سید محمد کفیل بخاری
وطن عزیز پاکستان گزشتہ چار ماہ سے سخت بحرانی کیفیت میں ہے۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مکمل اور جزوی لاک ڈاؤن کیا گیا۔ ہفتے میں چار دن کار وبار سے ملکی معیشت تباہ ،غریب عوام کی زندگی مفلوج اور مہنگائی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے عوام پر پیٹرول بم گراکر غربت اور مہنگائی میں بے پناہ اضافے کی رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے،جبکہ عوام دشمن بجٹ ا س پر مستزاد ہے۔ موجودہ حکمران عوام کی فلاح وبہبود کے جن دعووں کے ساتھ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے تھے وہ سب فراموش کردیے گئے ہیں۔ وہی پرانا راگ الاپا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں سابقہ حکمرانوں سے ورثے میں ملا ہے۔ عوام نے گھبرانا نہیں، جلد سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مقتدر قوتوں سے گزارش ہے کہ وہ حکومت کے لیے اپنے منتخب کردہ حکمرانوں کی نااہلیوں اور ناقص کارکردگی کا جائزہ لیں اور اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ قانون، اصول، ضابطہ اور عوامی مسائل سے ہٹ کراگر اسی طرح فیصلے کیے جاتے رہے تو حالات مذید ابتر ہوں گے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں اور نہ ہی اﷲ کا دین محتاج ہے۔ حکمرانوں نے تبلیغ دین کے راستے بند کرنے کی کوشش کی تو اﷲ تعالیٰ نے انہی کے اندر ایسے لوگوں کو کھڑا کردیا جنہو ں نے دین حق اور نبی ختمی مرتبت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق میں صدائیں بلند کردیں۔ قومی اسمبلی،سنیٹ، سندھ ،پنجاب اسمبلی اور آزاد کشمیر اسمبلی سے اس قرار داد کامنظور ہونا قابل تحسین ہے کہ سرور کونین حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسم گرامی جہاں بھی لکھا اور بولا جائے وہاں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ ساتھ لکھا اور بولا جائے۔ لیکن ہمارے وزیر اعظم کا حال یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کے حلف اٹھانے سے لے کر آج تک وہ ’’خاتم النبیین‘‘ صحیح تلفظ کے ساتھ اداء نہیں کرسکے۔ انہوں نے ملک کی حالت تو کیا درست کرنی ہے کم از کم ’’پیرنی مہارانی‘‘ سے یہ لفظ تو ٹھیک بولنا سیکھ لیں۔
وزیر اعظم ایک طرف تو ریاست مدینہ کی طرز پر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف دارالحکومت اسلام آباد کے زیر سایہ قادیانی 33کنال زمین خرید کر کفر وارتدار کا مرکز بنا رہے ہیں۔1947ء کے بعد پہلی مرتبہ اسلام آباد میں ہندو برادری کو سرکاری خرچ پرمندر تعمیر کرکے دیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چا ہیے کہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست میں پہلے سے موجود غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی، نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت نہیں تھی ۔کیا وزیراعظم کشمیر اور ہندوستان میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں سے ہندوؤں کی بدسلو کی اور مظالم بھول گئے ہیں۔ ہندو بابری مسجد مسمار کرکے مندر تعمیر کررہے ہیں اور آپ انہیں مندر تعمیر کرکے دے رہے ہیں۔ عبادت گاہوں کا احترام اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اپنی جگہ درست لیکن نا انصافی کی گنجائش ہے نہ اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ آپ کرتارپور راہ داری کھول رہے ہیں اور ہندوستان اس کی مخالفت کررہا ہے۔ آپ مسلمانوں کے لیے مساجد کے دروازے بند اور ہندوؤں کے لیے مندر کھول کر کس ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں؟ کورونا لاک ڈاؤن کی آڑ میں قرآن کریم اور حدیث پاک کی تعلیم بند کردی گئی ہے۔ مدارس اصلاحات اور یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ کی آڑ میں دینی مدارس کے گرد گھیر ا تنگ اور قرآن و حدیث کی خالص تعلیم کے راستے مسدود کرنا استعماری ایجنڈا نہیں تو اور کیا ہے؟ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کی مدارس اصلاحات کو مکمل طورپر مسترد کردیا ہے ۔دینی مدارس کی ذمہ دار قیادت کو آنکھیں بند کرکے سب کچھ قبول نہیں کرناچاہیے۔ ہماری اور ہمارے مستقبل کی بقاء قرآن وحدیث کی تعلیم میں ہی ہے۔ مدارس اصلاحات دراصل وہ میٹھا زہر ہے جسے عالمی استعمار نے مسلمانوں کا ایمان لوٹنے کے لیے تیار کیا ہے۔ استعمار کے دیسی گماشتے اُ ن کی خوشنودی کے لیے اس زہر کو یہاں امپورٹ کر رہے ہیں۔ دینی قوتیں متحد ہو کر اس کی امپورٹ بند کردیں۔ ورنہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت تباہی ہے۔ امریکی کمیشن کی رپورٹ میں آئین پاکستان سے قادیانیوں سے متعلق قوانین کو ختم کرنے کی تجویز پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ کیا موجودہ حکمران قادیانیوں کو کھلی چھٹی دے کر امریکی استعماری ایجنڈے کی تکمیل نہیں کررہے؟
قادیانیوں کا معاملہ دیگر غیر مسلم اقلیتوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہندو، سکھ،عیسائی تواپنی مذہبی شناخت کے ساتھ عبادت گاہیں بناتے ہیں لیکن قادیانی غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان اور پوری امت مسلمہ کو کافر کہ کر اپنی عبادت گاہ کو مسلمانوں کی شناخت’’مسجد‘‘کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جبکہ دین اسلام کے مقابلے میں نیا مذہب گھڑ کراُسے اسلام کہتے اور خاتم النبیین سیدنا محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلے میں مرزاغلام قادیانی کو نبی مان کر پوری دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اس دھوکہ دہی کی پاکستانی آئین اجازت دیتا ہے نہ پاکستان کے مسلم عوام کی اکثریت اور نہ ہی اس کا کوئی اخلاقی جواز ہے۔ وزیر اعظم اور ان کی حکمران ٹیم ماورائے آئین اقدامات سے گریز کریں۔ جس آئین پر حلف اٹھایا ہے اس آئین اور اپنے حلف کی پاس داری کرتے ہوئے قادیانیوں کی اسلام اور مسلم دشمن سرگرمیوں کو روکیں۔ ہم عدالت عظمیٰ اور اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ حکمرانوں کی غیر آئینی سرگرمیوں اور اقدامات کی روک تھام کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کریں۔
علماء اور اہم دینی شخصیات کی رحلت :
گزشتہ دوما ہ میں 70سے زائد علماء اور کئی اہم دینی شخصیات انتقال کر گئیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوگیا ہے۔ اتنی کثرت کے ساتھ علماء کا چلے جانا، علم کا اٹھ جاناہے۔ عظیم علمی وروحانی شخصیات کے اٹھ جانے سے مسند علم ویران ہوگئی۔ حضرت علامہ خالد محمود، حضرت حافظ صغیراحمد، حضرت مولانا عزیز الرحمن ہزاروی،حضرت مفتی محمد نعیم ،خواجہ عزیز احمد بہلو ی، مولانا شمس الدین انصاری، قاری تصورالحق مدنی (برمنگھم، برطانیہ) کئی شیوخ الحدیث والتفسیر، سابق امیر جماعت اسلامی متحرم سید منورحسن رحمہم اﷲ اور دیگر کئی دینی وسیاسی کارکن اور رہنماسفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ اﷲ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائے اور امت کے حال پر رحم فرمائے۔کس کس کا غم کیا جائے اور کس کس سے تعزیت کی جائے۔ ہم تو خود تعزیت کے مستحق ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں صبر عطاء فرمائے۔ تمام مسافران آخرت کی مغفرت فرمائے اور ان کے لوا حقین وپسماندگان اور متوسلین سب کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ (آمین)
قارئین سے گزارش ہے کہ روزانہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص پڑھ کر علماء اسلام اور پوری امت مسلمہ کو ایصال ثواب اور دعاء مغفرت کا اہتمام فرمائیں