حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اﷲ
حضرت عبدالملک بن شدّ اد رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں: میں نے جمعہ کے دن حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کو منبر پردیکھا کہ ان پر عدن کی بنی ہوئی موٹی لنگی تھی جس کی قیمت چار یا پانچ درہم تھی، اور گیروے رنگ کی ایک کوفی چادر تھی۔ حضرت حسن رحمۃ اﷲ علیہ سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو مسجد میں قیلولہ کرتے ہیں، تو انھوں نے کہا: حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنے زمانۂ خلافت میں ایک دن مسجد میں قیلولہ فرمارہے تھے۔ جب وہ سو کراٹھے تو ان کے جسم پر کنکریوں کے نشان تھے (مسجد میں کنکریاں بچھی ہوئی تھیں) اور لوگ (ان کی اس سادہ اور بے تکلف زندگی پر حیران ہوکر) کہہ رہے تھے: یہ امیر المؤمنین ہیں؟یہ امیرالمؤمنین ہیں ۔ اخرجہ ابونعیم فی ’’الحلیۃ‘‘ (۱؍۶۰)، واخرجہ احمد کمافی ’’صفۃالصفوۃ‘‘(۱؍۱۱۶)
حضرت شُرَ حْبِیْل بن مسلم رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں: حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ لوگوں کو خلافت والا عمدہ کھانا کھلاتے، اور خود گھر جاکر سرکہ اور تیل یعنی سادہ کھانا کھاتے۔
حضرت عبدالرحمن بن خباب سَلَمی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور جیشِ عُسرہ (غزوۂ تبوک میں جانے والے لشکر) پر خرچ کرنے کی ترغیب دی۔ تو حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ نے کہا: کجاوے اور پالان سمیت سواُونٹ میرے ذمہ ہیں یعنی میں دوں گا۔ پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم منبر سے ایک سیڑھی نیچے تشریف لائے اور پھر (خرچ کرنے کی ) ترغیب دی تو حضرت عثمان نے پھر کہا:کجاوے اور پالان سمیت سواونٹ میرے ذمّہ ہیں۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا کہ (حضرت عثمان کے اتنا زیادہ خرچ کرنے پر بہت خوش ہیں اور خوشی کی وجہ سے )ہاتھ کو ایسے ہلارے ہیں جیسے تعجب وحیرانی میں انسان ہلایا کرتا ہے۔ اس موقع پر عبدالصمد راوی نے سمجھا نے کے لیے اپنا ہاتھ باہر نکال کر ہلا کردکھایا۔ اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرمارہے تھے۔ اگر اتنا زیادہ خرچ کرنے کے بعد عثمان کوئی بھی (نفل) عمل نہ کرے تو ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
’’بیہقی‘‘ کی روایت میں یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ترغیب دی اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے کجا وے اور پالان سمیت تین سواُونٹ اپنے ذمہ لیے۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں: میں اس وقت موجود تھا جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم منبرپر یہ فرمارہے تھے۔ اتنا خرچ کرنے کے بعد، یا فرمایا: آج کے بعد عثمان رضی اﷲ عنہ کا کسی گناہ سے نقصان نہیں ہوگا۔ أخرجہ احمد، کذافی ’’البدایۃ‘‘ (۵؍۴)وأخرجہ أبونعیم فی ’’الحلیۃ‘‘ (۱؍۵۹)
حضرت عبدالرحمن بن سَمُرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: جب حضورِ اَقدس صلی اﷲ علیہ وسلم جیش عسرہ (یعنی غزوۂ تبوک کے لشکر) کو تیار کررہے تھے تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے اور لاکر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی جھولی میں ڈال دیے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ان دیناروں کو اُلٹتے پلٹتے جارہے تھے اور یہ کہتے جارہے تھے: آج کے بعد عثمان جو بھی(گناہ صغیرہ خلاف اولیٰ) کام کریں گے تو اس سے ان کا نقصان نہیں ہوگا۔ یہ بات آپ نے کئی مرتبہ فرمائی۔ أخرجہ الحاکم (۳؍۱۰۲)،قال الحاکم: ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ وقال الذھبی : صحیح واخرجہ ابونعیم فی ’’الحلیۃ (۱؍۵۹) ابو نعیم نے یہی روایت حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے نقل کی ہے۔ اس میں یہ مضمون ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اﷲ! عثمان کے اس کار نامے کو نہ بھولنا اور اس کے بعد عثمان کوئی نیکی کا کام نہ کریں تو اس سے ان کا نقصان نہیں ہوگا۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں:حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے پاس جیش عسرہ کی مدد کرنے کے لیے پیغام بھیجا تو حضرت عثمان نے دس ہزار دینار حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بھیجے۔ لانے والے نے وہ دینار حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دیے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سامنے ان دیناروں کو اوپر نیچے اُلٹنے پلٹنے لگے اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے لیے دعا کرنے لگے: اے عثمان! اﷲ تمہاری مغفرت فرمائے ! اور جوگناہ تم نے چھپ کرکیے اور علی الاعلان کیے اور جو تم نے مخفی رکھے اور جو گناہ تم سے قیامت تک ہوں گے اﷲ ان سب کو معاف فرمائے۔ اس عمل کے بعد عثمان کوئی بھی نیک عمل نہ کریں تو کوئی پرو انہیں۔ أبی عدی والدار قطنی وابی نعیم وابن عساکر، کذافی’’المنتخب‘‘ (۵؍۱۲)۔ انسان جب مرتا ہے تو اس کی قیامت قائم ہوجاتی ہے، اس لیے مطلب یہ ہے کہ عثمان سے مرتے دم تک جتنے گناہ ہوں اﷲ انھیں معاف کرے ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:جب حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ نے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو جیش عسرہ کی تیاری کے لیے سامان دیا اور سات سواُوقیہ سونالا کردیا ،اس وقت میں بھی وہاں موجود تھا۔ أخرجہ ابو یعلی والطبرانی الھیثمی (۹؍۸۵)حضرت قتادہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے غزوۂ تبوک میں ہزار سواریاں دیں جن میں پچاس گھوڑے تھے۔ اخرجہ ابونعیم فی ’’الحلیۃ‘‘ (۱؍۵۹)حضرت حسن رحمہ اﷲ علیہ کہتے ہیں: غزوۂ تبوک میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے ساڑھے نو سو اونٹنیا ں اور پچاس گھوڑے دیے تھے، یا یہ کہا: نو سو سترّ اُونٹنیاں اور تیس گھوڑے دیے تھے۔ابن عساکر، کذافی ’’المنتخب‘‘ (۵؍۱۳)
اور یہ پہلے گزر چکا کہ غزوۂ تبوک میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے ایک تہائی لشکر کو ان کی ضرورت کا سامان دیا تھایہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ ایک تہائی لشکر کی ضرورت کی ہر چیز انھوں نے مہیا کی تھی۔