منصور اصغر راجہ
سابق امریکی معاشی غارت گر جان پرکنز نے اپنی کتاب The Secret History Of The American Empire (امریکی سامراج کی خفیہ تاریخ)میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معاشی دہشت گردی کی خوفناک کہانی کا آغاز انڈو نیشیا کے تذکرے سے کیا ہے۔ 1970 کی دہائی میں عالمی مالیاتی اداروں نے اپنا ’’اقتصادی معجزہ‘‘ دکھانے کے لیے انڈونیشیا کا انتخاب کیا۔ اُس وقت سابق فوجی آمر سوہارتو انڈونیشیا میں سیاہ و سفید کے مالک ہوا کرتے تھے اور جمہوریت کی ٹھیکیدار ہر امریکی حکومت ان کی پشت پناہی کو اپنا فرضِ اولین خیال کرتی تھی۔ چنانچہ اگلے دو ڈھائی عشروں تک انڈونیشیا میں سرکاری سطح پر ملکی اقتصادی ترقی کے ڈنکے بجائے جاتے رہے، جنہیں عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرینِ معیشت اپنی وضع کردہ معاشی پالیسیوں کا ثمر قرار دیتے تھے۔ لیکن دوسری طرف اصل سچ یہ تھا کہ انڈونیشیا کے عوام کو اس ’’اقتصادی ترقی‘‘ کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ در اصل اس ترقی کے فوائد صرف اور صرف اقتدار پر قابض مٹھی بھر دولت مند طبقہ ہی سمیٹ رہا تھا۔ حکومت نے مقتدر طبقے کو خوشحال اور دولت مند بنانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری قرضے لیے۔ ورلڈ بینک کے شعبہ گلوبل ڈویلپمنٹ اور آئی ایم ایف کے شعبہ بین الاقوامی مالیاتی شماریات کے مطابق انڈونیشیا 1990 کی دہائی کے وسط تک ایشیا بھر کے ملکوں سے کئی گنا زیادہ غیر ملکی قرضے لے چکا تھا جو مجموعی ملکی پیدا وار کے قریباً ساٹھ فیصد تھے۔ جان پرکنز کے بقول ’’ہم نے اس ملک کو قرضوں تلے اتنا دبا دیا تھا کہ وہ انہیں واپس لوٹانے کے قابل ہی نہیں رہ گیا تھا۔انڈونیشیا کے عوام مجبور ہو چکے تھے کہ وہ خود کو چھڑوانے کے لیے ہماری کارپوریشنوں کی جملہ خواہشات کے سامنے جھک جائیں۔‘‘ اب انڈونیشیا ورلڈ بینک،آئی ایم ایف اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے رحم و کرم پر تھا۔ عالمی مالیاتی اداروں کی ترقیاتی پالیسیوں اور قرضوں کے ذریعے انڈونیشیا کی مشکیں اچھے طرح کسنے کے بعد ملٹی نیشنل کارپوریشنوں نے اس خطے کا رخ کر لیا۔نج کاری اور غیر ملکی کمپنیوں کے لیے ٹیکس ریلیف کی حوصلہ افزائی کرنے والے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو صلاح دی کہ وہ یہاں اپنے کارخانے لگائیں یا پھر اپنی مصنوعات تیار کرانے کے لیے ایسے کارخانوں سے کاروباری معاہدے کریں جہاں مزدور کو بے حد کم اجرت دی جاتی ہو۔چنانچہ’’روزگار کی فراہمی‘‘ کے نام پر ملٹی نیشنل کارپوریشنوں نے انڈونیشیا میں اپنے پنجے گاڑے جہاں ان کی مصنوعات تیار کرنے والے کارخانوں میں مزدور کی اجرت بے حد قلیل اور اوقاتِ کار طویل تھے۔انہیں شدید محنت کرنے کے عوض بمشکل دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی تھی۔جان پرکنز نے ان کارخانوں کو بیگار کیمپ کا نام دیا ہے۔ان بیگار کیمپوں میں کام کرنے والوں کو اتنی کم اجرت دی جاتی جو اُن کی بنیادی ضروریات کے لیے بھی ناکافی ہوتی تھی۔ جان پرکنز کے مطابق 2000ء میں جکارتہ کے قریب تانگرنگ کے علاقے میں قائم ’’Nike‘‘ کمپنی کی ایک فیکٹری میں ورکرز کو 1.25 ڈالر یومیہ اجرت دی جاتی تھی۔سوا ڈالر یومیہ سے وہ دو وقت کے لیے صرف چاول اور سبزی پکا سکتے تھے اور کچھ کیلے خرید لیتے تھے۔اگر صابن اور ٹوتھ پیسٹ کی ضرورت پڑتی تو اُن کی قیمت چاول سبزی کے خرچے میں سے نکالنی پڑتی۔اس یومیہ اجرت میں سے اتنے پیسے بھی نہیں بچتے تھے کہ نئے کپڑے،جوتے،ریڈیو اور ٹی وی خریدنے جیسی ’’عیاشی‘‘ کی جا سکے۔جان پرکنز نے اس صورتحال کو موجودہ دور میں غلامی کی نئی صورت قرار دیا ہے۔جان پرکنزکاکہنا ہے کہ انڈونیشیا میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک بڑا ہدف وہ علاقے تھے جہاں تیل و گیس کے بڑے بڑے ذخائر پائے جاتے تھے۔معدنیات تلاش کرنیوالی کمپنیاں وہاں سستی لیبر کا فائدہ اٹھاکر کام شروع کردیتیں۔اگر ان کے خلاف مقامی سطح پر کوئی احتجاجی آواز بلند ہوتی تو انڈنیشیا کی آرمڈ فورسز اسے کچل دیتیں۔ اس ’’خدمت‘‘ کے عوض ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے سوہارتو حکومت کو فنڈز مہیا کیے جاتے تھے۔یہ کمپنیاں ایک طرف انڈونیشین عوام کا خون چُوس رہی تھیں اور دوسری جانب انڈونیشیا میں ماحولیاتی دہشت گردی کی بھی مرتکب ہو رہی تھیں۔ان کے کارخانوں، کانو ں اور نام نہاد ترقیاتی صنعتی منصوبوں نے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے گھنے جنگلات کو شدید نقصان پہنچایا۔فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے فاضل مادوں نے آبی ذخائر کو زہر آلود کر دیا۔شہروں میں آلودگی کے باعث آب و ہوا مسموم ہو گئی۔اس نام نہاد اقتصادی ترقی کے طفیل ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی دولت مند مقتدر طبقے نے تو اپنی جیبیں خوب بھریں، لیکن عا م آدمی کی مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھ دی۔جان پرکنز کے بقول ’’عالمی مالیاتی اداروں کے اس ’’اقتصادی معجزے‘‘ نے انڈونیشیا کی مقامی ثقافتوں کو ملیا میٹ کر دیا۔اصل قدیم باشندوں کی زمینیں چھین لیں،ان کی زندگیاں اور روایات تباہ کر دیں۔‘‘
1990کی دہائی میں جب انڈونیشیا کو اقتصادی بحران نے اپنی لپیٹ میں لیا تو آئی ایم ایف نے سوہارتو حکومت کو اپنے Structural Adjustment Package کی پیش کش کر دی ۔ یہ خصوصی پیکج قبول کرنے پر سوہارتو حکومت کو آئی ایم ایف کی طرف سے یہ ’’مشورہ‘‘ دیا گیا کہ وہ ایندھن اور خوراک پر عوام کو دی جانے والی سب سڈیز فوری طور پر بند کر دے۔علاوہ ازیں اخراجات میں کمی لانے کے لیے (اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کو کنٹرول کرنے کے بجائے) دیگر پبلک سروسز بھی روک دے۔بے رحمانہ عدم توازن کی اس پالیسی نے مٹھی بھر مقتدر طبقے کو تو خوب فائدہ پہنچایا لیکن غریب عوام آٹے اور روٹی تک کے لیے ترسنے لگے۔اس صورتحال نے کھاتے پیتے لوگوں کو بھی پریشان کر دیا۔چنانچہ مہنگائی کا یہ طوفان عوام کو سڑکوں پر لے آیا۔اُن دنوں بل کلنٹن وائٹ ہاوس میں براجمان تھے۔ہوا کا رخ بدلتے دیکھ کر امریکی حکومت نے بھی سوہارتو کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔انڈونیشین حکومت زیادہ دن عوامی دباو کا سامنا نہ کر سکی اور سوہارتو کو مئی 1998 میں اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔
جان پرکنز کا مزید کہنا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کسی شخص کو ’’قانونی رشوت‘‘ دینے کے لیے چار طریقے اختیار کرتی ہیں۔پہلا یہ کہ مذکورہ کمپنی اس شخص یا اس کے دوستوں عزیزوں کی ملکیتی کمپنیوں سے بلڈوزر، کرین، ٹرک یا دیگر بھاری مشینری لیز پر لینے اور اس کے عوض غیر معمولی معاوضہ دینے کی پیش کش کرتی ہے۔دوسرا یہ کہ وہ اپنی کمپنی جیسی کمپنیوں ہی سے پراجیکٹ کے کسی حصے کے لیے مصنوعی طور پر بڑھی ہوئی قیمت پر ذیلی معاہدہ کر لے۔تیسرا یہ کہ وہ اسی انداز میں فوڈ، ہاوسنگ، ایندھن،ٹرانسپورٹ اور دیگر اشیا کا ٹھیکہ لے لے۔ چوتھا اور آخری حربہ یہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے ’’بزنس‘‘ کے لیے جس ملک کو منتخب کرتی ہیں، وہاں کی بااثر شخصیات کے بیٹے بیٹیوں کو معروف امریکی تعلیمی اداروں میں داخلہ دلوانے، ان کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمے لینے اور جب تک وہ امریکہ میں قیام پذیر رہیں، انہیں ’’زیر تربیت‘‘ ہونے کے وظائف ادا کرنے کی پیش کش کرتی ہیں۔ جان پرکنز کے الفاظ میں’’انڈونیشیا کی کہانی ایسی کہانی ہے جو باربار دوہرائی جا رہی ہے۔یہ امریکن ایمپائر کی خفیہ تاریخ ہے‘‘۔
یہی کہانی اِس وقت پاکستان میں بھی دوہرائی جا رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اِس بار امریکہ نے پاکستان کو چاروں شانے چت کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو میدان میں اتار رکھا ہے۔جنرل الیکشن 2018 کے بعد جس ’’تبدیلی سرکار‘‘ کو پاکستانی قوم پر مسلط کیا گیا،اس نے اقتدار سنبھالتے ہی جس طرح وزارت ِ خزانہ اور سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے کارندوں کے حوالے کیا،اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس سرکار کو لانے میں داخلی مقتدر قوتوں کی نسبت خارجی استعماری قوتوں نے زیادہ اہم کردار ادا کیا تھا،جبھی تو تبدیلی سرکار کا ہر ہر قدم بزبانِ حال یہ کہتا ہے کہ انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری ہے بات اُن کی۔ملک آئی ایم ایف کو ٹھیکے پر دینے کے لیے جو طریقہ واردات اختیار کیا گیا وہ بھی انڈونیشیا کی کہانی سے خاصی مماثلت رکھتا ہے۔پہلے کرپشن کے خلاف جنگ کا نعرہ لگایا گیا۔ سابقہ حکومتوں کی لُوٹ مار کے قصے بیان کیے گئے۔ پھر انہی سابقہ ’’لٹیرے‘‘ حکمرانوں کے سنگی ساتھی، وزیر مشیر، ترجمان اور قصیدہ گو اپنے دائیں بائیں بٹھا کر قوم کو اقتصادی ترقی کے خواب دکھانے شروع کردئیے جن کی تعبیر اب بجلی کی قیمتوں میں روز افزوں اضافے، آٹے کے بحران ، ٹیکسوں کی بھرمار، کمر توڑ مہنگائی، بے روز گاری اور ریکارڈ توڑ کرپشن کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔تانا شاہ سرکار کے نورتن اپنی تجوریاں بھر نے میں مصروف ہیں کہ پھر یہ موقع ملے کہ نہ ملے۔ یہ سب آئی ایم ایف کے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پیکج کا ثمر ہے جس کے بارے میں ایک برس پہلے 10فروری 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے دبئی میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگاردے سے ملاقات کے بعد قوم کو یہ مژدہ سنایا تھا کہ ان کے اور کرسٹین لاگاردے کے درمیان’’ڈھانچہ جاتی اصلاحات‘‘ کے حوالے سے خیالات میں ہم آہنگی پائی گئی ہے۔ان اصلاحات کے نتیجے میں ملک پائیدار ترقی کی ڈگر پر چل پڑے گا اور ان کے ذریعے معاشرے کے پِسے ہوئے طبقات کا تحفظ کیا جائے گا۔لیکن اگرگزشتہ ایک برس کے دوران صرف بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہی ہوش ربا اضافے کی رفتار دیکھی جائے تو صاف عیاں ہو تا ہے کہ اقتصادی ترقی،اصلاحات، نجکاری اور کرپشن کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کا غلام بنانے کے منصوبے پر کام جاری ہے، اور یہ سوچ کر ہی جھرجھری آجاتی ہے کہ خاکم بدہن اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا……ملک میں خانہ جنگی یا ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری؟
خدا سے خیر مانگو آشیاں کی