مولانا منظور احمد آفاقی
سرکاررسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں ایک دفعہ ایک گھر کو آگ لگ گئی تھی۔ آپ نے تحقیقات کرائیں ۔ معلوم ہوا کہ رات کے وقت صاحب خانہ چراغ بجھائے کے بغیر سوگیا تھا۔ ایک چوہا اپنے بل سے نکلا۔ چراغ کے پاس پہنچا اور اس میں پڑے ہوئے تیل کو پینے لگا۔ تیل ختم ہوا تو اس نے بتی کا نچلا سیرا منہ میں دبایااور چھت پر چڑھ گیا۔ بتی کا دوسرا سرابد ستور جل رہا تھا۔ چھت گھاس پھوس اور کھجور کی شاخوں کا ایک چھپر تھی، جس نے فورا آگ پکڑلی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے گھر میں پھیل گئی۔ اس موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ان ھذہ النار انماہی عدو لکم، فاذا نمتم فاطفؤھا عنکم‘‘
ترجمہ: ’’آگ تمہاری دشمن ہے، جب سونے لگو تو اسے بھجادیا کرو یہ پابندی صرف صرف آگ پر نہیں لگائی گئی بلکہ ہراس چیز پر ہے جس سے نقصان کا اندیشہ ہو۔ (صحیح بخاری ج ۲ ص ۹۳۱)
ایک آدمی پانی کے لیے ٹونٹی کھولتا ہے پانی نہیں نکلتا لیکن وہ کھولتا ہی چلاجاتا ہے۔ جب ٹونٹی مکمل کھل جاتی ہے اور پانی برآمد نہیں ہوتا تو وہ شخص ٹونٹی کو اسی کھلی ہوئی حالت میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے اس کے بعد جب پانی اپنے وقت پر آتا ہے تو ضائع ہوتا رہتا ہے۔ اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو زیادہ پانی نکلنے کی صورت میں کوئی نقصان بھی ہو سکتا ہے لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ جب ٹونٹی کھولی تھی اور پانی نہیں تھاتو اسے اسی وقت ہی بند کردیا جاتا تاکہ، کوئی نقصان نہ ہو۔
ایک دوسرے شخص نے بجلی کا سوئچ آن کیا تاکہ بلب جلے یا پنکھا چلے لیکن برقی رو معطل تھی لہٰذا اس سوئچ کو اسی وقت ہی آف کردیا جائے۔ لیکن غافل لوگ اس سوئچ کو آن ہی چھوڑ دیتے ہیں اور جب برقی رو بحال ہوتی ہے اور گھر میں کوئی نہیں ہوتا تو بلب جلتا اور پنکھا چلتا رہتا ہے۔ یعنی بجلی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ جو قومی نقصان ہے۔
ایک تیسرے شخص نے گیس کا چولھا وغیرہ آن کیا۔ گیس نہیں نکلا تو اسے بھی وہ اسی وقت آف کردے۔ ورنہ آن رہنے کی صورت میں گیس کے نکلنے سے جو نقصان ہوگا اس کا تصور ہی لرزا دیتا ہے۔ آپ رات کو جب سونے لگیں تو بجلی یا گیس کا ہیٹر بھی بند کردیں۔ آن رہنے کی صورت میں کوئی حادثہ رونما ہوسکتا ہے، بلکہ اس کام میں غفلت برتنے پر کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں۔ کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اور گھر کے گھر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔
آپ نے گیس کے چولھے پر دودھ وغیرہ گرم کرنے کے لیے رکھا۔ جب اسے جوش آیا تو پتیلے سے نکل کر چولھے پر گرا جس سے آگ تو بجھ گئی لیکن گیس نکلتی رہی حتی کہ پورا کچن یا کمرا گیس سے بھر گیا۔ اس صورت حال میں اگر دیا سلائی جلائی جائے کو آگ بھڑک کر پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور ہر چیز جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ ان حادثات اور نقصان پر اپنے ہادی برحق صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کو یاد کیجئے۔’’آگ تمہاری دشمن ہے‘‘۔ پھر اس دشمن سے غافل مت رہیے۔
یہ ۱۹۷۲ء کی بات ہے کہ ایک دن میرے کمرے میں (میری عدم موجودگی میں) ایک چور گھس آیا۔ انگریزی مہینے کی پہلی تاریخ تھی۔ وہ اس نیت سے آیا تھا کہ تنخواہ مل چکی ہے۔ اچھی خاصی رقم ہاتھ آئے گی لیکن میں ابھی تنخواہ کی رقم کمرے میں نہیں لایا تھا۔ اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ اس نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کمرے کی بہت سی اشیاء چرائیں اور بھاگ گیا۔ میں اپنے وقت مقرر پر وہاں پہنچا تو کمرے میں افرا تفری کا عالم تھا۔ کوئی چیز اپنی جگہ پر نہیں تھی۔ رقم کی تلاش میں اس ظالم نے اس قدر ادھم مچایا کہ ایک سنورے سنبھلے کمرے کو اچھا خاصا کباڑ خانہ بنادیا۔ کمرے کے دروازے تو بند تھے لیکن ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی حالانکہ میں اسے بھی بند کر کے گیا تھا۔ میں نے اس کھڑکی کا جائزہ لیا۔ اس کی ایک چٹخنی نیچے فرش پر پڑی تھی۔ چور نے اسی کھڑکی پر دھینگا مشتی کی تھی، نتیجہ اس کی اندر والی چٹخنی جڑ سے اکھڑ گئی۔ اس کے ساتھ ایک دوسری چٹخنی بھی تھی جسے میں نے بند نہیں کیا تھا۔اور ایک تیسری چٹخنی نیچے تھی وہ کھلی ہوئی تھی۔ اس حادثے پر میری آنکھیں کہ کھڑی بنانے والے نے تین چٹخنیاں بے کار فٹ نہیں کی تھیں۔ اس نے میرا بھلا سوچا تھا لیکن مجھے اس کا احساس اس وار دات کے بعد ہوا میں نے اسی دن تہیہ کرلیا کہ آئیندہ کھڑکیوں اور دروازوں کی تینوں چٹخنیاں بند کروں گا تاکہ پھر کسی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ صرف ارادہ ہی نہیں تھا بلکہ میں نے اس پر سختی سے عمل کرنا شروع کردیا۔ رات ہو یا دن، روشنی ہو یا تاریکی جب بھی میں کوئی دروازہ بند کرتا ہوں تو اوپر والی دونوں اور نیچے والی ایک چٹخنی ضرور بند کرتا ہوں۔ میں یہ معمولی کام تقریباً آدھی صدی سے برابر کر رہا ہوں۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں احباب میرے اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور میں بھی انہیں اس کے لیے مجبور نہیں کرتا لیکن اپنے بچوں کو اس کا عادی ضرور کر لیا ہے۔ پہلے تو انہیں میرا یہ طریقہ پسند نہیں تھا وہ کہتے تھے کہ جب ایک چٹخنی سے کام بن جاتا ہے تو دوسری دو پروقت کیوں ضائع کیا جائے؟ رفتہ رفتہ میں نے انہیں فائل کرلیا کہ ایک چٹخنی چور سے کھل سکتی ہے مگر تین چٹخنیاں اسے چٹخنیاں کھلائی ہیں۔ صد شکر کہ انہیں میری منطق سمجھ آگئی اور وہ بھی تین تین چٹخنیاں بند کرنے لگے ہیں۔
میرے ایک داماد اس طریقے پر خاصے چیں بہ جبیں ہوئے۔ کہنے لگے محترم! آپ کھڑکیوں اور دروازوں کو تگنی کا ناچ کیوں نچواتے ہیں؟ ’’توحید‘‘ کا اقرار کرتے ہوئے ’’تثلیث‘‘ پرعمل کس لیے کرتے ہیں؟‘‘ میں نے ان سے بحث نہیں کی بلکہ ان کا ہاتھ پکڑا اور ایک دروازے کے پاس لے گیا۔ میں نے کہا ’’بیٹا اسے بند کیجئے‘‘۔ اس نے دروازہ بند کیا۔ میں نے کہا ’’اس کی اوپر والی دونوں چٹخنیاں بند کریں۔ انھوں نے دونوں بند کیں۔ میں نے کہا ’اب ذرا جھک کر نیچے والی بھی بند کردیں‘‘۔ انھوں نے بلا چون وچرا وہ بھی بند کردی۔ میں نے کہا اب ذرا دروازے کو دھکا لگا کر دیکھیں کہ کس قدر مضبوطی سے بند ہوچکا ہے۔ انھوں نے دھکا لگایا اور کچھ زور آزمائی بھی کی لیکن دروازے میں ذراسی بھی حرکت پیدا نہ ہوئی میں نے کہا چور کیا چور کا باپ اسے نہیں کھول سکتا یہ ہے چوری کا سدباب اور چوروں سے بچاؤ کا طریقہ! انھوں نے بے ساختہ کہا ’’بجا فرمایا آپ نے‘‘ اﷲ الحمد میرے داماد کی آنکھیں بھی کھل گئیں۔
ایک آدمی کے ہاتھ میں مسواک یا ٹوتھ برش ہے۔ اس نے پانی کی ٹونٹی کھول کر کلی کی اور دانتوں کی صفائی شروع کردی۔ اس عمل کے دوران میں ٹونٹی کھلی رہتی ہے اور بالٹیوں کے حساب سے پانی نکل کر ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ ایک غفلت ہے اس کا ازالہ کیجئے۔ اور دوسروں کو بھی سمجھائیے۔ پانی صرف اس وقت کھولیں جب آپ نے کلی کرنی ہو یا ہاتھ منہ دھونا ہو۔ مسواک اور برش کرتے ہوئے پانی کو بند رکھیں۔ اگر آپ پانی کا بل بھی ادا کرتے ہیں تو آپ کو پانی کا یہ ضیاع فورًا بند کردینا چاہیے۔
وضو کرتے ہوئے بھی اس احتیاط کو ملحوظ رکھیں۔ اعضائے وضو کو تین بار دھو لینا کافی ہے۔ اس سے زیادہ پانی کا استعمال شریعت کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں ہے۔ فقہائے کرام نے پانی کے اسراف سے منع کیا ہے۔
بجلی کے بل حد سے زیادہ آنے لگے ہیں میں نے اور میرے اہل خانہ نے طے کر لیا ہے کہ بجلی کی اشیاء بقدر ضرورت استعمال کی جائیں اور جب ضرورت پوری ہوجائے تو بجلی کے سوئچ آف کردیے جائیں۔ چنانچہ جب میں کمرے سے باہر نکلتا ہو ں تو بلب اور پنکھا بند کردیتا ہوں۔ اور بچوں کو بھی تاکید کردی ہے کہ کمرے سے نکلنے والا آخری شخص پنکھے اور بلب بند کردیا کرے ہم رات کے وقت بھی دوتین ضروری بلبوں کے سوا باقی تمام بلب بند کرکے سوتے ہیں۔ اگر آپ کو ہماری یہ چھوٹی چھوٹی احتیاطی تدبیریں پسند آئیں تو آپ بھی انہیں اپنا لیجیے ان کے فائدے سمیٹے اور نقصان سے بچے۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے