صوفی غلام مصطفی تبسم مرحوم
کیوں کر نہ زباں پر ہو تحمید و ثنا تیری دل محوِ نوا تیرا، جاں مدح سرا تیری
آواز انا الحق سے غافل ہوں تو کیوں کر ہوں ہر ایک سرِ مو سے آتی ہے صدا تیری
پھولوں کی مہک میں تُو انجم کی جھلک میں تو وہ رنگِ وفا تیرا یہ شان ادا تیری
کہسار و بیاباں میں گلشن میں خیاباں میں خوشبو لیے پھرتی ہے ہر صبح صبا تیر
ظالم کی جفاؤں میں مظلوم کی آہوں میں انداز جفا تیرا تصویر غنا تیری
یہ پردے میں چھپنے کے انداز نرالے ہیں ہر ذرے کے دامن میں رقصاں ہے ضیا تیری
ہم سے بھی گنہگاروں کو تیرا سہارا ہے چھوڑے تو کرم تیرا پکڑے تو رضا تیری