محمد عرفان ندیم
دینی مدارس کے باب میں، کیا ایک بار پھر کوئی چال چلی جا رہی ہے، میرا اضطراب یہی ہے کہ یہ چال بہت جلد امر واقعہ کا روپ دھار لے گی۔اس خطہ برصغیر میں دینی مدارس کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے، 1857 کی جنگ آزادی سے تاامروز،ملی و قومی مسائل میں دینی مدارس اور خانقاہوں نے ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی انہی مدارس و خانقاہوں کے فیض یافتگان کی مساعی کا نتیجہ تھی۔ اس جنگ کے تنائج و ثمرات پر کلام ہو سکتا ہے مگر اس کے منصوبہ سازوں اور شرکاء کی نیت و اخلاص پر کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ یہ دارالعلوم دیوبند کا ہی فیضان تھا کہ بیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر میں ’’ریشمی رومال‘‘ جیسی تحریکوں نے جنم لیا، ابوا لکلام آزادجیسی عبقری شخصیات بھی انہی مدارس کی مرہون منت تھیں، وہی ابوالکلام آزادؔ جس نے سیاست کی بے رخی کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہا تھا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
پچھلے دنوں مدارس کے طلبا کے اعزاز میں ہونے والی ایک تقریب دیکھ کر ابو الکلام بہت یاد آئے، ہمارے ہاں کچھ عرصے سے پو لیٹیکل انجینئرنگ کا کام بحسن و خوبی آگے بڑھ رہا ہے، اس سارے پروجیکٹ کو کون دیکھ رہا ہے اور ہدایات کہاں سے جاری ہو رہی ہیں یہ امر اب مخفی نہیں رہا۔سب ریاستی ستونوں کوایک ہی چھڑی سے ہنکایا جا رہا ہے، احتساب اور کرپشن کے الزامات کے بلڈوزروں اور رولروں سے سب راستے ہموار کئے جا چکے ہیں۔جن سے مزاحمت کا خدشہ تھا انہیں یکے بعد دیگرے نا اہل یا پس دیوار زنداں کیا جا چکا، اب میدان مطلقاً خالی ہے، اپنی مرضی سے جس سمت کو چاہیں اس نظام کو ڈھال لیں، بس دو چار مدھم سی آوازیں ہیں، ان میں سے بھی اگرکسی نے لب کشائی اور چیخنے چلانے کی جرائت کی تو نیب کا شکنجہ کس دیا جائے گا۔ کوئی ہے جو پچھلے ایک سال کی سیاست سے عبرت کی کوئی چھٹانک برآمد کر سکے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
اس گھٹن زدہ ماحول میں،اس جبر کے خلاف اگر کسی طرف سے کوئی توانا آواز اٹھ رہی ہے تو وہ ایک ہی شخص ہو سکتا ہے، مولانا فضل الرحمان۔ میں ان کی سیاسی پالیسیوں کا کبھی معترف رہا ہوں اورنہ ہی انہیں مثالیت پسندی کا درجہ دے سکتا ہوں،لیکن سچی بات ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے میں ان کی سیاسی بصیرت کا قائل ہو گیا ہوں۔ وہ ماضی میں ارباب سیاست کو جس خطرے سے خبرادر کرتے رہے، یہ اسی غفلت و کوتاہی کا شاخسانہ ہے کہ اب یہ تمام سیاستدان قید و قفس میں پڑے زندگی کے دن گن رہے ہیں۔ آج وہ سوچتے تو ہوں گے اگر مولانا کی تنبیہ پر کان دھر لیتے تو آج پس دیوار زنداں، کسی کونے میں بیٹھ کر ازکار رفتہ کسی کتاب کی ورق گردانی نہ کر رہے ہوتے۔
مولانافضل الرحمان اس معرکے کا آخری مورچہ ہیں اور یہ مورچہ کسی صورت سر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، ایسا نہیں کہ اس مورچے کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، دھونس اور دھاندلی، مقدمہ سازی اور نیب بازی ہر حربہ آزما لیا گیا مگر یہ دیوار گرنے کانام نہیں لے رہی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے ان دانشوروں پر جومولانا کو ڈیزل کا طعنہ دیتے ہیں، اگر اس الزام میں ذرہ بھر بھی صداقت ہوتی تو نیب،جو صرف شریفوں کا احتساب کرتا ہے مولانا کب کے اس کے ریڈار میں آ چکے ہوتے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اگر مولانا کے دامن پر کرپشن کا ادنی سا بھی داغ ہوتا تو آج وہ اڈیالہ یا کوٹ لکھ پت جیل کی کسی کال کوٹھڑی میں بیٹھے،جمعیت کی قدیم فائلوں کا مطالعہ کر رہے ہوتے، اہلِ اقتدار کورنجش مگر یہی ہے کہ تمام تر حربو ں کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔
مولانا روز اول سے ہی اس سارے کھیل کے باغی چلے آ رہے ہیں، انہوں نے اول دن سے ہی پولیٹیکل انجینئرنگ کو ماننے سے انکا رکر دیا تھا، شہباز شریف کی مصلحت پسندی اور بلاول کی سیاسی عدم بلوغت کا نتیجہ ہے کہ مولانا اب تک کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکے، اب لگتا یہی ہے کہ اس میدان کارزار میں مولانا کو اکیلے ہی کودنا پڑے گا، اس میدان میں نکلنے کے لیے جس سیاسی بصیرت اور حوصلے کی ضروت ہے دونوں اس سے تہی دست ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ موجودہ سیاست کا سارا بار مولانا کے کندھوں پر آن پڑاہے، وہ اس پولیٹیکل انجینئرنگ کے خلاف مزاحمت کا واحد اور آخری استعارہ ہیں۔ منصوبہ بندوں کی ساری توجہ اب اس نکتے پر مرکوز ہے کہ اس استعارے کو کیسے مٹایا جائے۔ مولانا کی اصل قوت مذہبی طبقہ اور دینی مدارس ہیں اس لیے گزشتہ کچھ عرصے سے نظر التفات اب دینی مدارس کی طرف ہونے لگی ہے۔
اﷲ کرے میرا تاثر غلط ہو مگر سیاست کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں جو کسی اخلاقی بندھن سے آزاد اور ضمیر کے نگہبان سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ اگر تو منظر نامہ وہی ہے جو بادی النظر میں محسوس ہو رہا ہے تو قومی اداروں کا جو تھوڑا بہت وقار بچا تھا اس سیاسی کھیل سے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ کوئی حسن ظن رکھے بھی تو کہاں تک، جب احوال و قرائن سے کوئی بات واضح ہوجائے اور ماضی کے تجربات بھی سامنے ہوں تو حسن ظن کی گنجائش کہاں بچتی ہے۔اﷲ ابو الکلام آزاد کی روح کو علیین میں جگہ دیں برسوں قبل سیاست کی نفسیات کا تجزیہ فقط ایک جملے میں کر دیا تھا’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔‘‘
گزشتہ ایک سال سے یہ قوم جس طرح تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی ہے یہ کوئی نیک شگون نہیں، پہلے یہ انتشار صرف سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں تک محدود تھا اب مذہب اور اہل مذہب بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ ارباب مدارس کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر قدم سو چ سمجھ کر اٹھائیں، ماضی میں ان کے ساتھ جو ہاتھ ہوا اسے گزرے کچھ ذیادہ وقت نہیں گزرا۔ وہ خو د پر لگائے جانے والے الزامات کو آج تک دھو نہیں پائے،کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی سادگی اوربزرگی ایک بار پھر ان کے ساتھ ہاتھ کر جائے۔ سادگی، بزرگی اور حسن ظن اچھی صفات سہی مگر حالات کا ادراک اوراپنے عصر کے تقاضوں کو سمجھنا اس سے بھی زیادہ اچھی اورکامل و اکمل صفات ہیں۔