(قسط: ۴)
علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
ڈارون کا مقام ڈاکٹر صاحب کی نگاہ میں:
محترم ڈاکٹر صاحب نے ڈارون کی منقبت سرائی میں بڑی فراخ دلی سے کام لیا ہے۔ ان کے ریمارکس مختصراً یوں ہیں۔
الف۔ ڈارون نے عربی زبان سیکھ لی تھی۔
ب۔ ڈارون نے اپنے عربی اساتذہ کے نام بڑے احترام سے لیے ہیں۔
ج۔ اس کا نظریۂ ارتقاء دراصل اخوان الصفا اور ابن مسکویہ جیسے حکماءِ اسلام کے نظریات کا چربہ ہے۔
د۔ ان حکماء کو ان کی زندگی میں کافر قررار نہیں دیا گیا تھا، تو ڈارون کے نظریہ کو بھی اسلام کے خلاف نہیں کہہ سکتے۔ ڈارون کو ملحد اور خدا کا منکر قرار دینا ایک مفروضہ ہے۔
بول چال میں پاکیزہ اور شُستہ زبان کا استعمال یقینا قابلِ تعریف ہے اور یہ ڈاکٹر صاحب کی خوبی ہے۔ لیکن! سوال یہ ہے کہ کیا محض عربی زبان کا سیکھ لینا کسی کو کفر سے بچانے کے لیے کافی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو عربی لغت المنجد کا مصنف ’’لویس معلوف‘‘ یقینا اس دور کا سب سے بڑا مسلمان ہوتا۔ ڈارون بیچارے کو تو عربی زبان سیکھنا پڑی، لاکھوں عیسائی اور یہودی عربی زبان میں مہارت رکھتے ہیں اور آج وہ بین الاقوامی شہرت کی حامل یونیورسٹیوں میں عربی زبان کی تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ہندو دھرم کا مشہور بدنام زمانہ مصنف ’’پنڈت دیانند سرسوَتی‘‘ عربی زبان خوب جانتا تھا تو ڈاکٹر صاحب ان سب کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے؟
عربی اساتذہ کے نام احترام سے لینا تو ایک طرف رہا، حدیث اور سیرت طیبہ کی کتابیں اٹھا کر دیکھئے کہ قیصر روم، ہرقل نے خود نبی عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کا غائبانہ کس قدر احترام کیا، مگر کیا کسی نے اسے مسلمان قرار دیا؟ مسٹر گاندھی آنجہانی نے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کے سامنے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بڑی تعریف کی۔ رئیس الاحرار نے فرمایا: ’’پھر انتظار کس چیز کا ہے، کلمہ پڑھ لیجیے‘‘۔ اس پر آنجہانی خاموش ہو گئے۔ دِلُّو رام کوثری، بھگوان داس، عرش ملسیانی جیسے ہندو شعراء اور سینکڑوں ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر غیر مسلم مصنفین نے بارگاہِ نبوّت میں عقیدت کے پھول نذر کیے، لیکن کیا ان میں سے کسی کو مسلمان قرار دیا جاتا ہے؟ ان صفحات میں گنجائش نہیں ورنہ تو ہم ذرا کھول کر بیان کرتے کہ سچا جاننے اور سچا ماننے میں فرق ہے۔
اخوان الصفا اور ابن مسکویہ جیسے قدیم فلسفہ دان، جنھیں ڈاکٹر صاحب یا اہل علم ’’حکماءِ اسلام‘‘ کے گراں قدر خطاب (Title) سے نوازتے ہیں، بڑی ستم ظریفی ہے کہ ڈاکٹر صاحب، ڈارون کو ان کا خوشہ چیں بتا کر ڈارونی نظریہ کو حیات جاوید اور استحکام بخشنا چاہتے ہیں، ورنہ تو اس نظریہ کو اسلام کے مطابق قرار دینے کے لیے کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔
سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ’’حکمت‘‘ اور ’’حکیم‘‘ کے قرآنی الفاظ کو بالکل بے محل اور بے جا طور پر فلسفۂ یونان اور اس کے جاننے والوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ فلسفۂ یونان نے بلاشبہ انسانی معاشرہ کو بہت سی مفید اور کار آمد چیزیں بھی دیں، لیکن اس کا ایک بڑا حصہ اوہام اور مفروضات پر مشتمل ہے۔ اس فلسفہ کے مطابق:
الف۔ مادہ قدیم ہے۔
ب۔ الواحد لا یصدر منہ الا الواحد۔
ج۔ واجب الوجود نے صرف عقلِ اوّل کو پیدا کیا۔ عقلِ اوّل نے عقلِ ثانی اور فلک اوّل کو پیدا کیا۔ اس طرح ہوتے ہوتے عقل تاسع نے عقل عاشر اور فلک تاسع کو پیدا کیا۔ پھر عقل عاشر نے باقی ساری کائنات کو پیدا کیا۔
د۔ ان فلاسفہ نے افلاک کی جو ہیئت بیان کی ہے، آج پڑھے لکھے بچے بھی اسے سنتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں: ذٰلِکَ مَبْلَغُہُمْ مِنَ الْعِلْمِ۔
ھ۔ افلاک خرق والتیام کو قبول نہیں کرتے۔ وغیر ذلک من الخرافات۔
’’حکمت‘‘ کا لفظ قرآن کریم میں تقریباً بیس مرتبہ آیا ہے اور ہر جگہ اس سے ’’علومِ نبوّت‘‘ مراد ہیں نہ کہ یونانی فلسفہ۔ بڑا ظلم ڈھاتا ہے اور تفسیر بالرائے کے جرم عظیم کا مرتکب ہوتا ہے وہ شخص جو قرآن کریم کے لفظ ’’حکمۃ‘‘ سے یونانی طب یا یونانی فلسفہ مراد لیتا ہے۔ اس فلسفہ کی بڑی بڑی کتابیں آج بھی مدارس عربیہ میں پڑھائی جا رہی ہیں، طلبہ ان کو رٹ لیتے ہیں، بلکہ دیمک کی طرح چاٹ لیتے ہیں، مگر حاصل ندارد۔ یہ بیچارے اتنا بھی نہیں بتا سکتے کہ چراغ کو پھونک مارو تو بجھ جاتا ہے، مگر چولھے میں ہوا کرو تو آگ جل اٹھتی ہے۔ کیا وجہ ہے؟ آدمی سائیکل پر سوار ہو کر کھڑا رہنا چاہے تو سہارے کے بغیر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ گر پڑتا ہے، مگر پیڈل مارتا ہوا آگے حرکت کرتا ہے تو یہ جا، وہ جا۔ اس میں کیا راز ہے؟
میں عرض یہ کر رہا تھا کہ ’’حکمت‘‘ اور ’’حکیم‘‘ کا لفظ قرآن مجید سے چرا کر یونانی فلاسفہ اور ان کے پیروکاروں پر چسپاں کر دیا گیا، چلئے ’’دانایاں در پئے الفاظ نمے روند‘‘ کے تحت ہم اس بات کو چھوڑتے ہیں، مگر یہ کیونکر فرض کر لیا گیا کہ ان فلاسفۂ یونان یا دانایان فرنگ کے منہ اور قلم سے نکلی ہوئی ہر بات کو سر پر رکھنا اور آنکھوں سے لگانا ضروری ہے؟
اخوان الصفاء دراصل چند لکھے پڑھے لوگوں کی ایک جماعت کا نام ہے، جس نے اعتزال کی کوکھ سے جنم لیا اور شیعیت کی گود میں پرورش پائی۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ معتزلہ نے اپنے لیے ’’اصحاب العدل والتوحید‘‘ کا ٹائٹل منتخب کیا تھا۔ ان لوگوں نے اپنے لیے ’’اھل الصفاء والایمان‘‘ کا لقب چنا، جو شدہ شدہ ’’اخوان الصفاء‘‘ بن گیا۔ ’’رسائل اخوان الصفاء‘‘ ۵۲ مختلف مقالات کا مجموعہ ہے، جن میں مصنفین نے اپنے نقطۂ نگاہ سے الٰہیات اور دیگر عنوانات پر گفتگو کی ہے۔ جو لوگ فرقۂ اسماعیلیہ (قرامطہ) کی تاریخ سے واقف ہیں، انھیں مزید کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وہ گروہ ہے جس نے حسن بن صباح کی سرکردگی میں دنیائے اسلام میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ قلعۂ الموت کی فردوس بریں بھی اسی کا کارنامہ ہے۔ شاید ان لوگوں کی یہی ’’اسلام دوستی ‘‘ ہے جس کی بنا پر گولڈ زیہر جیسے متعصب مستشرق نے ان کے حالات میں دلچسپی لی۔ علماءِ اسلام نے ان کے بارے میں کیا کہا، یہ ایک تفصیل طلب کہانی ہے۔ پھر تو پہلے ان لوگوں کے عقائد کا بیان کیا جائے اور اس کے بعد علماءِ اُمّت کی آراء کا ذکر ہو۔
ابن مسکویہ (جس کو مسکویہ کہنا زیادہ صحیح ہے) بھی چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ وہ ابو نصر فارابی کا شاگرد تھا۔ شروع میں ا مراءِ سلطنت کے ہاں ملازم رہا۔ پڑھنے لکھنے کا شوقین تھا۔ وہ ارسطو کے فلسفہ کا شارح بن کر ابھرا۔ اس نے بیس سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ الرئیس بو علی ابن سینا اور بعض دوسرے مصنفین اسے ایک کیمیا دان (Chemist) قرار دیتے ہیں کہ یہ پارس کے پتھر کی تلاش میں پھرتا رہتا تھا۔ اب اخوان الصفاء ہوں یا ابن مسکویہ، یونانی فلسفہ کے ترجمان اور شارح کی حیثیت سے آپ ان کو جتنا اونچا مقام دیں، آپ جانیں اور آپ کا کام، سوال یہ ہے کہ کتاب و سنت کے شارح، فقہ اسلامی کے ماہر اور فلسفۂ اسلامیات کے رمز شناس کی حیثیت سے بھی ان کا نام لیا جا سکتا ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر آپ اسلامیات کے طالب علم کو ان کا راستہ کیوں دکھاتے ہیں؟
ما قصۂ اسکندر و دارا نخواندہ ایم
از ما بجُز حکایت مہر و وفا مپُرس
نظریۂ ارتقا کا خلاصہ:
ڈاکٹر صاحب کے بیان کے مطابق نظریۂ ارتقا کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
۱۔ خدا نے پہلے مادہ کو پیدا کیا۔
۲۔ وہ مادہ ترقی کرتے کرتے بخار یا دھواں بن گیا
۳۔ اس دھویں نے ترقی کرتے کرتے پانی کی شکل اختیار کر لی۔
۴۔ وہ پانی ترقی کرتے کرتے جمادات میں تبدیل ہوا۔
۵۔ جمادات ترقی کرتے کرتے مختلف اشیاء اور بالآخر مرجان بنیں۔
۶۔ جمادات کے بعد نباتات کا سلسلہ شروع ہوا۔
۷۔ نباتات کے بعد ادنیٰ ترین حیوان بنا۔
۸۔ ادنیٰ ترین حیوان نے ترقی کرتے کرتے بندر کی شکل اختیار کر لی۔
۹۔ بندر ترقی کرتے کرتے ادنیٰ قسم کا انسان بنا۔
۱۰۔ ادنیٰ انسان ترقی کرتے کرتے ولی اور پیغمبر بنا۔
۱۱۔ ولی اور پیغمبر ترقی کرتے کرتے فرشتہ بنا۔
۱۲۔ فرشتوں کے بعد خدا کی ذات ہوتی ہے۔
یوں ہر چیز خدا شے شروع ہو کر خدا ہی کی طرف جاتی ہے۔ ’’و الیہ المرجع والمآب‘‘۔
بات پہلے ہی خاصی طویل ہو گئی ہے۔ اب اگر ہم ڈاکٹر صاحب کے ارشادات کا تفصیلی جائزہ لیں تو نہیں کہا جا سکتا کہ معاملہ کہاں تک پہنچ جائے گا۔ اس لیے ہم قارئین سے معذرت کے ساتھ چند ہی نکات پر قناعت کریں گے۔ واللّٰہ یہدینا السبیل۔
۱۔ کیا انسانی تخلیق فرشتوں سے پہلے ہوئی؟
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ انسانوں کی ترقی یافتہ نوع (ولی اور پیغمبر) سے فرشتہ بنا۔ اب قطعِ نظر اس سے کہ اﷲ کے نزدیک انسان کا مرتبہ و مقام بلند ہے یا فرشتہ کا، اتنا تو قرآنی تصریحات سے ثابت ہے کہ آدم کی تخلیق فرشتوں کے بعد ہوئی۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’اِذْ قَالَ رَبُّکَ لَلْمَلٰئِکَۃِ اِنِّی خَالِقٌ م بَشَراً‘‘ ۔ (سورۂ الحجر: ۲۸)
ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں انسان کو پیدا کرنے والا ہوں۔‘‘
یہ الفاظ دو جگہ آئے ہیں ایک سورۂ حجر، آیت: ۲۸ اور دوسرے سورۂ ص، آیت: ۷۱ اور یہی مضمون دوسرے لفظوں میں اور بھی کئی جگہ آیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو علمِ حدیث سے مناسبت ہے تو حیرت کی بات ہے کہ انھوں نے اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان کو بھی نظر انداز کر دیاکہ فرشتوں کی پیدائش نور سے ہوئی اور انسانوں کی مٹی سے۔ (مسلم)
اور ہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ کافروں کو حضرات انبیاء علیہم السلام کے بارے میں اس بات کا اعتراف رہا کہ وہ بشر ہیں۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام سے ان کی قوم نے کہا تھا:
مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا۔ (سورۂ ہود: ۲۷)، وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أنْ یُّؤْمِنُوْا اِذْ جَاءَ ہُمُ الْہُدٰی اِلَّا اَنْ قَالُوْا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلاً۔(سورۂ بنی اسرائیل:۹۴)، قومِ ثمود نے کہا تھا: اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہٗ۔(سورۂ القمر: ۲۴) ، تو کیوں نہ ایسے مواقع پر کفار کو یہ جواب دیا گیا: نادانو! انسانوں کی ایک کھیپ ترقی کر کے فرشتوں میں بدل گئی ہے، آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا، ولی اور پیغمبر Developہو کر فرشتے بنتے رہیں گے۔ وقت آنے پر یہ ہو جائے گا، تم ایمان تو لے آؤ؟ الٹا ان سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ دیکھو ہمیشہ انسان ہی نبی بن کر آتے رہے اور وہ انسان ہی رہے۔ اسی حالت میں وہ دنیا سے رحلت کر گئے۔ تمھارا یہ اعتراض غلط اور عبث ہے۔ اسے واپس لے لو۔
۲۔ کیا انسانی تخلیق کوئی امتیازی شان رکھتی ہے؟
ڈاکٹر صاحب تو یہ فرما کر فارغ ہو گئے کہ ’’بندر سے انسان بنا‘‘ گویا یہ تمام ارتقائی مراحل Automaticallyطے ہوتے رہے، لیکن وہ اس قرآنی تصریح کا کیا کریں گے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے ابلیس سے حضرت آدم کو سجدہ نہ کرنے پر جواب طلبی کی تو فرمایا:
مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَََّّّّ۔(ص:۷۵)
ترجمہ: ’’تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو اس کو سجدہ کرتا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔‘‘
اس میں ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کے بارے میں اﷲ رب العزت نے یہ جو فرمایا کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا، اس سے انسانی تخلیق کی امتیازی شان کا اظہار مقصود ہے۔ اﷲ کی ذات بے چون و بے چگون ہے، اسی طرح اس کے افعال بھی انسانی فہم سے بالاتر اور بے مثال ہیں۔ اس کی کوئی وضاحت تو نہیں کی جا سکتی، اتنا بہرحال ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آدم کی پیدائش کسی ارتقائی مرحلہ کے طور پر نہیں ہوئی بلکہ اﷲ تعالیٰ کے دستِ قدرت کا براہِ راست کوئی شاہکار ہے۔
اس کی مزید تائید ایک حدیث شریف سے ہوتی ہے جو بخاری اور مسلم کے علاوہ دوسرے بہت سے کبار محدثین نے نقل کی ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خَلَقَ اللّٰہُ اٰدمَ علیٰ صُوْرَتِہٖ‘‘ (صحیح مسلم، ج:۲، ص: ۳۲۷)۔ اس حدیث کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے۔ البتہ اس بارے میں شارحین کے دو قول پائے جاتے ہیں کہ صورتہ کی ضمیر کس کی طرف لوٹ رہی ہے۔ بیشتر علماء یہ کہتے ہیں کہ اس کا مرجع آدم کا لفظ ہے۔ اس صورت میں حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ حضرت آدم علیہ السلام جس شکل و صورت کے ساتھ زمین پر رہتے تھے، شروع سے ان کی تخلیق اسی شکل و صورت میں ہوئی۔ اسی سے وہ بہشت میں رہے، اسی سے وہ دنیا میں تشریف لائے اور اسی پر ان کی وفات ہوئی۔
(نووی شرح مسلم، ج: ۲، ص: ۳۲۷، اور فتح الباری شرح بخاری)
محدثین کا دوسرا قول یہ ہے کہ ’’ہٖ‘‘ ضمیر اﷲ کی طرف راجع ہو گی۔ اور اضافت تشریفیہ ہو گی (اضافت تشریفیہ کا مطلب قارئین پوری طرح سمجھ لیں کہ مضاف الیہ کی وجہ سے مضاف میں بھی عظمت اور برتری آ جائے۔ مثلاً حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ناقۃ اﷲ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے سواری کا کام دیتی تھی۔ بیت اﷲ کا مطلب یہ نہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری تمھاری طرح اس گھر میں ڈیرہ لگائے ہوئے ہیں، بلکہ اﷲ کی طرف مضاف کر کے اس اونٹنی اور اس گھر کی عظمت شان کا اظہار مطلوب ہے۔ اسی طرح ’’ اﷲ کی صورت‘‘ سے مراد اس صورت کا عظیم الشان اور برتر ہونا بتایا گیا ہے اور بس) دونوں میں سے جو بھی قول لیا جائے، ڈارونی نظریہ ھباءً منثورا ہو جاتا ہے۔ پہلے قول کے مطابق تو ظاہر ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تصریح فرما دی کہ حضرت آدم علیہ السلام شروع ہی سے معروف انسانی شکل پر پیدا ہوئے تھے۔ دوسرے قول کے مطابق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تو نسلِ انسانی کے باوا کی عظمت ان الفاظ میں بیان فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں اپنی شکل پر پیدا فرمایا۔ اب کسی کی کیا مجال کہ وہ انسان کو ترقی یافتہ بندر قرار دے؟ العیاذ باﷲ
حدیث بالا میں جو کچھ بیان ہوا ہے یہ ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کے بارے میں تھا۔ رہ گئی ان کی نسل اور اولاد تو قرآن مجید میں اس کے متعلق نہایت واضح طور پر فرما دیا گیا ہے: ھُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِیْ الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَاءُ‘‘ (سورۂ آل عمران: ۶)
ترجمہ: یعنی وہ اﷲ ہی جس طرح چاہتا ہے ماؤں کی رحموں میں تمھاری صورتیں بنا دیتا ہے۔
ایک طرف اﷲ رب العزت کا فرمان گرامی ہے جو الخالق، الباری، المصور ہے۔ دوسری طرف قدیم فلاسفہ یا مسٹر ڈارون کے بے سرو پا نظریہ ہے۔ اﷲ نے جو کچھ فرمایا، وہ حقیقت ہے اور ڈارون نے جو کچھ کہا، وہ محض (THEORY) ہے۔ حقیقت کے مقابلے میں نظریے کی رٹ لگائے جانا محض اَبْلہ فریبی اور سَفْسَطہ پردازی ہے۔
قُلْ أَ أَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللّٰہُ۔ (سورۂ بقرہ: ۱۴۰)
۳۔ کیا نبوت ایک کسبی چیز ہے؟
ڈاکٹر صاحب نے یہ کمال کر دیا ہے کہ ادنیٰ انسان کو پیغمبر کے درجے تک پہنچا دیا۔ گویا ان کی رائے میں پیغمبر Promoteہوتا ہے۔ یعنی ایک عام آدمی نیکی میں ترقی کرتے کرتے ’’نبی‘‘ کا درجہ حاصل کر سکتا ہے، حالانکہ علماءِ اُمّت کے نزدیک نبوّت کسبی شے نہیں، محض اور محض وہبی چیز ہے۔ ہر نبی (Selected) منتخب ہوتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مَنَ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ(سورۂ الحج: ۷۵)
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ فرشتوں میں سے پیغامبروں کو چن لیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔
۴۔ کیا نظریۂ ارتقاکا تعلق اﷲ کی ذات سے بھی ہے؟
بیچارے ڈارون یا اس نے نظریۂ ارتقا، جو کچھ بھی بیان کیا تھا، اس کا تعلق صرف مخلوق سے تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے غضب یہ ڈھایا کہ خالق یعنی اﷲ کی ذات سے بھی اس کا تعلق جوڑ دیا۔ قارئین خود ہی سوچیں کہ ’’فرشتوں کے بعد خدا ہی کی ذات ہوتی ہے‘‘۔ اس جملے کا کیا مطلب ہے؟
پھر صاحب موصوف نے ’’الیہ المرجع والمآب‘‘ کا عربی جملہ یوں فٹ کیا ہے کہ گویا یہ کوئی قرآنی آیت ہے اور وہ اپنے مؤقف کی تائید میں اسے یہاں نقل فرما رہے ہیں۔
نظریۂ انقلاب اور قرآن کریم:
یہ تو ایک مسلّمہ ہے کہ نسل انسانی کو پیدائش کے سلسلہ میں کئی ایک انقلابی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اب اس (Evolution Theory) نظریۂ انقلاب کی ایک تشریح اور تعبیر وہ ہے جو قدیم سے مفسرین اور دیگر علماءِ اُمّت کرتے چلے آئے ہیں۔یہ تشریح قرآن پاک کی سورۂ مؤمنون آیات نمبر ۱۲ تا نمبر ۱۴ وغیرہ سے ماخوذ ہے۔ اس کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
’’مٹی کے جوہر یعنی غذا سے نطفہ بنا۔ نطفہ سے خون کا لوتھڑا۔ لوتھڑے سے گوشت کا ٹکڑا یعنی بوٹی۔ بوٹی پر ہڈیوں کا اضافہ ہوا۔ ہڈیوں کو گوشت کا لباس ملا۔ پھر اس میں ایک اور تخلیقی اضافہ ہوا یعنی اس میں روح پھونکی گئی۔‘‘
انقلاب کی دوسری تشریح اور تعبیر وہ ہے جو ڈارونی نظریہ سے اتفاق کرنے والے بعض جدید علماء نے کی۔ پیچھے اقتباس نمبر ۱۰ میں قرآنی آیت ’’خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا‘‘ کے حوالہ سے ڈاکٹر صاحب کا فرمان نقل ہو چکا ہے کہ:
’’خدا نے انسان کو طور بہ طور پیدا کیا۔ اس کے معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اوّلاً جمادات کی شکل میں بنایا۔ پھر وہ جمادات ترقی کرتے ہوئے نباتات بنتے ہیں، پھر حیوان بنتے ہیں۔‘‘
آئیے، ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے ، ہم اس گتھی کو سلجھانے کے لیے خود خالقِ کائنات کی طرف رجو ع کرتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ درج ذیل تین سوالات ذہن میں رکھیے:
۱۔ بنی نوع انسان کا آغاز کس طرح ہوا؟
۲۔ آگے یہ سلسلہ کیونکر چلا؟
۳۔ تطوُّرات یعنی تخلیقی انقلابات کس طرح وقوع پذیر ہوتے ہیں؟
پہلے سوال کا جواب ہمیں ان الفاظ میں ملتا ہے: ’’خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ‘‘۔ (سورۂ نساء: ۱، اعراف: ۱۸۹، سورۂ زمر: ۵) بنی نوع انسان کا آغاز فردِ واحد سے ہوا۔ یہ کسی اور حیوانی مخلوق کی ترقی یافتہ شکل نہیں ہے بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت، دستِ قدرت نے خاکی عنصر سے اس کا پُتلا تیار کیا: ’’خَلَقْتُ بِیَدَیَّ‘‘۔ پھر اس میں نہایت اعلی اور ارفع شان کی روح پھونکی: وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ‘‘۔ اس طرح ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام وجود میں آئے۔
دوسرے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا کہ حضرت آدم کے فطری اور طبعی تقاضا کے مطابق ان کی رفیقۂ حیات (حضرت حواء) کو انھی کی جنس سے پیدا فرمایا۔ ’’وَ خَلَقَ مِنْہا زَوْجَہَا‘‘ (سورۂ نساء :۱) ، ’’جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا‘‘ ( سورۂ اعراف: ۱۸۹، سورۂ زمر: ۶) ۔ اس کے بعد فرمایا کہ پھر ان دونوں کے میل ملاپ سے نسلِ انسانی کا سلسلہ چلا: ’’وَ بَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَاءً‘‘ (سورۂ نساء: ۱) حقیقت یہ ہے کہ اس قرآنی بیان نے ڈارونی نظریہ کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے۔
رہا تیسرا سوال کہ تخلیقی انقلابات کب اور کہاں وقوع پذیر ہوتے ہیں تو اس بارے میں قرآن یہ کہتا ہے:
’’یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ خَلَقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ‘‘ (سورۂ زمر: ۶)
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک شکل کے بعد دوسری شکل دے کر تین اندھیروں میں بناتا ہے۔
مفسرین نے تین اندھیروں کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ ایک تو بچے کے اوپر ایک جھلی چڑھی ہوئی ہوتی ہے، پھر وہ بچہ رحم کے اندر ہوتا ہے۔ رحم کے اوپر شکم مادر کی تاریکی ہو گئی۔ اس آیت میں بالکل صراحت فرما دی گئی کہ نطفہ سے لے کر آدم زاد بننے تک جتنے بھی تطوُّرات سے واسطہ پڑتا ہے اور جتنے بھی مراحل گزرتے ہیں، یہ سب مراحل ماں کے پیٹ ہی میں طے ہوتے ہیں۔ انھی تخلیقی مراحل کو دوسرے مقام پر ’’خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تو اس آیت کی ماڈرن تفسیر …… کہ جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات، حیوانات سے ایک اعلیٰ قسم یعنی بندر، اور بندر سے انسان بننے کے انقلابات مراد ہیں، اسے ہم ڈارونی نظریہ کو قرآنی ثبوت مہیا کرنے کی سعیٔ ناکام اور کوششِ رائیگاں کا نام تو دے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
تفسیر ماجدی میں لکھا ہے کہ الٰہ آباد کے ایک نام ور و ممتاز ہندو ڈاکٹر، در پردہ مسلمان ہو گئے تھے اور اسی آیت کی بنا پر قرآن کی صداقت کے قائل ہو گئے تھے۔ کہتے تھے ایک اُمّی عرب کے لیے اس گہری طبّی حقیقت سے، آج سے تیرہ چودہ سو برس پہلے واقف ہو جانا ناممکن تھا۔
قرآن کریم کوئی (Biology) حیاتیات کی کتاب نہیں ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ اغیار تو اس کے انکشافات کو پڑھ کر سر دُھنتے رہیں اور اپنوں کا یہ حال کہ غیروں کی خاطر قرآنی تشریحات کو بدل دی۔ فیا للعجب!
دو توجہ طلب باتیں:
۱۔ آپ پیچھے پلٹ کر اقتباس نمبر ۹ اور ۱۰ کو پڑھئے۔ ڈاکٹر صاحب نے نظریۂ ارتقا کے مخالفین پر ایک پھبتی کسی: ’’ہمارا تصور یہ ہے کہ اﷲ ایک کمہار کی طرح مٹی کو لیتا ہے اور اس کی مورت بناتا ہے۔ اس میں روح پھونکتا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام بن جاتے ہیں۔‘‘
استہزاء اور مخول کا یہ انداز ایک سنجیدہ اسکالر کو زیب نہیں دیتا اور پھر عجیب تر یہ بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس کے بعد معاً فرماتے ہیں:
’’ممکن ہے، ایسا ہوا ہو۔ میں انکار نہیں کرتا۔‘‘
اب کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت! جس چیز کو اپنے طنزِ لطیف کا نشانہ بناتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ دبے لفظوں میں آپ اس کی تائید شروع کر دیتے ہیں؟ آج تک تو ہم یہی سنتے آ رہے ہیں کہ: ’’لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ‘‘۔ اﷲ کی ذات بے چون و بے چگون ہے۔ کبھی کسی عالم نے اس ذات کبریا کو ’’کمہار‘‘ سے تشبیہ دینے کی جرأت نہیں کی۔ آپ اس کے روادار کیونکر ہو گئے؟
(۲) قارئین کو ایک مرتبہ ہم پھر زحمت دیں گے کہ وہ مڑ کر اقتباس نمبر ۱ کو ملاحظہ فرمائیں اور اس نرالی منطق کی کوئی توجیہ ان کی سمجھ میں آتی ہو تو ہمیں اس کے سننے کا انتظار رہے گا۔ فرماتے ہیں:
’’ڈارون کے نظریے کو اسلام نے رد کر دیا ہے۔ اس کو ثابت کرنا آپ پر فرض ہے۔ بعد میں دیکھیں گے کہ یہ اسلام کے موافق ہے یا مخالف۔‘‘
ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر فریق ثانی کتاب و سنت کی روشنی میں ڈارونی نظریہ کا غلط ہونا ثابت کر دے تو پھر بھی یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ اسلام کے موافق ہے یا مخالف؟ جب فریق ثانی نے اپنا مؤقف دلائل سے ثابت کر دیا تو پھر دیکھنے اور سوچنے کی کیا گنجائش؟
جو لوگ اپنے دین و ایمان کو ڈارونیت پر وار دینا چاہتے ہیں، ہم ان سے خیر خواہانہ التماس کریں گے کہ اخوان الصفاء ہوں یا ابن مسکویہ، ڈارون ہو یا ارنسٹ ہیکل ان میں سے کوئی بھی تخلیقِ کائنات کے وقت اﷲ تعالیٰ کے پاس موجود نہ تھے اور ان میں سے کوئی خالقِ کائنات کا شریکِ کار نہ تھا:
’’مَا اَشْہَدْتُّہُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَاْ خَلْقَ اَنْفُسِہِمْ وَ مَا کُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا۔ ‘‘ (سورۂ کہف: ۵۱)
ترجمہ: نہ تو آسمان اور زمین کے پیدا کرتے وقت میں نے انھیں بلا لیا تھا اور نہ خود ان کی پیدائش کے وقت (اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) اور میں گمراہ کن لوگوں کو اپنا دست و بازو بناتا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
جب یہ صورت ہے تو ڈارون کے پیروکار محض ظن و تخمین کے پیچھے چل رہے ہیں:
’’اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَاْ یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔ ‘‘ (سورۂ النجم: ۲۸)
ترجمہ: ’’وہ محض اٹکل پر چل رہے ہیں جب کہ حق کے مقابلہ میں اٹکل پچّو کچھ بھی کام نہیں دے سکتی‘‘۔
تو انھیں چاہیے کہ ظنون و اوہام کو چھوڑیں اور حق کا اتباع کریں۔
ہم دیانت داری کا تقاضا سمجھتے ہیں کہ اس حقیقت کا برملا اظہار کر دیں کہ نظریۂ ارتقا کی تائید میں ڈاکٹر صاحب اکیلے نہیں ہیں بلکہ بعض دوسری دارز قامت شخصیتیں بھی ان کی ہم نوا ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کے علم و فضل میں کس کو کلام ہے؟ انھوں نے ابن مسکویہ کی ’’الفوز الاصغر‘‘ سے عربی عبارات نقل کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ڈارون اس نظریہ کا بانی اور موجد نہیں ہے۔ صدیوں پہلے یہ نظریہ پیش کیا جا چکا تھا۔ ایک دوسرے بزرگ نے اپنی تفسیر میں اس مسئلہ کو جگہ دی اور کافی شدّ و مد سے اس کو بیان کیا، لیکن ہم گنہگاروں کی وہی ایک بات:
’’ایتونی بشیء من کتاب اللّٰہ او سنۃ رسول اللّٰہ حتیٰ اقول بہ‘‘
جس چیز کی تائید اﷲ کے قرآن اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سے نہیں ہوتی بلکہ تردید ہوتی ہے، وہ دیوار میں دے مارنے کے قابل ہے۔ فاضربوہ بالحائط۔ ہمیں امام عالی مقام سیدنا ابو حنیفہؒ کا یہ فرمان بھی یاد ہے: اترکوا قولی بخبر رسول اللّٰہ ﷺ ۔
مخالف حدیث ہونے کی صورت میں حضرت الامام کا قول چھوڑ دیا جائے گا۔ بیچارے ابن مسکویہ یا ڈارون کون ہوتے ہیں؟ ہذا ما اعتقدنا واللّٰہ نسأل حسن الخاتم۔ جہاں تک ان بزرگوں کا تعلق ہے، ہم ان کے بارے میں کسی سوءِ ظن یا بدزبانی کے قطعاً روادار نہیں۔ اپنے علم کی رو سے وہ حضرات، ہمارے قلبی احترام کے مستحق ہیں، مگر سیدنا فاروقِ اعظم کے اس فرمان سے چشم پوشی نہیں کر سکتے، جس کا ترجمہ یہ ہے:
تین چیزیں، اسلام کی رونق کو پامال کرتی ہیں: عالم کی لغزش، منافق کی کج بحثی اور گمراہ کن فرماں رواؤں کا اقتدار۔ اعاذنا اﷲ من شرہا
’’تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا لَّا مُبَدِّلَ لِکَلِمَتِہٖ وَ ہُوَ الْسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔(سورۂ الانعام: ۱۱۵)
(جاری ہے)