میں مبتلا یا دوزخی کہنا یا بطور بد دعا کے یہ کہنا کہ اس کو اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت سے دور کر دے یا اس پر غضب الٰہی نازل ہو یا دوزخ میں جائے وغیرہ۔
لعنت کے تین درجے ہیں:
1۔ ایک جن اعمال و خصائل پر قرآن مجید و حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے، ان اوصاف عام کے ساتھ لعنت کرنا، جیسے: ’’ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْظَّالِمیْنَ ‘‘ ۔ یہ صورت بالاتفاق جائز ہے۔
2۔ دوسرے کسی مخصوص فرقۂ ضالہ پر اس کے وصفِ ضلالت کے ساتھ لعنت کرنا۔ مثلاً یہ کہنا کہ یہود و نصاریٰ پر لعنت یا روافض و خوارج پر لعنت یا سود خوروں، شرابیوں وغیرہ پر لعنت جس میں کسی شخص یا جماعت کی تعیینِ خاص نہیں ہے، یہ صورت بھی جائز ہے۔
3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کسی خاص شخص زید و عمرو پر یا کسی جماعتِ خالص مثلاً فلاں شہر کے رہنے والے یا فلاں قبیلے کے لوگ یا فلاں پیشہ والے یا فلاں قوم پر لعنت، یہ سخت خطرناک معاملہ ہے، اس میں بڑی احتیاط لازم ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ:
’’جس شخص پر لعنت کی جاتی ہے، اگر وہ لعنت کا مستحق نہیں ہوتا تو وہ لعنت اس کے کہنے والے پر لوٹتی ہے۔‘‘ اور فرمایا کہ: ’’مؤمن پر لعنت کرنا ایسا گناہ ہے جیسے اس کو قتل کر دیا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
لعنت کرنا جیسے کسی مسلمان پر جائز نہیں کسی جانور اور معین کافر پر بھی جائز نہیں۔
دل لگی و تمسخر کرنا: تمسخر کے معنی یہ ہیں کہ کسی کی اہانت و تحقیر اور اس کے عیب کا اظہار اس طرح کیا جائے جس سے لوگ ہنسیں یا دل لگی کرنا جس سے دوسرے کو ایذا پہنچے۔ اس میں بہت سی صورتیں داخل ہیں، مثلاً:
1۔ کسی کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، بولنے ہنسنے وغیرہ کی نقل اتارنا یا قد و قامت، شکل و صورت کی نقل اتارنا۔
2۔ اس کے کسی قول و فعل پر ہنسنا۔
3۔ آنکھ یا ہاتھ پیر کے اشارہ سے اس کے عیب کا اظہار کرنا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو لوگ دوسرے لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں، آخرت میں ان کے لیے جنت کا دروازہ کھولا جائے اور اس کی طرف بلایا جائے گا ، جب وہ سرکتا سسکتا ہوا وہاں تک پہنچے گا تو بند کر دیا جائے گا، اسی طرح برابر جنت کے دروازے کھولے اور بند کیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ مایوس ہو جائے اور بلانے پر دروازہ جنت کی طرف نہ جائے گا‘‘۔
بعض لوگ ناواقفیت یا غفلت سے تمسخر کو مزاح (خوش طبعی) میں داخل سمجھ کر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مزاحِ جائز جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی بات خلافِ واقعہ زبان سے نہ نکلے اور کسی کی دل آزاری نہ ہو اور وہ بھی مشغلہ اور عادت نہ بنے، کبھی کبھی اتفاقاً ہو جائے اور جس تمسخر میں مخاطب کی دل آزاری یقینی ہے وہ باجماع حرام ہے اس کو مزاحِ جائز میں داخل سمجھنا گناہ بھی ہے اور جہالت بھی۔
چغل خوری: کسی کا عیب یا ایسا قول و فعل جس کو وہ چھپانا چاہتا ہے، دوسروں پر ظاہر کرنا چغلی ہے۔ چغلی کھانا گناہ کبیرہ ہے۔ پھر اگر وہ عیب واقعی اور صحیح بات ہے تو صرف چغلی کا گناہ ہو گا اور اگر واقعہ کے خلاف ہے یا اپنی طرف سے اس میں کچھ کمی یا زیادتی کی یا برے عنوان، برے طرز سے نقل کیا تو افترا و بہتان بھی ہے جو مستقل کبیرہ گناہ ہے اور جس کی طرف سے چغلی کی گئی ہے اگر اس کے کسی عیب کا اظہار ہے تو غیبت بھی ہے جو تیسرا گناہِ کبیرہ ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’جو چغلی لے کر ادھر سے ادھر جاتے ہیں پھر دوستوں میں باہم فساد ڈلواتے ہیں اور جو بے قصوروں کے عیب ڈھونڈتے ہیں، بدترین انسان ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ’’چغل خور جنت میں نہیں جائے گا، چغلی عذابِ قبر ہے۔‘‘ (بخاری)
کذب (جھوٹ): (خلاف واقعہ بات کہنا کذب ہے)، بے تحقیق کسی بات کا نقل کرنا اور سنی سنائی بات کو بدوں تحقیق کے فوراً زبان سے نکال دینا بھی گناہ ہے۔ (انفاس عیسی: 185)
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جھوٹ بولنے سے بچو کہ جھوٹ اور فجور ساتھ ساتھ ہیں اور یہ دونوں جہنم میں ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ’’جھوٹی شہادت تین مرتبہ شرک کے برابر ہے۔ ‘‘ (نسائی، ابن ماجہ، ابو داؤد و ترمذی)
غیبت: کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی ایسی بات کہنا کہ اگر وہ سنے تو اس کو ناگوار ہو، اگرچہ وہ بات اس کے اندر موجود ہی ہو اور اگر وہ بات اس میں نہیں تو وہ غیبت سے بڑھ کر بہتان ہے۔ اسی طرح کسی کی نقل اتارنے سے مثلاً آنکھ دبا کر دیکھنا، لنگڑا کر چلنا بھی (غیبت ہے) بلکہ یہ زیادہ برا ہے۔
غیبت کا مذموم ہونا (قرآن اور حدیث سے) ظاہر ہے، اس کی مضرت دین و دنیا میں ہے۔ دنیا کی مضرت تو یہ ہے کہ اس سے باہمی تشویش و نااتفاقی ہوتی ہے، آپس میں فساد ہو جاتا ہے اور دین کی مضرت یہ ہے کہ قیامت کے دن غیبت کرنے والے کی نیکیاں اس کو مل جائیں گی، جس کی غیبت کی تھی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ غیبت حق العبد ہے، جب وہ معاف کرے گا تب معاف ہو گا۔
مدح سرائی: حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے مجمع میں اپنے دوست کی تعریف کی تو رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’تم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس کے نفس میں خود پسندی و بڑائی پیدا کر کے اس کو ہلاک کر دیا۔ دوم اپنی تعریف سن کر نفس پھولتا ہے اور اعمالِ خیر میں سست پڑ جاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’مسلمان بھائی کو کند چھری سے ذبح کر دینا اس سے بہتر ہے کہ اس کہ منہ پر اس کی تعریف کی جائے‘‘۔ اس لیے کہ ممدوح مغرور ہو جاتا ہے اور اپنے نفس کو قابلِ تعریف سمجھنے لگتا ہے، حالانکہ یہ اس کی ہلاکت و تباہی کی جڑ ہے۔
طریقِ کار: حدیث شریف میں ہے کہ: ’’جب صبح ہوتی ہے تو تمام اعضائے بدن زبان سے خوشامد کر کے کہتے ہیں کہ تو ٹھیک رہنا، اگر تو ٹھیک رہی تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر تو بگڑی تو ہم سب بگڑ جائیں گے‘‘۔( لہٰذا لازم ہے کہ ہر ممکن طریق سے زبان کی حفاظت کریں اور ان باتوں کی سختی سے پابندی کریں۔)
بولنے میں احتیاط رکھیں (بدوں سوچے کوئی بات نہ کیا کریں) اگر کبھی کوئی بات خلاف شریعت ہو جائے تو فوراً خوب توبہ کر لیں (اگر کسی کو گالی دی ہو یا کسی سے تمسخر کیا ہو یا چغل خوری کی ہو تو) توبہ کے بعد اس سے بھی معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔ اور جن لوگوں کے سامنے چغلی یا غیبت کی تھی اس کے سامنے اس کی مدح و ثنا بھی کریں اور پہلی بات کا غلط ہونا ظاہر کر دیں اور اگر وہ سچی بات ہو تو کہہ دیں کہ بھائی خود اس بات پر اعتماد نہیں رہا، یہ تو ریہ ہو گا، کیونکہ سچی بات پر بھی اعتمادِ قطعی بدوں وحی کے نہیں ہو سکتا اور اگر کسی وجہ سے معاف کرانا دشوار ہو تو ادنیٰ درجہ کا علاج یہ ہے کہ اس شخص کے لیے اور اس کے ساتھ اپنے لیے استغفار کرتے رہیں، اس طرح: ’’ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَ لَہُ ‘‘( اے اﷲ! ہماری اور اس کی مغفرت فرما)۔
(ماخوذ: شریعت اور طریقت)