امجد شریف
فنا میں ہوں بقا تُو ہے خدا تو ہے خدا تو ہے
میں پل دو پل، سدا تُو ہے خدا تو ہے خدا تو ہے
تری رحمت کے صدقے ہی سبھی کے کام ہوتے ہیں
سبھی کا ہی خدا تُو ہے خدا تو ہے خدا تو ہے
سہارا بے سہاروں کا جو ہر مشکل میں بنتا ہے
وہی مشکل کشا تُو ہے خدا تو ہے خدا تو ہے
نہیں جو مانتا تجھ کو نہیں جو جانتا تجھ کو
اُسے بھی دے رہا تُو ہے خدا تو ہے خدا تو ہے
یہاں بھی یاد تیری ہی بڑی افضل عبادت ہے
وہاں کا بھی الٰہ تُو ہے خدا تو ہے خدا تو ہے
کہیں پودے میں بیٹھا ہے چھپا کے روپ تُو اپنا
کہیں جلوہ نما تُو ہے خدا تو ہے خدا تو ہے
نظر بد سے تُو امجدؔ کو بچا رکھنا میرے مولا
کہ اس کا آسرا تُو ہے خدا تو ہے خدا تو ہے