عطاء محمد جنجوعہ
(قسط نمبر 3)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ تجارت پیشہ تھے۔ وہ خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے چھ ماہ تک تجارتی کاروبار سے بھی منسلک رہے۔ چونکہ امور حکومت کی انجام دہی میں دقت حائل ہوتی تھی۔ احباب کے مشورہ سے اسے ترک کردیا اور بیت المال سے وظیفہ لینے لگے لیکن وفات سے قبل وصیت کردی کہ میری زمین فروخت کرکے بیت المال میں یہ رقم واپس کردی جائے۔ امت محمد یہ میں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ تقویٰ وطہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔
غالی صاحبان کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا کو باغ فدک کی میراث نہ دی۔ اصل نوعیت کیا ہے اس سے قطع نظر غور طلب پہلو یہ ہے، کیا حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے باغ فدک کو اپنی ذاتی جاگیر بنا لیایا اس کو اپنے بیٹے کے نام وقف کیا ہو؟ تاریخ کی کسی کتاب سے ثابت کردیں!
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ عنہا سے بے حد پیار تھا۔ جب تشریف لاتیں تو نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم احتراماً کھڑے ہو کر ان کے سر پر دست شفقت رکھتے۔ اسی پیاری بیٹی فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے والد سے لونڈی طلب کی۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تسبیحات پڑھنے کا حکم دیا، لونڈی کیوں نہ دی؟
معترضین کے بقول سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا ناراض ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہ فدک کی پیدوار کی آمدنی سے حصہ کیوں لیتے رہے؟
سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا کو باغ فدک نہ دیا گیا تو صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ قصور وار ٹھہرے۔ جب باغ فدک کا انتظام حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کے پاس رہا۔ بعد میں یہ ساری املاک حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے قبضہ میں آئیں۔ پھر آپ کی شہادت کے بعد حضرت حسن اور پھر حضرت حسین رضی اﷲ عنھا کے پاس رہیں۔ وہ سب سنت نبوی کے مطابق باغ فدک کی آمدنی تقسیم کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے اپنے نام انتقال کیوں نہ کردیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حق تلفی کا ازالہ کیوں نہ کیا؟
باغ فدک بغیر لڑائی کے نبی کریم صلی اﷲ علیہ کے قبضہ میں تھا، اموال فے میں سے تھا۔ مال فے کا مصرف کیا ہے۔ قرآن حکیم میں اس کی وضاحت ہے۔
(مَااَفَاءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّ سُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْ بَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُولَۃً بَیْنَ الْاَ غْنِیَاءِ مِنْکُمْ) (الحشر: ۸)
’’جو مال بستیوں والوں کا اﷲ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اﷲ ہی کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں یا مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تا کہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں یہ مال نہ رہ جائے۔‘‘
قرآنی آیت کی روشنی میں اموال فے رسول کریم اور آپ کے رشتہ داروں اور عام مسلمانوں میں سے یتیموں، مسکینوں اور محتاجوں کے لیے ہے۔ اس لیے باغ فدک نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہی خاندانی میراث نہ رہا۔ چونکہ نبوی دور میں فدک کی آمدنی میں سے سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ عنہا کو حصہ ملتا تھا اس بنا پر سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا نے اسے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاندانی میراث سمجھا۔
اگر ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ باغ فدک سے فاطمہ بتول رضی اﷲ عنہاکا حصہ الگ کردیتے تو پھر آپ کی بیویوں کا اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کا بھی حصہ الگ الگ کردینا پڑتا اور وہ طرز عمل جو امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس جائیداد میں تھا۔ یتیموں مسکینوں کو دینے کا ان کو پورا کرنا ممکن نہ رہتا۔ چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ مال فدک کو اسی طرح تقسیم کرتے رہے جس طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی حیات میں کرتے تھے۔ یہ درست ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے کہلا بھیجا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ترکہ سے انہیں ان کی میراث کا حصہ دیا جائے تو ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد سنایا:
(لاَ نُوْرَثُ مَاتَرَ کْنَا صَدَقَہٌ)
’’کہ ہمارا (گر وہ نبیاء کرام ) ورثہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔‘‘
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا اپنے بابا جی کائنات کے امام کافرمان سن کر راضی ہوگئیں اور اپنی زندگی کے آخری دم تک اس فدک کے مطالبہ سے متعلق گفتگو نہیں کی۔
یہ وہی فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ عنہا ہیں جن کا نام لے کر خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اہم مسئلہ سمجھایا کہ شریعت کے احکام کی بجا آوری میں اپنے قریبی عزیز کے احترام کی پروانہ کرنا۔ قبیلہ قریش کی عورت نے چوری کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ جب سفارش کرائی گئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو فاطمہ بنت اسد ہے۔ اگر فاطمہ رضی اﷲ عنہا بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس پر بھی حد جاری کرتا۔
اسی طرح سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا فدک کے بارے میں سوال میں بھی حکمت خداوندی مضمر ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں مال جائیداد کا ورثہ چھوڑ کر اپنی اولاد اقرباء کو سرمایہ دار جاگیر دار بنانے کے لیے تشریف نہیں لائے۔ بلکہ کتاب وحکمت کے نور سے کفر وشرک کی ظلمتوں کو مٹانے کے لیے مبعوث ہوئے۔
(لشکرِاسامہ) کی روانگی کا معاملہ ہو یا منکرین زکوۃ کے خلاف کارروائی کا مسئلہ ہو یافدک کی وراثت کا مطالبہ ہو۔ مندرجہ امور میں صدیق رضی اﷲ عنہ کی عزیمت واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے حکم رسول کے خلاف کسی قسم کا لچک دار رویہ اختیار نہیں کیا۔ مسئلہ فدک سے رہتی دنیا تک امت محمدیہ کو انمول سبق حاصل ہوتا ہے۔
ایک طرف کسی امام یالیڈر کاقول ہو یاکسی بزرگ کا عمل ہو یا کسی نامور ہستی کی سفارش و آرزو ہو یا اقوام متحدہ کا دستور ہو یاویٹو پاور حکمران کا آرڈر ہو دوسری طرف کا ئنات کے امام خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی عزیمت واستقامت درس دیتی ہے کہ کسی کی رائے سفارش، آرزو اور دھمکی سے مرعوب ہو کر ہادیٔ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے کسی صورت انحراف نہ کرنا۔ ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا دور خلافت مخبر صادق صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کی تعبیر کہ میرے بعد خلفائے راشدین کا طرز عمل امت محمدیہ کے لیے مشعل راہ ہے۔
رب کا ئنات نے مخلوق کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے۔ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کو وہ امتیازی اوصاف ودیعت فرمائے جن کی بنا پر وہ دوسرے انسانوں سے ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ اﷲ سبحانہ نے ان کو نبوت کے عہدہ پر فائز کیا۔ وقتاً فوقتاً ان پر وحی کا نزول ہوا۔ انبیاء کرام علیھم السلام کی اطاعت اپنی امت پر فرض ہوئی ہے۔
خالق کائنات نے بنی نوع انسان کی راہ نمائی کے لیے کم وبیش ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء کرام مبعوث فرمائے۔ جب خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔
قرآن حکیم میں اﷲ سبحانہ کا ارشاد ہے:
(مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اﷲِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ) (الاحزاب: ۴۰)
’’ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آپ اﷲ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔‘‘
قرآنی آیت اس امر کی دلالت کرتی ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں پیدا ہوگا۔
(جاری ہے)