حضرت مولانامحمدعبدالحمید تونسوی
دین اسلام میں نماز تراویح کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اس کاآغازآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے ہوا۔ اور عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام ؓ واہل بیت عظام ؓنے بھی اسی سنت کوہمیشہ جاری رکھا۔ خیر القرون سے لیکر آج تک پوری امت اس پر بڑے تزک واحتشام سے عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ تمام ادوار میں مسلمانوں کا نماز تراویح پر اجماع واتفاق اس کے حجت شرعیہ ہونے کی دلیل ہے، بدعت وگمراہی کانشان ہرگزنہیں۔
حضرت علی المرتضیٰؓ کے ارشادات:
حضرات خلفاء ثلاثہؓ کے بعدخلیفہ راشدرابع امیرالمؤمنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ بھی رمضان المبارک میں نماز تراویح پڑھنے اور پڑھانے کا بڑے شاندارطریقے سے انتظام فرمایا کرتے تھے، جس کی تفصیل کتب حدیث و سیرت میں بڑی صراحت کے ساتھ منقول ہے۔ اس حوالے سے چندروایات پیش خدمت ہیں۔
۱: ابوعبدالرحمان السلمی حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے نقل فرماتے ہیں کہ
’’أَن علیاً دَعَاالْقُرَّاء فِی رَمَضَان فَأمر مِنْہُم رجلاً یُصَلِّی بِالنَّاسِ عشْرین رَکْعَۃقَالَ وَکَانَ عَلیّ یُوتر بہم‘‘(السنن الکبریٰ للبیہقیؒ:رقم الحدیث۴۲۹۱باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان۔ المنتقی من منہاج الاعتدال للذہبیؒ: ۵۴۲)
حضرت علیؓ نے رمضان شریف میں قرآن مجیدکے قاریوں کوبلایااوران میں سے ایک شخص کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھایا کریں اور جناب علی المرتضیٰ ؓ وتر کی نمازخود پڑھایاکرتے تھے
۲: بیہقی ؒاپنی سندسے حضرت ابی الحسناء سیروایت کرتے ہیں کہ
’’أن علی بن أبی طالب ’’ أمر رجلا أن یصلی، بالناس خمس ترویحات عشرین رکعۃ‘‘
(السنن الکبریٰ للبیہقیؒ:رقم الحدیث ۴۲۹۱باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان)
حضرت علی ؓنے ایک شخص کوحکم دیاکہ وہ لوگوں کوپانچ ترویحے یعنی بیس رکعت ،نمازتراویح، پڑھایاکرے۔
۳: امام ابن ابی شیبہ ؒ اپنی سند سے ابن ابی الحسناء سے نقل کرتے ہیں کہ
’’أَنَّ عَلِیًّا أَمَرَ رَجُلًاان یُصَلِّی بِہِمْ فِی رَمَضَانَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً‘‘(المصنف لابن ابی شیبہ:حدیث: ۷۶۲۱)
حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے ایک شخص کوحکم فرمایاکہ وہ لوگوں کو رمضان شریف میں پانچ ترویحے یعنی بیس رکعت نمازتراویح پڑھایاکرے۔
۴: امام آجریؒ، ابی الحسناء سے نقل کرتے ہیں کہ
’’أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ أَمَرَ رَجُلًا أَنْ یُصَلِّیَ بِالنَّاسِ فِی رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِیحَاتٍ عِشْرِینَ رَکْعَۃً‘‘
(الشریعۃ للآجری:رقم الحدیث۱۲۴۰باب ذکراتباع علی ؓبن ابی طالب)
کہ حضرت علیؓ نے ایک شخص کو حکم دیاکہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعت تراویح پڑھایاکرے۔
خمسہ ترویحات کی توضیح:
متعدد روایات حدیث میں’’خمسہ ترویحات‘‘کے الفاظ اوران کے ساتھ’’عشرین رکعۃ‘‘کی صراحت موجود ہے۔یعنی خمسہ ترویحا ت سے بیس رکعت مراد ہیں۔در اصل تراویح،ترویحۃ کی جمع ہے اورترویحۃ چار رکعت کے بعد ایک دفعہ وقفہ کرنے کوکہتے ہیں اورترویحتان دو وقفوں کو کہا جائے گا اور تراویح دوسے زیادہ وقفوں کو کہا جائے گا۔ عہد فاروقیؓ میں تراویح کی ہر چاررکعت کے بعد وقفہ ہواکرتا تھا اور بیس رکعت کے بعد یہ کل پانچ وقفے بناکرتے تھے، ان وقفوں کی مناسبت سے اس نمازکانام ’’تراویح‘‘ پڑگیا۔ ’’تراویح‘‘ کے نام سے ہی ’’بیس رکعت‘‘ ثابت ہوئیں۔ آٹھ رکعات کے لیے ’’تراویح‘‘ نہیں بلکہ ’’ترویحتان‘‘ نام ہونا چاہیے جوکسی کے ہاں مستعمل نہیں۔ فائدہ: مذکورہ روایات میں سے اگر کسی روایت میں اسنادی ضعف ہوتو ان روایات کاتعدد، اس کی تقویت اورنفس مسئلہ کی توثیق کے لیے کافی وافی ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ حضرت علیؓکی طرف سے بیس تراویح کا حکم، اس کے مسنون عمل ہونے کی کھلی دلیل ہے۔
خواتین بھی نمازتراویح کی مکلّف ہیں
متعدد روایات سے معلوم ہوتاہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے بھی تراویح پڑھنامسنون ہے اسی لیے عہدمرتضویؓ میں خواتین کونماز تراویح پڑھانے کا علیحدہ باپردہ انتظام ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰؓ کے عہد کے ایک شخص حضرت عرفجہ ثقفیؒ ذکرکرتے ہیں کہ ’’عن عرفجۃالثقفی ان علیاً کان یامر الناس بالقیام فی شہر رمضان ویجعل للرجال اماماًوللنساء اماماً قال فامرنی فاممت النساء‘‘
(مصنف عبدالرزاق:باب شہودالنساء الجماعۃرقم الحدیث ۱۵۲۵،وباب قیام رمضان،رقم الحدیث ۷۷۲۲)
رمضان شر یف کی راتوں میں حضرت علی المرتضیٰؓ مردوزن سبھی کوارشادفرماتے تھے کہ وہ نمازتراویح کے لیے جمع ہوں، آپؓ مردوں کے لیے الگ اورعورتوں کے لیے الگ امام مقررفرماتے تھے جوان کوتراویح پڑھائے۔عرفجہ کہتے ہیں کہ عورتوں کی امامت کے لیے آپؓ نے مجھے حکم فرمایا!پس میں عورتوں کونمازتراویح پڑھایاکرتاتھا
فائدہ:اس سے ثابت ہواکہ مرد وخواتین،سبھی حضرات نماز تراویح کے یکساں مکلف ہیں۔
حضرت علی المرتضیٰؓ کے تلامذہ کاتعامل
علی المرتضیٰؓ کے تلامذہ میں سے ایک مشہور شاگرد حضرت سویدؓ بن غفلہ تابعی اور دوسرے نامور شاگرد حضرت شتیرؒ بن شکل تابعی دونوں کے متعلق محدثینؒ نے نقل کیاہے کہ’’کان یؤمنا سوید بن غفلۃ فی رمضان فیصلی خمس ترویحات عشرین رکعۃوروینا عن شتیر بن شکل، وکان من أصحاب علی رضی اﷲ عنہ ‘‘ أنہ کان یؤمہم فی شہر رمضان بعشرین رکعۃ، ویوتر بثلاث‘‘
(السنن الکبریٰ للبیہقیؒ:رقم الحدیث ۴۲۹۰ باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان)
حضرت سوید ؓبن غفلہ رمضان شریف میں تراویح پڑھایاکرتے تھے جوپانچ ترویحۃ یعنی بیس رکعت پر مشتمل ہوتی تھی۔ اور حضرت شتیرؓبن شکل، حضرت علیؓ کے شاگردوں میں سے تھے،وہ رمضان شریف میں لوگوں کوبیس رکعات تراویح اور تین رکعت وتر پڑھایاکرتے تھے
فائدہ: اس روایت سے حضرت علیؓ کے تلامذہ کا بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر باجماعت پرتعامل واتفاق ثابت ہوا۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا
سیرت فاروقیؓ اورسیرت علویؓ کاتوافق
محدثینؒ کی صراحت کے مطابق ایک امام کی اقتدامیں باجماعت تراویح کاباقاعدہ اہتمام فاروق اعظم ؓ کے دور خلافت میں ہوا۔ حضرت ابی بن کعب ؓ کی اقتدا میں جہاں دیگرصحابہ رضی اﷲ عنہ تراویح ادافرماتے تھے وہاں پچھلی صف میں خود حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اوران کے ساتھ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ بھی موجود ہواکرتے تھے،چونکہ سیدناحضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ بھی اس وقت یقیناًحیات تھے،اس لیے وہ بھی انہیں کے ساتھ بیس تراویح ہی باجماعت ادافرمایاکرتے تھے۔ نمازتراویح اگرمسنون نہ ہوتی یا اس کی تعداد بیس سے کم وبیش ہوتی توحضرت علی رضی اﷲ عنہ جوجرأت وشجاعت کے پیکر تھے، وہ اس خلاف سنت کام کو کیسے گوارا کرسکتے تھے؟ مگر ان کااختلاف نہ کرنا اور صحابہ رضی اﷲ عنہ سے اس بارے میں ان کاکوئی اختلاف کہیں مذکور نہ ہونا،بذات خوداس بات کی واضح دلیل ہے کہ پورے رمضان المبارک میں تراویح ایک مسنو ن نماز ہے جس کی تعدادبیس رکعت ہے۔
یاد رہے کہ تراویح کے عمل سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کااختلاف کیونکر ہوتاجبکہ انہوں نے خود باجماعت تراویح کاحکم صادر فرمایا۔ اور پھر اس پر مستزادیہ کہ حضرت عمرفاروق اعظمؓ کوجوکہ تراویح کا باقاعدہ اہتمام کرانے والے تھے، اپنی والہانہ دعاسے نوازاہے۔چنانچہ رمضان کی پہلی شب حضرت علیؓ جب مسجدتشریف لائے تودیکھاکہ تمام لوگ تراویح کے فرط شوق میں جمع ہیں اورقاری صاحب امامت کے لیے تیار ہیں، اس روح پرورمنظرکودیکھ کرآپؓ کی زبان مبارک سے بیساختہ یہ الفاظ نکلے’’نور اﷲ علی عمر قَبرہ کَمَا نور علینا مَسَاجِدنَا‘‘
(المنتقیٰ من منھاج الاعتدال للذہبیؒ: ۵۴۲)
(اے اﷲ عمرؓ کی قبر کونور سے بھردے جیساکہ اس نے تراویح کے لیے ہماری مساجد کو لوگوں سے بھردیاہے)
فائدہ: اس سے صاف معلوم ہواکہ سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اورسنت خلفاء ثلاثہ ؓکے مطابق حضرت علی ؓبھی نماز تراویح کے قائل وعامل رہے۔ اورعہد علویؓ میں بھی باقاعدہ نمازتراویح باجماعت اداکی جاتی رہی اوربیس رکعت پر ان کی مواظبت رہی۔ملحوظ رہے کہ عہد علویؓمیں نہ توتراویح کوترک کیاگیااورنہ ہی اس کی تعداد بیس رکعات میں کمی کی گئی، یہاں تک کہ حضرت علیؓ کے بعد ان کی اولاد امجاد کا بھی تعامل اسی پر جاری رہا۔
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹادو ہم کو
مناسب معلوم ہوتاہے کہ کتب امامیہ سے بھی ائمہ اہل بیت کے چندفرمودات نقل کردیے جائیں تاکہ تراویح کی غیرمعمولی اہمیت خوب اجاگر ہوسکے۔
ائمہ اہل بیت ؓکے فرمودات
۱: امام جعفر صادقؒ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ
’’عن أبی عبداﷲ (ع) قال کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ یزید فی صلاتہ فی شہررمضان إذاصلی العتمۃ صلی بعدہا فیقوم الناس خلفہ فیدخل ویدعہم ثم یخرج أیضا فیجیؤن ویقومون خلفہ فیدعہم ویدخل مرارا، قال: وقال: لا تصل بعد العتمۃ فی غیر شہر رمضان‘‘ (الفروع من الکافی: ۹۵۳/۳کتاب الصیام باب مایزادمن الصلاۃ فی شہر رمضان)
جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان شریف میں جب عشاء کی نمازپڑھ لیتے توعشاء کی نماز کے بعد نوافل میں اضافہ فرماتے۔جب آپ نمازمیں کھڑے ہوتے تولوگ آپ کی اقتدامیں نمازاداکرتے پھرکچھ دیربعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان لوگوں کوچھوڑ کر گھر تشریف لے جاتے،پھرگھر سے باہر تشریف لاتے اور لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتدامیں کھڑے ہوجاتے۔ اسی طرح کئی بار جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ان لوگوں کوچھوڑ کر گھر تشریف لے جاتے اور پھر باہر تشریف لاکر نمازپڑھاتے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عشاء کی نماز کے بعد رمضان شریف کے سوانوافل نہ پڑھاکرو۔
۲: امام جعفرصادق ؒ فرماتے ہیں کہ
’’إن أبا عبداﷲ (ع) قال: لہ ان اصحابنا ہؤلاء أبوا أن یزیدوا فی صلاتہم فی شہررمضان وقد زاد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ فی صلاتہ فی شہر رمضان. (الاستبصارء:باب الزیادات فی شہر رمضان،۱/ ۱۹۰تا۱۹۲طبع ایران)
ہمارے بعض لوگوں نے رمضان شریف میں نوافل میں اضافہ کاانکار کیاہے حالانکہ یقیناً رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں اپنی نفلی نماز میں اضافہ کیاہے
۳: ’’عن أبی بصیر أنہ سأل أبا عبداﷲ (ع) أیزید الرجل فی الصلاۃ فی شہر رمضان قال: نعم ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قدزاد فی رمضان فی الصلوٰۃ۔(ایضاً)
ابوبصیرنے امام جعفرصادق ؒسے دریافت کیا کہ کیارمضان شریف میں آدمی کونفلی نماز میں اضافہ کرنا چاہئے ؟ توانہوں نے فرمایاکہ ہاں بیشک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے اندرنمازمیں اضافہ فرماتے تھے۔
۴: امام جعفرصادق ؒ فرماتے ہیں کہ
’’عن أبی عبداﷲ (ع) قال: کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ إذا دخل شہررمضان زاد فی الصلوٰۃ فأنا ازید فزیدوا.(ایضاً)
(جب رمضان کامہینہ داخل ہوتاتھاتورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم اپنی نماز میں اضافہ فرماتے تھے۔سومیں بھی اضافہ کرتاہوں اورتم بھی اپنی نفلی نمازمیں اضافہ کیاکرو۔
۵: امام جعفرصادق ؒ فرماتے ہیں کہ
’’عن أبی عبداﷲ (ع) قال مما کان یصنع فی شہررمضان کان یتنفل فی کل لیلۃ ویزید علی صلاتہ التی کان یصلیہا قبل ذلک منذ اول لیلۃ إلی تمام عشرین لیلۃ فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ۔۔۔(ایضاً)
ماہ رمضان کے اعمال میں ایک یہ بھی تھاکہ وہ ہر رات میں نوافل اداکرتے تھے اور روزانہ اداکی جانے والی اپنی نمازپر، نوافل کااضافہ کرتے تھے۔ پہلی رات سے لے کر بیسویں رات تک اورہر رات میں بیس رکعت اداکرتے تھے۔
۶: ’’علی بن حاتم عن الحسن بن علی عن أبیہ قال: کتب رجل إلی أبی جعفر (ع) یسئلہ عن صلوٰۃ نوافل شہر رمضان وعن الزیادۃ فیہا؟ فکتب (ع) الیہ کتابا قرأتہ بخطہ صل فی أول شہر رمضان فی عشرین لیلۃ عشرین رکعۃ،(ایضاً)
ایک آدمی نے امام محمد باقرؒ کورمضان شریف کے نوافل اورزائدنمازکے بارے میں لکھ کردریافت کیا؟پس امام باقرنے جواباً تحریرفرمایاکہ اول رمضان سے بیس تک نفل نمازاداکی جائے اورہررات میں بیس رکعت پڑھی جائے۔
۷: ’’عن محمد ابن سنان قال قال الرضا(ع)کان ابو یزید فی العشرالاواخر فی شہر رمضان فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ.(ایضاً) محمد بن سنان نقل کرتے ہیں کہ امام علی رضاؒنے فرمایاکہ ابویزیدماہ رمضان کے آخری عشرہ میں ہر رات بیس رکعت اداکیاکرتے تھے۔
فیصلہ کن بات:
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں
’’وَأَکْثَرُ أَہْلِ العِلْمِ عَلَی مَا رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ وَعُمَرَ، وَغَیْرِہِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً، وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِیِّ، وَابْنِ الْمُبَارَکِ، وَالشَّافِعِیِّ.وقَالَ الشَّافِعِیُّ: وَہَکَذَا أَدْرَکْتُ بِبَلَدِنَا بِمَکَّۃَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً.‘‘
(جامع ترمذی:ابواب الصوم:۱/ ۱۶۶،باب ماجاء فی قیام شہررمضان طبع قدیمی کراچی)
اوراکثراہل علم اس بات پر متفق ہیں جوحضرت علیؓ اورحضرت عمرؓاوران کے علاوہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دیگرصحابہ کرام ؓسے مروی ہے کہ ترایح بیس رکعت ہے اورحضرت سفیان ثوریؒم۱۶۱ھ اورحضرت عبداﷲ بن مبارک م۱۸۱ھ اورحضرت امام شافعیؒم ۴۰۲ھ کابھی یہی قول ہے۔اورامام شافعیؒ کابیان ہے کہ میں اپنے شہر مکہ کے لوگوں کو تراویح کی بیس رکعت پڑھتے دیکھاہے
اورعلامہ ابن عبدالبرؒفرماتے ہیں کہ :
’’وقال الثوری وأبو حنیفۃ والشافعی وأحمد بن داود قیام رمضان عشرون رکعۃ سوی الوتر لا یقام بأکثر منہا استحباباوذکر عن وکیع عن حسن بن صالح عن عمرو بن قیس عن أبی الحسین عن علی أنہ أمر رجلا یصلی بہم فی رمضان عشرین رکعۃوہذا ہو الاختیار عندنا وباﷲ توفیقنا‘‘(الاستذکارالجامع لمذاہب فقہاء الامصار: ۲/ ۷۰کتاب الصلوۃ فی رمضان،دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضرت سفیان ثوریؒ اورامام ابوحنیفہؒاورامام شافعیؒ اورامام احمد بن داؤد،وترکے علاوہ تراویح کی بیس رکعات کے قائل ہیں،ان سے زیادہ رکعتیں پڑھنابہترنہیں ہے،اورحضرت وکیعؒ نے حسن بن صالح سے اورانہوں نے عمروبن قیس سے اورانہوں نے ابوالحسین سیاورانہوں نے حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے روایت کیاہے کہ انہوں نے ایک آدمی کورمضان میں بیس رکعتیں پڑھانے کاحکم دیااورہمارے نزدیک یہی پسندیدہ ہے اورتوفیق تواﷲ تعالیٰ کے ذریعہ سے ہوتی ہے
فائدہ:مذکورہ روایات اورمحدثین کے بیان سے یہ بات خوب واضح ہوگئی کہ صحابہ کرام ؓ اورحضرات ائمہ اہل بیت بھی ماہ رمضان میں نمازعشاء کے بعد بیس تراویح کے قائل بلکہ عامل تھے، صرف نام کافرق ہے کہ بعض حضرات انہیں نوافل اوربعض حضرات اسی نماز کو ’’صلوٰۃ التراویح‘‘کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔جمہور اہل علم اورائمہ اربعہ کاقول وعمل اسی کے مطابق ہے۔
سیدناحضرت علیؓاوردیگرائمہ اہل بیتؓ کے مذکورہ فرامین اوران کے تعامل کے باوجود، بعض لوگوں کا تراویح سے انکار کرنا تعجب خیز ہی نہیں ائمہ کی مخالفت کاشاخسانہ بھی ہے۔
دنیا نے اپنے آپ کو بدلا گھڑی گھڑی
ایک اہل عشق ہیں کہ جہاں تھے وہیں رہے