ُمفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ
رسول برحق صلی اﷲ علیہ وسلم کا سیدھا راستہ:
اگر امیروں کے ذریعہ حکومت الٰہیہ کا قیام عمل میں آسکتا تونبی کریم کو طائف میں غریبی کے طعن کیوں سننے پڑے تھے؟ اُمراء کے نزدیک نیکی کا معیار سرمایہ ہے تبھی تو نبوت کی صداقت کے لیے پرہیز گاری کے بجائے طائف کے سرداروں نے کہا کہ نبی کریم ہم سے زیادہ مالدار نہ سہی ہم جیسا تو ہوتا۔ اس بناء پر غریب نبی کی نبوت کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔ لیکن حکم حق یہی تھا کہ دنیا کا آخری نبی مفلس ہو، وہ مفلس اور مخلص ساتھیوں کی جماعت تیار کرکے انقلاب عالم کو اٹھے۔ پس حکومت الٰہیہ کی اولین شرط یہ ہے کہ مفلس مگر مخلص لوگ جماعت بنا کر نظام عالم کو عدل وانصاف کی نئی بنیادوں پر استوار کرنے کے ارادوں سے بڑھیں۔ شیر بکریوں کی نگرانی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ سرمایہ دار جماعتوں کو عوام کے حقوق کی حفاظت کا کام سپردنہیں کیا جاسکتا۔ خدا کی سنت تبدیل نہیں ہوتی، حکومت الٰہیہ کا قیام جب کبھی عمل میں آئے گا تو مفلس اور مخلص افراد اور جماعت کے ذریعہ سے ہوگا۔ میں مجلس احرار کی طرف اشارہ نہیں کرتا اورلازمی طور پر یہ نہیں سمجھتا کہ یہی وہ جماعت ہے جو نجات کا سبب ہوگی۔ ہاں لیگ اور کانگریس سے زیادہ میں اپنے خوابوں کو اس سے وابستہ اس لیے سمجھا ہوا ہوں کہ اس میں وہ ابتدائی خوبیاں موجود ہیں جو حکومت الٰہیہ کے قیام میں ممد ومعاون ہوسکتی ہیں۔ حکومت الہٰیہ کے بنیادی پتھروں میں سے ایک اہم پتھر عوام کی حکومت ہے اور صرف عوام کی جماعت ہی اس کی تعمیر کو تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔
افلاس میں کسی جماعت کے وجود کو قائم رکھنا اگرچہ جماعتی اخلاص اور شخصی کیر کٹر کی خوبی ناقابل تردید دلیل ہے۔ تاہم میں یہ نہیں سمجھتا کہ ہماری جماعت کے اخلاص اور جماعت کے افراد کی سیرت نے ایسی پاک صورت اختیار کرلی ہے کہ حکومت الٰہیہ کے قیام کی کافی ضمانت ہوسکتی ہے۔ جہاں ہماری جماعت میں شب بیدار اور زندہ دل لوگوں کی کمی نہیں وہاں مجھ جیسے کھوٹے سکے بھی تو ہیں۔ مجاور نمازوں سے غافل، عابد عمل سے لاپرواہ، دونوں حکومت الٰہیہ کے معمار نہیں ہوسکتے ۔اس لیے عمل اورعبادت دونوں ایک انسان میں کانٹے کے تول رہیں تو خدا کی فوج کاسچا سپاہی ہے اور عمل اور عبادت کے پلڑے برابر نہ ہوں تو انسان شیطانی حکومت اور سرمایہ داری کے نظام کا ایجنٹ بن جاتا ہے۔
جہاں میں اس لحاظ سے اپنی جماعت میں بھی کمی پاتا ہوں وہاں لیگ کے ارباب اقتدار کو تو اسلامی نظام کے سارے تصورات کادشمن دیکھتا ہوں کسی اور اسلامی جماعت کو مجلس احرار کے لگ بھگ نہیں پاتا ۔ہاں مجلس احرار کی طرح مفلس اور اس سے زیادہ مخلص اور خدا کے حکم بردار بندوں کی جماعت بنائی جائے تو مضایقہ نہ ہوگا۔ ایسے فرشتہ سیرت اور انسان صورت لوگوں سے پھر اتنا عرض کرو نگانت نئی جماعتیں بننا مشکل ہیں بنیادی طور پر مجلس احرار کا نظام، حکومت الٰہیہ کے قیام ودوام کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ ہاں اس میں ایسے باخدا لوگوں کی ابھی ضرورت ہے جو ذاتی نفع ونقصان اور شخصی شکست وفتح سے بالا وبلند ہوکر اشاعت حق اور قیام عدل وانصاف کی سعی کریں۔ ظالم کو ظالم کہیں مظلوم کو مظلوم۔ سرمایہ داری کے نظام کا تختہ الٹ کر اسلام کا عادلانہ اور مساویانہ نظام پیدا کریں۔ ملک خدا کا ہو ،انسانی برادری میں برابری ہو، بحکم خدا دین کے معاملہ میں کسی پر جبرنہ ہو، کسی قوم سے عداوت بھی بے انصافی کاباعث نہ ہو، اسلام اس طرح غالب ہو کہ کوئی اور اپنے آپ کومغلوب نہ سمجھے۔
اے وہ لوگو! جن کی آنکھیں حکومت الٰہیہ کو ترستی ہیں، جن کے دل میں اسلام کے مبنی براخوت ومساوات نظام کی آرزوئیں کروٹیں لیتی ہیں، آؤ مجلس احرار کو اپنی توجہ کا مرکز بناؤ! یہ مفلس اور اپنی بساط کے مطابق مخلص مسلمانوں کی جماعت ہے۔ اس میں گاندھی کے بھگتوں اور انگریز کے ایجنٹوں کی گنجائش نہیں ۔اپنی قوتوں کو اس کی قوت میں اضافہ کرنے کے لیے صرف کرو۔ اس میں کانگریس کے سرمایہ دارانہ جلوے اور لیگ کے رئیسانہ ٹھا ٹھ نہ سہی۔ ہاں یثربی رُوح اور سادہ انداز ضرور ہیں۔
غرض مسلم لیگ اور اس کے قائد کی عملی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔وہ ایک ذہن کانام ہے اور وہ ذہن سرمایہ داری کاہے۔ ہر امیر اس کے نام کے ساتھ اپنی اغراض چھوڑے بغیر وابستہ رہنا چاہتا ہے۔ کون ہے جو سرمایہ دار کی سرمایہ دار سے یگانگت میں تفریق ڈالے؟ لیگ کے اندر جھگڑے بھی چلتے رہیں گے اور کانگریس سے تھوکافضیحتی بھی رہے گی۔ لیکن امراء خواہ لیگ میں ہوں یا کانگریس میں برابر کے بھائی ہیں اور اپنی حیثیت کو عوام کے لیے قربان کرنے کو تیا رنہیں ہوسکتے۔ وہ عوام کے برسر اقتدار آنے کے خوف سے زُودیا بدیر صلح کرنے پر مجبور ہیں۔ لیگ جناح کو چھوڑ کر سرسکندر حیات خان کی سرکردگی میں صلح کا ہاتھ بڑھائے گی۔ یہ صلح اعلیٰ خاندانوں کی سطوت قائم رکھنے کی بنیاد پر قائم ہوگی۔ عدل ومساوات کے سارے خواب پریشان ہوجائیں گے۔ ہم میں سے بعض شاید پنجاب اسمبلی کے بعض بلوں سے متأثر ہوں۔ ایسے دوستوں کو حالات کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ان سب بلوں کا آخر اثرغریب عوام پر ہوتا ہے۔ امراء کے مخصوص خاندانوں پرخواہ ہندو ہوں یا مسلمان کوئی اثرنہیں ہوتا۔ ہمارا تجربہ تویہی ہے کہ اسمبلی کا زمیندار -ساہو کار جھگڑا بھی درمیانے طبقہ پر زیادہ سے زیادہ اثرانداز ہے۔ ایک دفعہ جب ہم نے چھوٹے زمینداروں کے حق میں شاہ پورانی نہر کے سلسلہ میں بڑے زمینداروں کے خلاف سا ہو کارپارٹی سے مدد چاہی تو ہندولیڈر نے صاف کہ دیا کہ ہم امراء کے مفاد اور تعلقات کو خراب نہیں کرسکتے۔ حالانکہ چھوٹے اور بڑے زمینداروں کا جھگڑا تھا۔ اس مثال سے معلوم ہوجائے گا کہ ہر قانون میں امراء کا لحاظ اور ان کے مفاد کا خیال ہندواور مسلمان امراء کے پیش نظر ہوتا ہے ہندو اور مسلمان امراء ملت واحدہ کے طور پر کام کرتے ہیں۔