علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
۱۰۔ علاّمہ ابن قیم رحمہ اﷲ کتاب میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ پانچ مواقع پر عورت کو مرد سے نصف حیثیت حاصل ہے، جن میں سے ایک عقیقہ ہے۔ اس جگہ جعفری صاحب نے فٹ نوٹ کی شکل میں حضرت مصنف کے خلاف اختلافی نوٹ دیا ہے، اس کے چند جملے قارئین کی ضیافت کے لیے نقل کیے جاتے ہیں:
’’اگر کسی معاملہ میں مرد کو عورت پر تفوق حاصل ہے تو کسی معاملہ میں عورت، مرد پر تفوق رکھتی ہے، مثلاً پاک دامن عورت پر بدچلنی کا اتہام لگانے کی سزا اسی کوڑے ہے، لیکن پاکدامن مرد پر بدچلنی کی تہمت پر یہ سزا نہیں ہے‘‘۔ (ج: ۱، ص: ۱۲۹)
مدارس عربیہ میں ایک جملہ بولا جاتا ہے ’’ من لم یعرف الفقہ ، قد صنَّف فیہ کتابا ‘‘۔ تعجب ہے کہ ایک شخص علم سے اتنا بے بہرہ اور جرأت یہ کہ شریعت کے طے شدہ مسائل میں ائمہ دین کے برخلاف رائے زنی کی جا رہی ہے۔ معلوم نہیں حد قذف کے مسئلہ میں عورت اور مرد کا فرق جعفری صاحب نے کہاں سے نکال لیا۔ اسی پر صادق آتی ہے مثل: ’’ انف فی الماء و استٌ فی السماء ‘‘۔
۱۱۔ ایک مقام پر کتاب میں یہ الفاظ آئے ہیں: ’’ اتی سباطۃ قوم ، و ہو ملقی الکناسۃ ، و یسمی المزبلۃ ‘‘۔
اس کا صحیح ترجمہ: آپ صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں کی کی کوڑی کے پاس آئے اور کوڑی اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا ہو اور اس کو عربی میں ’’مزبلۃ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔
جعفری صاحب نے اس موقع پر حد کر دی ہے، غلطی نہیں بلکہ ’’غلطاڑ‘‘ کے مرتکب ہوئے ہیں، لکھتے ہیں: ’’آپ ﷺ ایک کوڑے کے ڈھیر کے پاس تشریف لائے، آپ ﷺ مزبلہ نام کی چادر اوڑھے ہوئے تھے‘‘۔ (ج: ، ۱، ص: ۱۳۸)
لا حول و لاقوۃ الا باﷲ۔ کناسہ کے معنی چادر کے کر دیے اور مزبلہ اس کا نام تجویز کر لیا۔ یوں عربی زبان کا بھی ستیاناس کیا اور سیرت نگاری کا بھی۔
۱۲۔ کتاب میں اس مسئلہ پر مبسوط بحث ہے کہ مونچھوں کو کتروانا چاہیے یا منڈوانا۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن القیمؒ نے حضرت امام مالکؒ کا ایک قول نقل کیا ہے: ’’ وأریٰ ان یُؤدَّبَ مَن حَلَّق شاربہ‘‘۔ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’میری رائے میں جو شخص مونچھیں منڈوائے، وہ تنبیہ اور تادیب کا مستحق ہے‘‘۔ مگر جعفری صاحب اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ’’اور میں سمجھتا ہوں کہ مونچھیں مناسب طریقہ سے بنائے‘‘۔ (ج: ۱، ص: ۱۴۱) سبحان اﷲ!
اسی بحث میں جعفری صاحب نے ایک اور بڑا دلچسپ لطیفہ پیدا کیا ہے، مصنف لکھتے ہیں:
’’ واحتج المحفون باحادیث الامر بالاحفاء ‘‘
یعنی جو لوگ مونچھیں منڈوا دینے کے قائل ہیں، وہ ان حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں جن میں اِحْفاء (مونڈنے) کا حکم آیا ہے۔ آپ نے خط کشیدہ لفظ کو دیکھا ہے، یہ اِحْفاء سے اسم فاعل کا صیغہ ہے، مگر جعفری صاحب یہ سمجھے کہ یہ کسی محدث یا فقیہ بزرگ کا نام ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’اور محفون نے اس حدیث سے دلیل پیش کی ہے……‘‘
(ج: ۱، ص: ۱۴۲)
کتابت کی غلطی سے محفون کی بجائے مظعون لکھا گیا ہے یا ممکن ہے یہ تصحیح بھی جعفری صاحب نے فرما دی ہو۔
مدارسِ دینیہ میں ’’امام توقان‘‘ کا لطیفہ پہلے سے چل رہا تھا، اب امام محفون…… یا مظعون…… کا تعارف جعفری صاحب نے کرا دیا ہے۔
۱۳۔ کتاب میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خطبہ نقل کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
’’ خیر الہدی ہدی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘۔
جعفری صاحب خط کشیدہ لفظ کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’بہترین تحفہ‘‘۔ (ص: ۱۴۶) حالانکہ ہدی کے معنی سیرت کے ہیں۔
انھیں اتنا بھی خیال نہیں رہا کہ جس کتاب کا وہ ترجمہ کر رہے ہیں، اس کا پورا نام ’’زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ‘‘ ہے تو کم از کم اسی کا صحیح ترجمہ معلوم کر لیتے۔
۱۴۔ وضو کے بیان میں مصنف فرماتے ہیں: ’’ وکان یغسل رجلیہ اذا لم یکونا فی خفین و لا جوربین…… الخ‘‘۔
یعنی اگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے موزے نہیں پہنے ہوئے ہوتے تھے تو دونوں پاؤں کو دھوتے تھے، بصورت دیگر موزوں کا مسح فرما لیتے۔
جعفری صاحب کا ترجمہ پڑھیے اور ان کی علمی احتیاط اور دیانت داری کی داد دیجیے:
’’اگر موزے نہ پہنے ہوتے یا پاتابے استعمال میں نہ ہوتے تو پورے پاؤں کا مسح کرتے، لیکن اگر پہنے ہوتے تو صرف موزوں کا مسح کر لیتے‘‘۔ (ج: ۱، ص: ۱۵۱)
۱۵۔ نماز چاشت کے بیان میں علامہ ابن القیمؒ مورق عجلی کی ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے دریافت کیا: کیا آپ چاشت کی نماز پڑھا کرتے ہیں؟ کہا: نہیں، میں نے کہا: کیا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ پڑھا کرتے تھے؟ کہا: نہیں، میں نے کہا: تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ؟ کہا: نہیں، میں نے پوچھا: نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم؟ کہا: لا اخالہ‘‘۔ یعنی میں ایسا خیال نہیں کرتا۔ اب یہ ’’اخالہ‘‘ واحد متکلم فعل مضارع معلوم کا صیغہ ہے، خیال سے مشتق ہے، مگر جعفری صاحب کا ترجمہ سنیے اور سر دھنیے، آپ فرماتے ہیں: ’’نہیں، وہ بھی نہیں۔ ان کا کوئی بھائی نہیں‘‘۔ (ج:۱، ص: ۲۲۷)
اﷲ تعالیٰ انھیں معاف کرے، وہ یہ بھی نہ سوچ سکے کہ ’’ان کا کوئی بھائی نہیں‘‘ کہنے کی تک ہی کیا بنتی ہے؟
۱۶۔ حضرت مصنف نے جمعہ کے بیان میں ’’وادیٔ مزید‘‘ کا ذکر قدرے بسط سے کیا ہے، چند جملے مع ترجمہ ملاحظہ ہوں:
’’ فیتجلّی لہم عز و جلّ فیغشاہم من نورہ شیء لو لا انہ قضی ان لا یحترقوا لاحترقوا لما یغشاہم من نورہ …… فیرجعون الی منازلہم و قد اعطی کل واحد من الضعف علی ما کانوا فیہ …… الخ‘‘۔
صحیح ترجمہ: تو اﷲ تعالیٰ ان کے سامنے جلوہ افروز ہوں گے، اس کے نور سے کوئی چیز انھیں ڈھانپ لے گی۔ اگر یہ فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا کہ وہ جلیں گے نہیں تو اس کے نور کے چھا جانے سے (تجلیات کی تاب نہ لا کر) بہشتی جل جاتے…… پھر وہ اپنے ٹھکانوں کو واپس ہوں گے اور ہر شخص کو پہلے سے دوگنی نعمتیں مل چکی ہوں گی۔
اب جعفری صاحب کی گل کاریاں ملاحظہ ہوں، لکھتے ہیں:
’’اﷲ تعالیٰ ان کے سامنے منکشف ہو جا ہے تو وہ ذرا سی جھلک دیکھتے ہی غش کھا جاتے ہیں، جب ان کو غش آتا ہے تو اگر ان کے متعلق یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ نہ جلیں تو ضرور جل جاتے……پھر وہ لوگ اپنے منازل کو واپس آ جاتے ہیں، اس واقعہ کے باعث ان پر ضعف طاری ہو جاتا ہے‘‘۔ (ج:۱، ص: ۲۵۲)
جعفری صاحب کی معلومات کا دائرہ کتنا تنگ ہے، انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جنت میں کوئی کمزور نہیں ہو گا۔
۱۷۔ آغاز نماز جمعہ کے سلسلہ میں مصنف نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا پہلا خطبہ نقل کیا ہے، اس میں ایک جملہ ہے: ’’ ثم لیدعن غنمہ لیس لہا راع‘‘ یعنی جس روز قیامت قائم ہو گی تو آدمی اپنی بکریوں کو چھوڑ دے گا، کوئی ان کا چرانے والا نہ ہو گا۔ جعفری صاحب ترجمہ کرتے ہیں: ’’وہ اپنی بکریوں کو بلائے گا‘‘۔ (ص: ۲۵۳)
۱۸۔ بچوں کی نماز جنازہ کے ضمن میں حافظ ابن قیمؒ ، صاحبزادہ ابراہیم کے بارے میں ایک روایت لاتے ہیں:
’’ و ذکر عطاء بن ابی رباح ’’ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلّٰی علی ابنہ ابراہیم و ہو ابن سبعین لیلۃ و ہذا مرسل و ہم فیہ عطاء فانہ قد کان تجاوز السنۃ ‘‘۔
صحیح ترجمہ: عطاء بن ابی رباح (تابعی) سے ذکر کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی نماز جنازہ پڑھی تھی، جب کہ وہ ستر دن کے تھے۔ یہ روایت مرسل ہے۔ اس میں عطاء کو مغالطہ ہوا ہے کیونکہ وہ (حضرت ابراہیم) ایک سال سے تو تجاوز کر چکے تھے۔
جعفری کا ترجمہ پڑھیے اور ان کی حدیث دانی کی داد دیجیے، فرماتے ہیں:
’’حضرت عطاء بن ابی رباح سے منقول ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کا جنازہ پڑھا جب کہ ان پر صرف ۱۷، راتیں گزری تھیں، یہ روایت بھی مرسل ہے اور اس میں ایک راوی عطاء ہیں، اور یہ عمر میں تجاوز کر چکے تھے‘‘۔ (ص: ۳۴۷)
ایک تو سبعین کا ترجمہ ستر کی بجائے سترہ غلط کیا گیا ہے، دوسرا جعفری صاحب کو یہی معلوم نہیں کہ ’’مرسل‘‘ کسے کہتے ہیں؟ اسی لیے لکھتے ہیں کہ اس میں ایک راوی عطاء ہیں، یہ روایت بھی مرسل ہے میں ’’بھی‘‘ کا لفظ بالکل غلط بڑھایا گیا ہے۔ عبارت کے آخری خط کشیدہ جملہ کا ترجمہ بھی صریحاً غلط ہے۔
۱۹۔ اسی صفحے پر جعفری صاحب نے ایک اور کمال کر دیا ہے، لکھتے ہیں:
’’بعض لوگوں نے جابر جعفی کی روایت کے ذریعہ حضرت براء کی حدیث کو…… ضعیف قرار دیا ہے‘‘۔
اگر جعفری صاحب کو علم حدیث اور اسماء الرجال سے کوئی مناسبت ہوتی تو انھیں معلوم ہوتا کہ ’’جابر جعفی‘‘ کیسے ’’بزرگ‘‘ ہیں اور کیا ان کی روایت بھی اس قابل ہو سکتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں حضرات براء جیسے جلیل القدر صحابی کی روایت کو ضعیف قرار دیا جا سکے؟ حد تو یہ ہے کہ جعفری صاحب نے دو سطر پہلے یہ نہیں دیکھ لیا کہ جابر جعفی حدیث براء بن عازب کا راوی ہے اور ابن قیمؒ یہاں پر یہی کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ حضرات براء کی روایت میں جابر جعفی کا واسطہ ہے، اس لیے بعض علماء نے اس روایت کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
۲۰۔ کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے: ’’ لم یکن من ہدیہ: ان یبعث سعاتہ الا الی اہل الاموال الظاہرۃ من المواشی والزروع والثمار ‘‘۔ یعنی آپ کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ اموال ظاہرہ، جانوروں، فصلوں اور پھلوں کے مالکوں کے علاوہ کسی کے پاس اپنے عاملوں کو بھیجتے۔
جعفری صاحب اِلّا حرفِ استثناء کو نظر انداز کر کے بات بدل دیتے ہیں، ان کا ترجمہ یوں ہے: ’’اور آپ کا یہ طریقہ تھا کہ عاملین کو چوپایوں، پھلوں اور فصلوں جیسے ظاہری اموال کے مالکوں کی طرف بھیجتے تھے‘‘۔ (ص: ۳۵۹)
کتاب الحج کے مباحث جو اصل کتاب میں ڈیڑھ سو سے زیادہ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ترجمہ جعفری صاحب کے دل پر بڑا بوجھ بن گیا تھا، درمیان میں صفحوں چھوڑ دیے ہیں، ان کے ترجمہ کی زحمت ہی گوارا نہ فرمائی، پھر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بھی جعفری صاحب کی نظرِ کرم کا نتیجہ ہے یا ناشر، نفیس اکیڈمی کی عنایت، کہ کتاب کے باقی ماندہ مضامین کا ترجمہ آگے پیچھے کر دیا گیا، اس بے ربطی اور بے ترتیبی کا سرسری اندازہ لگانے کے لیے درج ذیل جَدْوَلْ کو دیکھیے:
اصل کتاب زاد المعاد، الجزء الاوّل ترجمہ اردو، حصہ اوّل
صفحات ۳۵۵ تا ۴۱۴ صفحات ۴۳۵ تا ۴۴۷
؍؍ ۴۱۴ تا ۴۵۸ ؍؍ ۴۲۲ تا ۴۳۴
؍؍ ۴۵۹ تا ۴۷۷ ؍؍ ۴۰۳ تا ۴۲۱
مضامین میں حذف و اختصار کے ساتھ اس بے ترتیبی کی وجہ سے جو گڑبڑ پیدا ہوئی ہے، اس کا اندازہ کچھ اہلِ علم ہی لگا سکتے ہیں۔
اب چند ایک مثالیں کتاب کے حصۂ دوم سے پیش کی جاتی ہیں۔
۱۔ حافظ ابن قیمؒ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے قبولِ اسلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ و کان فی کفالۃ رسول اللّٰہ ﷺ اخذہ من عمہ ابی طالب اعانۃً لہ فی سنۃ محلٍ‘‘
صحیح ترجمہ یہ ہے: وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سرپرستی میں تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے لے رکھا تھا، تاکہ قحط کے سال میں ان کی امداد ہو جائے۔
جعفری صاحب اس عبارت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کفالت میں تھے، انھیں آپ نے اپنے چچا سے تربیت کرنے کے لیے لے لیا تھا‘‘۔ (ج: ۲، ص: ۹۶)
۲۔ مصنف فرماتے ہیں:
’’ فصار ختان اسحاق سنۃ فی ولدہ ، و ختان اسمٰعیل سنۃ فی ولدہ ‘‘ ۔
صحیح ترجمہ: تو حضرت اسحاق علیہ السلام کا ختنہ، ان کی اولاد میں دستور بن گیا اور حضرت اسماعیل کا ختنہ ان کی اولاد میں رائج ہو گیا۔
جعفری صاحب کا ترجمہ: اسحاق علیہ السلام کا ختنہ بچپن میں ہوا اور حضرت اسماعیل کا ختنہ بھی بچپن میں ہوا‘‘۔ (ج:۲، ص: ۱۷)
مزے کی بات تو یہ ہے کہ جعفری صاحب اوپر لکھ چکے ہیں کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کا ختنہ ساتویں دن اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ختنہ تیرھویں سال میں ہوا۔ نہ اس لکھے ہوئے کا لحاظ کیا اور نہ عربی زبان کو سمجھ سکے۔
۳۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کے والد اور چچا نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جو گزارش کی تھی، اس میں ایک جملہ ہے: ’’ و تفکون العانی ‘‘۔ یعنی تم لوگ قیدی کو چھڑوا لیتے ہو، مگر جعفری صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے: ’’آپ مسکین کی مدد کرتے ہیں‘‘۔
اس واقعہ میں آگے لکھا ہے کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کا ایثار دیکھا تو ’’اخرجہ الی الحجر‘‘یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اسے حطیم کی طرف لے کر گئے اور فرمایا: ’’میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ زید میرا بیٹا ہے‘‘۔ (ج:۲، ص: ۹۷)
جعفری صاحب ’’ اخرجہ الی الحجر‘‘ کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’انھیں دامن میں لے لیا‘‘۔
۴۔ ہجرت حبشہ کے بیان میں حضرت مصنف لکھتے ہیں: ’’ و خرجو متسللین سرا ‘‘۔ یعنی مہاجرین چھپ چھپ کر نکلے۔ جعفری صاحب متسللین کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’مسلح حالت میں‘‘، جو بالکل غلط ہے۔ ’’ یتسللون‘‘ کا لفظ قرآن مجید (سورۂ نور: ۶۳) میں آیا ہے، کوئی سا ترجمہ اٹھا کر دیکھ لیجیے اور پھر جعفری صاحب کی عربی دانی کی داد دیجیے۔
۵۔ زاد المعاد میں لکھا ہے کہ جب صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم حبشہ گئے اور پیچھے سے قریش کی ایلچی اپنی مہم پر پہنچے تو نجاشی (شاہِ حبشہ) نے حضرت جعفر رضی اﷲ عنہ کی تقریر سن کر ان کے ایلچیوں سے کہا:
’’ لو اعطیتمونی دبرا من ذہب …… یقول جبلا من ذہب …… ما اسلمتھم الیکما‘‘۔
یعنی اگر تم مجھے سونے کا ایک پہاڑ بھی لا کر دے دو، میں انھیں تمھارے حوالے نہیں کروں گا۔ دبرا کی تشریح علامہ ابن قیمؒ نے خود ہی کر دی ہے جبلا یعنی پہاڑ، مگر جعفری صاحب نے دبرا (بالباء الموحدۃ) کی بجائے دیرا (بالیاء المثناۃ) پڑھا اور مصنف کی وضاحت کو نظر انداز کرتے ہوئے ترجمہ یوں کیا: ’’اگر تم مجھے سونے کا گرجا بلکہ پہاڑ بھی دے دو……‘‘۔ (ج: ۲، ص: ۱۰۱)
۶۔ ہجرت مدینہ کے ضمن میں مصنف تحریر فرماتے ہیں کہ جب قریش، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے تو ’’أخذوا معہم القافۃ ‘‘ انھوں نے قیافہ شناسوں (سراغ رسانوں) کو ساتھ لے لیا تھا، مگر جعفری صاحب اپنی قابلیت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انھیں فاقہ تک بھی سہنا پڑا‘‘۔ (ج: ۲، ص: ۱۱۷)
۷۔ تحویلِ قبلہ کا ذکر کرتے ہوئے مصنف فرماتے ہیں کہ مدینہ میں پہلے بیت المقدس کو قبلہ بنانے اور پھر بیت اﷲ کی طرف پھیر دینے میں ’’ حِکَمٌ عظیمۃ ‘‘بڑی حکمتیں ہیں، جعفری صاحب فرماتے ہیں: ایک عظیم حکم تھا‘‘۔ (ج: ۲، ص: ۱۲۶)
۸۔ یہود بنی قینقاع، جن کو ان کی عہد شکنی اور بدباطنی کی سزا کے طور پر مدینہ بدر کیا گیاتھا، ان کے بارے میں زاد المعاد میں لکھا ہے: ’’ و کانوا صاغۃ و تجارا‘‘۔ یعنی وہ لوگ زرگر اور تجارت پیشہ تھے، یہ صاغۃ کا لفظ صائغ کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں سنار، مگر جعفری صاحب لکھتے ہیں: ’’یہ لوگ صنعت کار اور تجار تھے‘‘۔ (ج: ۲، ص: ۱۵۵)
۹۔ فضیلت جہاد کے سلسلہ میں مصنف نے ایک حدیث شریف نقل کی ہے: ’’ غدوۃ فی سبیل اللّٰہ او روحۃ خیر من الدنیا و ما فیہا ‘‘۔ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’اﷲ کے راستے میں صبح کو نکلنا یا شام کو نکلنا، دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے‘‘۔ مگر جعفری صاحب خط کشیدہ الفاظ کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’اﷲ کے راستہ میں جانا اور آنا‘‘۔ (ج: ۲، ص: ۱۴۳)
یہ حدیث، تبلیغی جماعت والے بھی اکثر اپنے بیانات میں سنایا کرتے ہیں اور کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں ہے، مگر سمجھ میں نہیں آتا کیا وجہ ہے کہ متجددین حضرات کے لیے تختۂ مشق بن گئی ۔
اب سے چودہ پندرہ سال پیشتر ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد کی طرف سے ایک کتاب ’’ الصلوات الفاخرۃ بالاحادیث المتواترۃ ‘‘ مع اردو ترجمہ شائع ہوئی تھی، اصل کتاب علامہ حامد دمشقی ؒ صاحب فتاویٰ حمادیہ کی ہے اور ترجمہ ڈاکٹر صغیر حسن معصومی، پروفیسر اسلامیہ یونیورسٹی اسلام آباد، کی طرف سے ہے۔ معصومی صاحب بھی، جعفری صاحب کے ’’جڑواں بھائی‘‘ معلوم ہوتے ہیں۔ ترجمہ میں مضحکہ خیز غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ میں نے ۱۹۸۲ء میں ایک خط کے ذریعے انھیں توجہ دلائی تھی، جس کی رسید بھی ان کی طرف سے آ گئی تھی، مگر پھر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ انھوں نے تلافی کی کیا صورت نکالی۔
مندرجہ بالا حدیث نمبر اس کتاب میں نمبر ۷۱ پر درج ہے، اوّل تو اس کے لفظوں میں مختصر سی ترمیم کر دی گئی ہے، لکھا ہے: ’’ غزوۃ فی سبیل اللّٰہ…… الخ ‘‘۔ اور پھر ترجمہ میں کمال کر دیا ہے، فرماتے ہیں: ’’اﷲ کے راستے میں جنگ کرنا یا آرام کرنا، دنیا اوردنیا کی ساری اشیاء سے بہتر ہے‘‘۔ تبھی تو کہنے والے نے کہا تھا: ’’گر ہمیں مکتب و ہمیں مُلّا، کار طفلاں تمام خواہد شد۔
۱۰۔ ایلچیوں اور سفیروں کے بارے میں علّامہ ابن قیمؒ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ایلچیوں کو اپنے پاس نہیں روک لیتے تھے، خواہ وہ اسلام بھی قبول کر لیتے۔ چنانچہ ابو رافع نامی ایک شخص قریش کے سفیر بن کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس گئے، وہاں جا کر انھوں نے اسلام بھی قبول کر لیا اور اب کہنے لگے حضور! (ﷺ) میں ان کے پاس واپس نہیں جاتا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لا اخیس بالعہد و لا احبس البرد ‘‘۔ نہ میں عہد شکنی کروں گا اور نہ سفیروں کو روکوں گا۔ یہ برد کا لفظ برید کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ایلچی، قاصد۔ مگر جعفری صاحب کمال علم کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ ترجمہ کرتے ہیں: ’’اور نہ چادر روکوں گا‘‘۔ (ج۲: ص: ۱۶۳) کیا مطلب؟
۱۱۔ غزوۂ بدر کے بیا ن میں ترجمہ جگہ جگہ سے غلط ہے، ایک جگہ لکھا ہے کہ ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کی تلاش میں نکلے کے لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زیادہ نفری نہ جمع کی، آپ صرف تین سو دس اوپر چند آدمی لے کر جلدی سے نکل پڑے تھے۔ ’’ لم یحتفل لہا احتفالاً بلیغاً، لانہ خرج مسرعاً فی ثلاثمائۃ و بضعۃ عشر رجلاً ‘‘۔
لیکن جعفری صاحب لکھتے ہیں‘ ’’لیکن یہ قافلہ پکڑا نہ جا سکا کیونکہ جلدی سے نکل گیا‘‘۔ ( ج: ۲، ص: ۱۷۶)
سبحان مولا! تیری قدرت! حیرت ہوتی ہے کہ قلم کیسے جاہلوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔
۱۲۔ غزوۂ بدر کے بیان علاّمہ ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ اس رات بارش ہوئی، ’’ فکان علی المشرکین وابلاً شدیداً و کان علی المسلمین طلاً ‘‘۔
یعنی وہ بارش کافروں کے حق میں سخت موسلا دھار بارش رہی اور مسلمانوں کے حق میں شبنم کی طرح۔ لیکن جعفری صاحب کہتے ہیں: ’’مشرکین کے لیے بارش مصیبت بن گئی اور مسلمان چونکہ ریت کے ٹیلے پر تھے، انھیں پاک بنا دیا‘‘۔
(ج: ۲، ص: ۱۷۹)
غالباً جعفری صاحب وابل کو وبال خیال کیا ہے۔ ان کے ذہن میں اگر آیت کریمہ : ’’ اِنْ لَّمْ یُصِبْہا وَابِلٌ فَطَلٌّ ‘‘ آ جاتی تو وہ غلط ترجمہ نہ کرتے۔
۱۳۔ غزوۂ خیبر کے تذکرہ میں مصنف تحریر فرماتے ہیں کہ اہلِ خیبر اپنے پھاوڑے وغیرہ لے کر نکلے، جب انھوں نے مسلمانوں کے لشکر کو دیکھا تو کہہ اٹھے: ’’ محمد واللّٰہ ، محمد والخمیس ‘‘۔
یعنی خدا کی قسم، محمد (ﷺ) پورا لشکر لے کر آ گئے ہیں، ’’الخمیس‘‘ عربی زبان میں لشکر کو کہتے ہیں، جس کے پانچ حصے: ہراول، میمنہ، میسرہ، قلب اور ساقہ پورے ہوں، مگر جعفری صاحب کو اتنی عربی کہاں سے آتی؟ وہ ترجمہ اس طرح کرتے ہیں: ’’محمد اﷲ کی قسم، محمد اور خمس (یعنی مالِ غنیمت کا حصہ)‘‘۔
بندۂ خدا نے یہ بھی نہ سوچا کہ ابھی جنگ تو ہوئی نہیں، مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ کہاں سے آ گیا تھا؟
۱۴۔ اسی غزوۂ خیبر کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ جب آنخضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو پرچم دے کر روانہ فرمایا تو ارشاد فرمایا: ’’ انفذ علیٰ رِسْلِکَ حتی تنزل بساحتہم ‘‘۔
یعنی دھیرے دھیرے چلتے رہو یہاں تک کہ تم ان کے صحن میں اتر جاؤ۔ مگر جعفری صاحب لکھتے ہیں: ’’ان کے علاقہ میں اترنے تک اپنے قاصدوں تک رہنے دو‘‘۔ (ج: ۲، ص: ۲۳۳)
انھوں نے اپنے زورِ علم سے ’’ علیٰ رِسْلِکَ‘‘ کو ’’ علیٰ رُسُلِکَ‘‘ بنا دیا۔ (جاری ہے)