پروفیسر محمد اکرام تائبؔ
اس خدائی کے بھی اُوپر اک خدائی چاہیے رہنماؤں کو بھی اب تو رہنمائی چاہیے
صاف ہیں گلیاں محلے تن بھی اُجلا ہے بہت دل مگر میلا ہے اس کی بھی صفائی چاہیے
اب تو کُتّے ، چیل ، کوے ، خر ، کھلا ڈالتے ہیں جو حرام اُن کو کہے ایسا قصائی چاہیے
جس میں بھوسہ، چاک مٹی چھان بورا تک نہ ہو مرچ ، ہلدی کی ہمیں ایسی پسائی چاہیے
جامعہ کے فارغ التحصیل بھی فارغ ہیں اب ہم کو واشر مین بننا اور نائی چاہیے
کون کہتا ہے کہ مکھن اور گھی نکلے ، م تھوڑی سی تو دودھ پر آنا ملائی چاہیے
کار ، بنگلہ ، کارخانہ ، بنک بیلنس بھی بہت اور پٹواری کو اب کتنی کمائی چاہیے
یہ غریب و بے نوا بھی ہم سے ہی انسان ہیں ان کو بھی کپڑا ، مکاں ، روٹی ، دوائی چاہیے
ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش رہنا بھی ہے ظلم گر زباں منہ میں ہے تو دینا دُہائی چاہیے
زندگانی کی حقیقت ہم کو بھی معلوم ہو اپنے ہاتھوں میں بھی کشکول گدائی چاہیے
ہم نے مانا تین سو کا ہی سوٹ ہے تائبؔ ، مگر ہم کو لیکن آپ سے نَو سو سلائی چاہیے
سانس
عمر کو ہر اک سانس گھٹاتی رہتی ہے موت کی جانب ہاتھ بڑھاتی رہتی ہے
کٹ کر گِر پڑتے ہیں جیوَن پیڑ سب آری یہ ہر وقت چلاتی رہتی ہے
خوش ہو کر ہم لوگ منائیں سال ہ کتنا احمق ہمیں بناتی رہتی ہے
دنیا کا یہ کھیل فقط اک سانس کا ہے آتی جاتی سانس بتاتی رہتی ہے
سانس چلے تو دنیا ناچے ڈھولک پر رک جائے تو اشک بہاتی رہتی ہے
سانس رکے تو چھوڑ کے سب کچھ چل دیں ہم مفت میں دنیا عمر کھپاتی رہتی ہے
دنیا ایک سرائے ، قبر ہے گھر اپنا! ہر پل یہ پیغام سناتی رہتی ہے
دل کی دھڑکن بند نہ تائبؔ ہو جائے رکتی چلتی سانس ڈراتی رہتی ہے