حامد کمال الدین
کہتا ہے میں اوپن ایئر میں کیمروں کے آگے جنازے کی اگلی صف کے اندر خواتین کو کھڑا کروں گا۔ مجھے خود دین کی بہت سمجھ ہے تم زیادہ درس مت دو، دین پر کسی کا اجارہ ہے اور نہ مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت۔ یعنی اسلام کو تعبیر (interpret) کرنے کی کھلی آزادی۔ جس کی سمجھ میں جو آئے۔
اور وہ دوسرا جو خدا کو (معاذ اﷲ) اپنے پیچھے سکوٹر پر بٹھا لے جانے کو ’ادب‘ کی دلیل سے جائز کرتا ہے اور اسے بتانے پر کہ اہل اسلام کے ہاں خدائے مالک الملک کی بابت ایسی زبان روا نہیں، اس کی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ خدا اور مذہب کی اپنی تعبیر کیوں نہیں کر سکتا، اسے دین میں کسی اسٹینڈرڈ تعبیر کی پابندی کی کیا ضرورت؟ بلکہ کوئی ’سٹینڈرڈ‘ ہے کہاں، بس جس کو جو سوجھے!
اور وہ تیسرا بھی جسے تمام علمائے امت کے مقابلے پر کسی ایک جدت پسند ’محقق‘ کی پوری امت سے ہٹی ہوئی بات ہی ’دلیل‘ نظر آتی ہے اور اس ’دلیل‘ کے سوا وہ کچھ سننے کا روادار نہیں اور اس بنیاد پر وہ امت کے چودہ سو سال سے چلے آتے اعتقادات اور اعمال کو باطل ٹھہرانے کے مشن پر چل پڑا ہے۔
البتہ……یہ سب ہیں معتبر۔ کیونکہ ان کے پاس ’میڈیا‘ ہے اور ’جدیدیت‘ کے صورت گر اِن سب سے خوش!
مگر یہاں ایک چوتھا آدمی بھی ہے جو ان تینوں پر، اور ان کے علاوہ طبقوں پر، شدید سے شدید فتویٰ لگانا تقاضائے دین سمجھتا ہے۔ وہ بھی دین پر کسی ’علماء کے اجارہ‘ کو اتنی ہی شدت سے رد کرتا ہے! وہ بھی صرف اسی چیز کو ’دلیل‘ مانتا ہے جو خود اسے سمجھ آئے اور ایسی کسی ’دلیل‘ کے سوا کچھ اس کے یہاں قابل اعتناء نہیں؛ نہ علماء اور نہ مین اسٹریم، کوئی چیز خدا کے دین میں معتبر نہیں!
اب یہ دو گروہ ہیں…… ایک نے اپنی اِباحیت کے سرے پر ’دلیل‘ باندھ رکھی ہے۔ دوسرے نے اپنے تشدد کے دہانے پر ’دلیل‘ فٹ کروا رکھی ہے۔ ’دلیل‘ ہر کسی کی اپنی اپنی؛ اس پر کسی کا ’اجارہ‘ ہے نہیں۔ علمائے امت سے پوچھنے اور تعبیرِ دین میں اُن کے ہاں چلے آنے والے سٹینڈرڈز کا پابند رہنے پر نہ وہ فریق آمادہ اور نہ یہ۔ مین سٹریم (روایتی مسلم) طبقے اُس سے بھی پریشان اور اِس سے بھی۔ دونوں کا منہج ایک: ’میں خود دین کو جیسے سمجھوں؛ کوئی مجھے بتانے والا کون ہوتا ہے‘!
کیا خیال ہے ان دونوں کو وہ چیز دے دی جائے جس پر چودہ سو سال سے علمائے امت کا حق چلا آتا ہے؟
مگر اس سے انکار اِس اکیسویں صدی میں ایک مشکل کام ہے۔ یوں کر لیتے ہیں ’کسی سے نہ پوچھنے‘ کا یہ حق اُس ایک فریق کو دے دیتے ہیں جس سے میڈیا اور جدت پسند راضی ہیں۔ وہ خواتین کو نماز کی اگلی صف میں لا کھڑا کریں بلکہ نیویارک کی طرح لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور میں کسی دن عورتوں سے جمعہ پڑھوا دیں، اگلی صفوں میں عورتیں مرد کندھا ملائے ساتھ ساتھ۔ وہ خدا کی بابت اپنی اُس تمام یاوہ گوئی کو ’ادب‘ کی دلیل سے جائز کر لیں اور اس کے نتیجے میں یہاں خدا اور اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کے متعلق ہذیان بولنے کی کھلی رِیت ہو جائے۔ یہ کیسا بھی نیا چاند چڑھا دیں۔ ’’دین پر کسی کا اجارہ نہ ہونے‘‘ کی دلیل سے ان کے لیے یہ سب جائز۔ البتہ وہ دوسرا فریق جو ان بد زبانوں کی بابت شدت کی راہ چلنے کو ’دلیل‘ کا تقاضا سمجھیں اور خود اپنے ’اجتہاد‘ سے ان سے متعلق کوئی تصرف کریں ان کا ’حقِ اجتہاد‘ جہالت اور ناجائز!
بھئی اگر قاعدہ یہ ہے کہ دین کی شرح و تعبیر ہر کسی کا حق ہے اور سبھی اپنے اپنے اطمینان کی شرح و تعبیر پر چلنے کے مجاز، تو پھر جسے جو چیز ’دلیل‘ سے سمجھ آئے وہ اس پر چل کر کیوں تقربِ خداوندی حاصل نہ کرے!؟ مگر نہیں۔ دین کی تعبیر پر اجارہ کسی کا نہیں لیکن ایسا مشکل اور ذمہ داری کا کام ’ہمارے‘ سوا کسی کے کرنے کا نہیں! سوائے یہ کہ دوسرے بھی وہ ’سمجھ کی بات‘ کر لیں جو ہم کرتے ہیں، ہاں پھر یہ ان کا بھی حق ہے، بلکہ اس پر کوئی پابندی ہی نہیں ہے، بلکہ ان پابندیوں کے خلاف ہی تو ہماری یہ ساری تحریک ہے! مطلب یہ کہ مرکز ’ہم‘ ہیں۔ (ایک ادبی و ابلاغی سٹیٹس کو۔ وَھٰذِہِ الْأَنْھَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِی، أَفَلَا تُبْصِرُونَ) وہی مغرب والی تفسیر: ’آزادی‘ کا مطلب برہنہ پھرنے والوں کی آزادی نہ کہ تن ڈھانپ کر چلنے والوں کی! اس ایک بات کو سمجھ لیجیے، پھر یہ ’آزادی‘ ہے البتہ سب کے لیے! بلکہ پورے ایک مسلک کا نام ’آزادی‘ اور ’لبرٹی‘ ہے، جس کے دروازے پوری دنیا کے لیے کھلے ہیں۔ اپنے دھرم کی سُبکی یا پامالی کوئی کیسے ہونے دے!
یعنی ایک چیز جس کا نام دھونس ہے اسے ہی آپ ایک مخصوص طبقے کے حق میں آزادی اور لبرٹی مانیے اور اس کا احترام اپنے اوپر فرض ٹھہرا لیجئے! غرض وہی پرانی لٹھ جو دنیا کے ہر دنگے اور فساد میں کام آتی رہی، اُسی کا نام آج چونکہ ’رواداری‘، ’وسیع نظری‘ اور ’کشادہ خیالی‘ رکھ دیا گیا ہے (خاص اس تفسیر کے ساتھ جو ’’میں‘‘ ہی کر سکتا ہوں اور ’’میرے‘‘ سوا کوئی نہیں) لہٰذا توقع رکھیے کہ جھگڑے اور فساد کی وہ ازلی جڑ ہی اس تبدیلیِ نام کی برکت سے آج دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دینے والی ہے!
حضرات جاگیے! مذہب کے نام پر نئے نئے چاند چڑھانے والے یہ دونوں فریق (جدت پسند و شدت پسند) پوری قوم کو ایک ناقابلِ اندازہ مصیبت میں جھونک دینے والے ہیں، درحالیکہ قوم اس کی ضرورت مند نہیں۔ یہ دونوں ’بیانیے‘ معاشرے میں ایک دوسرے کے وجود سے باقاعدہ تقویت پکڑتے ہیں۔ پھر ان دونوں کے ’ڈائلیکٹ‘ میں قوم ایک پنڈولم بنتی چلی جاتی ہے۔ ان کو معاشرے میں پذیرائی ملنا یہاں ایک بڑی ہڑبونگ کا پیش خیمہ ہو گا، آپ کی قوم اس کی متحمل ہرگز نہیں۔ عقلاء کو مل کر ان دونوں کو غیر موثر بنانا ہوگا۔
نوٹ: کوئی فتویٰ کبھی بھی اگر مین اسٹریم علماء کی طرف سے آیا ہے تو نہ صرف وہ ہماری اس تنقید کا ہدف نہیں ہے بلکہ اس کی تائید اور تثبیت ہمارا مسلک ہے۔ (21 ؍ فروری 2018ء)