حکیم حافظ محمد قاسم
پیرجی عبد الحفیظ نور اﷲ مرقدہ ہمیں اس فانی دنیا میں چھوڑ کر عقبی کو روانہ ہو گئے حضرت پیر جی عبد الحفیظ نور اﷲ مرقدہ کوفجر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے دل کا شدید دورہ پڑا تب ساہیوال جاتے ہوئے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔
حضرت پیرجی عبد الحفیظ نور اﷲ مرقدہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے خلیفہ حضرت حافظ صالح محمد کے پوتے اور پیرجی عبد اللطیف (خلیفہ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری) کے سب سے چھوٹے بیٹے اور پیرجی عبد العزیز راے پوری، (چک گیارہ والے، خلیفہ مجاز حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ) کے بھتیجے تھے۔ حضرت پیرجی عبد الحفیظ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی پیرجی عبد اللطیف،تایا جی پیرجی عبد العزیز، امیر شریعت سید عطا اﷲ شاہ بخاری کے فرزند ابن امیرشریعت حضرت پیر جی سید عطا المھیمن بخاری اور شیخ الحدیث مولانا محمد نذیر فاضل مدینہ یونیورسٹی سے مدرسہ تجوید القرآن المعروف پیرجی کے درس میں حاصل کی۔ دورہ حدیث شریف جامعہ قاسم العلوم ملتان سے ۱۹۷۶؍ میں کیا۔ اس دوران حدیث شریف کی کچھ کتابیں مولانا مفتی محمود سے بھی پڑھیں۔تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد درس پیرجی میں ہی سلسلہ تدریس شروع کر دیا انہی دنوں شہید مظلوم مولانا محمد اعظم طارق شہید،مولانا عالم طارق، میرے برادر کبیر مولانا محمد احمد حافظ مدیرماہنامہ وفاق المدارس سمیت علاقے کے طلباء کے جم غفیر نے حضرت پیرجی عبد الحفیظ نور اﷲ مرقدہ سے ابتدائی درجات میں تعلیم حاصل کی۔
پیرجی عبد الحفیظ صاحب حضرت بڑے پیرجی عبد العزیز کے انتقال کے بعد ان کے خلیفہ اور خانقاہ عزیزیہ چک نمبر 11 کے صاحبِ سجادہ مقرر ہوئے۔ حضرت پیرجی عبد الحفیظ نور اﷲ مرقدہ کو اپنے والد گرامی پیرجی عبد اللطیف،پیرجی عبد العزیز،مولانا محمد ابرہیم میانچنوں، حضرت سید انور حسین نفیس الحسینی، قاری محمد اسحاق فیصل آباد والوں سے چاروں سلسلوں میں خلافت حاصل ہوئی۔ آپ نے گاؤں میں خانقاہ عزیزیہ میں درجہ حفظ اور ابتدائی درس نظامی کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔
آپ تمام مسالک کے علماء سے محبت کرتے تھے اور ہر دینی پروگرام اور دینی مدارس کی سر پرستی فرماتے تھے۔طبیعت میں خاموشی کا عنصر غالب تھا۔ہر مرید کی اصلاح کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ ابتدا میں گاؤں میں ایک ہی مسجد تھی بعد ازاں گاؤں میں چار مساجد کی تعمیر کروائی۔ توکل علی اﷲ پر مضبوطی سے قائم تھے، کبھی کسی کو چندہ کی اپیل نہیں کی، بلکہ ہمیشہ یہی کہا کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا گھر ہے، وہی اس کی تعمیر کروائے گا۔ بقول حضرت پیر جی کے نواسے بھائی عبد القادر ایک شخص کے نظریاتی انحراف اور عقائد بدلنے پر اس کو سمجھا یا، جب مادہ اصلاح نہ پایا توقطع تعلق اختیار کر لیا۔ ایک بار اس نے ایک لاکھ روپے مدرسے کے لیے دیے، لیکن حضرت پیرجی سے ملاقات کا وقت بھی مانگا، حضرت پیرجی نے یہ خطیر رقم لینے سے انکار کر دیا اور اپنے اصول پر قائم رہے۔
حضرت پیرجی عبد الحفیظ نور اﷲ مرقدہ کی کوئی نماز قضاء نہ ہوتی تھی۔ سفر ہو یا حضر روزانہ رات دو بجے تہجّد کے لیے بیدار ہو جاتے اور نماز فجر کے لیے جاتے ہوئے اردگرد کے گھروں کا دروازے کھٹکھٹاتے جاتے کہ نماز کے لیے بیدار ہو جاؤ۔ جس دن انتقال ہوا ہوا اس دن بھی اسی ترتیب سے جارہے تھے کہ راستے میں دل کا شدید دورہ پڑا اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے مہربان حقیقی کی رحمت کی طرف سفرکر گئے۔ انتقال کی خبر سن کر لوگ جوق درجوق درس پیرجی پہنچنے لگے ۔ نماز جنازہ مغرب کی نماز کے بعد رائے علی نواز سٹیڈیم میں طے پایا۔ نمازِ جنازہ میں معروف علماء کرام مولانا اﷲ وسایا، مولانا مفتی انور اوکاڑوی، مولانا ظفر احمد قاسم، قاری محمد طیب حنفی، شیخ الحدیث مولانا محمد نذیر،مولانا محمد ریاض، مفتی مظہر اسعدی، مولانا اجمل نعمانی، جناب عبداللطیف خالد چیمہ اور شہر بھر کی دینی سیاسی سماجی شخصیات کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ نمازِ جنازہ حضرت پیرجی عبد الجلیل رائے پوری نے پڑھایا اور تدفین کے لیے آبائی گاؤں چک نمبر 11 میں لے جایا گیا۔
مجلس احراراسلام چیچہ وطنی کے زیر اہتمام دارالعلوم ختم نبوت جامع مسجد چیچہ وطنی میں حضرت پیر جی قاری عبدالجلیل رائے پوری کی زیر سرپرستی اور عبداللطیف خالد چیمہ کی زیر صدارت حضرت پیر جی عبدالحفیظ رائے پوری کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا ،جس کے مہمانان خصوصی قاری شبیر احمد اور حافظ عبدالقادر (خانقاہ عزیزیہ)تھے۔ تعزیتی ریفرنس میں ممتاز سیاسی و سماجی رہنماء شیخ عبدالغنی ،پیر جی عزیز الرحمن ، پیر جی حبیب الرحمن ، پروفیسر محمد افضل طیار،مولانا منظور احمد ، قاری محمد قاسم ،حافظ حبیب اﷲ چیمہ ،حافظ حفیظ اﷲ گجر،حکیم حافظ محمد قاسم ،قاضی عبدالقدیر،حافظ محمد مغیرہ ، حافظ محمد بن قاسم ،حافظ عبدالحمیدمعاویہ ، اور دیگر نے شرکت و خطاب کیا۔مقررین نے حضرت پیر جی عبدالحفیظ رائے پوری کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ علامہ خادم حسین رضوی اور دارالعلوم ختم نبوت کے مدرس قاری محمد سعید کے لیے بھی دعائے مغفرت و بلندیٔ درجات کی۔عبداللطیف خالد چیمہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ اہل حق نے ہمیشہ دین کی سربلندی کے لیے کام کیا اور عزیمت کا راستہ اختیار کیا،انہوں نے کہاکہ خانقاہ ہی بزرگوں نے دلوں پرمحنت کی اور اﷲ نے دل موڑ دئیے ، انہوں نے کہاکہ خانقاہوں نے ایسے رجال ِ کار تیار کیے ، جنہوں نے اﷲ کی توحید کا ڈنکا بجایا اور ختم نبوت کے ترانے گائے ،اسوۂ صحابہ کرام پر مر مٹنے والے یہی مردان حق ہیں ۔شیخ عبدالغنی نے کہاکہ رائے پوری حضرات نے سلوک و تصوف کے ذریعے بڑی خدمات انجام دی ہیں ، پیر جی عزیز الرحمن نے کہاکہ اصل کام یہ ہے کہ اﷲ کے نیک بندے مخلوق کو خالق کا بندہ بنا دیں ، پروفیسر محمد افضل طیار نے کہاکہ مسلک کی بجائے دین کی بنیاد پر محنت کی ضرورت ہے ،تعزیتی ریفرنس پیر جی حبیب الرحمن ، قای شبیر احمد اور حافظ عبدالقادر رائے پوری کی دعا پر اختتام پذیر ہوا۔