(قسط: ۱)
امام اہل سنت حضرت مولانا سیدابومعاویہ ابوذر بخاریؒ
امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کا نسب نامہ پانچویں پشت میں عبدمناف پر حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے جا کر مل جاتا ہے۔ آپ اسلام لانے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے داماد تھے بحکم (۱) خدا وند تعالیٰ حضورعلیہ السلام نے پہلے اپنی بڑی صاحبزادی سیدہ رُقیہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح حضرت عثمان سے کیا اور ان کی وفات کے بعد ان کی چھوٹی بہن صاحبزادی سیدہ ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کا نکاح بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے کیا۔ اس وجہ سے آپ کو ذوالنورین (دو نور والے) کہتے ہیں۔ ان کی دوسری بیوی حضرت صاحبزادی ام کلثوم کی وفات کے موقع پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری اور چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں وہ بھی یکے بعد دیگرے عثمان کو ہی دیتا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ آپ کے ہم زلف تھے۔ اس وجہ سے بھی دونوں میں بہت محبت تھی۔ جب مصری اور کوفی خارجیوں نے ابن سباء یہودی کی قیادت میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا حضرت علی نے حضرت عثمان کی طرف سے ان بدبختوں کے ساتھ مناظرہ کیا (۲)۔ اور ان سے پوچھا کہ تمہیں حضرت عثمان سے کیا شکایت ہے۔ انہوں نے بہت سے الزامات حضرت عثمان پر لگائے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حضرت عثمان نو عمر لڑکوں کوعہدوں پر لگاتے ہیں(۳) اور بنوامیہ کودوسروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ حضرت علی نے ان دواعتراضوں کے جواب میں فرمایا کہ نو عمر لڑکو ں کو عہدے حضرت عثمان اس وقت تک نہیں دیتے جب تک ان کی صلاحیت اور لیاقت پر ان کو اطمینان نہ ہو جائے اور خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عتاب بن اسید کو بعمر بیس سالہ مکہ مکرمہ کا امیر بنایا تھا۔ ایسے ہی حضرت اُسامہ بن زید کو نو عمری میں ہی حضور علیہ السلام نے غزوہ مؤتہ کے بعد شام کی جنگ کے لیے سپہ سالار مقرر فرمایا تھا اور ا ن کی نو عمری کی وجہ سے بعض لوگوں نے اعتراض بھی کیا ۔پھر آنحضرت کی وفات کے بعد صدیق اکبر نے دوبارہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کو ہی امیر لشکر مقرر فرمایا۔ اس وقت بھی بعض انصار نے اعتراض کیا اور حضرت عمر کو درمیان میں ڈالا۔ جب حضرت عمر نے حضرت صدیق اکبر سے یہ بات کہی تو حضرت صدیق اکبر نے غصہ سے حضرت عمر کی داڑھی پکڑلی اور فرمایا کہ ’’اے ابن خطاب! تیری ماں تجھے نہ پائے۔ کیا میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امیر کو ہٹانے کی جرات کرسکتا ہوں (۴)‘‘؟۔ اور باقی رہا اُمویوں کو ترجیح دینا…… تو حضور علیہ السلام بھی بعض حالات میں قریش کو دوسرے (۵) لوگوں پر ترجیح دیتے تھے! اور خدا کی قسم اگر جنت کی کنجیاں میرے ہاتھ ہوں تو میں سب کے سب بنی امیہ کو جنت میں داخل کر دوں (۶)۔ آپ بہت مالدار تھے اور آپ کے مال سے اسلام کی بہت امداد ہوئی۔ مسجد نبوی بہت تنگ تھی۔ آپ نے ملحقہ زمین خرید کر مسجد مبارک وسیع کردی۔ مدینہ منورہ میں پانی کی تنگی تھی آپ نے بئر رومہ (رومہ کا کنواں) خرید کروقف کیا۔ جیش عسرۃ کی تیاری کے موقع پر آپ نے تین سواونٹ پورے سازو سامان سمیت پیش کیے اور ایک ہزار دینار نقد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی گود مبارک میں ڈال دئیے تو حضور علیہ السلام نے بے ساختہ خوش ہو کر فرمایا: کہ ’’آج کے بعد عثمان جو کچھ کرتا رہے اسے ضررنہ پہنچے گا (۷)‘‘۔ اسی وجہ سے ’’عثما ن غنی‘‘ بھی کہلاتے تھے۔ آپ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے بحری بیڑا قائم کیا اور سمندری جنگ کے لیے میدان تیار کیا۔ کوفی بصریٰ اور مصری باغیوں کی وجہ سے آپ کی شہادت ہوئی۔ یہ لوگ عبداﷲ بن سبا یہودی کی قیادت میں جمع ہوئے تھے۔ عمر مبارک شہادت کے وقت بیاسی برس کی تھی۔ بروز جمعہ بعد عصر ۱۷ ذی الحجہ ۳۵ ہجری میں شہید ہوکر جنت لبقیح میں دفن ہوئے۔ آپ کے عہد حکومت میں اندلن، شمالی افریقہ اور بربرکے علاقے فتح ہوئے۔
خارجیوں کی حقیقت :
حضرت عثمان کی شہادت میں یہودی ابن سبا کے رافضی سبائی فرقہ اور خوارج کا بہت دخل تھا۔ اس لیے مختصراً ابن سبا یہودی اور خوارج کے کچھ حالات بیان کیے جاتے ہیں۔
جب ۸ھ میں جعرانہ کے مقام پر غزوہ حنین کا مال غنیمت حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے تقسیم فرمایا تو بعض مصالح ضرور یہ کی بناء پر بعض نو مسلم مجاہدین کو آپ نے کچھ زیادہ عنایت فرمایا۔ ایک شخص حرقوس بن ذوالخویصرہ تمیمی نے اعتراض کیا کہ ماعدل فیھا ولا أراد فیھا وجہ اﷲ (۸) (ترجمہ: اس تقسیم میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصاف نہیں کیا [معاذ اﷲ خویش پر وری اور اقربا نوازی کی ہے] ۔ اور خدا کی مرضی کا خیال نہیں رکھا۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سُنا تو اسے فرمایا: ’’خدا تجھے خوار کرے اگر میں انصاف نہ کروں گا تو پھر او رکون انصاف کرے گا‘‘؟ حضرت فاروق اعظم نے عرض کی ’’اگر اجازت ہو تو اس کی گردن اڑا دوں‘‘؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’اس کو کچھ نہ کہو! لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں‘‘؟ پھر فرمایا: ’’کہ اس کے اور بہت ساتھی ہوں گے۔ دین کی نمائش بہت کریں گے۔ مگر یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر نشانے سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ قرآن بہت پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا‘‘۔ یعنی زبان پر قرآن ہوگا باطن میں اس کی تاثیر نہ ہوگی۔
خارجیوں کی یہ مشہور نشانی تھی کہ وہ ہربات پر ایک آیت پڑھ دیتے تھے یا آیت کے مشابہ جملہ پڑھتے تھے۔ میزبان رسول سیدنا حضرت ابوایوب خالد الانصاری رضی اﷲ عنہ نے جنگ نہروان (۹) میں ایک خارجی کو زور سے سینہ میں نیزہ مارا کہ وہ اس کی پیٹھ سے پار نکل گیا تو ابوایوبؓ نے کہا؛ ’’اے اﷲ کے دشمن! جہنم میں پہنچ جا‘‘! (۱۰)اس حالت میں بھی اس خارجی نے فوراً برجستہ کہا : سَتَعْلَمُ أَیُّنَا أوْلیٰ بِھَا صِلِیًّا (۱۱)
عنقریب تم جان لوگے کہ ہم دونوں میں سے جہنم میں جانے کا زیادہ مستحق کون ہے؟۔
بخاری شریف باب قتل خوارج میں ہے کہ ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما ان خارجیوں کو اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کا شر یرترین عنصر سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو آیات صراحتاًکفار کے حق میں نازل ہوئی ان کو یہ خارجی مسلمانوں پرچسپاں اور منطبق کرکے مسلمانوں کو کافرو مشرک بناتے ہیں‘‘۔
خارجیوں کی یہ بڑی مشہور نشانیاں تھیں کہ ایک تو اپنے فرقہ کے سواسب کو کافر مشرک سمجھتے تھے۔ ہر ہر بات پر آیات پڑھ دیتے تھے اور منہ پھٹ اور زبان دراز ایسے تھے کہ ہر بڑی سے بڑی ہستی پر فوراً اعتراض کرنا اور گستاخی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ تمام صحابہ کرام کو غلط کار اور کافر سمجھتے تھے۔
ہمارے زمانے کے خارجی نما گروہ :
آج کل ہمارے ملک میں بھی اس قسم کے بہت سے لوگ موجود ہیں اور ان کی نشانیاں بھی بعینہ یہی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہی موحدّ سمجھتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو صحیح مسلمان نہیں سمجھتے۔ اور جو آیات صاف کفار کے حق میں نازل ہوئی ہیں ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر کرکے بے دھڑک کفر اور شرک کے فتوے دیتے ہیں۔ انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی ہتک بڑی دلیری اور جرأت سے کرتے ہیں۔ دو اڑھائی ماہ میں اپنی زبان میں ترجمہ قرآن پڑھ پڑھا کر مفسر قرآن ومجتہد بن بیٹھتے ہیں۔ اور عذاب قبر حیات انبیاء اور فرشتوں کے ذریعے سے بھی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر امت کے اعمال اور درود پیش ہونے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ کو کسی قسم کا نفع نقصان پہنچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں دیا۔ وغیر ذالک اﷲ تعالیٰ ہمیں ان کے شرسے بچائے آمین ۔ تویہ تھی خارجیوں کی ابتداء یہاں سے ان کا سلسلہ چلا اور جنگ جمل وصفین اور نہر وان کا باعث یہی لوگ بنے۔
غارت گرِ اُمت، مُفتِّنِ اعظم، دشمنِ قرآن وصحابہ، یہودی ابن سبا اور اسکی نا پاک رافضی سازش :
فتوحات عرب اور شام ومصر میں جہاں عیسائیوں کا نقصان ہوا وہاں یہودی بھی تباہ وبر باد ہوگئے اور پورے جزیرۃ العرب سے نکال دیئے گئے۔ اسلام کی ناقابل تسخیر طاقت کے ساتھ علانیہ میدان جنگ میں مقابلہ کرنا یہود ونصاریٰ کے لیے قطعاً ناممکن ہوگیا تھا۔ اس لیے انہوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک زیر زمین جال پھیلایا اور یہودی ابن سباء کو اس کام کے لیے منتخب کیا۔
ابن سباء رومی الاصل یہودی تھا۔ امام مظلوم وشہید سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں جب خوارج کا زور ہوا تو یہ زندیق ومنافق بھی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مصر آگیا اور اپنی خباثت کے پر پُرزے نکالنے لگا۔ شام عراق ٓٓاورمصر کے لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ پُرانے صحابہ کرام کی طرح ان کو حضور علیہ السلام کی صحبت مبارک میسر نہ آئی تھی۔ اس لیے لازماً نور تقویٰ اور کمال کی ان میں کمی تھی۔ دینی مضبوطی اور عقائد کی پختگی جیسی صحابہ کرام کی تھی نہ ان کو حاصل تھی اور نہ حاصل ہوسکتی تھی۔ اس لیے رافضیوں کے روحانی باپ اور یہودی گو روگھنٹال ابن سباء کو اپنی خباثت ان نو مسلم لوگوں میں پھیلانے کی گنجائش مل گئی۔ اسلام کے خلاف جو کام اربوں کھربوں کے خزانوں اور لاکھوں کروڑوں کی فوجوں سے نہ ہو سکتا تھا وہ اس بانیٔ رفض وسبائیت ایک یہودی دجال نے کرد کھایا اور قتل وغارت گری سے زیادہ مہلک اپنی بدمعاشی اور فتنہ پر دازی سے قیامت تک کے لیے مسلمانوں کو دو غیر ممکن الا جتماع فرقوں بلکہ سُنی اور رافضی سبائی دو متوازی اُمتوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا۔ یہی یہودی پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو خدا کہا۔ ان کے وصی رسول ہونے کا شوشہ چھوڑا ۔محبت اہل بیت کا خوشنما نعرہ لگایا۔ اور خلافت کے ’’حقِ علی‘‘ ہونے کا اعلان کیا۔ اور خلفاء راشدین خصوصاً حضرت عثمان شہید رضی اﷲ عنہ کو ظالم وغاصب قرار دیا۔ (والعیاذ باﷲ)
یہودی ابن سباء کی گمراہ کُن چال :
یہودی ابن سباء لوگوں کو یُوں گمراہ کرتا تھا کہ مصر شام اور عراق کے خالی الذھن اور خام معلومات کے جو شیلے نو مسلم نو جوانوں کے جمگھٹوں میں پہنچ جاتا اور نہایت معصوما نہ، مظلومانہ، مخلصا نہ ومشفقانہ طرز بیان سے پوچھتا۔ کیوں جی حضرت علی حضور علیہ السلام کے سگے چچا زاد بھائی ہیں نا۔؟ لوگ کہتے ’’ہاں‘‘! پھر یہ کہتا: ’’اورحضرت فاطمۃ الزھراء حضور علیہ السلام کے جگر کا ٹکڑا ہیں؟ اور ان کی ناراضگی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناراضگی ہے‘‘۔ لوگ کہتے ’’ہاں‘‘! پھر یہ کہتا؟ ’’کیوں جی حضرت عثمان جنگ اُحد کے موقع پر بھاگ گئے تھے؟ اور بیعت رضوان کے موقع پر بھی موجودنہ تھے اور جنگ بدر سے بھی غیر حاضر تھے؟‘‘ لوگ کہتے ’’ہاں‘‘ پھر یہ کہتا کیوں جی حضرت عثمان نے خواہش پوری کرتے ہوئے اپنے قریبی رشتہ دار حکومت کے عہدوں پر ناحق مقرر کر دئیے۔تو اب یہ منافق کہتا: ’’پھر یہ کتنا ظلم ہے کہ خلافت کے اصلی حقدار حضرت علی کو چھوڑ کر غلط کار حضرت عثمان کو خلیفہ بنایا جائے۔ یہ اصلی او رجائز حقدار کی حق تلفی ہے جس کا ازالہ سب مسلمانوں پرفرض ہے‘‘ (۱۲)
ابن سباء کے ڈسے ہوئے ایسے ہی ایک مصری نو جوان کا حضرت عبداﷲ بن عمر سے بہ موقع حج خانہ کعبہ میں درج ذیل مکالمہ ہوا:
مصری: ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت عثمان جنگ اُحد سے بھاگے تھے؟‘‘۔ (۱۳)حضرت ابن عمر :’’ہاں‘‘
مصری: ’’اور کیا حضرت عثمان جنگ بدر سے بھی غیر حاضر تھے؟‘‘۔ حضرت ابن عمر: ’’ہاں‘‘۔
مصری: ’’اور کیا حضرت عثمان بیعت رضوان میں بھی موجود نہ تھے؟‘‘۔ حضرت ابن عمر: ’’ہاں‘‘!
تو مصری نے خوش ہوکر اﷲ اکبر کا نعرہ لگایا۔ کیونکہ اس کے خیال میں حضرت عثمان کے بڑے بڑے ’’جرموں‘‘ کا حضرت ابن عمر نے بھی اعتراف کرلیا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر بھی اس کا اندرونی مرض سمجھ گئے اور اسے اپنے پاس بلاکر فرمایا سنو! اگر حضرت عثمان چند اور صحابہ سمیت جنگ اُحد سے پسپا ہوئے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان سب کا پسپا ہونا بخش دیا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے خود فرمایا:
وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہْ عَنْھُمْ (ترجمہ: اور لازماً یقینا معاف کردیا اﷲ تعالیٰ نے ان سب کو ۔ سورۃ آل عمران)
اور جنگ بدر سے ان کی غیر حاضری ان کی بیوی حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بیماری کی وجہ سے تھی۔ یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صاحبزادی تھیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان کو ان کا تیمار دار مقرر فرمایا۔ اور فرمایا کہ تم مدینہ میں رہو! تمہارا ثواب اور حصہ ہر بدری مجاہد جتنا ہوگا۔ (۱۴)
اور بیعت رضوان کے موقع پر اگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو علم ہوتا کہ قریش مکہ کی نظروں میں کوئی دوسرا شخص معزز اور مکرم ہے تو اس کو بھیجتے مگر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے زیادہ موزوں تر کوئی دوسرا شخص نہ تھا ا س لیے آپؐ نے حضرت عثمان کو ہی بھیجا اور بیعت رضوان حضرت عثمانؓ کے مکہ مکرمہ پہنچ جانے کے بعد واقع ہوئی تھی۔ اور درحقیقت ہوئی بھی حضرت عثمانؓ ہی کی وجہ سے تھی کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ کو خبر ملی کہ قریش نے حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا ہے۔ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اب تو عثمان کا بدلہ لیے بغیر واپس جانا ہو سکتا ہی نہیں چنانچہ آپ نے سب صحابہ سے جہاد وثبات پر اور ایک روایت میں موت پر بیعت لی اور اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ اور یہ عثمان کی بیعت ہے۔ پھر حضرت عبداﷲ بن عمر نے اس مصری کو فرمایا کہ اپنے اعتراض کے ساتھ ان جوابوں کو بھی لیتے جاؤ۔ (بخاری مناقب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ) ۔
ایک تیر سے تین شکار :
مسلمانوں کے گمراہ کرنے کے لیے ابن سباء یہودی کو اس طرح کے اور بہت سے شیطانی گریاد تھے۔ مثلا جو عقل کے اندھے زیادہ معتقد ہو جاتے تو ان کو کہتا کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت مائی فاطمہؓ کا باغ فدک غصب کرلیا۔ اور حضرت عمرؓ نے ان کا دروازہ جلایا اور حضرت علی کے گلے میں رسی ڈال کر حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کے لیے جبراً گھسیٹ کر لائے۔ اور (معاذ اﷲ) حضرت مائی فاطمہؓ کے لات ماری جس سے حضرت محسن کا اسقاط ہوگیا۔ معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ
اس طرح وہ ملعون بیک وقت ایک تیر سے تین شکار کرتے ہوئے حضرت علیؓ بلکہ تمام بنو ہاشم کو بھی رسوا کرتا اور حضرات ثلاثہ کو بھی بد نام کرتا اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا اسلام دشمنی والا اصلی مقصد حاصل کرتا۔ اس طرح وہ بدبخت ہزاروں مسلمانوں کو بہکانے اور پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ لَعْنَہُ اﷲُ وأَخْزَاہُ (اﷲ اس پر پھٹکا ر بھیجے اور اسے ذلیل ورسوا کرے)
حواشی
(۱)صواعق عن طبرانی ص۹۷ (۲) ابن کثیر ج۷ ،ص۱۷۰،۱۷۱ (۳) اس الزام کے متعلق اتنی تو ضیح ضروری ہے کہ ہر حکمران اور ہر حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہم عہدوں پر اپنے اعتماد اور بھروسے اور قابلیت اور لیاقت کے آدمی لگائے۔ چنانچہ حضرت علی نے اپنے زمانہ خلافت میں قثم بن عباس کو مکہ کا عامل عبید اﷲ بن عباس کو یمن کا عامل، عبداﷲ بن عباس کو بصرہ کا عامل اور تمام بن عباس کو مدینہ کا عامل مقرر کیا۔ اور حضرت عبداﷲ بن عباس کے اشارہ سے زیادبن ابوسفیان کو فارس کا عامل مقرر فرمایا۔ ابن کثیر ج۷، ص ۳۱۷۔ (۴) ابن کثیر ج ۶،۳۰۵
(۵) قریش کو ہی نہیں بلکہ خاص امویوں کو بھی ان کی لیاقت اور قابلیت کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نو ازتے تھے۔ چنانچہ فتح مکہ میں سیدنا حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ کے گھر کو ’’دار الا مان‘‘ قرار دیا تھا۔ اور حضرت عثمان کے چچا عثمان بن ابوالعاص کو طائف اور اس کے مضافات کا، عتاب بن اسید کو مکہ کا، خالد بن سعید کو یمن کا، عثمان بن سعید خیبر کا، اور ابان بن سعید کو بحرین کاحاکم مقرر فرمایا تھا۔ پھر حضرت صدیق اکبر نے یزیدین ابوسفیان کو شامی فوج کا سردار مقرر فرمایا اور ان کے بھائی امیر معاویہ کو ایک حصہ فوج کا افسر بنا کر شام بھیجا۔ پھر عمر فاروق نے یزیدبن ابوسفیان کوشام کا والی بنایا اور پھر ان کی وفات پر حضرت معاویہ کو ان کی جگہ شام کا والی بنایا۔ پھر حضرت معاویہ لمبا عرصہ شام کے والی رہے پھر حضرت علی نے اپنے دورِ خلافت میں زیاد بن ابوسفیان کو فارس وعراق کا والی بنایا اور وہ حضرت علی کی پوری مدت خلافت میں فارس اور عراق کے والی رہے اور حضرت امیر معاویہ کے مخالف۔ آخر ۴۵ھ میں امیر معاویہ نے زیاد کو بمشکل اپنا ہمنوا بنایا اور بصرہ کا حاکم مقرر کیا اور حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کو وادی القریٰ کا والی بنایا پھر ان کے بعد سیدنا حضرت یزید بن ابوسفیان کو بنایا۔ (بلاذری ۴۲) اور حضرت ابوسفیان کو نجران کا والی بنایا۔ (بلاذری ۷۶)
(۶) ابن کثیرج ۷،ص۱۷۱ (۷) ابن کثیر ج۷،ص۲۰۰ (۸)ابن کثیر ج ۴ ، ص۳۶۲
(۹)جنگ نہروان کی تفصیل آگے آئے گی (۱۰) یہ جملہ سورۂ مریم کی ایک حسب ذیل آیت کے مشابہ ہے یعنی۔ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ ھُمْ اَولیٰ بِھَا صِلِیًّا (پھر یقینا ہم ہی زیادہ جاننے والے ہیں ان لوگوں کو جو اس دوزخ میں جانے کے زیادہ مستحق ہیں) (۱۱) ابن کثیر ج ۷،ص ۲۸۸ (۱۲) ابن کثیر ج ۷، ص۱۶۷تا ۱۶۸
(۱۳) واقعہ یہ ہے کہ جنگ اُحد میں جو مسلمانوں کے لیے اسلامی تاریخ کی مشکل ترین جنگ تھی۔ حالات کے مطابق تمام صحابہ کرام بکھر گئے تھے اور حضور علیہ السلام تقریباً اکیلے رہ گئے تھے۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام کی شہادت کی افواہ بھی اڑ گئی جس سے مزید ابتری واقع ہوئی۔ اس حالت میں حضرت عثمان دوسرے چند صحابہ سمیت سوئے اتفاق سے عام صحابہ کرام سے الگ ہوکر کفار کے ایسے گروہ کے مد مقابل ہوگئے جس سے عہدہ بر آہو نا وقتی حالات کے لحاظ سے مشکل تھا۔ اس لیے اصول جنگ کے عین مطابق حضرت عثمان اس نرغہ سے صحیح وسالم نکل گئے اور بعد میں نصِ قرآنی سے بھی ان کی براء ت ہوگئی۔ کسی جنگی مصلحت کی وجہ سے پیچھے ہٹنایا پسپا ہونا نہ تو شرعاً ہی معیوب ہے کہ الفرارعما لایطاق من سنن المرسلین۔(نا قابلِ فتح جنگ سے منہ پھیر لینا مرسلین کی سنن میں سے ہے) وارد ہے۔ اورنہ عرفاً ہی معیوب کہ بڑی بڑی فوجی قوتیں مصالح حربیہ کی وجہ سے پسپا ہونا بہترین حربہ جنگ سمجھتی ہیں۔ کل کی بات ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں روس سرحد جرمنی سے پسپا ہوتے ہوئے ماسکو اورلینن گراڈ تک پہنچ گیا تھا جس سے جرمنی کو ناقابل تلافی تکلیف اور نقصان پہنچا۔ لیکن دشمنوں کو تو حضرت عثمان کا کوئی عیب پکڑنا تھا چاہیے اپنے موقع پر وہ بہترین ہنرہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے یہ افسانہ تراشا سچ ہے۔ ہنر بحشم عداوت بزرگ تر عیب است/ گل است سعدی و درچشمِ دشمنان خاراست
(۱۴) یہ ایسے ہی ہے جیسے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علی کو مدینہ طیبہ کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
(جاری ہے)