مولانا زاہدا لراشدی
سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی محبت و احترام کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کی اور کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ اور یہ جناب رسول اﷲؐ کا اعجاز ہے کہ جس کا ان کے ساتھ ایمان و عقیدت کا تعلق قائم ہوگیا اس کے لیے دنیا کی ہر چیز ہیچ ہوگئی اور باقی سب رشتوں اور تعلقات کی کشش ثانوی حیثیت اختیار کر گئی۔ اس میں نیک اور گنہگار کا کوئی فرق نہیں، جو نیکی اور تقویٰ میں سب سے آگے ہے اس کی محبت اور عقیدت کا بھی وہی عالم ہے اور اس محبت اور عقیدت میں فاسق و فاجر بھی کسی سے کم نہیں رہے۔ عمل کی دنیا اور ہے اور عشق و مستی کی دنیا کا منظر اور ہے بلکہ ہمیشہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب نبی اکرمؐ کے ساتھ محبت و عقیدت کے عملی اظہار کا موقع پیش آیا تو گنہگار اور بے عمل مسلمان اس اظہار میں سبقت لے گئے اور ان کے جذبہ و جنون کی دنیا ہی الگ دکھائی دی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ انہیں جناب رسول اکرمؐ کے ساتھ عقیدت اور محبت کے اس جذباتی اظہار میں اپنی بے عملی اور گناہوں کا کفارہ بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی محبت اور عقیدت تو جذبہ و جنون اور اطاعت و وفاداری دونوں سے عبارت تھی۔ اس لیے اس کا رنگ سب سے الگ تھا اور اسی وجہ سے زمانہ ہمیشہ ان کی کوئی مثال لانے سے قاصر رہا ہے۔ مگر اس عقیدت و محبت کے اظہار کا انداز جدا جدا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے اس دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں: جناب نبی اکرمؐ کے چہرہ انور کی زیارت کرتا رہوں، میرا مال نبی اکرمؐ پر خرچ ہوتا رہے اور میری بیٹی نبی اکرمؐ کے نکاح میں ہو۔
مگر حضرت عمرو بن العاصؓ کی محبت کا اندازہ اس سے مختلف ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھ سے کوئی دریافت کرے کہ حضرت محمد رسول اﷲؐ کے چہرۂ انور اور حلیہ مبارک کی کیفیات بیان کروں تو نہیں کر سکوں گا، اس لیے کہ زندگی بھر آنحضرتؐ کے چہرۂ مبارک کو آنکھ بھر کر دیکھ ہی نہیں پایا۔ جب کافر تھا تو اس قدر نفرت تھی کہ نظر ڈالنے کو جی نہیں چاہتا تھا اور جب مسلمان ہوا تو آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا رعب اتنا تھا کہ آنکھ بھر کر دیکھنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ یہ اظہارِ محبت اور احترام و ادب کے اپنے اپنے انداز ہیں، وارفتگی کی ایک ایسی قدرِ مشترک ہے کہ جس نے سب کو محبت و عقیدت کے بے مثال رشتے میں پرو رکھا ہے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمانؓ کو کفار مکہ سے مذاکرات کے لیے بھیجا گیا اور وہ مکہ مکرمہ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ گھوم رہے تھے کہ ان کے خاندان کے ایک فرد نے کہا کہ عثمانؓ! آپ نے اپنی چادر اور تہہ بند کو ٹخنوں سے اوپر نصف پنڈلی تک اٹھا رکھا ہے جو یہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ اس وقت کی جاہلی ثقافت میں تہہ بند کا زمین کے ساتھ گھسٹنا بڑائی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور چادر کا ٹخنوں سے اوپر اٹھائے رکھنا مزدوروں اور نوکروں کی علامت تصور ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت عثمانؓ پر ان کے دوستوں نے یہ اعتراض کیا مگر حضرت عثمانؓ نے کمال بے نیازی کے ساتھ اس اعتراض کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ مجھے لوگوں کے طعنوں کی کچھ پروا نہیں اس لیے کہ میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم چادر اسی طرح باندھتے ہیں۔
حضرت حذیفہ بن الیمانؓ معروف کمانڈروں میں سے تھے، ایک جنگ کے موقع پر دشمن فوج کے کمانڈروں کے ساتھ کسی معاملے میں مذاکرات کر رہے تھے کہ کھانے کے دوران ان کے ہاتھ سے لقمہ پھسل کر دستر خوان پر گر گیا انہوں نے بلاتکلف اسے اٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔ یہ وہاں کی ثقافتی روایات کے مطابق عیب کی بات تھی کہ ہاتھ سے گرا ہوا لقمہ اٹھا کر کھا لیا جائے۔ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہنی مار کر اس طرف توجہ دلائی تو بڑی بے پروائی سے جواب دیا کہ کیا میں ان احمقوں کے طعنے کے خوف سے اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت چھوڑ دوں؟
حضرت خبیب بن عدیؓ انصاری صحابی تھے، بدر کے غزوہ میں ان کے ہاتھوں قریش کا ایک شخص حارث بن عامر قتل ہوا تھا، یہ ایک موقع پر کافروں کے کسی گروہ کے ہتھے چڑھ گئے اور ان سے حارث بن عامر کے بیٹوں نے انہیں خرید لیا تاکہ ان سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔ پھر مکہ مکرمہ لے جا کر انہیں کچھ دن قید میں رکھا اور ایک روز اعلان کر کے انہیں قتل کرنے کے لیے کھلے میدان میں لے گئے کہ لوگوں کے سامنے انہیں قتل کر کے اپنے انتقام کی آگ بھجا سکیں۔ بعض تاریخی روایات میں آتا ہے کہ اس موقع پر کسی قریشی سردار نے ان سے کہا کہ اگر تمہاری جگہ آج محمد ہوتے تو تمہاری جان بچ سکتی تھی۔ یہ سن کر رونے لگے اور کہا کہ تم یہ کیا بات کر رہے ہو؟ خدا کی قسم مجھے سو بار زندگی ملے اور ہر بار حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر قربان ہو جاؤں یہ مجھے منظور ہے لیکن میری سو جانوں کے بدلے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاؤں میں ایک کانٹا بھی چبھے مجھے یہ برداشت نہیں ہے۔
غزوۂ بدر کے موقع پر جب جہاد کا پہلا حکم قرآن کریم میں نازل ہوا تو جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو جمع کر کے انہیں حکم سنایا اور جہاد کی تیاری کے بارے میں مشورہ طلب کیا۔ مہاجر صحابہ کرامؓ نے آنحضرت کو وفاداری اور اطاعت کا یقین دلایا مگر آپ انصارِ مدینہ کا ردِعمل معلوم کرنا چاہتے تھے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت مقداد بن اسودؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اﷲ! ہم حاضر ہیں، ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح نہیں ہیں جو یہ کہہ دیں کہ آپ اور آپ کا رب جا کر دونوں لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں، ہم آپ کے آگے لڑیں گے، پیچھے لڑیں گے، دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے۔ روایت میں ہے کہ یہ بات سن کر جناب رسول اﷲؐ کا چہرۂ مبارک خوشی سے دمکنے لگا۔
یہ سب صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم تھے، جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت و عقیدت اور اطاعت و وفاداری بے مثال تھی اسی لیے وہ قیامت تک امت مسلمہ کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن عقیدت اور جاں سپاری کا یہ جذبہ تسلسل کے ساتھ امت میں چلا آرہا ہے اور اسی کی ایک جھلک یہ ہے کہ یورپ کے بعض اخبارات کی طرف سے جناب نبی اکرمؐ کی شانِ اقدس میں گستاخی پر پوری امت مضطرب ہوگئی ہے اور ساری دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں تڑپ اٹھے ہیں۔ دنیا کو شکایت ہے کہ مسلمان محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے حوالے سے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ بات جو دنیا والوں کے نزدیک شکایت کی ہے، مسلمانوں کے نزدیک اعزاز کی بات ہے کہ یہی جذباتیت ان کے ایمان کی بنیاد ہے اور ان کی روحانیت کا اثاثہ ہے۔ اس پر دو واقعات قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔
’’شہیدانِ ناموسِ رسالت‘‘ نامی ایک کتاب کے حوالے سے میں نے یہ واقعہ پڑھا ہے کہ جون ۹۹۹۱ء کے دوران برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے کسی سکول میں ’’مشہور مذہبی شخصیت‘‘ کے عنوان پر طلبہ و طالبات میں تقریری مقابلہ ہو رہا تھا۔ کسی مسلمان لڑکی نے اپنی تقریر میں بار بار نبی اکرم کا نام لیا مگر بے خیالی میں ’’صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ نہ کہہ سکی۔ دو چار بار ایسا ہوا تو ہال میں ایک لڑکی کھڑی ہوگئی اور بلند آواز سے ’’صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ کا ورد کرنا شروع کر دیا۔ یہ سکول کے قواعد کی سخت خلاف ورزی تھی، اس لڑکی کو ہال سے باہر لے جایا گیا اور سکول کے اساتذہ کے ایک بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس لڑکی نے ہچکیوں اور سسکیوں میں یہ جواب دیا کہ جو کوئی شخص ہمارے پیارے نبیؐ کا نام لیتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ’’صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ کہے، میں اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتی۔ آپ کا نام سن کر صلی اﷲ علیہ وسلم کہنا میرا ایمانی فریضہ ہے، اس فریضے کی ادائیگی سے مجھے ڈسپلن کے نام پر نہیں روکا جا سکتا۔
یہ مانچسٹر کے کسی سکول میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک بچی کے جذبات ہیں مگر اس سے زیادہ ایمان افروز واقعہ ’’مضامینِ شورش‘‘ میں آغا شورش کاشمیری کے حوالے سے اختر شیرانی مرحوم کے بارے میں مذکور ہے۔ اختر شیرانی اردو زبان کے بڑے شاعروں میں سے تھے، رومان اور شباب کے شاعر تھے اور بلانوش تھے۔ آغا صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ ایک بار عرب ہوٹل میں محفل جمی ہوئی تھی، اختر شیرانی مرحوم شراب کی دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ رہا تھا، تمام بدن پر رعشہ طاری تھا حتیٰ کہ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے، ادھر ان کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے۔ اس دوران مختلف شخصیات کے بارے میں ان سے دریافت کیا جاتا رہا اور وہ اپنے ذوق کے مطابق جواب دیتے رہے۔ اس موقع پر ایک نوجوان نے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوال کر دیا کہ آپ کا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس سے آگے آغا شورش کاشمیری کے قلم سے ہی ملاحظہ کیجئے:
’’اﷲ اﷲ! ایک شرابی، جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ کہنے لگے، بدبخت! ایک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ایک سیہ رو سے پوچھتا ہے۔ ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟ تمام جسم کانپ رہا تھا، ایکا ایکی رونا شروع کیا گھگھی بندھ گئی۔ پھر فرمایا بدبخت! تم نے اس حال میں یہ نام کیوں لیا، تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی؟ گستاخ، بے ادب! باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار! اس شریر سوال پر توبہ کرو، میں تمہارا خبث باطن سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہوگئے، اس نوجوان کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس نے بات کو موڑنا چاہا مگر اختر کہاں سنتے تھے، اسے مجلس سے اٹھوا دیا، پھر خود اٹھ کر چلے گئے۔ تمام رات روتے رہے، کہتے تھے کہ یہ لوگ اتنے نڈر ہوگئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنانا چاہتا ہے۔‘‘
یہاں تک لکھ چکا تھا کہ آج کا اخبار آگیا اور امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش کے دہلی کی ایک تقریب میں خطاب کے حوالے سے ان کا یہ ارشاد نظر سے گزرا کہ وہ پاکستان کے حکمرانوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور پاکستان کے کلیدی اشتراک پر بات چیت کریں گے جس کا مقصد سخت گیر نظریات کی طرف لوگوں کو مائل ہونے سے روکنا ہے۔ سچی بات ہے صدر بش کی یہ بات پڑھ کر ان کے بھولپن پر مجھے ہنسی آرہی ہے کہ اختر شیرانی کی قوم سے وہ کس بات کی توقع کر رہے ہیں!(نشرِ مکرّر) (اشاعتِ اول: ۶؍ مارچ ۲۰۰۶ء روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور)