مولانا حبیب الرحمن ہاشمی
حضرت مولانا محمد نافع صاحب رحمتہ اﷲ علیہ سے میری دو مختصر ملاقاتیں ہیں۔ ایک بار مولانا کریم بخش صاحب کے ہمراہ فیصل آباد جاتے ہوئے کچھ دیر کے لیے رکے۔ مولانا کی زیارت کی دعائیں لیں اور رخصت ہوئے۔ تب مولانا کی صحت بہت بہتر تھی۔ دوسری بار برادرم ڈاکٹر محمد عنایت اﷲ ، ڈاکٹر عبدالقادر صاحبان کے ہمراہ حاضری ہوئی۔ اب کی بار مولانا سخت علیل اور تکلیف میں تھے۔ قدرے طبیعت سنبھلی تو ملاقات کا شرف بخشا ۔ فرمانے لگے۔ میرے جیسے آدمی کے لیے آپ نے اتنی تکلیف اٹھائی۔ طویل سفر اختیار کیا۔ میں نے دل میں کہا کہ حضور! آپ جیسے آدمی ہی کی تلاش ہے۔ مجھے وہ نہایت شفیق اور خلیق لگے۔خشونت اور یبوست پاس سے بھی نہ گزری تھی۔ تواضع، سادگی او ر دھیمے پن نے ازحد متاثر کیا۔ ہمیں تاسف تھا کہ اس مردِ نجیب کے ہاں اب حاضر ہورہے ہیں جب چراغِ سحر بجھا چاہتا ہے۔ بوقتِ رخصت دعاؤں کے ساتھ کتب کا تحفہ بھی عنایت فرمایا۔ ایک کتاب ڈاکٹر محمد عنایت اﷲ صاحب کو دی۔ اور دو کتابیں مدرسہ تعلیم الاسلام کے کتب خانے کے لیے وقف فرمائیں۔ جو اس مدرسہ کے لیے سرمایۂ افتخار اور نعمت ِ غیر مترقبہ ہے۔ برادرِ مکرم ڈاکٹر محمد عنایت اﷲ صاحب بڑے ہی خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے مولانا کی دعائیں اور تو جہات خوب سمیٹیں۔
موصوف مسلسل رابطے میں رہے۔ مولانا کے لیے ادویات وغیرہ بھیجتے رہے۔ ہر بار مولانا کے صاحبزادے جناب مولانا مختار عمر بذریعہ فون رسید کی اطلاع دیتے۔مگر مولانا کی کریمانہ عادت اور خودر نوازی ، وضع داری تھی کہ باوجود یہ کہ ضعف وپیرانہ سالی اور شدید بیماری کے بذریعہ گرامی نامہ نہ صرف مطلع فرماتے بلکہ اس معمولی سی خدمت کو بہت سراہتے، شکریہ ادا کرتے اور دعاؤں سے نوازتے ۔ مولانا کی اس ادائے دل برانہ پر ہم متحیر ہوتے۔بہر کیف بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔
زمانہ طالب علمی میں مولانا کا نام کانوں میں پڑچکا تھا۔ استاذ محترم حضرت علامہ غلام رسول صاحب رحمتہ اﷲ علیہ (استاذالحدیث جامعہ رشیدیہ ساہیوال) نے اچھوتے موضوع پر البیلی کتاب ’’رحماء بینھم‘‘ سے آشنا کرادیا تھا۔ مولانا کا علم بے کراں، قلم رواں، اسلوب ناصحانہ تھا۔معتدل شگفتہ ، شائستہ اور بلیغ انداز تحریر میں ، ٹھوس علمی تاریخی اور فکری مضامین یوں لکھتے کہ دلوں کے بند دریچے کھلتے چلے جاتے۔ مجھے تو اس اندازنے گرویدہ بنالیا تھا۔ مولانا تاریخ کی خارزار وادی میں اترے اور مردانہ وار آگے بڑھے، فتنہ گروں کی اڑائی ہوئی گرد میں آئی ہوئی تابدار شخصیات کو یوں بے غبار کیا کہ ہر چہرہ رشک آفتاب وماہتاب بن گیا۔ تاریخ کا پرپیچ اور دشوار گزار سفر ایک غیر جانبدار مؤرخ اور طالب حق کی طرح طے کیا۔ مولانا کا طرزِ فکر ایک سلیم الطبع ، انصاف پسند، حق کے متلاشی انسان کو درست اور بے لاگ رائے قائم کرنے اور صحیح نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔مولانا کی کتب میں مناظرانہ جوش کے بجائے مؤرخہ متانت زیادہ ملتی ہے۔اسلوب جارحانہ نہیں، ناصحانہ ہے۔ مولانا مسلکی تعصب سے دور اور فرقہ واریت سے نفور تھے۔ تاریخ کی اس خارزار وادی سے مولانا اس خوبصورتی سے پار ہوئے کہ گروہی تعصب، بحث و مجادلہ ، طعن وتشنیع، تنقیص و تحقیر کے کانٹوں سے اپنا دامن بچائے رکھا، الغرض مولانا شعلہ نہیں شبنم تھے۔
مولانا کو تکلف سے دور اور شہرت سے نُفور پایا۔ کتابیں ہی اوڑھنا بچھونا تھیں ۔ ٹھوس بنیادوں پر مضبوط علمی تاریخی کام ایک کچے گھر میں بیٹھ کر کیا۔ جو واقعی کچا ہے اور سادگی کا ایک نمونہ ہے۔قاری مولانا کی کتب کو اور نئے لکھاری مولانا کے اسلوب کو حرزِجاں بنائیں ۔ مولانا کی کتب علمی مسافر کے لیے زادِ راہ، اور مولانا کا طرز اسوہ ہے۔
کتابوں میں جن علمائے حق کا تذکرہ پڑھا، مولانا ہوبہو ان کی تصویر تھے۔علم وحلم کا پیکر، زہدو تقویٰ کا مجسمہ، سادگی وبذاذت کا نمونہ، عجز وانکساری میں ڈھلا ہوا وجود، یہ تھے مولانا محمد نافع رحمتہ اﷲ علیہ جو اسم بامسمیٰ تھی ۔ نام بھی نافع، کام بھی نافع۔ طبیعت میں سادگی تھی۔ لباس بھی سادہ زیب ِ تن فرماتے تھے۔ استغناء خودداری، سادگی اور وقار نے مولانا کو باوقار بنادیا تھا۔ بیماری کے ایام طویل اور تلخ تر تھے۔جسم شمع کی طرح جلتا پگھلتا رہا، مگر قلب نافع سے حمدوثناء کے چشمے ابلتے رہے۔جلتی پگھلتی شمع ماحول کو اجالتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ سلفِ سالحین رحمتہ اﷲ علیہ کی یہ سچی یادگار بھی آخر ہماری نظروں سے روپوش ہوگئی۔سدا رہے نام اﷲ کا۔
آنے والی نسلیں تم پر ناز کریں گی،ہم عصرو!جب تم ان کو بتلاؤ گے ہم نے فراقؔ کو دیکھا تھا