محمد یوسف شیخوپوری
ایک معاشرتی اصول ہے کہ جب ایک آدمی دوسرے آدمی کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرتا ہے اور اس حیاتِ مستعار میں صرف خالی تعلق ہی نہیں بلکہ رشتہ داری، صلہ رحمی اور نسبی مراسم کو ہمیشہ استوار و قائم رکھتا ہے اور اخوت و ایثار، محبت ومودّت کے سلسلہ کو زندگی کے کسی موڑ پر بکھرنے نہیں دیتا تو یہ ان کی خویشگی کا پختہ مظاہرہ تصور کیا جاتا ہے اور باہم یگانگت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے ۔ چنانچہ جب معاشرے کے اس فطری اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے غور و فکر کریں تو دو بھائیوں میں الفت و پیار کی ایک مضبوط اور لازوال داستان نظر آتی ہے۔ یہ دو بھائی کون ہیں؟ ان کا تعارف کیا ہے؟ تو جواباً عرض ہے کہ یہ وہ ہستیاں ہیں جو اہل سنت والجماعت کی آنکھوں کا سرمہ ہیں جن کی جوتیاں ہمارے سروں کا تاج ہیں۔ دونوں کے گھر ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے نور (لختِ جگر) آیا۔ دونوں کو بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ دونوں کو جنت کی بشارت ملی۔ دونوں نے ہجرت کی۔ دونوں کو شہارت کا رتبہ ملا۔ مگر فرق یہ ہے کہ ایک کو ذوالنور کہتے ہیں تو دوسرے کو ذوالنورین کہتے ہیں۔ ایک ذوالبشارت ہے تو دوسرا بھائی ذوالبشارتین ہے۔ ایک ذوالہجرت ہے تو دوسرا ذوالہجرتین ہے۔ ایک ذوالبیعت ہے تو دوسرا ذوالبیعتین ہے۔ ایک کوفہ میں شہید ہوا تو دوسرا مدینۃ الرسول کا شہید ہے۔ اگرچہ قاتل دونوں کا ایک ہے مگر ایک کے خون کا گواہ کوفہ کا بازار ہے تو دوسرے کے خون کا گواہ مدینہ طیبہ کا بازار ہے اور قرآن کا ورق ہے۔ ایک قرآن کی دعوت دیتا شہید ہوا۔ تو دوسرا قرآن کی تلاوت کرتا ہوا شہید ہوا ایک شجاعت کا تاجدار ہے تو دوسرا حیاء و سخاوت کا بادشاہ ہے۔ ایک نے قرآن کی حفاظت کی ہے تو دوسرے نے اسی قرآن کی اشاعت و طبع کر کے محفوظ ہاتھوں سے امت کے حوالے کیا ہے۔ ایک کو داماد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں تو دوسرے کو دوہرا دامادِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں۔
آئیے! ذرا دونوں میں یگانگت و یک جہتی کی جھلکیاں ملاحظہ کریں۔ حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کی بیعت کے سلسلہ میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حسبِ سابق جیسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہلے دو خلفاء کی بیعت کی اسی طرح اب تیسرے خلیفہ کی بھی خوشی قلب علی الاعلان بغیر جبرواکراہ کے بیعت خلافت کی (الامالی)۔ پھر پورے دورِ عثمانی میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ، حضرات شیخین رضی اﷲ عنہما کی طرح حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے مشیرِ خاص رہے۔ عہدۂ قضا پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ اجرائے احکام اور حدود کے نفاذ کے علاوہ دیگر امورِ خلافت میں خاص معاون رہے۔ خلیفہ برحق کی جانب سے انھیں مخصوص ہدایہ اور عنایات و عطایات سے نوازا جاتا رہا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اپنے بھائی کے ساتھ فتوحات و غزوات کے سلسلہ میں ہم دم رہے۔ مثلاً طرابلس، افریقہ، خراسان، طبرستان اور جرجان وغیرہ کی فتوحات میں خود بمع اپنے خاندان کے جہادِ اسلامی میں شریک ہو کر عثمانی لشکر میں شمار ہوئے۔ جب حضرات شیخین (حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما) نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے رشتہ کے سلسلہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے درِاقدس پہ حاضر ہو کر حضر ت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی بات کی تو آقا علیہ السلام نے پسند فرما کر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے فرمایا تو اس نکاح کے گواہ بننے والے شیخین کی طرح حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ بھی ہیں۔ بعد میں جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ ادائیگی حق مہر کے سلسلہ میں اپنی پرانی سی زرہ فروخت کرنا چاہتے تھے تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے ۴۰۰ درہم کی وہ زرہ خرید کر ساری رقم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے زرہ بھی واپس کردی۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے واپسی آکر سارا قصہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سنایا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کوڈھیروں دعاؤں سے نوازا (کشف الحمد، شرح مواہب)۔ دونوں میں پیار و محبت کا یہ عالم کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے بار ہا حضرت عثمان کے حق میں مومن، متقی، صالح، سابق الخیرات،غیر معذب اور جنتی ہونے کا اعلان کیا اپنے دور خلافت میں فرمایا ’’ انا واللّٰہ علی اثرالذی أتیٰ بہ عثمان‘‘ اﷲ کی قسم میں اسی نقشِ قدم پر چل رہا ہوں جس پر عثمان آئے تھے۔(انساب الاشراف)۔ ایک موقع پر فرمایا ’’ من تبرا من دین عثمان فقد تبرا من الایمان‘‘ جو شخص عثمان کے دین سے بری ہے وہ ایمان سے ہی بری ہے (الاستیعاب) یعنی جو عثمان کے دین سے تبری و بیزاری اختیار کرے وہ گویا کہ ایمان و اسلام سے بری ہوگیا اس کے اسلام کا کوئی اعتبار نہیں۔
بعض آدمیوں نے آپ سے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ بہترین شخص تھے، چوتھے آسمان میں آپ کا نام ذوالنورین ہے، ان کے نکاح میں یکے بعد دیگرے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں آئیں۔ اﷲ کے رسول نے فرمایا جو شخص ایک مکان خرید کر مسجد میں اضافہ کرے گا تو اﷲ اس کی مغفرت کرے گا وہ عثمان ہی ہیں آپ نے فرمایا:جو فلاں قبیلہ کا مَربد (باڑہ) خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کرے گا اس کے لیے بخشش و مغفرت ہوگی۔ وہ بھی عثمان ہیں آپ نے فرمایا جیش العسرہ (غزوہ تبوک) والے لشکر کے لیے جو تیاری کا سامان دے گا وہ اﷲ کے ہاں مغفور ہوگا وہ عثمان ہیں جنھوں نے پالان کی رسی تک لشکر کی تیاری میں دی (کنزالعمال)۔
دونوں بھائیوں میں محبت و مودت کا منہ بولتا ثبوت آپس کی رشتہ داریاں بھی ہیں۔ ایک فطری امر ہے کہ آدمی اپنے اعزہ و اقارب سے محبت کرتا ہے۔ چنانچہ ان بھائیوں میں بھی کئی طرح سے رشتہ داری قائم ہے۔ مثلاً (۱)حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی نانی ام حکیم البیضاء حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے والد ابوطالب کی ہمشیرہ ہیں۔ اس اعتبار سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی والدہ (اروی بنت ام حکیم البیضاء) کے ماموں زاد بھائی ہیں اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی پھوپھی زاد بہن اروی کے بیٹے ہیں۔ (۲)دونوں آپس میں ہم زلف ہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی چوتھی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہاکا نکاح آپ نے حکم خداوندی سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ کیا اور سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کا نکاح حکم خداوندی سے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے کیا اور دوسری صاحبزادی کے انتقال کے موقع پر فرمایا ’’لوکان لی اربعین انبتہ لزوّجت واحدۃ بعد واحدۃ حتیٰ لاتبقیٰ منہن واحدۃ (اسدالغابہ، سیوطی) نے تاریخ الخلفاء میں اور علامہ ابن حجر نے الصواعق المحرقہ میں ذکر کیا ہے اولادِآدم میں فقط حضرت عثمان ہیں جن کے نکاح میں کسی نبی کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر آئی ہوں اور نکتے کی بات یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی فضیلت میں اس حدیث کو نقل کرنے والے اور امت کو بتانے والے دوسرے بھائی حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں۔(۳)حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی پوتی سکینہ بنت حسین بن علی المرتضیٰ کا نکاح حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے پوتے زید بن عمرو بن عثمان رضی اﷲ عنہم سے ہوا۔ (۴)حضرت علی کی دوسری پوتی فاطمہ بنت حسین بن علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہم کا نکاح حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے دوسرے پوتے عبداﷲ بن عمرو بن عثمان رضی اﷲ عنہم سے ہوا (طبقات ابن سعد، شرح نہجم البلاغتہ)
جب چند شریروں نے مرکزِ اسلام پر ضرب لگا کر اہل اسلام میں پھوٹ ڈالنے اور شیرازۂ اسلام کو بکھیرنے کے لیے سازشوں کا جال بچھایا اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا۔ جس کے نتیجے میں ۱۸؍ذی الحجہ ۳۵ھ کو سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کو بڑی بے دردی اور ظلم و زیادتی سے شہید کردیا گیا۔ تو اس محاصرہ کے دوران دونوں بھائیوں میں محبت و مودت کا جذبہ پورے جوبن و شباب پر تھا اور آخر دم تک قائم رہا۔ اس دوران سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خدمات حضرت عثمان کے حق میں بے مثال ہیں اپنی اولاد کو حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کو درِ عثمان کا چوکیدار بناتے ہیں۔ خود پانی کی مشکین بھر بھر کر پہنچاتے ہیں۔ ہر طرح کے پر خطر اور ناساز گار حالات کے باوجود رشتۂ اخوت متواتر قائم رکھتے ہیں حتیٰ کہ تجہیز و تکفین میں برابر شریک رہتے ہیں اور باغیوں کی مدافعت کی خاطر قدم قدم پر انتہائی کوششیں کرتے ہیں اور حق رفاقت ادا کرتے ہیں۔
آپ کے جانے کے بعد بھی یہ محبت اسی طرح قائم رہتی ہیں شیخین رضی اﷲ عنہما کی طرح اپنی اولاد کے نام ان کے نام پر رکھ کر محبت وپیار کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔ اور قرآنی آیت رحمآء بینھم کی عملی، جیتی، جاگتی، چلتی، پھرتی تفسیر بنتے ہیں۔ دعا ہے حق تعالیٰ ہمیں بھی ان حقائق کو سمجھ کر ان کے بارے حسنِ ظن رکھنے اور انھیں بھائی بھائی سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔
ء ء ء