محمود احمد ایم اے
(قسط: ۱)
یہ روداد مجلس احرار اسلام پاکستان کے موجودہ مرکزی نائب امیر پروفیسر خالد شبیر احمد صاحب کی تحریر کردہ ہے جسے انہوں نے اس وقت ’’محمود احمد ایم اے‘‘ کے قلمی نام سے تحریر کیا۔ ‘‘ (ادارہ)
آغازکیمپ : ۱۸؍ محرم الحرام ۱۳۸۸ھ مطابق ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۸ء جمعرات
اختتام کیمپ: ۲۹؍ صفر المظفر ۱۳۸۸ھ مطابق ۲۸؍ مئی ۱۹۶۸ء منگل
جسم و روح کے خالق اور الہام و توفیقِ خیر کے مالک کا فضل و کرم شاملِ حال نہ ہو تو عمل اور نیت تو درکنار، اس کا خیال و تصور بھی دل و َکے قریب نہیں پھٹک سکتا۔ پروردگارِ عالم کا احسانِ عظیم ہے کہ انھوں نے مجلس احرارِ اسلام کو اس کے روز بنیاد سے لے کر ہمیشہ ہی انفرادی تکالیف اور قومی مصائب میں احساسِ فرض اور ادائے فرض کی نعمت سے نوازے رکھا۔ محض احساسِ رنج و غم اور زبانی ہمدردی پر قناعت و کفایت اس کے اصول اور مزاج و معمول سے بالکل بے جوڑ بات سمجھی گئی اور اس حقیقت کی تصدیق کے لیے جماعت کی چالیس سالہ تاریخ اور اس کے زندہ و وفات یافتہ بزرگوں کا اُسوہ سب سے بڑے اور سچے گواہ ہیں۔ کوئی زمانہ اور وقت کا کوئی حصہ آفات و حوادث سے خالی نہیں۔ یہ ایک قدرتی معمول ہے، قریباً تہائی صدی سے پہلے ہمارے ملک برصغیر ہند و پاکستان پر ’’زلزلۂ کوئٹہ‘‘ ۱۹۳۵ء کا حادثہ ایک قیامتِ صغریٰ بن کر نازل ہوا۔ جس نے قریباً پچاس ہزار انسانوں کی اکثریت کو لقمۂ اجل بنا ڈالا۔ پورے ملک کی معاشرتی اور انتظامی فضا متاثر ہوئی۔ ہر مقتدر شخصیت اور رفاہی اور قومی تنظیم نے بقدر ہمت و وسائل کوئٹہ شہر کی بحالی میں حصہ لیا۔ لیکن مجلس احرار نے لاہور میں اپنا عظیم الشان و بے مثال تاریخی طبی اور امدادی مرکز (کیمپ) قائم کر کے ہزار ہا مجروح اور قریب الموت انسانوں کو مرہم پٹی اور علاج و غذا کی زبردست سہولیات بہم پہنچائیں۔ بے شمار لاوارث لوگوں کو پناہ دینے اور انھیں کپڑے، روٹی، نقدی اور مکان و دکان تک مہیا کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ ارشادِ رسول علیہ السلام خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ۔(بہترین انسان وہ ہے، جو مخلوق کے کام آئے) کی عملی تفسیر پیش کر کے اپنوں، بے گانوں کی تحسین کے ساتھ دنیا میں نیک نامی، اجرِ آخرت، اﷲ تعالیٰ کی عنایت و رحمت اور خوشنودی کی حق دار بنی۔ امرِ ربی اور حکمت و مشیت خداوندی کے تحت بدلتے ہوئے، دن حال کے آئینہ میں ماضی کے نقوش کی عکاسی کرتے ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، نئے انسان پرانی روحوں کے کردار کا مظاہرہ کر کے مستور حقائق کو واشگاف کرتے اور اپنے معاشرہ سے اعترافِ حق و صداقت کی غیر متوقع خدمت انجام دلواتے ہیں۔
محرم ۹۹ھ /اپریل ۶۸ء میں …… ملتان شہر اچانک ’’وبائی ہیضہ‘‘ یا آج کی اخباری اصطلاح میں اس کے مشابہ پیٹ کی ایک پراسرار بیماری کی لپیٹ میں آ گیا اور دو چار روز میں ہی ہنستی ہوئی آبادیوں سے بے شمار جنازوں کے ساتھ ساتھ آہ و بکا، غم و الم اور فریاد والمدد کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ہفتہ، عشرہ میں شہری زندگی کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں۔ سستی شہرت و عزت اورسیاسی وقعت کے بھوکے برساتی لیڈر تہہ خانوں سے ابل پڑے، کاروباری ذہن امداد و تعاون کے نام سے کھل کھیلے ساتھ ہی بہت سے مخلص و درد مند افراد اور چند ایک رفاہی ادارے بھی بیماروں کو علاج و تیمار داری اور بروقت امداد کا ایمانی جذبہ لے کر میدانِ عمل میں خیمہ زن ہو گئے۔ مجلس احرارِ اسلام ملتان نے اپنی روایت زندہ کی، محض توکل علی اﷲ کے حقیقی سہارے پر یکے بعد دیگرے دو طبی امدادی مرکز قائم کر کے ہزارہا مریض اور قریب الموت انسانوں کو پیامِ زندگی دیا۔ غم زدوں کی ڈھارس بندھائی۔ لاکھوں مسلمان بھائی بہنوں کی خلوص و محبت اور جذبۂ اُخوّت میں ڈوبی ہوئی، پاکیزہ دعائیں حاصل کیں اور اپنے ادائے فرض پر سر بسجود ہوئے۔ بظاہر بیگانے اس دورِ غرض مندی و نفاق میں اخلاص و ایثار کے اس فقید المثال مظاہر پر انگشت بدنداں ہو کر متوجہ ہوئے اور ’’اونچی دکان پھیکا پکوان‘‘ کے مصداق سیاسی اور مذہبی تاجروں کی حاسدانہ سازشیوں اور دھاندلیوں کے علی الرغم نہ صرف یہ کہ جماعت کے لیے دعا گو اور شکر گزار ہوئے، بلکہ اس زبردست اخلاقی و معاشرتی مہم میں سرفرازی و سرخروئی کے اعتراف کے طور پر ہر قسم کے تعاون کے لیے کارکنوں اور رضاکاروں کے دوش بدوش آ کھڑے ہوئے۔ راقم السطور ان ایامِ بلا میں جماعت کے عملِ خیر، اس کی برکات اور اس سے اہلِ اسلام کے بے پناہ تاثر اور ذہنی انقلاب کا چشم دید گواہ ہے۔ اسلامی اُخوت کے مظاہرہ اور خدمتِ خلق کے اس زرّیں کارنامہ کی محتاط تفصیلات، زیرِ نظر کتابچہ میں ملاحظہ کریں اور جماعت کے لیے ہر دینی مہم اور قومی و ملکی خدمت میں سبقت و قیادت کا شرف حاصل ہونے کی دعا کرتے رہیں۔ والسلام۔
ابن امیر شریعت (حضرت مولانا) سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ،لاہور، ۲؍۱۲؍ ۱۳۸۸ھ/۱۹؍۲؍۱۹۶۹ء
آغازِ وبا اور عوام کی پریشانی
مورخہ ۱۴۔ ۱۵؍ محرم الحرام ۱۳۸۸ھ مطابق ۱۳۔ ۱۴؍ اپریل ۱۹۶۸ء کو مجلس احرار اسلام پاکستان کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس، منعقدہ بہاول پور میں شرکت کے لیے ملتان شاخ کے جماعتی رہنما، بہاول پور گئے ہوئے تھے کہ ملتان کے اندر ہیضہ کا موذی مرض پھوٹ پڑا۔ اجلاس سے فراغت کے بعد جب مقامی جماعتِ احرار کے ذمہ دار افراد واپس ملتان پہنچے تو شہر کے حالات یکسر تبدیل ہو چکے تھے۔ ہیضے کی اس موذی وبا نے شدت اختیار کر کے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ بیسیوں افراد لقمۂ اجل بن کر ملک عدم کو سدھار چکے تھے۔ لوگ خوف و ہراس کی وجہ سے سہمے سہمے نظر آتے تھے، اس افراتفری کے عالم میں سب سے زیادہ پریشان ملتان کے وہ غریب عوام تھے، جنھیں دو وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کر نصیب نہیں ہوتا۔ وہ بے چارے علاج کے اخراجات کے کیسے متحمل ہو سکتے تھے؟ شہر کے مخیر حضرات جن سے کسی حد تک توقع کی جا سکتی تھی، وہ بڑے آرام کے ساتھ اپنے محلات میں میٹھی نیند سوتے رہے، ایسے حالات میں سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ تھی کہ ملک کی کسی سیاسی جماعت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ جذبۂ خدمت سے سرشار ہو کر اس آڑے وقت میں قوم کی خدمت کے لیے میدان میں آئے۔ ملکی انتخابات میں مینڈکوں کی طرح ٹرّانے والی سیاسی جماعتوں پر موت کا سا سکوت طاری ہو چکا تھا، جس سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ اقتدار کی جنگ لڑنے والے کس حد اور کس درجہ تک جذبۂ خدمت سے سرشار ہیں؟میونسپل کمیٹی کی طرف سے کچھ نقل و حرکت شروع تھی۔ خود حکومت نے بھی بعض حفاظتی تدابیر اختیار کیں، لیکن یہ سب کچھ اس قابل ہرگز نہیں تھا کہ جس پر اطمینان کا اظہار کیا جاتا۔
مجلس احرار اسلام ملتان میدان عمل میں:
ایسے حالات میں عین جماعتی روایات کے مطابق مقامی جماعت احرار اسلام نے عوام کی خدمت کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ وسائل اور جماعتی حالات اس قابل نہ تھے کہ ایسے اہم اور عظیم کام کی ابتدا کی جائے۔ لیکن تاریخِ احرار اس بات پر شاہد ہے کہ جماعتِ احرار نے کبھی بھی اسباب پر نظر نہیں رکھی، بلکہ اُس کی نظریں ہمیشہ مسبّب الاسباب پر رہی ہیں، جو چاہے تو ادنیٰ و ناتواں سے بھی وہ عظیم کام لے سکتا ہے جو اعلیٰ و مضبوط کے بس سے باہر ہو۔
ہماری مقامی جماعت میں چودھری نواب علی نائب صدر مجلس احرار اسلام ملتان شہر، پیرانہ سالی کے باوجود جوان دل و دماغ کے انسان ہیں۔ یوں تو گوناگوں خوبیوں کے مالک ہیں، لیکن ایک چیز جو ان کی شخصیت کا ایک اہم جز بن چکی ہے، وہ یہ کہ جب وہ کسی بات کا عزم کر لیں تو اس پر پوری عظمت کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔ پھر پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتے ہیں، دریاؤں کے رخ بدل سکتے ہیں، لیکن اُنھیں اپنے ارادوں سے باز نہیں رکھا جا سکتا۔ چنانچہ اس دفعہ بھی وہ سب سے پہلے میدان میں آئے۔ چودھری نواب علی کی تحریک پر ہی مقامی جماعت کا ایک ہنگامی اجلاس مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۶۸ء کو زیرِ صدارت جناب شیخ محمد یعقوب صاحب جالندھری، صدر مجلس احرار اسلام ضلع ملتان منعقد ہوا، جس میں دوسرے جماعتی کارکنوں کے علاوہ ناظم نشر و اشاعت ضلع ملتان حافظ احمد الدین و جناب شیخ تاج محمد لدھیانوی صدر مجلس احرار اسلام ملتان شہر، جناب نذیر احمد صاحب چوہان، خازن مجلس احرار ملتان، جناب شیخ انعام الٰہی صاحب، جناب شیخ محمد یٰسین صاحب، جناب خلیفہ محمد یعقوب صاحب، جناب مشتاق احمد غوری صاحب، جناب کریم اﷲ صاحب، جناب صو فی نذیر احمد نور محلی صاحب، ابن امیر شریعت مولانا حافظ سید عطاء المحسن شاہ صاحب بخاری اور جناب حافظ سید عطاء المؤمن شاہ صاحب بخاری اور دیگر کارکنانِ احرار نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ عوام کی طبی امداد کے لیے جماعت احرار ملتان شہر کو ایک امدادی کیمپ کھولنا چاہیے، جہاں پر ملتان کے غریب، مفلس اور پریشان حال عوام کے مفت علاج کا اہتمام کیا جا سکے۔
ڈاکٹر عبداللطیف کی مخلصانہ پیشکش:
اس فیصلہ کے بعد جب جماعت کے رضاکاروں نے جناب شیخ محمد یعقوب صاحب جالندھری صدر مجلس احرار اسلام ضلع ملتان سے مالی امداد کی استدعا کی، تو آپ نے نہایت فراخ اور بلند حوصلگی سے کیمپ کے ابتدائی جملہ اخراجات کو پورا کرنے کی حامی بھر لی۔ جناب شیخ صاحب مقامی جماعت کے مخیر حضرات میں ایک منفرد اور نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی انسان دوستی اور غریب پروری کی وجہ سے جماعتی حلقے میں بالخصوص اور عوام میں بالعموم مقبول و معروف ہیں۔
حاجی محمد یعقوب صاحب جالندھری کی طرف سے مالی اعانت کے وعدہ کے بعد جماعت کے سامنے کسی مستند، محنتی اور ایثار پیشہ ڈاکٹر کی خدمات حاصل کرنے کا اہم کام باقی تھا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں بھی خداوند کریم نے احرار کے مخلص ساتھیوں کے جذبۂ خدمتِ خلق اور خلوص و محبت کی لاج رکھی لی۔ قدرت نے ان رضاکاروں کی حوصلہ افزائی کے سامان خود مہیا فرما دیے۔ اگلے روز جبکہ کیمپ کے کھولنے کا اعلان شہر میں کر دیا گیا اور عثمانیہ مارکیٹ میں کیمپ لگا دیا گیا تو آخری وقت تک ڈاکٹر کا انتظام نہیں ہو سکا، حتیٰ کہ لوگ ہاتھوں میں دوا کے لیے بوتلیں لیے جوق در جوق کیمپ کے ارد گرد جمع ہونے شروع ہو گئے۔ لیکن ڈاکٹر کا بھی ابھی تک انتظام نہیں ہو سکا تھا، اس پر سب پریشان تھے۔ خصوصاً چودھری نواب علی کی آنکھوں سے اس بے بسی کے عالم میں آنسو بہہ نکلے۔ اتنے میں کسی نے چودھری نواب علی کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، بابا تو کیوں رو رہا ہے؟ اور یہ ہاتھ عثمانیہ مارکیٹ کے مستند و مخلص ڈاکٹر جناب ڈاکٹر عبداللطیف امرتسری کا تھا، جنھوں نے اسی وقت اپنی خدمات جماعت کے سپرد کر دیں، جس سے ہر رضا کار کا چہرہ مسرت و شادمانی سے دمکنے لگا، جیسے انھیں کوئی نعمتِ عظمیٰ میسر آ گئی ہو اور یہ خوشی محض اس لیے تھی کہ رضاکاروں کو اپنی روایات کے مطابق پھر خدمت ِ خلق کا موقع مہیا ہو رہا تھا۔ کارکنانِ جماعت نے محترم ڈاکٹر صاحب کی اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے ربّ ذوالجلال کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ چنانچہ ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۸ء کو ہمارے اس تاریخی طبی امدادی کیمپ نے زیر نگرانی جناب شیخ محمد یعقوب صاحب جالندھری، صدر مجلس احرار اسلام ضلع ملتان نیز جناب ڈاکٹر عبداللطیف صاحب کے چارج اور تحویل میں اپنا کام شروع کر دیا۔
احرار طبی کیمپ کی کامیابی اور رضاکارانِ احرار کی بے مثال قربانی:
جماعت کے اس اقدام کی خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ گروہ در گروہ احرار طبی امدادی کیمپ سے طبی امداد حاصل کرنے کے لیے آنا شروع ہو گئے۔ ابتدا میں ہی کیمپ کو ایک عارضی اور مکمل ہسپتال کی صورت دے دی گئی تھی، مریضوں کے لیے بستروں کا اہتمام کیا گیا۔ مریضوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ بستروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا، پھر پردہ دار عورتوں کی خاطر ہسپتال کو باقاعدہ زنانہ اور مردانہ وارڈ میں تقسیم کر دیا گیا۔ کیمپ کے اندر اس موذی مرض کے انسداد کے لیے ہر دوا ہر وقت مہیا رہتی تھی، خواہ وہ کتنی ہی قیمتی اور نایاب کیوں نہ ہو۔ رضاکارانِ احرار نے دن رات ایک کر کے حق خدمت ادا کر دیا۔ اپنی جان خطرے میں ڈال کر رضاکاروں نے مریضوں کی قے اور اسہال، اپنے ہاتھوں سے صاف کیے، انھیں دلاسے دیے۔ اُن کی ہمت بڑھائی تاکہ وہ بیماری کے ساتھ جنگ کرنے کے قابل ہوں۔ اُن کے حق میں دعائیں کیں، اُن کے غم کو اپنا غم سمجھا اور جب شفایاب ہو کر جانے والے کسی مریض کا چہرہ خوشی سے کھلتا تو رضاکاران احرار کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آتے اور یہ آنسو خوشی کے آنسو ہوتے کہ اُن کی سعی اور کوشش سے ایک غریب اور مفلس انسان کی زندگی منشائے ایزدی کے مطابق محفوظ رہی۔ غرضیکہ رضاکارانِ احرار جذبۂ خدمت سے سرشار و کمر بستہ ڈاکٹر صاحب کی معیت میں دن رات عوام کی خدمت میں مصروف رہے۔ خصوصاً انچارج کیمپ جناب ڈاکٹر عبداللطیف صاحب نے پیرانہ سالی کے باوجود نہایت ہمت سے اپنے فرائض کو نبھایا، بلا خوفِ تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے جذبۂ ایثار و قربانی، جان سوزی و جانفشانی کو چودھری افضلؒ کے نظریاتی اور آئیڈیل خادمِ خلق انسان کا کردار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس پر وہ جماعت کے طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ آپ کے علاوہ شہر کے دوسرے ڈاکٹروں نے بھی وقتاً فوقتاً کیمپ میں تشریف لا کر جناب ڈاکٹر عبداللطیف صاحب انچارج کیمپ کا ہاتھ بٹایا۔ جناب ڈاکٹر عون محمد خان صاحب اور ڈاکٹر امیر علی صاحب اس سلسلہ میں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جماعت اُن کی بھی شکر گزار ہے۔ ان احباب کے علاوہ نشتر میڈیکل کالج کے طلباء نے بھی مجلس کی تاریخی روایات، اس کے خالص اسلامی منشور عملی زندگی اور جذبۂ خدمتِ خلق سے متاثر ہو کر اپنا قیمتی وقت کیمپ کے لیے وقف کر دیا۔
اُفتادِ ناگہانی:
کیمپ کی اس شاندار کامیابی پر جہاں شہر کے مخلص اور نیک طینت افراد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، ہمارے ساتھ دلی تعاون فرمایا۔ وہاں ایک مخصوص اور بزعمِ خویش صالح طبقے کی پیشانی پر بل بھی دیکھے گئے۔ نہ جانے انھیں احرار کے اس امدادی کیمپ سے کون سے نقصان کا اندیشہ تھا کہ انھوں نے کیمپ کو بند کرانے کے لیے انتہائی کوشش کی، لیکن خدا تعالیٰ کی مہربانیوں اور اس کے فضل و کرم کے صدقے وہ لوگ اپنے ارادوں میں ہر طرح ناکام رہے اور احرار کیمپ پہلے سے زیادہ جوش و خروش، عزم و قوت اور تنظیم کے ساتھ اپنی کامیاب مہم میں مشغول رہا۔ رضاکاروں نے دن رات کمال ہمت سے کام کر کے یہ ثابت کر دکھایا کہ پروردگار عالم اگر چاہیں تو گنہگاروں سے بھی کام لے سکتے ہیں اور ایسے قومی، ملکی، سماجی، امدادی کام، متقی و پرہیز گا، نیک و صالح لوگوں پر ہی منحصر نہیں ہیں۔ کام بہتر طور پر ہو رہا تھا، شہر کے لوگ احرار کے اس امدادی کیمپ کو بڑی قد ر منزلت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، جہاں سے ہر روز تقریباً چار سو کے قریب غریب اور مزدو پیشہ لوگ مفت استفادہ کر رہے تھے، جن پر ہزاروں روپے کا خرچ اٹھ رہا تھا اور یہ سب کچھ صرف اور محض خدا کی خوشنودی کے لیے تھا۔
رضاکارانِ احرار اپنی سابقہ روایات کے مطابق ایثار و قربانی کی تصویر بنے، حب الوطنی خدمت خلق کے جذبات سے سرشار ہو کر لوگوں کی قیمتی جانیں بچانے کے لیے اس طرح مصروفِ کار تھے کہ دکانیں بند، گھر بار اور بیوی بچوں کی کوئی خبر نہیں، حتیٰ کہ ہمارے رضاکار اپنی جان اور صحت کی پرواہ کیے بغیر پوری دل جمعی کے ساتھ کام کر رہے تھے کہ ایک نئی اُفتاد آن پڑی۔ وہ یہ کہ محکمۂ صحت کی طرف سے ہمارے کیمپ انچارج جناب ڈاکٹر عبداللطیف صاحب کو ایک حکم نامہ موصول ہوا، جس میں کیمپ بند کر دینے کے احکام تحریر تھے۔ ساتھ ہی حکم عدولی کی صورت میں قانونی کارروائی کرنے کی بھی دھمکی دی گئی۔
وفد کی تشکیل اور راجا نصر اﷲ اے۔ ڈی۔ سی سے ملاقات:
محکمۂ صحت کے اس حکم نامے سے شہر بھر میں ہیجان پیدا ہو گیا۔ چنانچہ فوری طور پر ضلع کے حاکم اعلیٰ ڈپٹی کمشنر کو ملنے کے لیے معززین شہر کا ایک وفد ترتیب دیا گیا، جس میں جماعتی اکابر بھی شریک تھے۔ یہ وفد مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل تھا:
۱۔ شیخ محمد یعقوب صاحب، صدر مجلس احرار اسلام ضلع ملتان
۲۔ شیخ تاج محمد صاحب لدھیانوی، صدر مجلس احرار اسلام ملتان شہر
۳۔ چودھری نواب علی صاحب، نائب صدر مجلس احرار اسلام ملتان شہر
۴۔ حافظ احمد دین صاحب، ناظم نشر و اشاعت مجلس احرار اسلام ملتان شہر
۵۔ شیخ محمد یعقوب صاحب ہوشیارپوری
۶۔ حکیم انور علی شاہ صاحب
۷۔ آغا محمود علی صاحب ایڈووکیٹ
۸۔ شیخ قمر الدین صاحب لدھیانوی
جب معززین شہر کا یہ وفد اس حکم نامے کے بارے میں ڈپٹی کمشنر صاحب کے ساتھ بات کرنے کی غرض سے ضلع کچہری پہنچا تو معلوم ہوا کہ صاحب بہادر، شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وفد جناب راجا نصر اﷲ صاحب اے۔ ڈی۔ سی۔ سے ملا اور محکمۂ صحت کی شکایت کرتے ہوئے، اس حکم نامے کے بارے میں بتایا جس کے تحت احرار کیمپ کو بند کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ جناب راجہ صاحب نے بڑے تحمل کے ساتھ وفد کی باتوں کو سنا اور بڑے ہمدردانہ لہجہ میں فرمایا کہ:
’’میں نے پورے شہر میں امدادی کاموں کا جائزہ لیا ہے اور اسی سلسلہ میں تین مرتبہ اچانک احرار طبی امدادی کیمپ کا معائنہ بھی کر چکا ہوں، میں بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ میں نے احرار کیمپ میں کیے جانے والے ہر کام کو معیاری پایا ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ پورے شہر میں احرار طبی امدادی کیمپ سے بڑھ کر کوئی دوسرا ادارہ کام نہیں کر رہا تو بے جانہ نہ ہو گا۔ آپ اپنا کام جاری رکھیں، محکمہ صحت والے مزید کارروائی کریں تو مجھے اطلاع دیں‘‘۔
جناب راجا صاحب کی اس یقین دہانی سے اراکینِ وفد کی ڈھارس بندھی، لیکن بعد میں پھر ایک حکم نامے کے ذریعے خطرناک مریضوں کو کیمپ میں رکھنے کی ممانعت کر دی گئی۔ کیمپ کے ارباب بست و کشاد کو کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ اجازت چیئرمین میونسپل کمیٹی سے ملاقات کے بعد حاصل کی گئی۔ یہ ملاقات بھی ایک وفد کے ساتھ ہوئی جس میں جماعتی اور غیر جماعتی افراد سبھی شامل تھے۔ چنانچہ جماعت احرار نے حکومت کے فیصلوں کے مطابق اپنے کام کو جاری رکھا اور اس طرح عوام کی خدمت کا ایک اہم قومی، ملکی، انسانی فریضہ سرانجام دیا جو متواتر چالیس روز تک جاری رہا۔
دوسرے امدادی کیمپ (لکڑ منڈی) کا اجراء:
کیمپ کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے جن جماعتی دوستوں نے بڑی ہمت و شجاعت کے ساتھ کام کیا ہے، اُن میں چودھری نواب علی صاحب، نائب صدر مجلس احرار اسلام ملتان شہر، جناب شیخ قمر الدین صاحب لدھیانوی ( یاد رہے کہ آپ احرار کے پرانے، مخلص اور بہادر کارکن ہیں، جو فسادات بہار کے موقع پر تاریخی احرار امدادی جیش میں شام تھے، جو اُس وقت آفت زدہ علاقہ میں مسلمانوں کی جانیں بچانے، انھیں محفوظ کرنے اور اُن کی خدمت پر مامور تھا۔ جماعت کی طرف سے اس دستے کی قیادت قائد احرار حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اﷲ علیہ اور محترم ماسٹر تاج الدین لدھیانوی کے سپرد تھی)، صوفی نذیر احمد، رفیق احمد و بشیر احمد صاحب نور محلی، کریم اﷲ امرتسری، نثار احمد ، والے، حسین اختر لدھیانوی، ابن امیر شریعت مولانا حافظ سید عطاء المحسن شاہ بخاری و حافظ سید عطاء المؤمن شاہ بخاری، جناب تاج محمد صاحب لدھیانوی، صدر مجلس احرار ملتان شہر، جناب خواجہ عبدالرشید صاحب ملتان، خلیفہ محمد یعقوب صاحب جالندھری، حافظ محمد شفیع صاحب بندوقوں والے، شیخ انعام الٰہی، عزیز نثار احمد، نصر اﷲ، حاجی مشتاق احمد صاحب(تاج الیکٹرک سنٹر والے)، عزیز محمد اسماعیل فرزند مستری دین محمد صاحب امرتسری مرحوم، شیخ ہدایت اﷲ نور محلی، شیخ عبدالحمید صاحب جالندھری، ظہیر احمد صاحب، شیخ نذیر احمد صاحب چوہان (گوجرانوالہ) اور ماسٹر محمد صدیق صاحب ٹیلر خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ چودھری نواب علی صاحب اور شیخ قمر الدین صاحب خاص طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں، جنھوں نے دن رات اپنے آپ کو کیمپ کے لیے وقف کر کے اپنے خلوص اور ملکی و ملّی محبت کا ثبوت بہم پہنچایا۔ حقیقت ہے کہ جس جانفشانی سے آپ نے محنت کی ہے، اس سے پوری جماعت کا سرفخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ اب بھی ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو ہر قسم کی قربانی پیش کر کے جماعتی روایات کو برقرار رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ ان کے بعد نوجوانوں میں سے صوفی نذیر احمد و رفیق احمد نور محلی، نثار احمد (مہاجر ریاست جیند) اور حسین اختر نے بھی جس جانفشانی سے کام کیا ہے، وہ بھی قابل صد تحسین و آفرین ہے۔ ان کے علاوہ ہم مخلص نوجوان کارکن عزیز شیخ محمد یوسف صاحب بٹالوی و محترم جناب شیخ محمد یعقوب صاحب جالندھری، صدر مجلس احرار اسلام ضلع ملتان کے بالخصوص اور شیخ ہدایت اﷲ صاحب نور محلی و شیخ عبدالحمید صاحب جالندھری کے بھی شکر گزار ہیں کہ انھوں نے حسب توفیق مالی امداد مہیا کر کے جماعت کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ جماعت اُن کی اس قربانی کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
ہماری لیے یہ بات انتہائی حوصلہ افزائی اور باعثِ صد مسرت و انبساط ہے کہ جماعتی دوستوں کے علاوہ بعض صاحب درد، مخلص اور محبت وطن غیر جماعتی دوستوں نے بھی بڑے خلوص کے ساتھ اس کارِ خیر میں ہماری مدد فرمائی ہے۔ انھوں نے عوام سے رابطہ قائم کر کے کیمپ کی افادیت کے پیش نظر ایک خطیر رقم جماعت کے سپرد کی۔ ان حضرات میں سے مندرجہ ذیل خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مہاجرین رہتک کے مقتدر نمائندہ اور مسلم لیگ کے سرگرم اور مشہور کارکن جناب شیخ نور محمد صاحب، جناب حاجی عمر دین صاحب، جناب بھِیکو صاحب اور جناب صوفی نذیر احمد صاحب جھجّر والے۔
مجلس احرار اسلام ملتان اس کارِ خیر میں اُن کے پرخلوص اور غیر متوقع تعاون کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ انھوں نے جماعتی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے جماعت کی اس دینی اور قومی خدمت پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے مالی امداد فرمائی۔ یقینا اُن کی اس امداد سے ہماری کامیابی کی راہیں صاف ہوئیں۔ خدا اُن کا حامی و ناصر ہو اور اُن کے اس نیک کام کو اُن کی بخشش کا ذریعہ اور وسیلہ بنائے اور آئندہ بھی ہر موقع پر جماعت کے ساتھ والے، درمے ، سخنے، قدمے ہر قسم کے تعاون کی توفیق عطا فرمائے…… آمین۔
ہم اپنے فرائض کی بجاآوری میں کوتاہی کریں گے، اگر ہم جمعیت العلماء اسلام کے مخلص کارکن اور معتمد ملتان شہر، جناب شیخ محمد یعقوب صاحب ہوشیار پوری کا شکریہ ادا نہ کریں، جنھوں نے ہمارے ساتھ ہر ممکن تعاون کر کے خدمتِ خلق کے اس عظیم کام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ حتیٰ کہ اُن کے بیٹے کے الم ناک موت بھی انھیں، دکھی انسانیت کی خدمت سے باز نہ رکھ سکی، بلکہ اس سخت صدمہ کے باوجود وہ ہمارے ساتھ کام میں پہلے ہی کی طرح مصروف رہے۔ خدا اُن کی اس نیکی کو قبول فرمائے۔ آمین۔
کام کا اندازہ:
احرار طبی امدادی کیمپ ۱۸؍ اپریل سے ۲۸؍ مئی ۱۹۶۸ء تک اپنا فرض سرانجام دیتا رہا۔ اسی دوران میں شہری ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے، نیز ایک کیمپ کے کام کو پورے شہر کے لیے کم جانتے ہوئے، جماعت احرار نے ۲۲؍ اپریل ۱۹۶۸ء کو ایک دوسرا کیمپ لکڑ منڈی کے مقام پر کھول دیا۔ تاکہ وہ وباء کی شدت کا بہتر طور پر مقابلہ کر کے زیادہ سے زیادہ افراد کو طبی امداد بہم پہنچائی جا سکے۔ چالیس روز میں ان دونوں کیمپوں سے پندرہ ہزار چھے سو پچاسی افراد نے فائدہ اٹھایا۔ ان میں کئی مریض ایسے بھی تھے جن پر تین سو روپیہ خرچ ہو گیا لیکن الحمد اﷲ کہ سب مریض شفایاب ہو کر گئے۔ کسی مریض کی موت کیمپ میں نہیں ہوئی، لوگ مایوس اور ناامید ہو کر آتے تھے لیکن اﷲ کے فضل و کرم سے صحت یاب اور خوش و خرم ہو کر جاتے۔ یہ سعادت صرف احرار کیمپ کے حصے میں آئی کہ جب شہر بھر میں ایک قیامت برپا تھی، لوگ بڑی تعداد میں دنیا سے رخصت ہو رہے تھے۔ سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے مایوس ہو کر مریض سینکڑوں کی تعداد میں احرار کیمپ کی طرف رجوع کر رہے تھے، تو اس افراتفری کے عالم میں آنے والے جاں بلب مریضوں میں سے بھی کسی ایک متنفس کا کیمپ کے اندر انتقال نہیں ہوا، بلکہ کیمپ سے شفایاب ہو کر جانے والے مریضوں میں سے بھی ہماری مصدقہ اور حیرت انگیز اطلاعات کے مطابق اس مرض کی شدت یا عود کرنے سے کوئی شخص جاں بحق نہیں ہوا۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُچالیس روز تک شہریوں کی طرف سے موصول ہونے والی اور کیمپ کی طرف سے خرید کی ہوئی ادویہ نیز خطرناک مریضوں پر خرچ ہونے والی رقم اور کیمپ کے دوسرے اخراجات کا محتاط تخمینہ پینتیس ہزار روپے سے چالیس ہزار روپے تک پہنچتا ہے۔
آخری تقریب اور مولانا عبیداﷲ احرار کا خطاب:
کیمپ کے اختتام پر مورخہ ۲۸؍ مئی ۱۹۶۸ء کو مجلس احرار اسلام ملتان نے ڈاکٹر صاحبان کی مخلصانہ اور فی سبیل اﷲ قومی خدمت سے متاثر ہو کر انھیں ہدیۂ تشکر پیش کرنے کی لیے ایک محفل عصرانہ ترتیب دی۔ کام کی اہمیت اور موقع کی نزاکت کے پیشِ نظر صدر مرکزیہ قائد محترم جناب مولانا عبیداﷲ احرار کو لائل پور سے بطور خاص مدعو کیا گیا۔ حضرت ابن امیر شریعت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری، ناظم مرکزیہ نے اپنے دستِ مبارک سے ڈاکٹر عبداللطیف صاحب امرتسری، انچارج کیمپ عثمانیہ مارکیٹ و ڈاکٹر بشیر احمد صاحب انچارج کیمپ لکڑ منڈی کو طلائی ہار پہنائے۔ نیز انھیں شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے مترجمہ قرآن کے نسخے اور تاریخ احرار سمیت جماعتی مطبوعات کا ایک ایک سیٹ، اسلامی تحفہ اور برمحل ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔ ناظم مرکزیہ جناب سید ابو معاویہ ابوذر بخاری ، اس موقع پر ملتانی حکام کی پرانی روایات کے مطابق زبان بندی کی وجہ سے سامعین کو خطاب نہ کر سکے، لیکن یہ کسر صدر مرکزیہ نے پوری کر دی۔ آپ نے معززین شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’احرار کے بہادر اور جیالے نوجوانو! میں تمھیں اس کارنامے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ تم نے اپنے ماضی کی یاد تازہ کر دی، اس کیمپ کے حالات سن کر مجھے ۱۹۳۵ء کا وہ احرار کیمپ یاد آ گیا، جو ہماری جماعت نے کوئٹہ کے قیامت خیز زلزلے سے متاثر ہونے والے افراد کی خدمت کے لیے لگایا تھا۔ جماعت کے اس کام سے متاثر ہو کر جب حکومت نے جماعت احرار کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو مفکرِ احرار چودھری افضل حقؒ نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ احرار جب بھی کوئی ایسا کام کرتے ہیں تو اُن کے سامنے حکومت کے شکریے نہیں، بلکہ خداوند تعالیٰ کی خوشنودی ہوتی ہے۔ جماعت احرار کے لیے یہ پہلا موقع نہیں ہے، بلکہ اس سے پیشتر بھی وہ اس قسم کے کارنامے سرانجام دیتی رہی ہے اور ان شاء اﷲ تعالیٰ آئندہ بھی قوم کے دکھ میں پوری طرح شریک ہو کر اُن کے کام آنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں نیک لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت عطا فرمائے، آمین‘‘۔
صدر مرکزیہ کے خطاب سے پہلے ڈاکٹر صاحبان کی خدمت میں مولانا رحمت اﷲ مہاجر نے سپاس نامہ پیش کیا اور حافظ احمد الدین صاحب نے کیمپ کی کارگزاری پر رپورٹ پڑھی، جس کے بعد مدعوّین کی چائے سے تواضع کی گئی۔ آخر میں سید ابوذر بخاری کے دعائیہ کلمات کے بعد یہ تقریب بہ احسن طریق اختتام پذیر ہوئی۔ (جاری ہے)