مولانا زاہدالراشدی
اب سے ڈیڑھ سو برس قبل جب دینی مدارس کے قافلہ کا سفر شروع ہوا تو تاریخ کے سامنے یہ منظر تھا کہ متحدہ ہندوستان ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں اہل وطن کی ناکامی بلکہ خانماں بربادی کے زخموں سے چور ہے ، خاص طور پر مسلمانوں کا ملی وجود اپنی تہذیبی روایات و اقدار اور دینی تشخص کے تحفظ و بقا کے لیے کسی اجتماعی جدوجہد کی سکت کھو چکا ہے۔ بیرونی استعمار کے ہاتھوں اپنے تعلیمی، سیاسی، معاشی، انتظامی، معاشرتی و ثقافتی تشخص اور ملی اداروں سے محروم ہو کر اس خطہ کے مسلمان پھر سے ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر کھڑے ہیں۔ اور ماضی میں اندلس اور اسپین کے تلخ تجربہ کا پس منظر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے مستقبل کے حوالہ سے ہر صاحب فکر و دانش کو بے چین کیے ہوئے ہے۔
اس فضا میں چند اصحاب دل اور ارباب فکر و دانش نے ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کے تحفظ، قرآن و سنت کی تعلیم کے ساتھ ان کی وابستگی، اور ان کی تہذیبی و دینی اقدار کا ماحول برقرار رکھنے کے لیے نئی جدوجہد کا آغاز کیا، اور اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر 1866ء میں دیوبند کے قصبہ سے اپنا سفر شروع کر دیا۔ یہ ان کے خلوص و ﷲیت کی برکت تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا یہ مشن جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں پھیلتا چلا گیا۔ ابتدائی دور میں دیوبند کی ایک دینی درسگاہ اور اس کے ساتھ مظاہر العلوم سہارنپور، مدرسہ قاسمیہ مراد آباد اور معین الاسلام ہاٹ ہزاری جیسے چند ادارے تھے، مگر آج جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی لاکھوں مدارس پر مشتمل ایک وسیع نیٹ ورک علمی، فکری، اور تہذیبی دائروں میں پورے عزم و استقلال کے ساتھ مصروف کار ہے ، اور تاریخ ان مدارس کے اس عظیم کردار کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ ان دینی درسگاہوں نے:
٭ اس خطہ کو اسپین بننے سے بچا لیا جس کا ذکر مفکر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے اسپین کے دورے سے واپسی پر ان الفاظ میں کیا کہ ان مدارس کو اسی حالت میں رہنے دو اور انہیں اسی طرح اپنا کام کرنے دو۔ یہ مدارس اگر خدانخواستہ باقی نہ رہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ وہ میں اپنی آنکھوں سے اسپین میں دیکھ آیا ہوں۔
٭ قرآن و سنت اور ان سے متعلقہ ضروری علوم کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور انہیں بحفاظت اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں کامیاب رہے۔
٭ مسجد و مکتب کے ادارے کو امام، خطیب، مدرس، حافظ، قاری، اور مفتی وغیرہ کی صورت میں رجال کار فراہم کر کے عام مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھا۔
٭ اسلامی عقائد و روایات کے خلاف لادینیت کی یلغار کا مقابلہ کیا اور نہ صرف عقائد و احکام بلکہ تہذیبی اقدار و روایات کے معاشرتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔
٭ بیرونی استعمار کے تسلط سے نجات اور آزادی کی جدوجہد میں نہ صرف علمی و فکری راہ نمائی مہیا کی بلکہ قائدین اور کارکنوں کی ایک وسیع کھیپ تسلسل کے ساتھ فراہم کی جن کی قربانیوں کے نتیجے میں وطن عزیز آزاد ہوا اور دنیا کے نقشے پر ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک نئی اسلامی ریاست وجود میں آئی۔
٭ تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ اصلاح و ارشاد، دعوت و تبلیغ، اور وعظ و نصیحت کا ہر سطح پر ایسا نظام دیا جس کی برکات سے پورا معاشرہ شب و روز مستفید ہو رہا ہے۔
٭ مسلمانوں میں اپنے اس تہذیبی امتیاز اور دینی تشخص کا شعور اجاگر کیا جو بالآخر دو قومی نظریہ اور مسلمانوں کے ایک الگ ملک کے قیام کی اساس ثابت ہوا۔
٭ عام مسلمانوں کی دینی راہ نمائی اور ان کی احکام شریعت کے ساتھ وابستگی کو قائم رکھنے کے لیے ان دینی مدارس کے سینکڑوں دارالافتاء مسلسل مصروف کار رہے۔ اور انہوں نے فتویٰ و اجتہاد کے اس تسلسل کو برقرار رکھا جو وقت اور حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ احکام شریعت کی تطبیق و ترویج کا سلسلہ جاری رکھنے کا ذریعہ بنا۔
٭ ادب و خطابت، صحافت، شعر و شاعری اور ابلاغ کے دیگر شعبوں میں نامور شخصیات پیدا کیں جنہوں نے دینی و قومی مسائل پر قوم کی جرآتمندانہ راہ نمائی کی۔
٭ کسی قسم کی سرکاری امداد و معاونت سے بے نیاز رہ کر محدود وسائل بلکہ بے سروسامانی کے ماحول میں عالم اسلام کو ایک ایسا وسیع، منظم، مربوط اور متحرک نظام تعلیم دیا جس کی سادگی، اثر پذیری، قناعت پسندی، اور پیہم سعی آج پوری دنیا کے تعلیمی ماحول کے لیے قابل رشک ہے، وغیر ذلک۔
دینی مدارس کی یہ محنت و کاوش گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے ریاستی سرپرستی اور تعاون کے ماحول میں نہیں بلکہ حوصلہ شکنی، کردار شکنی، اور مخاصمت کی فضا میں جاری ہے جو بیرونی استعمار کے دور میں تو قابل فہم تھی، لیکن اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کے تہذیبی اور دینی تشخص کی بقا کے عنوان سے وجود میں آنے والے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں بھی اشرافیہ اور مقتدر طبقات کا اسی روش پر قائم رہنا تعجب خیز بلکہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے بعد ہمارے مقتدر طبقات کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملک کے ریاستی تعلیمی نظام کو نو آبادیاتی ایجنڈے اور ماحول سے نجات دلا کر ایک آزاد، خودمختار اور باوقار اسلامی ملک کے طور پر قرآن و سنت کے علوم، عصری تعلیمی و فنی ضروریات، اور مسلمانوں کی شاندار تہذیبی روایات و اقدار کی بنیاد پر از سرِنو استوار کرتے۔ مگر ریاستی نظام تعلیم کو صحیح رخ پر لانے کی بجائے ریاستی اداروں کی توجہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک دینی تعلیم دینے والے اداروں اور طبقات کی کردارکشی، حوصلہ شکنی، اور ان کے کام میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالنے پر مرکوز ہے۔ جبکہ دینی مدارس کے خلاف وقفہ وقفہ سے کی جانے والی ریاستی کاروائیاں نشاندہی کر رہی ہیں کہ عالمی استعمار کی طرح ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ بھی دینی مدارس کو کمزور کرنے اور انہیں اپنے تاریخی معاشرتی کردار سے محروم کردینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اور عالمی سیکولر قوتیں، لابیاں اور میڈیا اس مشن میں ان کا پوری طرح معاون ہے۔
دینی مدارس کے لیے یہ صورت حال نئی نہیں ہے۔ وہ تو گزشتہ ڈیڑھ صدی سے اسی ماحول میں کام کرتے آرہے ہیں اور ان کاروائیوں نے ان کا سفر روکنے کی بجائے ہمیشہ ان کے لیے مہمیز کا کام دیا ہے جو دینی مدارس کی وسیع تر کارکردگی کی موجودہ صورت حال سے واضح ہے۔ البتہ اس قسم کی کاروائیاں خود ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی اسلام اور نظریہ پاکستان کے ساتھ وابستگی کے حوالہ سے سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود دینی مدارس کے منتظمین، معاونین، اساتذہ اور طلبہ اپنے اس عزم پر بحمد اﷲ تعالیٰ قائم دکھائی دیتے ہیں کہ
٭ مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھنے، انہیں قرآن و سنت کی ضروری تعلیم فراہم کرنے، اسلامی عقائد و روایات کے تحفظ، اسلام کے خلاف فکری و تہذیبی یلغار کے مقابلہ، وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی جمہوری اسلامی ریاست بنانے، اور مسجد و مدرسہ کے معاشرتی کردار کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔
٭ وہ وطن عزیز کی سا لمیت و استحکام، قومی خود مختاری، ملک کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے تحفظ، اور ملی و قومی مقاصد کے لیے پر امن قانونی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اس سے حسب سابق مکمل برأت کا اعلان کرتے ہیں، دینی مدارس پر بے بنیاد الزامات اور معاندانہ کاروائیوں کو مسترد کرتے ہیں اور لا دینی تہذیب، اباحیت مطلقہ، اور مذہب بیزار فکر و ثقافت کا علمی و فکری تعاقب ہر سطح پر اور ہر دائرہ میں جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔
٭ وہ حکومت پاکستان، ریاستی اداروں اور مقتدر طبقات کی موجودہ روش کو اسلام اور نظریہ پاکستان کے منافی سمجھتے ہوئے ان سے تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں اور حکومتی پالیسیوں کو اسلام، دستور پاکستان، اور عوام کی خواہشات کے دائرے میں لانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
٭ وہ ملک کے تمام مکاتب فکر اور دینی جماعتوں کی قیادتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ مشترکہ دینی و قومی مقاصد کے لیے باہمی رابطوں اور اتحاد کو مستقل اور یقینی بنانے کی طرف آگے بڑھیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر یا لبرل ملک بنانے کے اعلانات اور عزائم کو متحد ہو کر ناکام بنا دیں گے۔
٭ وہ ملک کی سلامتی، امن عامہ کے قیام و استحکام، اور بیرونی دشمنوں کے مقابلہ کے لیے وطن عزیز کی مسلح افواج پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں اور ان مقاصد کے لیے ان کے اقدامات اور کاروائیوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی نظریاتی اور تہذیبی سرحدوں کی حفاظت بھی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اور ہم سب کو مل جل کر وطن عزیز اور پاکستانی قوم کے خلاف عالمی تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
٭ وہ دینی مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور کارکنوں کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیمی و ثقافتی جدوجہد میں دستور و قانون اور امن و سلامتی کے تقاضوں کی مکمل پاسداری کریں، امن عامہ کے قیام کے لیے ریاستی اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں، اور شر پسند عناصر کو کسی طرح بھی اپنی صفوں میں گھسنے کا موقع نہ دیں۔
٭ وہ یہ اعلان بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس اور ان کے اساتذہ و طلبہ کی دینی جدوجہد کا دائرہ صرف اور صرف تعلیم و تدریس، اسلامی عقائد کا تحفظ، اور مسلمانوں کی تہذیبی ثقافت و ماحول کی بقا و حفاظت ہے جو تمام تر رکاوٹوں کے باجود جاری رہے گی۔ ملک کی انتخابی و گروہی سیاست اور اقتدار کی کشمکش سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک کی تمام دینی اور اسلام پسند سیاسی جماعتیں ان کے لیے اس حوالہ سے یکساں ہیں اور وہ سب سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ دینی تعلیم کے فروغ اور اسلامی عقائد و ثقافت کے تحفظ کے لیے دینی مدارس کا ساتھ دیں گی۔