پروفیسر ڈاکٹر مظہر معین
نام و نسب: اَبو العاص بن الربیع بن عبدالعزّی بن عبد شمس بن عبدمناف بن قُصَیّ،ا لقُرَشی العَبشَمِی، داماد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم،جنھوں نے آپؐ کی سب سے بڑی بیٹی زینبؓ سے شادی کی،جروُالبَطَحاء( وادی بطحاء کے شیر )کے نام سے معروف تھے۔ وہ اور ان کے بھائی جروا البطحاء(بطحاء کے دو شیر) کہلاتے تھے۔(1)
خطیب تبریزی(م۷۴۳ھ) ان کے مختصر تذکرہ بحیثیت راوی حدیث میں لکھتے ہیں:
وہ ہیں ابو العاص مِقسَم بن الربیع ، یہ بھی کہا گیا کہ ان کا نام لَقِیط ہے۔ وہ داماد نبیؐ ہیں۔ انھوں نے آپؐ کی بیٹی زینب سے شادی کی۔ غزوہ بدر میں بحالت کفر قیدی بنائے جانے کے بعد انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی۔ وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے رشتہ اخوت رکھتے تھے اور ان کے لیے مخلص تھے۔ خلافت ابو بکرؓ میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ ان سے ابن عباسؓ ،ابن عمرؓ اور ابن العاصؓ نے روایت احادیث کی ہے۔
مِقسَم میم کی زیر، قاف ساکن اور س پر زبر کے ساتھ ہے۔(2)
ابو العاصؓ کا نسب دو سرے دامادِ رسولؐ عثمانؓ بن عفان بن ابی العاص بن أمیہ بن عبدشمس سے عبدشمس پراور دامادِ رسولؐ علی ؓبن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف سے عبدمناف پر جا ملتا ہے۔
ابو العاصؓ کی والدہ ہالہ بنت خویلد، ام المؤمنین خدیجہؓ کی بہن ہیں۔ اور آپ کے ماموں عوّام بن خویلد نبی علیہ السلام کی پھوپھی صفیہّؓ بنت عبدالمطلب کے شوہر ہیں جن کے بیٹے زبیرؓ عشرہ مبشرہؓ میں شامل اور ابو العاصؓ کے ماموں زاد ہیں۔ جب کہ نبی علیہ السلام آپ کے خالو اور ان کی بیٹیاں زینب و رقیہ و ام کلثوم و فاطمہ رضی اﷲ عنھن آپ کی خالہ زاد ہیں۔
حضرت ابوالعاصؓ کی ولادت اور مختصر حالات
اندازاً ابوالعاصؓ مکہ میں بعثت نبویہ سے کم و بیش بیس سال پہلے پیدا ہوئے کیونکہ انھوں نے زینبؓ بنت رسولؐ سے بعثت سے پہلے شادی کی جب کہ وہ جوان تھے۔ پس مکہ ہی میں پرورش پائی اور وہیں جوان ہوئے۔ آپ خوبصورت،وجیہ، متناسب جسم اور عمدہ قدو قامت والے تھے۔ جسمانی حسن کے ساتھ فصیح و بلیغ،شیریں گفتار، خطیب و شاعر، عالی نسب، خوشحال تاجر اور اپنے خاندان وخالہ خدیجہؓ کے محبوب تھے۔ خدیجہؓ انہیں اپنے بیٹوں کی طرح شمار کرتی تھیں۔ زینبؓ سے آپ کے دو بچے علیؓ بن ابی العاصؓ اور امامہؓ پیدا ہوئے۔ابن اسحاق نے بیان کیا:
’’ابو العاص مال و امانت و تجارت کے لحاظ سے مکہ کے چند گنے چنے لوگوں میں سے تھے۔وہ ھالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے اور خدیجہؓ ان کی خالہ تھیں۔پس خدیجہؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نزول وحی سے پہلے درخواست کی کہ ان کی شادی زینبؓ سے کر دی جائے ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خدیجہؓ کی کسی بات سے اختلاف نہیں کرتے تھے۔ پس آپؐ نے ان کی شادی کر دی۔خدیجہؓ ابوالعاص کو اپنے بیٹے کا مقام دیتی تھیں(وَکَانَت تَعُدُّہُ بِمَنزِلَۃِ وَلَدِھَا)۔جب اﷲ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو خدیجہ اور آپ علیہ السلام کی بیٹیاں ایمان لے آئیں اور آپؐ کی تصدیق کی اور گواہی دی کہ آپؐ جو لے کر آئے ہیں، برحق ہے اور آپؐ کے دین کو اختیار کیا،جب کہ ابو العاص اپنے شرک پر قائم رہے۔(3)
ہشام نے روایت کیا کہ مشرکین قریش بعثت کے بعد ابو العاص کے پاس گئے اور کہنے لگے : اپنی بیوی کو چھوڑ دو اور ہم تمہاری شادی قریش کی جس عورت سے کہو گے، کرادیں گے، تو ابوا لعاص نے کہا:
لَا، وَاللّٰہِ اِنِّی لَا أُفارِقُ صَاحِبَتِی،وَمَا أُ حِبُّ أ نَّ بِی بِا مرَأ تِی امرَأَۃ’‘ مِن قُرَیش۔
وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یُثنِی عَلَیہِ فِی صِھرِہِ خَیراً۔(4)
نہیں واﷲ میں اپنی شریک حیات سے علیحدہ نہیں ہوں گا،اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میری بیوی کے بدلے قریش کی کوئی دوسری عورت مجھے ملے۔اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی دامادی کی تعریف کیا کرتے تھے۔
چنانچہ ابو العاصؓ نے مکہ میں سیدہ زینبؓ اور اپنے دونوں بچوں علیؓ وامامہؓ کے ساتھ اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود نہ صرف انتہائی حسن سلوک اور محبت کی زندگی گزاری(واضح رہے کہ کفرو اسلام کی بنا پر میاں بیوی میں علیحدگی کا حکم الٰہی ہجرت مدینہ کے بعد نازل و نافذ ہوا)بلکہ شعب ابی طالب میں بنو ہاشم کی محصوری کے تین سالوں (۸۔۱۰بعد بعثت) میں بھی غلہ اور کھجور سے لدے اونٹ شعب ابی طالب میں ہنکا کر بنو ہاشم کے خوردونوش کا انتظام کرتے رہے جس پر خوش ہو کر نبی علیہ السلام نے فرمایا : (ابو العاص نے ہماری دامادی کا حق ادا کر دیا)۔ شیعہ مؤرخ مرزا محمد تقی سپہر کاشانی لکھتے ہیں:
ودیگر ابو العاص بن ربیع کہ داماد رسول خدای بود،شتران از گندم و خرما حمل دادہ بشعب می برد ورھا می کرد۔ واز آنجا است کہ رسول خدای فرمود:(أبو العاص حق دامادی ما بگذاشت)۔مع القصہ سہ سال کاربدیں گو نہ می رفت۔(5)
ترجمہ:اور دوسرے ابوالعاص بن ربیع جو کہ دامادِ رسولؐ خدا تھے،گندم اور کھجور سے لدے اونٹ شعب(ابی طالب)میں لا کر چھوڑ دیتے تھے اور اسی وجہ سے رسولؐ خدا نے فرمایا: (ابو العاص نے ہماری دامادی کا حق ادا کر دیا)۔قصہ مختصر یہ کہ تین سال تک کام اسی طرح چلتا رہا۔
غزوہ بدر میں اسیری و رہائی
ابو العاص وعباس بن عبدالمطلب غزوہ بدر (۲ھ) میں مشرکین قریش کے ساتھ شریک ہوئے،لیکن وہ دونوں مسلمانوں سے لڑنے میں پرجوش نہیں تھے، پس دونوں کو دیگر اسیران کے ہمراہ قید کر لیا گیا۔ ابن عبدالبر (م: ۴۶۳ھ) کا بیان ہے:
ابو العاص بن ربیع ان لوگوں میں سے تھے جو کفار قریش کے ساتھ غزوہ بدر میں موجود تھے اور ان کو عبداﷲ بن جبیر بن نعمان انصاری نے قید کر لیا۔ پس جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا، تو ابو العاص کے بھائی عمرو بن ربیع بھی بطور فدیہ اس مال کے ساتھ مدینہ آئے جو زینبؓ بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں دیا تھا۔ اس میں وہ ہار بھی تھا جو ان کی والدہ خدیجہؓ نے اس وقت انہیں دیا تھا جب انہیں ابو العاص کے پاس بطور دلہن بھیجا،تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِن رَأ یتُم أَ ن تُطلِقُوا لَھَا اَ سِیرَھَا وَتَرُدُّوا الّذِی لَھَا، فَافعَلُوافَقَالُوا:نَعَم۔(6)
اگر تمہاری رائے ہو کہ اس(زینبؓ) کے قیدی کو رہا کر دو اور جو مال اس نے بھیجا ہے، واپس کر دو تو پھر ایسا کر لو۔ تو صحابہؓ نے عرض کیا:جی ہاں۔ (فأطلقوہ وردُّواعلیھا الّذی لھا)۔(7)۔پس انھوں نے ان کو رہا کر دیا اور جو کچھ ان(زینبؓ) کا تھا، ان کو واپس کر دیا۔
ہجرت سیّدہ زینبؓ بعد غزوہ بدر(۲ ھ)
بروایت ابن ہشام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یا تو ابو العاص سے عہد لیا یا انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے از خود وعدہ کیا کہ وہ زینبؓ کے آپ کے پاس(مدینہ)آنے کا راستہ چھوڑ دیں گے یا یہ انھیں رہا کرنے کی شرائط میں شامل تھا،اس حوالہ سے نہ تو انھوں نے کوئی بات ظاہر کی اور نہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتلایا کہ کیا
معاملہ تھا، مگر یہ کہ جب ابو العاص مکہ کی جانب نکلے اور ان کا راستہ چھوڑ دیا گیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زیدؓ بن حارثہ اور ایک انصاریؓ کو ان کی طرف روانہ کیا اور فرمایا:کُونَا بِبَطنِ یَاجُج حَتیَّ تَمُرَّ بِکُمَا زَینَبُ،فَتَصحَبَاھََا حَتَّی تَأتِیَانِی بِھَا۔
بطن یا جُج میں انتظار کرویہاں تک زینبؓ کا تمہارے پاس سے گزر ہو،پس دونوں اس کے ساتھ سفر کرو حتیٰ کہ اسے لے کرمیرے پاس پہنچ جاؤ۔
چنانچہ دونوں اپنے مقام کی طرف روانہ ہوئے اور یہ غزوہ بدر کے کم و بیش ایک ماہ بعد کی بات ہے۔ جب ابو العاص مکہ آئے تو انھوں نے زینبؓ کو اپنے والد کے پاس جانے کا حکم دیا، تو وہ تیاری کر کے روانہ ہو گئیں۔(8)
ابن ہشام کا بیان ہے:پس جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی اپنی تیاری سے فارغ ہوئیں تو ان کے سسرالی عزیز،ان کے شوہر کے بھائی کنانہ بن ربیع نے ان کے لیے اونٹ پیش کیا۔ وہ اس پر سوار ہوئیں اور اس نے بھی اپنا تیر کمان ترکش سنبھال لیا۔ پھر دن دھاڑے اونٹنی کو ہانکتے ہوئے آگے بڑھا،جب کہ زینبؓ اس کے ہودج میں تھیں۔ قریش کے کچھ لوگ اس بات کا ذکر کرنے لگے۔پس لوگ ان (زینبؓ) کی تلاش میں نکل پڑے۔ یہاں تک کہ ذی طوی کے مقام پر انھیں جالیا، تو پہلے جو لوگ ان کی طرف بڑھے، وہ ہبار بن اسود بن مطّلب بن اسد بن عبدالعزّی اور فہری تھے۔پس ہبار نے ان(زینبؓ) کو ہودج میں نیزہ مار کر خوفزدہ کیا، کہا جاتا ہے کہ وہ حاملہ تھیں اور خوف واذیت کی حالت میں ان کا حمل ساقط ہو گیا۔ چنانچہ ان کے دیورکنانہ نے اونٹنی کو بٹھا کر ترکش سنبھال لیا اور کہنے لگا:اﷲ کی قسم جو شخص بھی میرے قریب آیا، میں تیر اس کے جسم میں اتار دوں گا۔ پس لوگ اس سے پیچھے ہٹ کر منتشر ہو گئے۔
ابو سفیان قریش کے بعض لوگوں کے ہمراہ وہاں آکر کہنے لگے: اے جوانمرد اپنے تیروں کو روک تاکہ ہم تجھ سے بات کر سکیں۔پس اس نے روک دیا۔ابو سفیان آگے بڑھایہاں تک کہ اس کے پاس آکھڑا ہوا اور کہنے لگا: تم نے عقل مندی نہیں کی، تم علی الاعلان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اس خاتون کو لیکر نکل پڑے ہو جب کہ تمہیں (بدر میں)ہماری مصیبت ونکبت اور جو کچھ محمدؐ کی جانب سے ہمارے ساتھ ہوا، سب معلوم ہے۔ پس جب تم محمدؐ کی بیٹی کو لوگوں کی موجودگی میں ہمارے درمیان سے علی الاعلان لے کر نکلو گے تو لوگ خیال کریں گے کہ ایسا ہماری ذلت و مصیبت (شکست بدر) کی وجہ سے ہو رہا ہے اور یہ ہماری طرف سے کمزوری کی علامت ہے۔ مجھے اپنی زندگی کی قسم ہمیں اس (زینبؓ) کو اس کے باپ کے پاس جانے سے روکنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس میں ہمارے لیے کوئی طلب انتقام کی صورت ہے، مگر تم ابھی خاتون کو لے کر واپس چلے جاؤ،یہاں تک کہ جب آوازیں خاموش ہو جائیں اور لوگ یہ کہہ چکیں کہ ہم نے اسے لوٹا دیا ہے، تو اسے لے کر بغیر اظہار کیے خاموشی سے نکل جانا اور اس کے باپ سے جا ملانا۔
راوی کا بیان ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ وہ کچھ راتیں(مکہ ہی میں)مقیم رہیں،یہاں تک کہ جب آوازیں خاموش ہو گئیں، تو وہ انہیں لے کر رات کے وقت روانہ ہوا حتیٰ کہ انہیں زیدؓ بن حارثہ اور ان کے ساتھی کے سپرد کر دیا، جو انہیں لے کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔(9)
وذکر غیر ابن اسحاق أنّ ھُبَّاراً نخس بھا الراحلۃ، فسقطت علی صخرۃ وھی حامل، فسقط جنینھا،ولم تزل تھریق الدماءَ حتی ماتت بالمدینۃ بعد إسلام بعلھا أ بی العاص۔(10)
ترجمہ:ابن اسحاق کے علاوہ دیگر سے مذکور ہے کہ ہبار نے اونٹنی کے پہلو میں نیزہ چبھویا، جس سے زینبؓ اونٹنی سمیت ایک پتھریلی چٹان پر جاگریں جب کہ وہ حاملہ تھیں۔ پس ان کا حمل ساقط ہو گیااور وہ مسلسل خون گراتی رہیں،یہاں تک کہ اپنے شوہر کے اسلام لانے کے بعد مدینہ میں انتقال کر گئیں۔
اسی لیے انہیں شہیدہ اسلام بھی کہا جاتا ہے۔فکانوایرونھا ماتت شھیدۃ(11)مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ یہ تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
حضرت زینبؓ کا یہ زخم کئی سال تک رہا۔اور کئی سال اس میں بیمار رہ کر سن ۸ھ میں انتقال فرمایا، رضی اﷲ عنہا وأرضا ہا۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا ’’وہ میری سب سے اچھی بیٹی تھی جو میری محبت میں ستائی گئی‘‘۔(12)
یہ حدیث بیہقی کی ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں تفصیل سے مروی ہے:
عن عروۃ بن الزبیر عن عائشتہؓ’……
وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول((ھِیَ أَفضَلُ بَنَاتِی أُصِیَبت فِیَّ))۔(13)
اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: وہ میری بیٹیوں میں انتہائی فضیلت والی ہے جسے میری راہ میں اذیت دی گئی۔
شہیدہ اسلام سیدہ زینبؓ کی سن ۲ھ میں ہجرت مدینہ کے بعد ابو العاص مکہ ہی میں رہے۔ وہ قبول اسلام سے پہلے اور بعد ہر حال میں ایفائے عہد و میثاق کرتے رہے جس کی تعریف نبی علیہ السلام نے فرمائی:
’’ حَدَّ ثَنَا أَبُوالیمانِ أَ خَبرنا شعیب عن الزھری قال: حدّثنی علی بن حسین عن مخرمۃ، قال:…… أَنکحَتُ أَ بَا العاصِ بنَ الرَّبیعِ،فَحَدَّثنِی وَصَدَّ قَنِی))۔(14)
میں نے ابو العاص بن ربیع سے (زینبؓ کا )نکاح کیاتو اس نے مجھ سے جو قول وقرار کیا،اس میں سچا ثابت ہوا۔
ابو العاص ہجرت زینبؓ کے بعد تین سال چند ماہ مکہ میں رہے اور غالباً انھوں نے غزوہ احد و خندق وغیرہ میں حصہ نہیں لیا،بلکہ اسلام کی طرف مائل ہونے لگے۔ ایک مرتبہ قریش کے قافلے کے ساتھ تجارت کے لیے شام گئے تو واپسی پر مدینہ کے قریب عِیص کے مقام پر جُمادَی ا لا ُولیٰ ۶ھ میں زید ؓبن حارثہ کی قیادت میں ایک سَرِیّہ(دستہ لشکر) نے انھیں آن لیا، ان کے مال پر قبضہ کر لیا اور ان سب کو قیدی بنا لیا۔سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ابوالعاص فرارہو گئے اور وہ انہیں پکڑ نہ پائے۔ پس انھوں نے مدینہ میں زینبؓ سے پناہ طلب کی تو انھوں نے پناہ دیدی۔(15)
ابن سعد کا بیان ہے کہ ابو العاص بن ربیع بھی قیدیوں میں شامل تھے۔مگر وہ مدینہ میں داخل ہوئے تواپنی زوجہ زینبؓ بنت رسولؐ اﷲ کے پاس سحر کے وقت پہنچ کر طالب پناہ ہوئے تو انھوں نے پناہ دیدی۔
پس جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز فجر ادا کی تو زینبؓ نے اپنے دروازے پر کھڑے ہو کر بلند آوازسے پکارا:((اِنّی قَد أجَرتُ أبَا العَاصِ بنَ الرَّبِیع))میں نے ابوالعاص بن ربیع کو پناہ دی ہے۔ رسولؐ اﷲ نے فرمایا:((ھَل سَمِعتُم مَا سَمِعتُ ؟قالوا: نعم))۔ کیا تم نے وہ سنا جو میں نے سنا۔لوگوں نے کہا: جی ہاں۔آپؐ نے فرمایا ((فَوَالَّذیِ نَفسِی بِیَدِہِ مَا عَلِمتُ بِشَیءٍ مِمَّا کَانَ حَتیَّ سَمِعتُ الَّذِیِ سَمِعتُم، المُؤمِنُونَ یَد’‘ عَلیَ مَن سِوَاھُم‘ یُجِیرُ عَلَیھِم أَ دنَا ھُم، وَقَد أَ جَرنَا مَن أَجَارَت))۔ ترجمہ:پس قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو کچھ ہوا مجھے اس میں سے کچھ معلوم نہیں تھایہاں تک کہ میں نے وہ سنا جو تم لوگوں نے سنا۔مومنین دوسروں کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی طرح ہیں، ان کا کو ئی ادنیٰ شخص بھی ان کی جانب سے دوسروں کو پناہ دے سکتا ہے۔پس جس کو اس (زینبؓ)نے پناہ دی ہم نے بھی اسے پناہ دے دی۔
جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے گھر واپس آئے تو زینبؓ ان کے پاس آئیں اور درخواست کی کہ ابو العاص کا جو کچھ (مال) لیا گیا ہے وہ واپس کر دیا جائے۔پس آپؐ نے ایسا ہی کیا اور زینبؓ کو حکم دیا کہ ابو العاص کے قریب نہ جائیں، کیونکہ جب تک وہ مشرک ہیں، وہ (بطورزو جہ) ابوالعاص کے لیے حلال نہیں۔
ابوالعاص واپس مکہ آئے اور انھوں نے ہرحقدار کا حق (تجارت) اسے ادا کیا۔پھر اعلان اسلام کر کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس واپس بحیثیت مسلم و مہاجر محرم ۷ھ میں مدینہ آئے، تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نکاح اول ہی کی بنیاد پر زینبؓ ان کولوٹا دی۔(16)
بہرحال ابو العاصؓ نے اپنے اسلام کا اعلان مکہ ہی میں سن۶ھ میں کر دیااور قابل ترجیح یہ ہے کہ وہ مدینہ ہی میں زینبؓ کی پناہ اور اپنے مال کی واپسی کے بعد یا اس سے بھی پہلے دل سے مسلمان ہو چکے تھے، لیکن انھوں نے اعلان اسلام واپس مکہ جا کر کیا، پھر مدینہ کو ہجرت کی۔ابن ہشام کی یہ روایت اس کی تائید کرتی ہے کہ: مجھے ابو عبیدہ نے بتلایا کہ ابو العاص بن ربیع جب شام سے اموال مشرکین کے ہمراہ (مدینہ) آئے تو ان سے کہا گیا کہ: ھَل لَکَ أنَ تُسلِمَ وَ تَأخُذَ ھَذِہِ الأَموَالَ، فَاِنَّھَا اَموَالُ المُشرِکِیِنَ ؟ کیا یہ ٹھیک نہیں کہ آپ مسلمان ہو جائیں اور یہ اموال تجارت رکھ لیں کیونکہ یہ مشرکوں کے مال ہیں؟ تو ابوالعاص ؓ نے فرمایا: بِئسَ مَا أَبدَأُ بِہِ إِ سلَامِی أَن أَ خُونَ أَمَانَتِی۔(17) یہ تو بہت برا ہو گا کہ میں اپنے اسلام کی ابتداء امانت میں خیانت کر کے کروں۔
حضرت ابو العاصؓ کی خدمات واولاد
بظاہر ابو العاصؓ غزوہ خیبر(۷ ھ) فتح مکہ (رمضان ۸ھ) اور غزوہ طائف وحنین(۸ھ) وتبوک(۹ھ)نیز حجۃ الواداع(۱۰ھ) میں شریک رہے اوررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں معاذ ؓبن جبل اور علیؓ بن ابی طالب کے ہمراہ یمن بھی بھیجا ((وقد خرج مع علیّ إلی الیمن حین بعثہ الیھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم))۔(18)
ترجمہ:وہ علیؓ کے ساتھ یمن بھی گئے جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں وہاں بھیجا۔
ابو العاصؓ وزینبؓ کے بیٹے ربیب رسولؐ علیؓ بن ابی العاصؓ ہی تھے جو فتح مکہ کے موقع پر بحالت شباب اپنے نانا نبی علیہ السلام کے ساتھ اونٹنی پر بطور ردیف سوار تھے((وَلَمَا دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم مَکَّۃَ یَومَ الفَتح ِ، أَردَفَ عَلِیَّاََ خَلفَہُ ))(19)جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فتح مکہ کے روز مکہ میں داخل ہوئے تو انھوں نے علیؓ(بن ابوالعاصؓ) کو اپنے پیچھے بٹھالیا۔
علیؓ بن ابی العاصؓ رومیوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے جنگ یرموک (۱۵ رجب ۱۵ ھ) میں شہید ہوئے(قُتِلَ یَومَ الیرموک)(20)۔یہ بھی کہا گیا کہ وفات رسولؐ سے پہلے بحالت شباب وفات پائی۔(21)
حضرت ابو العاصؓ و زینبؓ کے بیٹے علیؓ کے علاوہ ان کی ایک بیٹی اُمامہؓ بھی تھیں جو نماز میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر سوار ہو جاتی تھیں:
عَن أبِی قَتَادَۃَ الأ نصَارِی أنَّ رَسُول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسّلم کَانَ یُصَلّی وَھُوَ حَامِل’‘ أُمَامَۃَ بِنتَ زَینَبَ بِنتِ رَسُولِ اللّٰہِ وَلأبِی العَاصِ بنِ الرَّبِیع، فَإذَا سَجَدَ وَضَعَھَا،وَإذَا قَامَ حَمَلَھا۔(22)
ترجمہ:ابو قتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس حالت میں نماز پڑھتے کہ ابو العاصؓ بن ربیع اور زینبؓ بنت رسولؐ اﷲ کی بیٹی اُمامہؓ آپؐ پر سوار ہوتیں، جب سجدہ فرماتے تو انہیں اتار دیتے اور جب اٹھتے تو وہ دوبارہ سوار ہو جاتیں۔
ابو العاصؓ کی وفات اور سیدہ امامہؓ کی بربناء وصیت فاطمہؓ(م ۳رمضان۱۱ھ)علیؓ بن ابی طالب سے شادی کے حوالہ سے ابن کثیر لکھتے ہیں:
وقد توفّی فی أیّام الصدیق سنۃ ثنتی عشرۃ۔وفی ھذہ السنۃ تزوّج علیّ بن أبی طالب بابنتہ أمامۃ بنت أبی العاص بعد وفاۃ خالتھا فاطمۃ، وما أدری ھل کان ذلک قبل وفاۃ أبی العاص أوبعد ھا، واللّٰہ أعلم۔(23)
ترجمہ:آپ خلافتِ صدیق ؓمیں سن ۱۲ھ میں وفات پا گئے اور اسی سال علیؓ بن ابی طالب نے أمامہؓ بنت أبی العاصؓ سے ان کی خالہ فاطمہؓ کی وفات کے بعد شادی کی اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ ابو العاصؓ کی وفات سے پہلے ہوئی یا بعد میں۔
سیدہ امامہؓ کی شادی سیدہ فاطمہؓ کی وفات (رمضان ۱۱ھ)کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ۱۱ھ ہی کے آخر میں معروف ہے، لہٰذا اس روایت کے مطابق حیات ابو العاصؓ ہی میں ہونا قرین قیاس اور قابل ترجیح ہے۔ابن کثیر روایت کرتے ہیں:
اسمھاأمامۃ بنت زینب، وقد تزوّجھاعلیّ بن أبیِ طالب بعد وفاۃ فاطمۃ ومات وھی عندہ۔ثمّ تزوّجت بعدہ بالمغیرۃ بن نوفل بن الحارث بن عبدالمطلب۔(24)
ترجمہ:ان کا نام امامہ بنت زینبؓ ہے ،ان سے علی بن ابی طالب نے وفات فاطمہ ؓ کے بعد شادی کی اور ان کی وفات تک انہی کی زو جہ رہیں۔ ان کے بعد مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب سے شادی کی۔
سیدہ امامہؓ کی وفات خلافتِ معاویہؓ میں بروایت مشہورہ ۵۰ ھ میں ہوئی:
و فی عہد معاویۃ بن أبی سفیان، وافی أمامۃ بنت أبی العاص الأجل،فقضت نحبھا،وھی علی ذمّۃ المغیرۃ۔(25)
ترجمہ:اور معاویہؓ بن ابی سفیانؓ کے عہد(خلافت) میں امامہ بنت ابی العاصؓ کی وفات ہوئی۔پس انہوں نے اپنا وقت پورا کیا جبکہ وہ مغیرہ کی زوجہ تھی۔
مشہور عالم و محقق مولانا محمد زکریاوفات امامہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں:
ان کا انتقال سن ۵۰ ھ میں ہوا۔(26)
حضرت ابو العاصؓ کی شاعری
ابو العاصؒ خطیب و شاعر تھے۔ انھوں نے سیدہ زینبؓ کی یاد میں شعر کہے۔
ہمیں ہشام بن محمد بن سائب کلبی نے معروف بن خربوذ مکی سے روایت کر کے خبر دی کہ ابو العاص بن ربیع نے شام کی جانب اپنے کسی سفر میں اپنی زوجہ زینبؓ بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یاد کیا اور یہ شعر کہے:
ذَکَرتُ زَینَبَ لَمَّا وَرَّکَت اِرَمَا
فَقُلتُ سُقیاً لِشَخصٍ یَسکُنُ الحَرَمَا
بِنتَ الأَمِینِ جَزَاھَااللّٰہُ صَالِحَۃً
وَکُلُّ بَعلٍ سَیُثنِی بِالََّذِی عَلِمَا
وقال محمد بن عمر:
وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:((مَا ذَمَمنَا صِھرَ أَ بی العَاصِِ))(27)
ترجمہ : میں نے زینبؓ کو یاد کیا جب ارم کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، پس میں نے کہا اﷲ اس شخص کو سیراب کرے جو حرم کا رہنے والا ہے۔وہ جو الامین ؐ کی صالح بیٹی ہے، اﷲ اسے جزائے خیر دے اور ہر شوہر اس بات کی تعریف کرے گاجس کا اسے علم ہے۔
محمد بن عمر نے بیان کیا… :اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
ہم نے ابو العاص میں بطور داماد کوئی قابل مذمت بات نہیں پائی۔
وفات ابو العاصؓ
حضرت ابو العاصؓ کو اپنی زوجہ سیدہ زینبؓ (۸ھ)کی وفات کا شدید صدمہ ہوا- نبی علیہ السلام کے ہمراہ ابو العاصؓ اور ہزاروں صحابہ کرامؓ نے نماز جنازہ ادا کی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ چنانچہ نہ تو سیدہ زینبؓ کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی کی اورنہ بعد ازاں،بلکہ مشہور روایت کے مطابق بعد میں بھی اپنی زندگی دعوت وجہاد کے لیے وقف کر دی،مگر ابن قتیبہ نے ابوالعاصؓ کی سعیدؓبن العاص کی بیٹی سے وفات زینبؓ کے بعد شادی کا ذکر کیا ہے واﷲ اعلم:
وتزوّج أبوالعاص، بنت سعید بن العاص وھلک بالمد ینۃ۔(28)
ابو العاصؓ(مِقسَم)بن ربیع نے وفات رسولؐ کے بعد خلافت ابو بکر صدیقؓ کی بیعت کی اور مشہور روایت کے مطابق سیف اﷲ خالدؓ بن ولید کی قیادت میں جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں شرکت کی اور شہادت پائی۔ چنانچہ اول داماد رسولؐ کو شہید ختم نبوت کا مقام عظیم نصیب ہوا اور بظاہر سیدنا خالد بن ولید نے سینکڑوں صحابہ کرام کے ہمراہ نماز جنازہ پڑھا کر یمامہ ہی کے مقام پر دیگر شہداء وحفاظ و قراء کے ہمراہ تدفین کی، رضی اﷲ عنہ و عنہم اجمعین۔
ابوالعاصؓ کی سن ۱۲ھ میں وفات کی کئی روایات ہیں اور یہی جنگ یمامہ کا سال ہے۔ ابن عبدالبر (م۴۶۳ھ) راوی ہیں:قال ابراھیم بن المنذر:وتوفّی ابوالعاص بن الربیع ویُسمَّی جرو البطحاء فی ذی الحجّۃ سنۃ اثنتی عشرۃ۔(29) ابراہیم بن منذر کا قول ہے کہ ابو العاص بن ربیع نے جنہیں شیر بطحاء کہا جاتا تھا، ذوالحجہ ۱۲ ھ میں وفات پائی۔
خطیب تبریزی(م۷۴۳ھ) روایت کرتے ہیں:قُتِلَ یوم الیمامۃ فی خلافۃ أبی بکر۔(30) خلافت ابو بکرؓ میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ صدّیق ؓ کے ایام (خلافت) میں سن ۱۲ھ میں وفات پائی۔ وقد توفیّ فیِ أیَّام الصدّیق سنۃ اثنتی عشر ۃ ۔(31)
خلاصہ مناقب ابو العاصؓ
عصر حاضر کے نامور نعت ومنقبت نگارجناب حفیظ تائبؒ (۱۹۳۱۔ ۲۰۰۴ء) نے اول دامادِ رسولؐ سیدنا ابو العاصؓ بن ربیع القُرَشی العَبشَمی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی تلمیحاتی شاعری(منقبت) میں مختلف روایات کو خوبصورت اور مربوط انداز میں یکجا کیا ہے جسے خلاصۂ کلام کے طور پر درج کیا جارہا ہے :
حضرت ابوالعاص رضی اﷲ عنہ
یاوری کی بخت نے یوں حضرت بوالعاصؓ کی
زوجِ زینبؓ ہوکے ٹھہرے پہلے داماد نبیؐ
رشتہ زینبؓ سے نہ توڑا گو دباؤ تھا بہت
اس وفاداری سے راحت سرور دین کو ملی
وہ تھے ھالہ خواہر حضرت خدیجہؓ کے پِسَر
غلہ پہنچاتے رہے شعب ابی طالب میں بھی
حسب و عدہ بھیج کر زینبؓ کو شہ دینؐ کے پاس
عہد فرقت میں بڑی مشکل سے کاٹی زندگی
بعدتفریق ان کو دی زینبؓ نے طیبہ میں اماں
کام ان کے آگئی ان کی سلیم الفطرتی
آگئے طیبہ سے مکہ لے کے اپنا مال سب
ہر امانت کر کے واپس دولت اسلام لی
کر کے ہجرت خدمت سرکارؐ میں جب آگئے
دھل گئے سارے گنہ پھر سے رفیقہ مل گئی
وہ امامہؓ کے پدر ٹھہری جو زوج مرتضیٰؓ
فتح مکہ میں ردیف شہؐ ہوا ان کا علیؓ
جو یمامہ میں ہوئے ختم نبوت کے شہید
عمر آخر لغزش رفتہ کا کفّارہ بنی (32)
اول داماد رسولؐ، شہید ختمِ نبوت در جنگ یمامہ ابو العاصؓ (مقسم)بن ربیع کے مناقب و محاسن بے شمار اورخدمات دعوت وجہادعظیم الشان ہیں نیز ان کا مقام و مرتبہ منفرد و عظیم ترہے، رضی اﷲ عنہ وأ رضاہ ۔
حواشی
(1) ابن عبدالبر، الاستیعاب(۳۰۹۱:ابو العاص بن الربیع العبشمی)۴ /۲۶۴۔جُرو،شیر کے بچے کو کہتے ہیں جو جرأت و شجاعت کی علامت ہے۔
(2) الخطیب التبریزی، الاِکمال فی اسماء الرجال، حرف العین، فصل فی الصحابہ(۵۸۵: أبو العاص بن الربیع)ص۲۵۷۹۔
(3) ابن ھشام ،السیرۃ النبویہ ۲۶۳/۲۔
(4) ابن ہشام السیرۃ النبویہ ۲۶۳/۲۔
(5) سپہر کاشانی، ناسخ التواریخ(جلد دوم از کتاب اول،وقایع بعد از ہبوط آدم تا ہجرت)ورق۶۲۱۰،طبع تہران(طبع محلی در کارخانہ آقا میر باقر تہرانی)نیز ملاحظہ ہو ’’ناسخ التواریخ‘‘(تحقیق :جمشید کیان فر)انتشارات اساطیر، تہران۱۳۸۰،ج۱،ص۵۰۹۔
(6) ابن عبدالبر،الاستیعاب ۲۶۴/۴(باب العین: ابوالعاص)نیز دیکھئے سیرۃ ابن ھشام۲؍۲۶۴
(7) سیرۃ ابن ھشام۲؍۲۶۴
(8) ابن ہشام ،السیرۃ النبویہ ۲۶۴/۲۔۲۶۵۔
(9) ابن ھشام، السیرۃ النبویہ ۲۶۵/۲۔ ۲۶۶۔
(10) ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ۲۶۵/۲،حاشیہ ۴ بحوالہ الاستیعاب و الروض الانف للسھیلی۔
(11) ابن کثیر، البدایۃ والنھایہ ۲۶۸/۵(فی ذکر اولادہ علیہ السلام)
(12) مولانا محمد زکریا، تبلیغی نصاب، حکایات صحابہؓ، کتب خانہ فیضی لاہور، ص۱۴۳۔۱۴۴۔ وحاشیہ بحوالہ تاریخ خمیس واسدالغابہ۔
(13) بیہقی، دلائل النبوۃ۔ جُمّا ع ابواب غزوۃ بدر،ماجاء فی زینبؓ بنت رسول اﷲ ج ۳، ص ۱۵۶۔
(14) صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیؐ، باب ذکر اصھارالنبیؐ، ج ۳،ص ۱۳۶۴(ح۳۵۲۳)
(15) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۲۶۹/۲۔۲۷۰)نیز ملاحظہ ہو طبقات ابن سعد ۸ /۳۳(تحت زینب)
(16) طبقات ابن سعد۳۳/۸(تحت زینبؓ)-
(17) ابن ہشام، السیرۃ النبویہ۲۶۹/۳۔۲۷۰۔
(18) ابن کثیر، البدایہ والنھایہ ۶/ ۳۵۹۔
(19) ابن الاثیر، اسد الغابۃ(۳۷۸۵:علی بن ابی العاصؓ)۶۲۱/۳۔
(20) ابن عساکر،تاریخ مدنیۃ دمشق،دارلفکر ،بیروت۱۹۹۵م حرف العین:( علی بن ابی العاصؓ) ۴۳ ؍ ۸ ۔
(21) ابن الاثیر، اسد الغابۃ(علی بن ابی العاصؓ)۱۴/۴،المکتبہ الاسلامیہ،طہران۱۳۸۶ھ۔
(22) صحیح البخاری،باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ فی الصلاۃ ج ۱،ص ۱۹۳(ح ۴۹۴)۔
(23) ابن کثیر البدایۃ والنھایۃ ۳۵۹/۶۔
(24) ابن کثیر البدایۃ والنھایۃ ۲۵۶/۵۔
(25) محمد راجی کنّاس،حیاۃ نساء اھل البیت، بیروت،دارالمعرفۃ،۱۴۲۹ھ،۲۰۰۸ء، ص ۷۱۱۔
(26) مولانا محمد زکریا،تبلیغی نصاب،لاہور،کتب خانہ فیضی (حکایات صحابہؓ)،ص ۱۵۶۔
(27) طبقات ابن سعد ۳۲/۸
(28) ابن قتیبہ، کتاب المعارف ،ص۸۴۔
ّ(29) ابن عبدالبر،الاستیعاب ۴/ ۲۶۶۔
(30) الخطیب(التبریزی:الاکمال فی اسماء الرجال(حرف العین، فصل فی الصحابۃ(۵۸۵:ابو العاص بن الربیع القرشی العبشمیؓ)۔
(31) ابن کثیر ،البدا یۃ والنھایۃ ۳۵۹/۶(ابوالعاص بن الربیع)۔
(32) حفیظ تائب،اصحابی کالنجوم،سنگت پبلشرز لاہور،اشاعت ۲۰۱۲ء ص ۱۴۰۔۱۴۱۔
مصادر و مراجع
(عربی)
۱ ۔ابن الأ ثیر، عزّالدین أبوالحسن علی بن محمد الشیبانی الجزری(م۶۳۰ھ):أسُد الغابۃ فی الصحابۃ(طبعۃ مجدّدۃ بإ شراف مکتب البحوث والدراسات فیِ دارالفکر)بیروت، دارالفکر ۱۴۱۴ھ/۱۹۹۳ء،۱۹۹۴ء، ۱۹۹۵ء ۔
۲ ۔ ابن سعد، محمد(م۲۳۰ھ)الطبقات الکبری،بیروت، دارصادر ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء۔
۳۔ابن عبدالبر،أبو عبداللّٰہ محمد بن عبدالبر القرطبی(م۴۶۳ھ):الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب(تحقیق و تعلیق: الشیخ علی محمد معوض، والشیخ عادل أحمد عبدالموجود،تقدیم و تقریظ:محمد عبدالمنعم البری، د،جمعۃ طاہر النجّار) بیروت، دارالکتب العلمیۃ ۱۴۲۲ھ/۲۰۰۲ء) ۔
۴۔ابن عساکر،أبو القاسم علی(م ۵۷۱ھ):تاریخ مدینۃ دمشق(تحقیق:محبّ الدین أبی سعید عمر بن الغرامۃ العمری)،بیروت، دارالفکر۱۹۹۵ م۔
۵۔ابن قتیبۃ،أبو محمد عبداللّٰہ بن مسلم بن عبدالمجید(م ۲۷۶ھ):کتاب المعارف، بیروت، دارلکتب العلمیۃ ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء۔
۶۔ابن کثیر الحافظ أبوا لفداء إسماعیل الدمشقی(م۷۷۴ھ): البدایۃ والنھایۃ(دقّق اُصولہ وحقّقہ:د۔أحمد ملحم،ود۔علی نجیب عطوی،والأ استاذ فؤاد السیّد والأستاذ محمدی ناصرالدین،والأستاذ علی عبدالسائر)بیروت، دارالکتب العلمیۃ ۔
۷۔ابن ھشام،محمد بن عبدالملک الحمیری(م۲۳۰ھ)السّیرۃ النبویۃ (ضبط و تحقیق و شرح: مصطفی السقا، إ براھیم الابیاری،عبدالحفیظ شلبی) بیروت ، دإراحیاء التراث العربی، الطیعۃ الأ ولی ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء ۔
۸۔البخاری،الامام أبو عبداللّٰہ محمد بن إسماعیل (م ۲۵۶ھ)صحیح البخاری(تحقیق: مصطفی دیب البغا) بیروت و دمشق، دارابن کثیر، الطبعۃ الثالثۃ ۱۴۰۷ھ/ ۱۹۸۷ء ۔
۹۔البیھقی، أبوبکرأحمد بن الحسین(م۴۵۸ھ):دلائل النبوّۃ،بیروت،دارالکتب العلمیۃ۔
۱۰۔التبریزی،الخطیب، ولی الدین محمد بن عبداللّٰہ (م ۷۴۳ھ):الإکمال فی أسماء الرجال (تحقیق و تعقیب:رمضان بن أحمد بن علی آل عوف،قرأہ وقدّم لہ:الشیخ عبدالعزیز بن عبداللّٰہ الراجحی)بیروت، دار ابن حز م للطباعۃ والنشرو التوزیع، الطبعۃ الأولی۱۴۲۳ھ/۲۰۰۳ء ۔
۱۱۔کنّاس، محمد راجی:حیاۃ نساء أھل البیت، بیروت دارالمعرفۃ،الطبعۃ الاُولی ۱۴۲۹ھ؍۲۰۰۸ء ۔
(فارسی)
۱۲۔سپہر کاشانی، میرزا محمد تقی لسان الملک(م ۱۳۳۰ھ۔ ش۔): ناسخ التواریخ، جلد دوم از کتاب اول، تہران(درکارخانہ آقا میر باقر تہرانی) وراجع أیضاً ناسخ التواریخ (تحقیق : جمشید کیان فر)انتشارات اساطیر، تہران، طبع دوم ۱۳۸۵ھ ۔
(اردو)
۱۳۔حفیظ تائب (م ۲۰۰۴ء) : اصحابی کالنجوم،لاہور، سنگت پبلشرز،اشاعت ۲۰۱۲ء۔
۱۴۔زکریا، مولانا محمد (م ۱۴۰۲ھ؍ ۱۹۸۲ء) تبلیغی نصاب،لاہور، کتب خانہ فیضی
٭……٭……٭