مولانامحمد احمدحافظ
ریحانۃ النبی المصطفیٰ سیدنا حسین ابن علی رضی اﷲ عنہما قریش کا خلاصہ اور بنی ہاشم کا عطر تھے۔ آپ کا شجرہ طیبہ یہ ہے کہ آپ کے والد گرامی سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ اور والدہ ماجدہ سیدۃ نساء اہل الجنۃ سیدہ فاطمہ بنتِ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ نام حسین، کنیت ابو عبداﷲ اور لقب ’’سید شباب اہل الجنۃ‘‘ اور ’’ریحانۃ النبی‘‘ ہیں۔
ولادت: ابھی آپ شکم مادر میں ہی تھے کہ حضرت حارث رضی اﷲ عنہ کی صاحبزادی ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ کسی نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر ان کی گود میں رکھ دیا ہے۔ انہوں نے اسے ناگوار جانا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اﷲ!میں نے ایک ناگوار اور بھیانک خواب دیکھا ہے!
فرمایا: کیا؟
عرض کیا کہ ناقابل بیان ہے!
فرمایا بیان کرو آخر کیا ہے؟
انہوں نے پورا خواب گوش گذار کیا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت مبارک خواب ہے، فاطمہ کے لڑکا پیدا ہوگا اور تم اسے گود میں لوگی۔
کچھ دنوں بعد خواب کو تعبیر ملی، اور گلستانِ نبوی میں ایک خوش رنگ گلِ لالہ کھلا جس کی مہک آج تک جرأت و بسالت، عزم و استقلال، ایمان و عمل اور حریت و حرارت کی وادیوں کو مشک بُو کیے ہوئے ہے۔
شعبان 4 ہجری کو آپ نے نبوت کے پر نور گھرانے میں آنکھ کھولی اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا دولت کدہ’حسین‘ کے تولد سے رشک جِناں بنا۔
ولادت باسعادت کی خبر سن کر نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ بچے کو دکھاؤ، کیا نام رکھا ہے؟…… اور پھر اس ننھے بچے کو منگاکر اس کے کانوں میں اذان دی، گویا کہ زبان نبوت نے آپ کے کانوں میں توحید الٰہی کا صور پھونکا، اس کے بعد اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو عقیقہ کرنے، اور بچے کے سر کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ روایات کے مطابق والدین نے آپ کا نام ’’حَرْب‘‘ رکھا تھا لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بدل کر ’’حُسین‘‘ (خوب صورت، اعلیٰ اوصاف والا، نیکیوں اور بھلائیوں والا) رکھا۔
عہدِ طفلی: آپ اور آپ کے بڑے بھائی سیدنا حسن بن علی رضی اﷲ عنہما نے اپنے بچپن میں اپنے نانا صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیار کی بہاروں کو خوب جی بھر کر لُوٹا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حَسن و حُسین سے غیر معمولی محبت تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کبھی آغوشِ شفقت میں لیے باہر نکلتے اور کبھی دونوں منے دوش مبارک پر سوار ہوتے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی کسی ضرورت کی بنا پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم گھر کے اندر سے اس حال میں باہر تشریف لائے کہ کسی چیز کو اپنے ساتھ لپیٹے ہوئے تھے اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا چیز ہے۔ پھر جب میں اپنی ضرورت بیان کر چکا تو پوچھا کہ یہ کیا چیز آپ نے لپیٹ رکھی ہے؟
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حسن و حسین ہیں۔ جو آپ کی دونوں کو کو کھوں پر تھے۔ (یعنی آپ نے ان دونوں کو گود میں لے رکھا تھا) اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں (حکما) میرے بیٹے ہیں اور (حقیقتاً) میری بیٹی کے بیٹے ہیں پھرارشاد فرمایا:
اے اﷲ! میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں، تو بھی ان کو محبوب رکھ اور ہر اس شخص کو محبوب رکھ جو ان دونوں کو محبوب رکھے۔ (ترمذی)
دونوں ننھے بھائی (حسن و حسین) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کس قدر محبوب تھے اس کا ندازہ اس روایت سے بھی ہوتا ہے کہ:
حضرت انس بن مالک کے مطابق آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں سے کون شخص آپ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہے؟
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن اور حسین!‘‘
حضرت انس ہی کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی وقت حسن اور حسین کو گھر میں نہ دیکھتے تو حضرت فاطمہ سے فرماتے میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ!
پھر (جب حسن و حسین آجاتے تو) آپ ان دونوں کے جسموں کو سونگھتے اور ان کو اپنے گلے سے لگاتے۔ (ترمذی)
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد میں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن و حسین آگئے۔ اس وقت انہوں نے سرخ کرتے پہن رکھے تھے، بچپنے اور ناطاقتی کی وجہ سے گرتے پڑتے آرہے تھے۔ رسول اﷲ کی نگاہِ مبارک پڑی تو منبر سے اُتر آئے اور ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھالیا، پھر ان کو اپنی گود میں بٹھاکر فرمایا:
اﷲ تعالیٰ نے سچ کہا ہے:
انما اموالکم و اولاد کم فتنہ
’’تمہارے مال اور تمہارے اولادیں آزمائش ہیں۔‘‘
پھر فرمایا:…… ’’میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا کہ ان سے چلا نہیں جارہا اور گرتے پڑتے چلے آرہے ہیں تو مجھ سے صبر نہ ہوسکا اور میں نے اپنی بات بیچ میں ادھوری چھوڑی اور ان کو گود میں اٹھالیا۔‘‘(ابو داؤد، والنسائی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ قینقاع کے بازار سے لوٹا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی فاطمہ (رضی اﷲ عنہا) کے گھر تشریف لے گئے اور پوچھا بچے کہاں ہیں؟
تھوڑی دیر میں دونوں دوڑتے ہوئے آئے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔
آپ نے فرمایا خدایا میں ان کو محبوب رکھتا ہوں اس لیے تو بھی انہیں محبوب رکھ اور ان کو محبوب رکھنے والے کو بھی محبوب رکھ۔ (مسلم)
حسن و حسین نماز کی حالت میں بھی آپ کے ساتھ طفلا نہ شوخیاں کرتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم رکوع میں جاتے تو دونوں بھائی ٹانگوں میں گھس جاتے۔ سجدے میں جاتے تو دوش مبارک پر سوار ہوجاتے۔ اسی بنا پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سجدے کو بھی طویل فرمادیتے۔
عہدِ خلافت راشدہ: سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت حسین کی عمر زیادہ نہ تھی اس لیے ان کے عہد کا کوئی خاص واقعہ قابل ذکر نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے ابتدائی زمانہ خلافت میں ابھی صغیرُ السِن تھے البتہ آخری دور میں آپ سنِ شعور کو پہنچ چکے تھے۔ سیدنا عمررضی اﷲ عنہ آپ پر بڑی شفقت فرماتے تھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نسبی قرابت کا خاص لحاظ فرماتے۔
چناں چہ جب بدری صحابہ کے لڑکوں کا دو دو ہزار وظیفہ بیت المال سے مقرر فرمایا تو حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا وظیفہ قرابتِ رسول کی وجہ سے پانچ ہزار ماہ وار مقرر فرمایا۔ حضرت عمر کسی چیز میں حضرات حسنین کو نظر انداز نہ ہونے دیتے۔ ایک مرتبہ یمن سے بہت سے قیمتی حُلّے آئے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے تمام صحابہ میں تقسیم کیے۔ آپ قبر اور منبر نبوی کے درمیان تشریف فرما تھے۔ لوگ ان حُلّوں کو پہن پہن کر آپ کے پاس آتے اور شکریہ کے طور پر سلام کرتے۔ اسی دوران حضرت حسن و حسین گھر سے نکلے، جو مسجد نبوی کے ساتھ ہی تھا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی نگاہ دونوں صاحبزادوں پر پڑی تو ان کے جسموں پر حلّے نظر نہ آئے۔ آپ کے دل پر چوٹ لگی اور لوگوں سے کہا کہ مجھے تم کو حُلّے پہناکر کوئی خوشی نہیں ہوئی اس لیے کہ ان دونوں لڑکوں کے جسم ان حلّوں سے خالی ہیں۔ چناں چہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے حاکم یمن کو لکھ بھیجا کہ دو حُلّے ویسے ہی بنواکر بھیجو۔ نئے حلّے منگواکر دونوں بھائیوں کو پہنائے اور فرمایا اب مجھے خوشی ہوئی ہے۔
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں حضرت حسین جوانِ رَعنا تھے۔ اسی زمانے میں آپ نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا،سن تیس ہجری میں طبرستان کی فتح میں شریک ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے خلاف بغاوت برپا ہوئی تو سیدنا حسین اپنے برادر ِبزرگ سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ کے ہمراہ دولت کدۂ خلافت کا پہرہ دیتے رہے۔سیدنا عثمان کے خلاف بغاوت کے یہ ایام نہایت سخت تھے۔ دونوں برادران نے نہایت پامردی اور جرأت و استقامت کے ساتھ پہرہ داری کا فریضہ انجام دیا۔
جنگ صفین اور جنگ جمل میں اپنے والد ماجد سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے ہمراہ تھے۔ جنگ جمل کے اختتام کے بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو بغرضِ حفاظت و دلداری کئی میل دور تک چھوڑنے گئے۔ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ جب سریر آرائے خلافت ہوئے تو سیدنا حسین ان کے دست راست تھے۔ سیدنا حسن کی طبیعت صلح جوئی کی طرف مائل تھی اور خصوصاً پچھلے ادوار میں مسلمانوں میں جو آپس میں خون ریزیاں ہوئیں ان کی وجہ سے کافی کبیدہ خاطر تھے۔ چناں چہ چاہتے تھے کہ کسی طور ان لڑائیوں کا باب بند ہو اور عالم اسلام امن و چین سے زندگی بسر کرے۔ اسی خیال کے پیش نظر حضرت حسن اور حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہما میں صلح کی بات چیت چلی۔ سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کو اس صلح میں تردد تھا، انہوں نے حضرت حسن کو روکنا چاہا مگر ان کی برادرِ بزرگ کے سامنے پیش نہ گئی چناں چہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے فیصلے پر سر تسلیم خم کیا۔ صلح نامہ جن شرائط پر ہوا تھا ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ سیدنا حسن کے لیے ’’اہواز‘‘ کا تمام خراج وقف ہوگا جبکہ سیدنا حسین کو سالانہ دو لاکھ کی رقم ملتی رہے گی۔ اس کے بعد دونوں بھائی گوشہ نشینی اختیار کرگئے۔ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں گزارتے۔ سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ تو سرحدوں پر برپا جہاد میں بھی برابر شریک ہوتے رہے۔ خراسان، افریقہ کی جنگی مہمات میں متواتر شریک رہے۔ قسطنطنیہ پر مشہور لشکر کشی جس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے اسی لشکر اسلام میں سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ بہ نفسِ نفیس شریک تھے۔
سخاوت اور دریا دلی:دونوں برادران گرامی خلیفۃ المسلمین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے ملاقات کے لیے وقتاً فوقتاً دمشق تشریف لے جاتے۔ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نہایت عزت و احترام سے پیش آتے انہیں ہدایا پیش کرتے۔ بلاشبہ حضرات حسن و حسین رضی اﷲ عنہما نے دربار خلافت سے بہت کچھ حاصل کیا، مگر تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ دونوں بھائیوں کے پاس لاکھوں درہم آتے اور فقراء غرباء اور یتامیٰ میں تقسیم ہوجاتے۔ ایک مرتبہ دونوں حضرات حضرت معاویہ کے پاس گئے۔ انہوں نے بہت بڑی رقم بطور ہدیہ پیش کی واپسی پر مدینہ پہنچنے سے پہلے یہ تمام رقم غربا میں تقسیم ہوچکی تھی۔ حضرت حسن نے دوبارہ اتنی ہی رقم منگوا بھیجی۔ حضرت معاویہ نے پھر سے اتنی ہی رقم دے دی اور کہا:
’’لا خیر فی الإسراف‘‘
’’اسراف میں خیر نہیں‘‘
حضرت حسن کو یہ جواب موصول ہوا تو انہوں نے جواباً کہلوا بھیجا:
لا إسراف فی الخیر
’’خیر میں کوئی اسراف نہیں‘‘
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ ایک مرتبہ نماز میں مشغول تھے کہ گلی میں ایک سائل کی صدا گونجی، جلدی جلدی نماز ختم کی۔ باہر نکلے تو فقیر کی خستہ حالی دیکھی، اپنے غلام کو آواز دی، وہ حاضر ہوا تو پوچھا کہ ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے؟ غلام نے جواب دیا کہ آپ نے دو سو درہم اہل بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے وہ ابھی باقی ہیں۔ فرمایا یہ ساری رقم لے آؤ، اہل بیت سے زیادہ ایک مستحق آگیا ہے، غلام نے وہ رقم لاکر دی تو وہ ساری کی ساری سائل کو دے دی اور اس سے کہا کہ اس وقت میرا ہاتھ خالی ہے اس سے زیادہ خدمت نہیں کرسکا۔
فضل و کمال: حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے وقت نہایت کمسن تھے اور آپ کو براہِ راست اپنے نانا جان سے استفادہ کا موقع نہیں ملا لیکن اس کی تلافی آپ کے والد ماجد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے وجود گرامی نے کردی تھی۔ کمسنی کے باوجود مورخین و محدثین کے مطابق آپ نے آٹھ احادیث براہ راست آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں، ان احادیث کے علاوہ آپ نے جن بزرگوں سے احادیث روایت کی ہیں ان کے نام یہ ہیں:…… حضرت علی، حضرت فاطمہ، ہندبن ابی ہالہ، عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہم، اور جن حضرات نے آپ سے روایات لی ہیں ان کے نام یہ ہیں: حضرت حسن، صاحبزادہ علی، زید، صاحبزادی سکینہ، فاطمہ، پوتے ابو جعفر الباقر وغیرھم۔
خطابت: خطابت میں آپ کو کمال حاصل تھا اور یہ چیز آپ کو اپنے والد گرامی سے وراثتاً ملی تھی۔ آپ کے بعض خطبات جو تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں نہایت پر اثر ہیں۔ اسی طرح آپ کے حکیمانہ اشعار بھی ملتے ہیں۔
عبادات میں انہماک:
اربابِ سیر لکھتے ہیں:……سیدنا حسین بڑے نمازی، روزہ دار، حج کرنے والے اور بہت صدقہ دینے والے تھے اور تمام اعمال حسنہ کو انجام دیتے تھے۔نماز کے ساتھ انہیں خصوصی شغف تھا۔ آپ کا قیام اور رکوع و سجود نہایت طویل ہوتے۔ کثرتِ عبادت کی وجہ سے آپ کو اپنے اہلِ خانہ سے ملنے کا بہت کم وقت ملتا۔ روزے کثرت سے رکھتے۔ اکثر حج آپ نے پاپیادہ کیے ہیں۔ جہاد میں شرکت کا حال تو گزرہی چکا ہے۔
ازواج و اولاد: آپ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں۔ آپ کی ازواج میں لیلیٰ، حباب، حرار، اور غزالہ تھیں۔ اولاد میں محمد، جعفر، عمر، فاطمہ، سکینہ، علی (زین العابدین) کے نام ملتے ہیں۔
شہادت: دس محرم اکسٹھ ہجری کو میدان کربلا میں آپ کی شہادت ہوئی۔ بلاشبہ یہ خاندانِ نبوت کے ایک آفتاب و ماہتاب کی شہادت تھی۔ جس نے تاریخ اسلام کے صفحات کو رنگین کررکھا ہے۔ آپ کی ذات گرامی سے آج تک حریت و حرارت، اور عزم و استقلال کے سوتے پھوٹ رہے ہیں اور مجاہدین اسلام آپ کی شخصیت گرامی سے اپنے لیے راہِ عمل چنتے ہیں۔
رضی اﷲ عنہ و ارضاہ