حبیب الرحمن بٹالوی
شہیدذوالکفل بخاری 15؍ نومبر 2009ء کو مکہ مکرمہ میں ایک کار کے حادثے میں جان ہار گئے۔ اُن کی جدائی کا غم نوکِ سوزن کی طرح ہمیشہ میٹھا میٹھا درد دیتا رہے گا۔ اُسی درد کا حاصل، چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں نذرِ قارئین ہے۔
وہ شہسوارِ علم تھا اور صاحبِ کردار تھا
دوستوں کے درمیان اک یارِ طرح دار تھا
گنجینۂ اسرار تھا اور دولتِ بیدار تھا!
اخّاذ فطرت شاعر تھا اور صاحبِ معیار تھا
پیار، امن، آشتی گھُٹّی میں پڑی تھی
افکار، ہمہ گیری اس کی جیبی گھڑی تھی
اسلم انصاری، خالد مسعود، عبدالرب نیاز
مشفق خواجہ، ہاشمی، اور ایاز
تھا دائرۂ احباب کا ایک وہ محور
اپنا ہو پرایا، بد و نیک، وہ محور
ماہِ خوش نصیب تھا وہ دیدہ ور جواں
گھمبیر سی دوپہر کا عجیب سا سماں
مکّہ سے لَو لگانے کی وہ خواہشیں لیے
شگفتگی، وابستگی کی بارشیں لیے
’’عزیزیہ‘‘ کی راہوں میں وہ جا کے کھو گیا
زمیں اوڑھ کے وہ ’’جنتِ معلی‘‘ میں سو گیا
’’میدانِ عرفات‘‘ کی مٹی میں اس کا خوں
وہ ہے مکینِ خُلدِ بریں اور کیا کہوں
وہ رہ نوردِ شوق تھا منزل کو پا گیا
موجوں سے کھیلتا ہوا ساحل پہ آ گیا