تنویر الحسن احرار
اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے انبیا ء کرام علیھم الصلوٰات والتسلیمات کو دنیا میں بھیجا۔ سب سے آخر میں سب سے بلند درجہ نبی جناب سیدنا محمد کریم رؤف الرحیم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھیجا گیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت ِفلاح دی۔ جنہوں نے دعوت قبول کی اﷲ نے انعام کے طور پر ان کو کامیابی کا پروانہ اس دنیا میں عطاء کر دیا۔ نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحلت تک کم و بیش ایک لاکھ چوالیس ہزار لوگوں نے کلمہ اسلام پڑھا اور کامیابی کی سند حاصل کی۔ ان عظیم لوگوں کو صحبت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم حاصل ہونے کی وجہ سے ’’صحابی‘‘ کہا جاتا ہے ۔اور انہی صحابہ رضی اﷲ عنہم کے بارے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اَصحابی کاالنجوم میرے صحابہ رضی اﷲ عنہم ستاروں کی مانند ہیں۔ میرے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ستاروں میں ہر ستارے کی اپنی چمک اور روشنی ہے انہی روشن ستاروں میں ایک کا نام معاویہ بن ابی سفیان علیھم الرضوان ہے ۔آج ہم اسی مقدس ہستی کا تذکرہ کریں گے ۔
نام و نسب: معاویہ بن ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن ہاشم بن عبد مناف آپ کاسلسلۂ نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
ولادت: سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ ظہوراسلام سے پانچ سال قبل 608عیسوی میں مکہ میں پیدا ہوئے، گویا ہجرت نبوی کے وقت آپ کی عمر 18 سال اور فتح مکہ کے وقت 27سال تھی ۔
قبول اسلام: آپ رضی اﷲ عنہنے ابتداء اسلام میں ہی اسلام کو پھلتا پھولتا دیکھا سردار ِمکہ ابوسفیان کے گھر پیدا ہونے کے باوجود جو کہ اسلام کے مقابلے ہر میدان کے لیڈر ہوتے تھے کبھی بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی جنگ میں شرکت نہ کی۔ اسی بات کا اثر تھا کہ عمرۃ القضاء ۷؍ ہجری کے موقع پر اپنے اسلام قبول کرنے کا اظہار کیا اور خدمت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں شریک ہو گئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ناخن اُتارے اور بال تراشے۔
سخاوت و بہادری: آپ رضی اﷲ عنہ کی کنیت ابو عبد الرحمن تھی ایک سردار کا بیٹا ہونے کی وجہ سے آپ کے ماں باپ نے آپکی تعلیم و تربیت میں اس وقت کے عرب دستور کے مطابق کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ مختلف علوم و فنون سے آپکو آراستہ کیا۔ آپ کا شمار ان چند گنے چنے لوگوں میں ہونے لگا جو علوم وفنون سے آراستہ تھے اور لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ قبول اسلام سے قبل کے
مسجد ابوبکر صدیق، تلہ گنگ
حالات میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں ۔آپ قوم کے سردار تھے ۔جن کی لوگ اطاعت کرتے تھے ۔اور صاحب ِمال و دولت اور سخی تھے ۔
کارہائے نمایاں: آپکے کے کارناموں کا آغاز حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ خلافت سے ہوتا ہے۔ منکرین زکوٰۃ اور مدعیان نبوت کی سرکوبی میں پیش پیش تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ دشمن رسول، مدعی نبوت، مسیلمہ کذاب کو حضرت وحشی بن حرب رضی اﷲ عنہ نے حربہ مار کر زخمی کیا اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہنے اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا ۔
فتوحات: خلافتِ صدیق اکبر، خلافتِ فاروق اعظم، خلافتِ عثمان رضی اﷲ عنہم میں نمایاں کردار رہا ۔سیدنا فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ نے ان کے بڑے بھائی سیدنا یزید بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما کے انتقا ل کے بعد 18ھجری میں انہیں دمشق کا حاکم مقرر کر دیا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے اپنے دور خلافت کی ابتداء میں ہی سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو پورے شام کا والی اور حاکم بنا دیا۔ جنگ یمامہ کے بعد قیساریہ، صیدا، عرقہ، بیروت، انطاکیہ، طرابلس، عموریہ، ملطیہ، طرطوس، اناطولیہ، روم، قبرص جیسے علاقوں پہ قبضہ کر کے اسلامی مملکت کے جھنڈے گاڑے۔ ان میں قیساریہ شہر کے معرکے میں 80 ہزار رومی مارے گئے یہ معرکہ بھی سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے سر کیا۔ 31ھجری میں قیصر روم نے پانچ سو جہازوں کے ساتھ ساحل شام کے کناروں پر ہجوم کیا تو سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی جنگی حکمت عملی نے رومیوں کو شکست فاش دی اور رومیوں کا تباہ حال لشکر قسطنطنیہ واپس لوٹا۔ 32ھجری میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے قبرص پر حملہ اور قبضہ کیا اور پرچم اسلام لہرا دیا۔
پہلا بحری بیڑہ: حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کی اجازت سے بحری بیڑہ تیار کیا اس سے قبل رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس بحری حملوں کا جواب نہ تھا۔ چارسو جہازوں پر مشتمل اس بحری بیڑے سے مسلمانوں کی بحری طاقت رومیوں سے بڑھ گئی ۔اس طرح سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے آخری دور میں اسلامی مملکت کی حدود ہندوستان کی سرحد سے لے کر شمالی افریقہ کے ساحل اور یورپ کے صدر دروازے تک وسیع ہو گئیں۔
خلافت ِسیدنا علیٰ المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ: سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے داماد، سسرِعمر جرار، سیدنا علیٰ المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے۔ آپ جری و بہادر انسان تھے، طبقۂ منافقین جو روزِ اوّل سے ہی اسلام کی بہاروں کو برداشت نہیں کر سکتاتھا ۔طویل محنت کے بعد شہادتِ عثمان رضی اﷲ عنہ کے بعد نسل ابن ابی اورنسل ابن سباء کو کچھ کامیابی کے آثار نظر آئے اور اسلام کے دو شیروں کو قصاصِ عثمان کے مسئلے پر دست و گریبان کر دیا۔ باہمی جنگوں کی وجہ سے بلخ، ہرات، بوشیخ، باذنمس اور کابل کے علاقے باغی ہوگئے۔ شہادت سیدنا علیٰ المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے بعد خلیفہ راشد وخامس و عادل برحق سیدنا حسن بن علی رضی اﷲ عنہ کی صلح کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے دوبارہ باغی علاقوں پر قبضہ کیا اور ان ملکوں کا ایک چپہ زمین بھی قبضے سے نکلنے نہ دی ۔
سلطنت ِاسلامیہ کا حدود اربعہ: سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی افواج نے قسطنطنیہ کے بعد جزیرۂ روڈس اور جزیرۂ اڈواڈ کو بھی فتح کیا اس طرح سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے چونسٹھ لاکھ پیسنٹھ ہزار مربع میل پر اسلامی حکومت قائم کر کے دین و عمل، سیاست و قوت، دولت و ثروت کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام و ادیان پر غلبہ پا کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقصد بعثت ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلہٗ بِالْھْدٰی وَدَیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلیَ الدِّیْنِ کُلِّہ کی تکمیل فرما دی۔
فضل و کمال: علمی اعتبار سے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا صحابہ کرامرضی اﷲ عنہم میں نمایاں مقام تھا ابتداء میں لکھنے پڑھنے کی مہارت کی وجہ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں کاتب وحی بنایا تھا ۔مذہبی علوم میں اس قدر دسترس تھی کہ صاحب فتوٰی صحابہ ؓ میں شمار ہوتا تھا ۔حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما جو علوم قرانیہ میں سب سے نمایاں تھے وہ ان کے تفقہ فی الدین اور قران مجید کی تفسیر و تاویل کے معترف تھے ۔163احادیث آپ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہیں۔
رسالت ماب صلی اﷲ علیہ وسلم اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ : سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اﷲ عنہا کے حقیقی بھائی تھے۔ ایک دفعہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا !فان اللّٰہ ورسولہْ لیحبانہ اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم معاویہ سے محبت کرتے ہیں اس رشتہ کے لحاظ سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بہنوئی اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے برادر نسبتی تھے دوسرا رشتہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی بیوی قریبۃ الصغریٰ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی بہن تھیں اس رشتے سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ ہم زلف تھے۔
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما: جنگ صفین کے بعد کسی نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے سامنے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو برابھلا کہنا شروع کر دیا۔ رضی اﷲ عنہ علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو برا بھلا نہ کہو جب معاویہ رضی اﷲ عنہ تمہارے درمیان سے اُٹھ جائیں گے تو تم دیکھو گے کہ بہت سے سر تن سے جدا ہو جائیں گے۔ ایک موقع پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا معاویہ میرا بھائی ہے ہم اس کی برائی پسند نہیں کرتے ۔
سیدنا حسن اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما: سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ نے خلافت سے دستبردار ہو کر امامت و خلافت سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے سپرد کر دی اور فرمایا میں معاویہ رضی اﷲ عنہ کو ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو اپنے آپ کو شیعان علی کہتے ہیں۔
سیدنا حسین اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما: سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ اور سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو کوفیوں نے ان دونوں شہزادوں کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی۔ سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ نے بیعت توڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا۔ میں نے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور عہد کر لیا ہے اب میرے لیے توڑنا مشکل ہے۔
وصیت او روفات: سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:
’’اﷲ کا خوف کرتے رہنا خوف کرنے والے کو اﷲ مصائب سے بچائے گا جو اﷲ سے نہیں ڈرتا اس کا کوئی مددگار نہیں۔ پھر اپنے ذاتی مال میں سے آدھا بیت المال میں جمع کرانے کا حکم دیا ۔تجہیز و تکفین کے متعلق وصیت کی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے ایک کرتہ عنایت فرمایا تھا ۔اس کو اس دن کیلئے میں نے محفوظ کر لیا تھا ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مبارک اور ناخن شیشہ میں محفوظ ہیں ۔اس کرتہ میں مجھے کفن دینا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ناخن اور بال میری آنکھوں میں رکھ دینا۔‘‘
ان وصیتوں کے بعد 22رجب 60ھجری میں انتقال کیا ۔سیدنا ضحاک بن قیس ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔