مولانا منظور احمد آفاقی
مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان مرحوم کے مطب میں ایک دن ایک انگریز جوڑا (میاں بیوی) علاج کی غرض سے آیا ۔ انھیں تکلیف یہ لاحق تھی کہ ہر وقت بے چینی محسوس کرتے تھے ۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ جب بیماری کی شدت بڑھی تو انھوں نے ڈاکٹروں کی طرف رجوع کیا۔ دسیوں ڈاکٹر دیکھ ڈالے۔ گھر میں دوائیوں کے انبار لگ گئے۔ لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ جدید معالج اور روشن خیال ڈاکٹر نہ تو بیماری کی صحیح تشخیص کرتے اور نہ کوئی موثر دوائی تجویز کرتے، بس یوں ہی اندازے سے مختلف دوائیاں استعمال کراتے رہے۔ بعض ڈاکٹروں نے تو یہاں تک کہ دیا کہ یہ ہمارا کیس ہی نہیں ہے، بلکہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ لہٰذا کسی ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ایک آدھ زندہ دل ڈاکٹر نے تو ان کی بیماری کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ’’لوجی آپ بھی بے چین ہیں۔ ارے دنیا میں چین سے رہتا کون ہے؟ دیکھتے نہیں کہ ساری انسانیت بے چین ہے تم لوگ چین پاکر دائرۂ انسانیت سے باہر نکلنا چاہتے ہو کیا؟‘‘ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔
کسی نے انھیں مشورہ دیاکہ آپ حکیم اجمل خان کے پاس چلے جائیں۔ وہ اپنے فن میں بہت ہی ماہر ہیں۔ وہ بیماری کی تشخیص بھی صحیح کریں گے، علاج بھی مؤثر ہوگا اور آپ لوگ صحت یاب بھی ہو جائیں گے۔ گوروں کو یہ مشورہ پہلے تو عجیب سا لگا کیونکہ وہ ڈاکٹروں کے مقابلے میں دیسی حکیموں کو کوئی وقعت نہیں دیتے تھے۔ لیکن جب ڈاکٹروں سے مایوس ہوگئے تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انھوں نے حکیم صاحب کے مطب کارخ کیا۔ حکیم صاحب نے اپنے مریضوں کا خندہ پیشانی استقبال کیا۔ انہیں کرسیوں پر بٹھایا۔ مطب کے سا منے فٹ پاتھ پر مکئی کے بُھٹے بھونے جارہے تھے انھوں نے وہ بُھٹے منگوائے اور مریضوں کے سامنے رکھ دیے۔ پھر ان کے ساتھ بڑی بے تکلفی سے باتیں شروع کردیں۔ کبھی حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے، کبھی کسی سنجیدہ موضوع پر روشنی ڈالتے اور کبھی کوئی لطیفہ سنا کر انہیں ہنساتے۔ وہ بُھٹے بھی کھاتے رہے اور حکیم صاحب کی باتوں سے بھی لطف انداز ہوتے رہے۔ کچھ دیر بیٹھے پھر اٹھ کر چل دیے۔ گھر پہنچ کر انہیں احساس ہوا کہ وہ تو علاج کی غرض سے گئے تھے۔ یہ کیسا حکیم ہے جس نے نہ تو خود ان کی بیماری کے بارے میں پوچھا اور نہ انہیں ہی موقع دیا کہ کچھ کہ سکیں۔ طے پایا کہ کل دوبارہ ان کے پاس جائیں گے۔
دوسرے دن مریض مطب میں پہنچے تو حکیم صاحب نے حسب معمول ان کا استقبال کیا، انھیں بٹھایا، مکئی کے بھُٹے منگوا کر پیش کیے اور اُنھیں باتوں میں لگادیا۔ آج کی گفتگو اتنی دلچسپ اور رنگین تھی کہ وہ اس کے سحر میں کھوگئے۔ لطیفے اتنے عمدہ تھے کہ وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ پندرہ بیس منٹ کی نشست کے بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور گھر کی راہ لی۔ اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر انھیں یاد آیا کہ وہ آج بھی اپنی بیماری بھول گئے ہیں۔ وہ سٹپٹائے کہ عجیب باتونی حکیم سے پالا پڑا ہے۔ لوگ جسے ’’ماہرِ طبّ ‘‘ کہتے ہیں اس کے پاس سوائے باتوں کے رکھا ہی کیا ہے۔ سوچا کہ کل آخری باران کے پاس جائیں گے اور بیٹھنے سے پہلے اپنی بیماری کا ذکر کریں گے۔ اگر تیسرے دن بھی اس حکیم نے وہی پہلا سلوک روا کھاتو پھر کبھی نہیں جائیں گے۔
تیسرے دن جب مریض مطب میں پہنچے تو حکیم صاحب نے حسب معمول انھیں بٹھاناچاہا لیکن وہ نہ بیٹھے بلکہ انھوں نے کھڑے کھڑے رونی صورت بنا کر اپنی بیماری کے بارے میں بیان کرنا شروع کردیا۔ حکیم صاحب نہایت تحمل سے ان کی رام کہانی سُنتے رہے وہ اپنا دکھڑا سُنا چکے تو حکیم صاحب بولے ’’دوستو! کیا آپ کی بیماری ابھی باقی ہے؟ میں تو آپ کا علاج کرچکا ہوں‘‘۔ انھوں نے تعجب سے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ حکیم صاحب نے ان کی حیرت میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا ’’میں نے پہلے دن ہی آپ کے چہرے دیکھ کر بیماری کی تشخیص کرلی تھی اور علاج بھی اسی دن سے شروع کردیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہے ہوں گے‘‘ حکیم صاحب کی بات سن کر دونوں میاں بیوی دنگ رہ گئے کیونکہ وہ محسوس کر رہے تھے کہ بیماری میں کافی حدتک افافہ ہوچکا ہے، اور اس میں وہ شدت نہیں رہی جو انھیں پریشان کیے رکھتی تھی۔ میاں بیوی کو دیکھتا تھا اور بیوی میاں کو، حکیم صاحب کے ساتھ بات کرنے کے لیے اُن کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے۔ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم والا معاملہ تھا۔ آخر انھوں نے ہکلا تے ہوئے پوچھا، ہماری بیماری کیا تھی اور آپ نے علاج کیا کیا ہے؟‘‘
حکیم صاحب نے انھیں بیٹھنے کو کہا۔ معمول کے مطابق مکئی کے بھُٹے منگوائے۔ ان کے سامنے رکھے اور فرمایا ’’پہلے دن میں نے آپ کے چہرے دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ آپ لوگ مکھن کا استعمال زیادہ کرتے ہیں اس بنا پر آپ کے جسم میں چکنائی کی مقدار معمول سے بڑھ گئی تھی جس سے آپ کو بے چینی محسوس ہوتی تھی۔ اس کا علاج میں نے اس طرح کیا ہے کہ آپ کو دو دن مکئی کے بھُٹے کھلائے ہیں۔ لیجیے اس ’’دوائی‘‘ کی ایک خوراک آج بھی نوش جان کیجئے، یہ اناج خشک ہوتا ہے۔ اس نے آپ کے جسم میں پہنچ کر فالتو اور زائد چکنائی کو چوس لیا ہے۔ اب آپ مکمل صحت یاب ہوچکے ہیں۔ جائیے اور آئندہ احتیاط کیجئے‘‘۔ سبحان اﷲ! طبّ یونانی سے نفرت کرنے والے اور حکیموں کو گھٹیا سمجھنے والے، اس طریقہ علاج کے گن گاتے ہوئے مطب سے نکلے۔
علاج معالجے کا اصول ہی یہی ہے کہ پہلے بیماری کی تشخیص کی جائے پھر اس کے مطابق دوائیں تجویز کی جائیں۔ گزشتہ زما نے کے حکیم تشخیص صحیح کرتے تھے۔ چہرہ،زبان، قارو رہ وغیرہ دیکھ کر حتیٰ کہ چال دیکھ کر اور آواز سن کربھی مرض کا کھوج لگاتے تھے۔ نبض دیکھ کر تو ہر حکیم بیماری معلوم کرلیتا تھا۔ پھر حسب حال ومرض، مناسب اور موزوں دوائیں منتخب کی جاتی تھیں۔ خوراک اور پرہیز کے بارے میں ہدایات ملتی تھیں۔ جن کی پابندی سے امراض کا جڑ سے خاتمہ ہوجا تا تھا۔ اس قدیم طریقۂ علاج کا آج کے جدید ڈاکٹری علاج کے ساتھ مقابلہ کریں اور فیصلہ خود ہی کرتے رہیں کہ کون سا علاج بہتر ہے۔
مولانا عبید اﷲ لطیف