مولانا زاہد الراشدی
گزشتہ دنوں ایک دوست نے واٹس ایپ پر جمعیت علما ہند صوبہ دہلی کے صدر اور مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی کے مہتمم مولانا محمد مسلم قاسمی کے اس فتوی کا ایک صفحہ بھجوایا ہے جو ائمہ مساجد اور مدارس و مکاتب کے اساتذہ کی تنخواہوں کے بارے میں ہے اور اس پر کچھ دیگر حضرات کے دستخط بھی ہیں۔ اس کا ایک حصہ ملاحظہ فرما لیجئے: کل قیامت کے دن یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ مسجد میں ماربل، اے سی، بہترین قالین اور عمدہ جھاڑ فانوس وغیرہ لگائے تھے یا نہیں؟ لیکن اگر اتنی کم تنخواہ دی جس سے روزمرہ کی عام ضروریات زندگی بھی پوری نہ ہو سکیں تو یہ ان کی حق تلفی ہے جس کا حساب یقیناًاﷲ کے ہاں دینا پڑے گا۔ مسجد و مدرسہ کی آمدنی کے سب سے زیادہ مستحق امام،مؤذن اور اساتذہ ہیں۔ یہ جتنے اچھے اور خوشحال رہیں گے مسجد اور مدرسوں کا نظام اتنا ہی اچھا چلے گا۔ صرف امام کی تنخواہ دے کر امام پر اذان کی بھی ذمہ داری ڈالنا اور جھاڑو وغیرہ دینے کے کام پر مامور کرنا یہ ان کی توہین ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حاملین قرآن (قرآن کا علم رکھنے والے) کی تعظیم کرو، بے شک جس نے ان کی عزت کی اس نے میری عزت کی (الجامع الصغیر1/114)۔ تنخواہ اچھی دینا بھی ان کی عزت کرنے میں داخل ہے اور حدیث میں ہے کہ حاملین قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے اور اس کو بڑھاوا دینے والے ہیں، جس نے ان کی تعظیم کی اس نے اﷲ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی توہین کی اس پر اﷲ کی لعنت ہے (الجامع الصغیر1/142) تنخواہ کم ہونے اور ضروریات زندگی زیادہ ہونے کی وجہ سے امام اور اساتذہ ہو کر وہ کسی مالدار صاحب خیر سے سوال کرنے کی جرات کر بیٹھتے ہیں اور بعض دفعہ سوال پورا نہ ہونے کی صورت میں سخت ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔ ایسے حالات میں تنخواہ نہ بڑھا کر انہیں پریشانی میں ڈالنا بھی ایک طرح کی توہین ہی ہے۔ لہذا امام اور اساتذہ کی تنخواہیں ان کے گھر کے خرچہ کے مطابق موازنہ کر کے مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھاتے رہنا چاہیے۔ سال پورا ہونے کا انتظار یا تنخواہ بڑھانے کے معاملہ میں تنگ دلی سے کام لینا یا دیگر نامناسب شرط و قید لگانا صحیح نہیں۔ (مستفاد از فتاوی رحیمیہ قدیم 535/4) یہ فتوی 17 اپریل 2018 کو جاری کیا گیا ہے اور اس میں ہمارے دینی ماحول کے ایک ایسے پہلو کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور پورے جنوبی ایشیا کے عمومی ماحول میں دن بدن سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمارے ہاں یہ غلط تصور رواج پا گیا ہے کہ دینی خدمات کسی معاوضہ کے بغیر سرانجام دینی چاہئیں اور کسی دینی خدمت پر وظیفہ یا تنخواہ کا تقاضہ کرنا ثواب اور اجر سے محرومی کا باعث بن جاتا ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی خدمت ان کے سپرد کی اور اس کی انجام دہی کے بعد آنحضرتؐ نے انہیں کچھ حق الخدمت پیش کیا جو انہوں نے یہ کہہ کر قبول کرنے میں تامل کیا کہ میں نے تو یہ خدمت اﷲ تعالی کی رضا کے لیے سرانجام دی ہے اور میری مالی حالت بہتر ہے مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جناب رسول ؐاﷲ نے ان کی یہ بات قبول نہیں کی اور فرمایا کہ خذہ و تمولہ اس کو وصول کرو اور اپنے مال میں شامل کرو، اس کے بعد اگر تمہاری مرضی ہو تو صدقہ کر دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دینی خدمت پر حق الخدمت ادا کرنا ضروری ہے، اسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے دینی خدمت کا ثواب و اجر ختم نہیں ہو جاتا۔ اسی طرح یہ بات ہمارے ہاں معمول بن گئی ہے کہ دینی خدمات سرانجام دینے والوں کی تنخواہیں اور دیگر سہولتیں عام طور پر کم از کم معیار پر مقرر کی جاتی ہیں۔ کچھ خدا ترس اور معیاری دینی مدارس و مراکز اساتذہ اور ائمہ و حفاظ کو معقول مشاہرے دیتے ہیں اور سہولتیں بھی مہیا کرتے ہیں مگر ان کی تعداد اکثریت میں بہرحال نہیں ہے۔ جبکہ عمومی ماحول یہ ہے کہ جس شخص کو ہم امامت، اذان، تعلیم قرآن کریم، دینی تدریس اور اس نوعیت کی کوئی ذمہ داری سونپ رہے ہیں اور اس کے اوقات کار کو اس کام کے لیے مخصوص کر رہے ہیں اس کا وظیفہ مقرر کرتے وقت ہم اس بات کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے کہ اس سے اس کی اور اس کے کنبہ کی روزمرہ کی ضروریات اس علاقہ کے عرف کے مطابق باوقار طریقہ سے پوری ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ ضروریات اور اخراجات کے تعین میں قرآن کریم نے عرف کو معیار قرار دیا ہے اور اس کی پابندی کا حکم دیا ہے۔ متاعا بالمعروف کے ارشاد گرامی کے ساتھ ساتھ یتیم کے مال کی نگرانی اور انتظام کرنے والے کے لیے قرآن کریم میں فلیاکل بالمعروف فرمایا گیا ہے۔ جبکہ اس عرف کا دائرہ متعین کرتے وقت ہمیں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے اس ارشاد گرامی کو سامنے رکھنا ہوگا جو انہوں نے خلیفہ اول حضرت صدیق اکبرؓ کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کرتے وقت صحابہ کرام ؓ کی مشاورت کے دوران فرمایا تھا کہ جس سے وہ مدینہ منورہ کے ایک عام شہری کی طرح باعزت زندگی گزار سکیں اور اسی پر فیصلہ ہوگیا تھا۔ اس لیے مؤذن، امام، خطیب، مدرس، قاری اور دینی خدمت کے مختلف شعبوں کے رجال کار کا وظیفہ اور سہولتیں مقرر کرتے وقت یہ بات بہرحال ملحوظ رکھنا ہوگی کہ وہ جس علاقہ میں رہتے ہیں وہاں کے عمومی ماحول کے مطابق ان کے کنبہ کی ضروریات زندگی اس وظیفہ سے باعزت طور پر پوری ہو جائیں، ورنہ یہ نا انصافی اور حق تلفی شمار ہوگی۔ ایک اور بات بھی ہمارے ہاں کہہ دی جاتی ہے کہ جب ایک امام اور مدرس خود اس تنخواہ پر راضی ہے اور اسے قبول کر رہا ہے تو پھر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں تامل ہے اس لیے کہ ہمارے ہاں کسی شخص کو قاری اور عالم کے طور پر تعلیم و تربیت دینے کے دوران اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ دینی خدمت کے سوا کوئی اور کام نہ کر سکے بلکہ اس کے کوئی متبادل ہنر یا ذریعہ روزگار سیکھنے کی عام طور پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔جس کے نتیجے میں ایک عالم دین کوئی متبادل ذریعہ اختیار کرنے کی اول تو استعداد اور صلاحیت ہی نہیں رکھتا اور اگر کوئی شخص اپنی ذاتی محنت اور توجہ سے ایسا کر لیتا ہے تو اسے خود اپنے اساتذہ، ساتھیوں اور ماحول کی طرف سے تحقیر و استخفاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ معاشرتی طور پر مجبور ہو جاتا ہے کہ دینی خدمت ہی کے دائرے میں رہے اور اسی کو معاش کا ذریعہ بنائے، چنانچہ اس مجبوری کے باعث وہ کم وظیفے پر راضی ہو جاتا ہے کہ چلو کچھ نہ ہونے سے تو یہ بہتر ہے۔ تو کیا اس کی یہ رضا شرعا رضا شمار ہوگی؟ صاحبِ ہدایہ نے حضرت امام ابوحنیفہ سے یہ اصول نقل کیا ہے کہ لا رضا مع الاضطرار یعنی اضطرار اور مجبوری کی حالت کی رضا کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں آج کی مساجد و مدارس میں اس کیفیت کے ساتھ دینی خدمات سرانجام دینے والے زیادہ تر حضرات اس کا اولین مصداق ہیں جو مسلسل زیادتی اور حق تلفی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور پہلو پر بھی غور فرما لیں کہ بعض حضرات سادگی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ فارغ اوقات میں کوئی اور کام بھی تو کر سکتے ہیں۔ اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ بات زیادہ تر ان لوگوں کی طرف سے کی جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ علما کرام کو دینی خدمات تو بلامعاوضہ سرانجام دینی چاہئیں اور فارغ اوقات میں متبادل ذریعہ اختیار کر کے روزگار کا بندوبست کرنا چاہیے۔ یہ حضرات آج کے اس مسلمہ بین الاقوامی ضابطے کو بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی ڈیوٹی کے اوقات کار کا تعین ضروری ہے جو عام طو رپر یومیہ چھ یا آٹھ گھنٹے ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس کے اوقات کا اس کی گھریلو ضروریات، آرام، بیوی بچوں اور تفریح وغیرہ کے لیے فارغ ہونا اس کا بنیادی انسانی حق ہے جو اس کی ضروریات زندگی میں شامل ہے۔ اوقات کار کے حوالہ سے آج کے مسلمہ قانون کو اگر سامنے رکھا جائے جس سے اسلام بھی انکار نہیں کرتا تو ہمارے اساتذہ، ائمہ اور دینی خدمت کے دیگر رجال کار پہلے ہی اس دائرہ سے زیادہ وقت دے رہے ہیں اس لیے اس سے ہٹ کر ان پر کسی مزید ڈیوٹی اور کام کی ذمہ داری ڈالنا ان کی حق تلفی اور ان کے ساتھ نا انصافی کی بات ہوگی۔ دہلی کے مولانا مفتی محمد مسلم قاسمی کے مذکورہ فتوی کو دیکھ کر یہ چند معروضات پیش کرنے کا موقع مل گیا ہے ورنہ یہ مسئلہ بہت زیادہ توجہ اور فکرمندی کا تقاضہ کرتا ہے جو اہل فتوی کی دینی ذمہ داری میں شامل ہے بلکہ اس طرف توجہ نہ دینے والے حضرات بھی میری طالب علمانہ رائے میں اس نا انصافی میں شریک ہی سمجھے جائیں گے۔ رمضان المبارک کے رخصت ہونے کے بعد شوال المکرم کے دوران ہمارے ہاں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے جس میں مدارس و مساجد کے سال بھر کے معاملات طے پاتے ہیں اس لیے دینی مدارس کے وفاقوں، دینی جماعتوں، افتا و ارشاد کے بڑے مراکز اور مسلمہ علمی شخصیات سے گزارش ہے کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ فرمائیں اور مساجد و مدارس کے شعبوں میں ان کے منتظمین کے لیے کچھ باقاعدہ اصول و ضوابط وضع کر کے ان کی راہنمائی کریں تاکہ وہ ان کی روشنی میں ائمہ، مدرسین، مؤذنین اور دینی خدمات کے دیگر رجال کار کے ساتھ مسلسل ہونے والی اس نا انصافی کی تلافی کے لیے کوئی معقول راستہ اختیار کر سکیں۔