پروفیسر محمد حمزہ نعیم
سردار جی مچھر دانی لگائے لیٹے ہی تھے کہ انھیں باہر ایک جگنو نظر پڑا۔ وہ فوراً چیخے ’’واہ گرو جی! مجھے اس ظالم سے بچاؤ، اب تو یہ مجھے ٹارچ لے کر ڈھونڈ رہا ہے۔ میں نے پورے ایک ہزار کی مچھر دانی خریدی ہے مگر یہ میری طرف ہی آرہا ہے۔‘‘ جگنو کو ڈینگی مچھر سمجھنے والے سردار کی طرح آج مسلمان ہر روشن چیز کوسپریم طاقتوں کا ایٹم بم سمجھ رہا ہے۔ کاش اس کا تعلق سپریم طاقتوں کے اوپر کی سپر طاقت کے ساتھ ہوتا تو یہ اس طرح یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْمِکا شکار نہ ہوتا۔ ’’زندگی اﷲ کی امانت ہے‘‘ اور یہ امانت کوئی دوسرا نہیں چھین سکتا۔ سپریم طاقت کا اعلان ہورہا ہے لاَ یَسْتَاء خِروُنَ سَاعَۃً وَلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ‘‘ جب ہمارا حکم، موت کا معیّن وقت آجاتا ہے تو نہ ایک گھڑی تاخیر ہوتی ہے نہ ایک گھڑی موت پہلے آسکتی ہے۔‘‘ موت کا بہر حال ایک وقت معین ہے لیکن بقول مجاہد ملت سلطان ٹیپو شہید رحمتہ اﷲ علیہ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ سلطان شہید ہوچکا تھا مگر نزع کے عالم میں جب ایک انگریز نے ان کی تلوار اتارنی چاہی تو وہ سلطان سے تلوار نہیں لے سکا۔ آخری دموں پر ٹیپو شہید نے اسے زخمی کردیا تھا اور وہ ایسے بھاگا تھا کہ پھر مڑ کر نہ دیکھا اور سلطان کی شہادت کے کئی گھنٹوں بعد تک اس کے قریب کوئی نہ آسکا۔ جن لوگوں نے سلطان سے غداری کی تھی انھیں بڑے عہدوں اور انعامات کا لالچ تھا مگر ان کی درخواست یہ کہہ کر رد کردی گئی کہ تم نے اپنوں کے ساتھ وفا نہیں کی ہمارے ساتھ کیا کروگے۔؟ ’’سید دو عالم آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم سے خطاب یافتہ ’’اﷲ کی تلوار‘‘ کفر اور کافروں کو ملیا میٹ کرتے خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ آگے بڑھتے جارہے تھے۔ ایک موقع پر ایک بڑا کافر سردار گرفتار کر کے پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ اس کا ایک غلام بھی تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک بڑی شیشی میں کوئی چیز تھی۔ اس نے پوچھنے پر بتایا کہ یہ نہایت مہلک قسم کا زہر ہے، کئی خاندانوں اور نسلوں کے لیے یہ کافی ہے۔ یہ میرے آقاہیں اور میں ان کا غلام ہوں۔ میں نے آقا کا نمک کھایا ہے اب یہ فیصلے کے لیے آپ کے سامنے پیش ہے اگر آپ نے ان کے حق میں کوئی عزت والا فیصلہ نہ کیا تو میں نے سوچا ہے کہ آقا کی ذلت دیکھنے سے پہلے یہ سم قاتل پی کر موت کو گلے لگالوں گا۔‘‘
خالد سیف اﷲ نے اس کے ہاتھ سے سم قاتل کی شیشی لے لی اور اﷲ کا نام بلند کرتے ہوئے ساری شیشی اپنے حلق میں انڈیل دی۔ ’’موت اور حیات میرے اﷲ کے ہاتھ میں ہے، جب یہ زہریلے دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو یہ چند قطروں کی شیشی ہمارا کیا بگاڑلے گی‘‘ لوگوں نے حیرت زدہ نگاہوں سے سیفِ الٰہی پر نظر ڈالی، انھیں کوئی گزند نہ پہنچ سکا تھا۔ اور زہر ہلاہل کو موت سمجھنے والا غیر تمند کافرلَااِلٰہ اِلّا اللّٰہ مُحمد رسول اللّٰہ پڑھ کر اسلام کی حیاتِ جاودانی پاگیا۔ پھراﷲ کی یہ تلوار علاقوں کے علاقے فتح کرتی ہوئی مقرر وقت پر سفرِ آخرت کی تیاری کے لیے بستر پر نظر آئی۔ سیدنا سیف اﷲ خالد بستر وفات پر آنسو بہار ہے تھے، ان کے مجاہد ساتھی کہنے لگے ’’خالد موت سے ڈرگیا‘‘ جواب دیا ’’یہ بات نہیں۔ میرے جسم کا کوئی حصہ زخم سے خالی نہیں ۔ میری خواہش تھی مجھے شہادت کی موت نصیب ہو، میں اس لیے رورہا ہوں کہ بستر پر موت آرہی ہے۔‘‘ موت شہادت کی ہو یا دینی غیرت کی آکر رہے گی مگر اسلامی وطن اور اسلامی کاز سے بیوفائی سے اﷲ کی پناہ ! ہر لمحہ ڈرتے رہنا اور اعدائے اسلام کی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی خواہشوں کو پورا کرتے امن اور ایمان کی امید رکھنا خام خیال ہے۔ ہمارے آقا و مولیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم اکیلے ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ ایک دشمنِ دین نے اچانک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلوار اٹھا کر وار کرنا چاہا۔ سید دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس اس وقت دفاع کے لیے کچھ بھی تو نہیں تھا۔ مغروردشمن نے اچانک نعرہ لگایا بتاؤ اب تمہیں مجھ ست کون بچائے گا؟ معافی نہیں مانگی، منت نہیں کی، لب مبارک پر ایک ہی لفظ تھا ’’اﷲ‘‘بس دشمن کے کان میں یہ لفظ پڑتے ہی تلوار زمین پر تھی اور تلوار والا کافر دونوں ہاتھ جوڑے کانپ رہا تھا، منت سماجت کرتے نظر آرہا تھا۔ جی ہاں ساری طاقتوں سے بڑی سپریم پاورز سے بھی سُپر وہی اﷲ رب العزت ہیں۔ زندگی اﷲ کی امانت ہے۔ وقت سے پہلے موت قطعاً نہیں آسکتی۔ سردار جی کی طرح جگنو کی روشنی کو ظالم ڈینگی مچھر نہ سمجھا جائے۔ سلطان ٹیپو کی شہادت والی موت اور سیف اﷲ خالد کی شہادت کی آرزو مسلمان کے لیے مشعل راہ ہے۔ نبی مکرم خاتم المعصومین سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی راہ سنت اور اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ پورے عالم کے مسلمان ’’محمدی نعرہ لگائیں تو ہر خوف ہر خطرہ دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ نعرہ لگائیے اور تمام اسلامی بھائیوں کی طرف سے لگائیے۔ اللّٰہُ اللّٰہُ رَبِّی لَااُشرِکُ بِہٖ شَیْیئًا۔اﷲ ہی میرا رب ہے اورکسی کو میں اس کے برابر نہیں سمجھتا۔