محمدعامر خاکوانی
ارادہ تو کسی اور موضوع پر لکھنے کا تھا، مگر ہمارے ایک سینئر اور قابل احترام کالم نگار نے ہفتہ کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں یہ سوال اٹھایا کہ داراشکوہ ہر بار ہارتا کیوں ہے؟ سوال مزے کا ہے، ا نہوں نے جو تھیسس بیان کیا، وہ اس سے بھی زیادہ معنی خیز اور دلچسپ ہے۔ اس پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے داراشکوہ کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دارا شکوہ مشہور مغل شہزادہ تھا۔ شاہ جہاں، جس کی ایک وجہ شہرت تاج محل بنوانا بھی ہے، اس کا بڑا بیٹا اور ولی عہد، جواقتدار کی جنگ ہار گیا۔ اورنگ زیب اس جنگ کا فاتح تھا۔ دارا شکوہ کو اورنگ زیب نے بعد میں قتل کر دیا تھا۔ قتل سے پہلے اس نے شکست خوردہ شہزادے کو سخت گرمی میں چیتھڑے والا لباس پہنا کر ایک خارش زدہ ہتھنی پر بٹھا کر دلی کا چکر لگوایا۔ اس کے بعد اورنگ زیب نے دارا شکوہ کو قتل کرا دیا، اور سر چوک پر کھمبے سے لٹکا دیا۔
داراشکوہ ہمارے ہاں ایک حلقے کے نزدیک مظلومیت اور رومانویت کی علامت ہے۔ ایک وجہ تو اورنگ زیب سے بیزاری یا ناپسندیدگی ہوسکتی ہے۔ اورنگ زیب بنیاد پرست مسلمان سمجھا جاتا تھا، مغل بادشاہوں میں سے وہ سب سے زیادہ مذہبی اور دینی روایات کے حوالے سے سخت تھا۔ اس کی شخصیت اگرچہ تضادات کا مجموعہ تھی۔ وہ نہایت سادہ زندگی بسر کرتا تھا، مغلوں کے روایتی عیش و عشرت کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس نے حرم آباد کیے نہ ہی وہ شراب وکباب سے دلچسپی رکھتا تھا۔ موسیقی بھی ناپسند تھی۔ روایت ہے کہ اس زمانے کے چند مشہور فن کاروں نے احتجاجاً ایک فرضی جنازہ تیار کیا اور روتے پیٹتے ہوئے شاہی محل کے نیچے سے گزرے۔ شور سن کر بادشاہ نے کھڑکی سے نیچے جھانکا اور پکار کر پوچھا، کس کا جنازہ ہے؟ گلوکاروں نے جواب دیا، بادشاہ سلامت یہ موسیقی کا جنازہ ہے۔ اورنگ زیب مسکرا کر بولا، اس جنازے کو دور لے جاؤ اور گہری قبر میں دفنانا، کہیں دوبارہ زندہ نہ ہوجائے۔ اورنگ زیب کے مزاج کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اس نے اپنے بھائیوں کو قتل کرا دیا، شہزادہ مراد کو یہ تاثر دیا کہ داراشکوہ سے جنگ جیت لی گئی تو وہی بادشاہ ہوگا، مگر پھر بعد میں سازش سے اسے مروا دیا۔ اپنے والد شاہ جہاں کو تاج محل کے سامنے واقع ایک محل میں نظربند کر دیا، مرتے دم تک وہ یہیں رہے۔ اورنگ زیب نے اس پر مسکرا کر تبصرہ کیا، لگتا ہے ابھی تک شاہ جہاں کے ذہن سے بادشاہت کا خیال محو نہیں ہوا۔ اورنگ زیب نے بہت سی غیر شرعی رسومات ختم کرا دیں اور مذہبی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرایا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے اس قدامت پسند مذہبی تصور کی بنا پر مذہبی لوگ اس کا احترام کرتے ہیں، جبکہ لبرل، سیکولر عناصر اورنگ زیب کو ہمیشہ سخت تنقید کا ہدف بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک داراشکوہ ایک سیکولر شہزادہ تھا، جو صلح جو مزاج کا حامل اور غیر مسلموں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ داراشکوہ کو روحانیت سے گہری دلچسپی تھی، اس نے اسلامی تصوف کے ساتھ ویدانت اور دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ اس کی محفل میں ہندو جوگی شامل رہتے، وہ ہندو رسومات میں نہ صرف دل جمعی سے شامل ہوتا بلکہ کسی حد تک بعض نظریات پر یقین بھی رکھتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار اپنے مشیروں کے کہنے پر وہ جمعہ نماز پڑھنے مسجد چلا گیا تو ایک چھوٹی سی مورتی اپنے کرتے کی جیب میں ڈال کر گیا۔ انھی بے وقوفیوں اور بے اعتدالیوں کی وجہ سے شہزادہ داراشکوہ کے مخالف اسے ملحد کہتے۔
مزے کی بات ہے کہ داراشکوہ کی شخصیت بھی تضادات کاشکار تھی۔ شاہ جہاں کا وہ محبوب بیٹا تھا، اس نے اسے ولی عہد مقرر کیا، حالانکہ بادشاہ اچھی طرح جانتا تھا کہ شہزادہ اس بڑے منصب کا اہل نہیں۔ داراشکوہ کو اندازہ تھا کہ اس کا بھائی اورنگ زیب اس کا حقیقی حریف ثابت ہوگا۔ اس نے باپ کو کہہ کر ہمیشہ اورنگ زیب کو دارالحکومت سے سینکڑوں میل دور مہمات پر بھیجے رکھا کہ کہیں دلی میں رہ کر وہ بااثر سرداروں سے تعلقات نہ قائم کر لے۔ روایت ہے کہ ایک بار ہاتھیوں کے مظاہرے کے موقع پر ایک پاگل ہاتھی نے اورنگ زیب پر حملہ کر دیا۔ نوجوان شہزادے نے دلیری سے تلوار سونت کر ہاتھی کا مقابلہ کیا۔ قریب کھڑے لوگوں نے مداخلت کر کے ہاتھی کا دھیان بٹانے کی کوشش کی، شہزادہ مراد نے بھی اورنگ زیب کو بچانے کی کوشش کی۔ داراشکوہ بادشاہ کے قریب کھڑا تھا، وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں، بے اعتنائی سے اورنگ زیب کو اپنی بقا کی جنگ لڑتے دیکھتا رہا۔ شاید اس امید میں کہ پاگل ہاتھی اس کے ممکنہ بڑے حریف کا خاتمہ کر دے۔ اورنگ زیب کو بھی اپنے بھائی کی اس نفرت اور خودغرضانہ سوچ کا اندازہ تھا۔ ایک بار شہزادہ داراشکوہ نے ضیافت دی، بادشاہ اور دیگر شہزادے شامل ہوئے، دعوت محل کے ایک تہہ خانے میں ہوئی۔ کہتے ہیں کہ اورنگ زیب نے نیچے جانے سے گریز کیا اور تہہ خانہ کے دروازے کے قریب ایک سیڑھی پر بیٹھا رہا۔ بعد میں بادشاہ نے اسے ڈانٹا کہ دسترخوان پر کیوں نہیں آیا۔ اورنگ زیب نے صاف گوئی سے جواب دیا کہ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں داراشکوہ نے تہہ خانے کی باہر سے کنڈی لگالی تو ہم سب ایک ہی جگہ پر پھنس کر ختم ہوجائیں گے۔ جب اورنگ زیب دلی کے تخت پر قابض ہوگیا، فرار کی کوشش کرتے داراشکوہ کو گرفتار کر کے دربار میں پیش کیا تو اورنگ زیب نے پوچھا، فرض کرو آج ہمارے کردار بدل جائیں، تم تخت پر ہو اور میں تمھارے سامنے یوں پیش کیا جاؤں تو کیا کرو گے۔ داراشکوہ نے نخوت سے جواب دیا، تمہارے چار ٹکڑے کرا کر شہر کے چاروں برجوں پر لٹکا دوں گا۔ اورنگ زیب نے شاید پہلے ہی سے فیصلہ کر رکھا ہوگا، مگر اس جواب نے داراشکوہ کی موت پر مہر ثبت کر دی۔
اورنگ زیب کے حوالے سے بہت سے غلط مفروضے انگریزوں کے دور میں پھیلائے گئے۔ یہ کہا گیا کہ اس نے بہت سے ہندو مندر گرائے اور وہ ہندو مخالف تھا۔ اب کئی کتابیں ایسی آ چکی ہیں جنہوں نے ان تمام غلط نظریات کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ حال ہی میں ایک امریکی مصنف نے اپنی کتاب ’’دا اورنگ زیب، مین اینڈ متھ‘‘میں بتایا ہے کہ اورنگ زیب ہندو مخالف نہیں تھا، اس نے کئی اہم عہدوں پر ہندوؤں کو فائز کیا تھا، اس نے مندر بھی نہیں تڑوائے۔ امریکی مصنف نے یہ بھی لکھا کہ اگر داراشکوہ جیت جاتا تو ہندوستان بکھر جاتا کہ وہ بادشاہت کا اہل نہیں تھا۔ یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ اگر اورنگ زیب ہار جاتا تو داراشکوہ نے بھی اسے اور دیگر بھائیوں کو قتل کرا دینا تھا۔ اقتدار کے کھیل میں ایسا ہی ہونا تھا۔
شروع میں جس کالم کا حوالہ دیا گیا، اس میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ داراشکوہ ہر بار کیوں ہارتا ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ کیونکہ داراشکوہ نااہل اور نالائق تھا۔ زندگی کی جنگ کٹھن ہوتی ہے، اقتدار کی جنگ تو اس سے کہیں زیادہ مشکل، خطرناک اور چاقو کی دھار پر سفر کرنے کے مترادف ہے۔ وہاں نااہلی کا کوئی جواز نہیں۔ داراشکوہ اس لیے ہارا کہ وہ اپنے حریف اورنگ زیب جیسا بہادر، ہوشیار اور ماہر فن حرب نہیں تھا۔ اورنگ زیب نے جو وقت عسکری مہارت حاصل کرنے، جسمانی مشقوں اور اپنی ذہنی صلاحیت بڑھانے میں صرف کیا، داراشکوہ اس وقت جوگیوں،گلوکاروں، موسیقاروں اور نشہ کرنے والے فقیروں کی صحبت میں رہا۔ داراشکوہ خود کو صوفی کہتا تھا، مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ ایک جعلی، جھوٹا صوفی تھا۔ حضرت میاں میر رحمتہ اﷲ علیہ کے دربار میں وہ حاضری کے لیے آیا۔ تصوف پر ایک کتاب لکھی، مگر افسوس کہ اس نے صوفیوں، درویشوں سے کچھ حاصل نہیں کیا۔ ایک سچے صوفی کا تاج و تخت سے کیا تعلق؟ تاریخ میں کئی بادشاہ ایسے گزرے جنہوں نے اپنے تاج کو ٹھوکر مار کر روحانیت اختیار کی، آج تک دنیا انہیں یاد رکھے ہوئے ہے۔ ایسا ایک بھی درویش نہیں ملے گا، جس نے بادشاہت کی خواہش کی ہو، اس کے لیے جنگیں لڑی ہوں۔ ایسا شخص درویش اور صوفی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کا یہ دعویٰ غلط اور جھوٹا ہوگا۔ صوفی آج کی اصطلاح میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتا ہے۔ حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ مگر وہ اقتدار سے بھی کوسوں فاصلے پر عوام کے دلوں میں رہتا ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں، بادشاہ بننے کے لیے چالیں چلنے، سازشیں کرنے، اپنے مخالفین کو عیاری سے ہرانے کے خواہشمند صوفی ہوسکتے ہیں نہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن سکیں گے۔ یہ سب جعلی دعوے ہیں۔
داراشکوہ ایک علامت ہے، نااہلی، نالائقی اور کمزورصلاحیتوں کے مالک ایسے شخص کی جو اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچنے کا خواہش مند ہو۔ اقتدار کی جنگ میں زیادہ اہل، زیادہ سخت جان اور ماہر کے حصے میں جیت آتی ہے۔ ایسا ہوا کہ نااہل اقتدار پر قابض ہوگئے، مگر ان کا عرصہ زیادہ طول نہیں پکڑ سکا۔ آخرکار انہیں باہر ہی جانا پڑا۔ یہ ماتم کرتے ہوئے کہ مجھے کیوں نکالا؟ داراشکوہ بھی یہ شکوہ کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوا کہ مجھے اقتدار سے کیوں نکالا؟ اس کی پیروی کرنے والے جعلی صوفی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی ناکام ہوں گے۔ پاکستان ہو یا کوئی اور ملک، نتیجہ ایک ہی آنا ہے۔ داراشکوہ نے ہمیشہ ہارنا ہے۔ یہی تاریخ کا ابدی اور بے رحم اصول ہے۔