سید عزیز الرحمن
علم و فضل کی دنیا کا ایک اور لائٹ ٹاور ہمیشہ کے لیے بجھ گیا، تحقیق کی دنیا مزید سونی ہوگئی، کردار کی جیتی جاگتی تعبیر استعاروں اور تلمیحات کے سمندر میں کھوگئی۔ سیرت کا خادم، قلم کا مجاہد اور تہذیب کا ایک اور محافظ رخصت ہوگیا۔ کاغذات کے مطابق ۲۶ دسمبر ۱۹۴۴ء کو اترپردیش میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ء کو علی گڑھ میں رخصت ہوگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
روح کی گہرائیوں میں اترا ہوا تعلق جب کسی ڈور کے ٹوٹ جانے سے اچانک منقطع ہوجائے تو چمکتے سورج کے نیچے کھڑے شخص کو بھی چہار جانب اندھیرے کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وہی نازک لمحہ ہوتا ہے، جب بولتی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں اور لکھتے ہوئے ہاتھ شل محسوس ہونے لگتے ہیں۔ اور جب لکھنے والوں کو کوئی جملہ ہی سجھائی نہ دے تو روح کے گھاؤکا اندازہ ہوجاتا ہے، ایسے میں اگر زبردستی قلم تھام بھی لیا جائے تو قلم سے لفظوں کی جگہ یادوں کی نسبت سے سجے سجائے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے آج آٹھویں روز بھی ایسی ہی کیفیت ہے۔ ذہن ایسا کہ خالی سلیٹ کی مانند اور قلم ایسا خشک کہ صحرا کی تشنہ کامی کو مات کردے۔
تصور میں اگر کسی شخصیت کا علمی رعب اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ اکھٹی آجائے تو ایک ہی صورت بنتی ہے۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی، ورنہ کبھی علم کا رعب انسان کے اعصاب پر طاری ہوجاتا ہے تو کہیں قہقہوں کا شور شخصیت کا وزن کم کردیتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ندوۃ العلماء سے ۱۹۵۹ء میں عالم اور ۱۹۶۰ء میں لکھنو یونیورسٹی سے فاضل ادب کی سند حاصل کی۔ اس سے قبل جامعہ ملیہ دہلی سے بھی بہ طور طالب علم وابستہ رہے۔علی گڑھ یونیورسٹی سے۱۹۶۹ء میں ایم فل مکمل کیا اور ۱۹۷۰ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے استاد کی حیثیت سے منسلک ہوگئے۔ ادارے کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔
۱۹۷۵ء میں آپ کی پی ایچ ڈی کی تکمیل ہوئی ۱۹۸۳ء میں شعبہ علوم اسلامیہ میں ریڈر ایسوسی ایٹ اور ۱۹۹۱ء میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ مسلم علی گڑھ یونیورسٹی میں ڈائریکٹر شعبہ علوم اسلامیہ کی ذمے داریاں انجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو یونیورسٹی کے ذیلی ادارے ’’شاہ ولی اﷲ ریسرچ سیل‘‘ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ آپ کو شاہ ولی اﷲ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اورمولانا اسحاق سندیلوی، مولانا عبدالحفیظ بلیادی، صاحب مصباح اللغات اور مولانا رابع حسنی ندوی، جیسے جلیل القدر اساتذہ سے کسبِ فیض کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تاریخ سے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا، مگر پھر اپنے والد محترم کی تشویق سے سیرت نگاری کی جانب متوجہ ہوئے اور پھر وہی آپ کی اصل پہچان بنی۔ آپ کی عربی، اردو اور انگریزی زبان میں متعدد کتب شائع ہوئیں اور مختلف موضوعات پر جن میں سیرت طیبہ سب سے نمایاں ہے، آپ کے پانچ سو کے قریب مقالات مختلف جرائد میں شائع ہوئے۔ آپ کے مضامین پاک و ہند کے سب ہی اہم مجلات کی زینت بنتے رہے، مگر خاص طور پر ہندوستان میں معارف اور تحقیقات اسلامی، اور پاکستان میں مختلف جامعات کے مجلات کے ساتھ ساتھ شش ماہی السیرہ عالمی میں تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے موضوع پر آپ کی تیس سے زائد مستقل تصانیف میں مصادر سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم، تاریخ تہذیب اسلامی، عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں تنظیم ریاست و حکومت، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور خواتین، ایک سماجی مطالعہ، عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں تمدّن، مکی اسوۂ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم، معاش نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم، قریش وثقیف تعلقات شامل ہیں۔ آپ کے خطبات نے بھی شہرت حاصل کی۔ اس سلسلے کی دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف ایک اور بزرگ ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی ؒ کے ذریعے ہوا۔ انہوں نے فرمائش کرکے ڈاکٹر صاحب کے کچھ مطبوعہ مقالات منگوائے تھے، تاکہ ان کی اشاعت کی کوئی صورت کی جاسکے۔ یہ مقالات عکسی نقول کی صورت میں تین چار جلدوں میں تھے اور موضوعاتی اعتبار سے مرتب شدہ تھے۔ کشفی صاحب نے کراچی کے اس وقت کے ایک بڑے ناشر کو اشاعت کے حوالے کردیے، مگر پھر ناشر صاحب کی ترجیحات میں خاصا انقلاب آیا، یوں وہ مرتب شدہ مسوات بھی ہاتھ سے جاتے رہے، مگر اس دوران راقم کو انہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا، اور انہیں پڑھنے کا موقع ملا، یہ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب سے پہلا ذہنی رابطہ تھا۔ پھر اسی عرصے میں ان کی کتاب غزوات نبوی کی اقتصادی جہات انڈیا سے شائع ہوئی اور ہم تک پہنچ گئی۔ اس نے تو صاحب تحریر کے علم کا اسیر کردیا، وہ دن ہے اور آج کا دن ڈاکٹر صاحب کے سحر سے راقم باہر نہیں آسکا۔ پندرہ اٹھارہ برس قبل ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب مکی اسوۂ نبوی شائع ہوئی۔ وہ خاصے کی چیز تھی، ڈاکٹر صاحب سے باوجود کہ کوئی رسم و راہ نہیں تھی مگر صرف خط و کتابت کے ذریعے آپ نے نہ صرف اس کا ایک نسخہ دستخط کے ساتھ عطا فرمایا بل کہ اس کی پاکستان میں اشاعت کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ اور ہم نے ’’القلم‘‘ کے تحت اس کی اشاعت کی۔ بعد میں ایک موقر ادارے سے اس کا ایک غیر اجازتی ایڈیشن بھی شائع ہوا۔ اور مسلسل شائع ہورہا ہے۔
مگر ڈاکٹر صاحب کی زیارت، پھر ملاقات، پھر گپ شپ اور پھر قربت۲۰۱۱ء کے بعد ہی ہوسکی۔۲۰۱۱ء میں ہمارے ایک اور مخدوم مرحوم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی نے اپنے ادارے کے شعبے سیرت سینٹر کو فعال کرنے کا عزم کیا، اس سلسلے میں کئی نشستوں کے بعد ایک بین الاقوامی کانفرنس کا خاکہ تیار ہوا، اوربالآخر کانفرنس ۲۰۱۱ میں منعقد ہوئی، راقم ۲۰۰۹ء میں ریجنل دعوۃ سینٹر کراچی میں ملازمت کے ذریعے باضابطہ طور پر بھی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے منسلک ہوچکا تھا، کانفرنس سے کوئی دو ہفتے قبل ڈاکٹر انصاری صاحب کا فون پر حکم ہوا کہ میں کانفرنس سے چند از قبل اسلام آباد آجاوں۔ اب دیکھیے بڑوں کے کام لینے کا طریقہ، یا ترتیب کا سلیقہ، میری وہاں موجودگی سے کانفرنس کو یا اس کے منتظمین کو تو کیا فائدہ ہوتا، جو سیکھا میں نے ہی سیکھا، اگرچہ کیا سیکھا؟ کچھ بھی نہیں، کاش اس مہلت کی قدر کرلیتے، کچھ سیکھ ہی لیتے، خیر، ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ ذرا پہلے تشریف لے آئیں، تاکہ مشاورت ہوسکے، میں نے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی اور اپنے ایک اور کرم فرما ڈاکٹر صاحب زادہ ساجدالرحمن سے عرض کیا کہ یہ حکم ہوا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ حکم ہوا ہے تو تعمیل کیجیے، میں نے انصاری صاحب کے دفتر سے رابطہ کرکے اپنی سیٹ کا انتظام کیا اور اسلام اآباد آگیا، کانفرنس سے ایک دو روز قبل ہی بیرونی دنیا سے وفود آنا شروع ہوگئے، کانفرنس کا عنوان تھا’’سیرت نگاری کے جدید رجحانات‘‘۔ سب سے بڑا وفد انڈیا کا تھا، جو کوئی نو افراد پرمشتمل تھا، جو نام یاد آرہے ہیں، ان میں ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی، ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی، ڈاکٹر عبدالرحیم قدوائی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، وارث مظہری، غطریف شہباز ندوی، ڈاکٹر عبداﷲ فہد فلاحی اور ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی شامل ہیں مگر ان سب کے سرخیل، یا وفد کیروح رواں ہمارے محترم ڈاکٹر صاحب ہی تھے۔ سب ہی سے ان دیکھی واقفیت یا قدرے تعارف تھا، مگر سچی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اشتیاق ڈاکٹر صاحب سے ملنے کا ہی تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس روز رات کو کسی وقت یہ لوگ پہنچے اگلے روز صبح سے ہم نے انتظار شروع کردیا، ان تمام مہمانوں کو فیصل مسجد کے پہلو میں آئی آر ڈی گیسٹ ہاوس میں ٹھہرایا گیا تھا، جب کہ میں دوسرے پاکستانی مہمانوں کے ساتھ باہر کسی جگہ مقیم تھا۔ ہم انصاری صاحب کے دفتر میں تھے کہ مہمانوں کی آمد کی اطلاع ہوئی، آئی آر ڈی کے اس وقت کے نوجوان اور متحرک کارپردازوں میں چند نام یاد آرہے ہیں، برادرم علی طارق، ڈاکٹر محمد اکرم اور مفتی محمد عثمان، متین احمد شاہ، چند اور بھی تھے، مگر اب یاد نہیں، ان ہی میں سے شاید کسی نے مہمانوں کی آمد کی ڈاکٹر انصاری کو اطلاع کی۔ اور اس اثنا میں یہ تمام حضرات، زیادہ تر شیروانی میں ملبوس دفتر میں داخل ہوگئے، اور چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد جو قہقہوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ہفتے بھر جاری رہا، ہم بھی ملے، نام بتایا تو خاص طور پر ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی اور ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی بہت تپاک سے ملے، جس کا سبب یہ تھا کہ دونوں ہی خاص طور پر ہمارے مجلے شش ماہی السیرہ عالمی سے بھرپور تعارف رکھتے تھے، رضی الاسلام ندوی تحقیقات اسلامی کے مدیر تھے، وہ مجلہ السیرہ کے تبادلے میں ہمیں پابندی سے موصول ہوتا تھا، چائے کا دور چلا، اب یہ یاد نہیں کیا باتیں ہوئیں، یا تاثر البتہ نہایت پختہ ہے کہ سب سے زیادہ بشاشیت، تبسم، اپنائیت، اور لطائف ڈاکٹر صاحب سے ہی صادر ہورہے تھے، لطیفوں کے بارے میں ان کا مسلک بھی یہی تھا کہ کوئی لطیفہ برا نہیں ہوتا، یہی سبب ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے مجلسی لطائف بھی کسی طور پر نہ کم تھے نہ کم زور۔ چند لمحے یا چند ساعتیں ہمیں ان کے ساتھ منسلک ہونے میں ضرور لگیں، مگر پھر جو بے تکلفی رشتہ قائم ہوا تو اجنبیت تو کیا تکلف کی ہلکا شائبہ بھی درمیان میں نہ آسکا۔
ہم نے اپنے ادارے دارالعلم والتحقیق میں ڈاکٹر صاحب کے متعدد محاضرات منعقد کرائے۔ ان میں خاص طور پر مولانا سید زوار حسین یادگاری خطبات بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے کے انہوں نے سات خطبات ارشاد فرمائے، جن میں ایک خطبہ مسلسل تین روز جاری رہا۔ یہ تمام خطبات جلد خطبات کراچی کی سیریز کے تحت شائع ہوں گے، ان شاء اﷲ۔ ریجنل دعوۃ سینٹر کراچی میں بھی آپ کے متعدد لیکچر ہوئے، اس طرح ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگوؤں کے ذریعے یہاں پاکستان میں بھی اپنے معتقدین کا حلقہ پیدا کیا، جو آج بھی ان کی خدمات سے استفادہ کررہا ہے۔
آپ کی ذہنی بیداری اور برجستگی صرف علمی معاملات تک محدود نہیں تھی، بلکہ مزاح، اور لطائف کے مواقع پر بھی آپ اتنی ہی برجستگی کا مظاہرہ کرتے۔ اگر آپ کے بیان کردہ لطائف ہی نوٹ کرلیے جاتے تو ایک دفتر تیار ہوسکتا تھا۔ ایک بار فرمانے لگے کہ ہمارے استاد مولانا عبدالحفیظ بلیادی صاحب مصباح اللغات نے فرمایا کہ مولوی یاسین جب کسی دعوت پر جاتا ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے، میں نے پوچھا کیوں حضرت، کیا کھایا نہیں جاتا، بولے نہیں، کھاتا تو خوب ہوں، بل کہ معمول سے زیادہ کھالیتا ہوں افسوس تو اس پر ہوتا ہے، جو بچ جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی اہم کتب :
آپ نہایت سادہ مگر نہایت منظم زندگی بسر کرنے کے عادی، حد درجے ملنسار، خورنواز، علم دوست، شفیق اور نہایت سیال قلم کے مالک تھے۔ آپ کے قلم سے نکلے ہزاروں صفحات تا دیر آپ کی یاد کی لو کو تیز اور طلبائے علم کو مستفید کرتے رہیں گے۔ آپ کی چند اہم اور سیرت طیبہ کے ہر طالب علم کے لیے واجبِ مطالعہ کتب کی ایک مختصر فہرست درج ذیل ہے۔
(۱) غزوات نبوی کی اقتصادی جہات (۲) عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت
(۳) مصادر سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم(دو جلدیں)(۴) تاریخ تہذیب اسلامی (چار جلدیں)
(۵) عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں تنظیم ریاست و حکومت
(۶) نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور خواتین، ایک سماجی مطالعہ
(۷) عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں تمدّن (۸) مکی اسوۂ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم
(۹) معاش نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم (۱۰) قریش وثقیف تعلقات
(۱۱) خطبات سیرت (۱۲) رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رضاعی مائیں
(۱۳) مکی عہد نبوی میں اسلامی احکام کا ارتقاء (۱۴) سنتوں کا تنوع
(۱۵) وحی حدیث
آخر میں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، ان کے زندگی بھر کے ممدوح و محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت خاصہ نصیب فرمائے اور ہمیں آپ کے نشانات قدم پر چلنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔